• 30 اپریل, 2024

بمؤرخہ 04 مارچ 2022ء This Week With Huzoor

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

پروگرام

This Week With Huzoor

نشر کردہ بمؤرخہ 04 مارچ 2022ء

    ٹرانسکرائب و کمپوزنگ ،مدثر احمد۔ مبلغ سلسلہ مڈغاسکر

گزشتہ ہفتہ کے دوران نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ برکینا فاسو اورPan African Ahmadiyya Muslim Association UK  کے ممبران کو حضور انور ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ  virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ہفتہ کے روز کی ملاقات

ہفتہ کے روز نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ Burkina Faso (برکینا فاسو)  کو حضور انور کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ میٹنگ کے دوران ہر عاملہ ممبر کو حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی ) مہتمم تربیت

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، Dear Huzur (پیارے حضور)۔

حضور انور

و علیکم السلام۔

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی )

حضور، میں اپنا تعارف اردو میں کرواؤں گا۔

حضور انور

اچھا۔ ماشاء اللہ۔ جامعہ انٹرنیشنل سے پڑھا ہوا ہے؟

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی )

جی حضور۔

حضور انور

اچھا۔ ماشاء اللہ۔

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی )

میرا نام Hasan Jengani (حسن جینگانی )  ہے ۔

حضور انور

اچھا۔ تو آپ مجھے خط لکھتے رہتے ہیں اردو میں type کر کے ؟

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی )

جی حضور! میں Bobo-Dioulasso  کا مربی سلسلہ ہوں اور  مجلس خدام الاحمدیہ میں مہتمم تربیت کے طور پر کام کرتا ہوں۔

حضور انور

اچھا۔ ماشاء اللہ۔ تو تربیت کا plan کیا ہے؟ کیا تربیت کریں گے؟ نمازیں  پڑھنے کی طرف توجہ ہے؟ قرآن پڑھنے کی طرف توجہ ہے؟ دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ ہے؟ اخلاق کو بہتر کرنے کی طرف توجہ ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح ہے؟ نمازیں پڑھنے کے بارہ میں کیا منصوبہ ہے؟ کتنے فیصد خدام جو ہیں وہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں؟ آپ کے ہاں تو restriction کوئی نہیں ہے۔ وہاں نماز باجماعت پڑھنی چاہئے۔

مکرم Hasan Jengani (حسن جینگانی )

جی  حضور! ان سارے امور کے لحاظ سے کوشش کرتے ہیں ۔ تاکہ بہتر سے بہتر ہوجائے۔

حضور انور

ٹھیک ہے۔ اصل چیز یہی ہے نماز۔ نماز کی طرف توجہ ہونی چاہئے خدام کی۔ نماز پڑھنے کی عادت  ہوجائے تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ باقی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے۔ تو تربیت کریں اور دوسرے،  قرآن کریم  پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے اِن کی زیادہ۔ پھر یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی تربیت کے لئے حوالہ نکال کے،  ایک صفحہ کا، آدھے صفحہ کا حوالہ نکال کے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یا کوئی حدیث نکال کے وہ دیا کریں لوگوں کو۔ circulate کیا کریں خدام کو تاکہ وہ اِس کو پڑھیں اور اپنی  اصلاح کریں اور  تربیت کریں۔ پھر کوشش کریں کہ سارے خدام جو ہیں وہ خطبہ جمعہ جو آتا ہے ایم ٹی اے پہ ہر دفعہ میرا ، اُس کو  ضرور سنا کریں۔

مکرم باؤرو احمد رشید ، مہتمم تربیت نو مبائعین

میرا نام باؤرو احمد رشید ہے اور میں  مہتمم تربیت نومبائعین ہوں۔

حضور انور

کیا آپ پیدائشی احمدی ہیں یا آپ نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی تھی؟

