ہماری راہ میں کچھ آسمان باقی ہیں
جنونِ عشق کے یہ امتحان باقی ہیں
ابھی فضا میں ہے کالے دھوئیں کی آمیزش
ابھی سرائے میں کچھ بد گمان باقی ہیں
ہوائیں چل رہی ہیں اب بھی بغض و نفرت کی
ابھی بھی کانٹوں کے کچھ ترجمان باقی ہیں
کسی کی نیک تمناؤں اور دعا کے عوض
تمہارے سر پہ ابھی سائبان باقی ہیں
ہمیں مٹانے کی حسرت لیے مرو گے تم
تمہارے واسطے سارے نشان باقی ہیں
اسے تلاش کرو آج، کل کی کس کو خبر
ابھی تلک تو یہ کون و مکان باقی ہیں
ستارے کہتے ہیں جاگیں گے بھاگ دنیا کے
جو پورے ہونے وہ روشن نشان باقی ہیں
(خواجہ عبدالجلیل عباد۔ جرمنی)