مکرم باؤرو احمد رشید صاحب

(فرنچ میں )میں پیدائشی احمدی نہیں ہوں۔ میں نے بیعت کی تھی۔

حضور انور

اچھا ۔ ماشاء اللہ۔ مختلف گروہوں کے لئے، مختلف مذاہب سے بیعت کرنے والوں کے لئے مختلف منصوبے اور پروگرام  ہونے چاہئیں۔  یہ ممکن بات ہے ایسے خدام جو مسلمان تھے اُن میں سے ایک تعداد جو احمدیت میں شامل ہوتے ہیں وہ نماز ، سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھنا جانتے ہوں۔ اُن کے لئے آپ کو پلان بنانا ہوگا کہ  اُن کو جماعت احمدیہ کے بارہ میں زیادہ بتائیں۔ اور اُن کا اسلامی علم بڑھانے کی کوشش کریں۔ اور وہ جو عیسائیت میں سے شامل ہوتے ہیں اُن کے لئے مختلف تربیتی پروگرام ہونا چاہئے۔  اُن کو چاہئے کہ وہ سورۃ فاتحہ اور  نماز کے الفاظ سیکھیں ۔ اُن کو نماز پڑھنے کا طریقہ بتائیں اوریہ کہ  نماز کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ کہ ہمیں  پنجوقتہ نماز کیوں ادا کرنی چاہئے؟ اسی طرح دوسرے گروہوں کے لئے بھی۔ چنانچہ مختلف گروہ کے لئے  مختلف پروگرام ہونا چاہئے نہ کہ ایک ہی پروگرام سب گروہوں کے لئے ہو۔

مکرم باؤرو احمد رشید

جی ٹھیک ہے۔  ان شاء اللہ۔

حضور انور

 جو سورۃ فاتحہ جانتے ہیں ،  اُن کو اُس کا ترجمہ بھی سیکھنا چاہئے۔ اور جب وہ اُس کا مطلب جانتے ہوں گے تو  پھر نماز پڑھتے وقت وہ پہلے سے زیادہ  مزید توجہ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔  تو اس طرح ہر ایک لفظ کا جو آپ نماز میں پڑھتے ہیں، آپ کو  اُس کا مطلب آنا چاہئے۔  اور اس سے آپ کا  ایمان قوی ہوگا اور خدا تعالیٰ کی ہستی پہ بھی یقین  مضبوط ہوگا۔  

آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمام شاملین کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:

اب  اللہ حافظ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور آپ کو جماعت کی خاطر فعال خدمت کی توفیق عطا کرے۔  اور آپ کو اسلام احمدیت کا پیغام تمام ملک تک پہنچانے کی طاقت عطا کرے۔ اللہ آپ سب پہ فضل فرمائے۔  السلام علیکم۔

دوسری ملاقات

اگلے روز Pan African Ahmadiyya Muslim Association UK کے ممبران کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

سوال و جواب سے قبل مختلف پروگرام پیش کئے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

علی مونڈے صاحب تلاوت،  مولانا!

مکرم علی مونڈے

ہمارے پیارے حضور ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

ماشاء اللہ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ آپ بوڑھے ہو رہے ہیں۔

مکرم علی مونڈے

الحمد للہ حضور! آپ کی دعاؤں سے۔

حضور انور

مونڈے صاحب، آپ نے کہا تھا کہ آپ میری دعاؤں کی وجہ سے بوڑھے ہورہے ہیں۔ لیکن میری دعائیں آپ کو جوان رکھنے کے لئے ہیں۔ بوڑھا نہیں۔

مکرم علی مونڈے

جزاک اللہ ۔حضور!

حضور انور

ہاں جی، پریذیڈنٹ صاحب PAAMA یوکے۔

صدر صاحب PAAMAیوکے:

یہ ہمارے لئے بےانتہا  پُر  اعزاز اور نایاب موقع ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا  کہ ہمیں حضور کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ اور میں اس موقع پر تمام PAAMA Family کی طرف سے ایک بار پھر اپنی غیر متذلذل محبت، وفاداری، اخلاص، عہد وفا اور اطاعت کا مقدس نظام خلافت سے اعادہ کرتا اور یقین دلاتا ہوں۔

دوران ملاقاتPAAMA ممبران کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور متفرق  امور میں راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جس کا آغاز لجنہ ممبرات سے ہوا۔

ممبر لجنہ1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ حضور!

حضور انور

و علیکم السلام۔ ماشاء اللہ۔

ممبر لجنہ:

قرآن کریم کی 64ویں سورۃ، 15ویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً تمہارے ازواج میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔  پس اُن سے متنبہ رہو۔ کیا حضور انور!  یہ بات بتا ئیں گے  کہ کیوں یہاں بیویاں اور  بچے کہا گیا ہے، اور خاوندوں  نہیں کہا گیا؟

(انگریزی ترجمہ والے قرآن میں ترجمہ your wives and your children کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اِن کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہے۔)

حضور انور

(مسکراتے ہوئے) اگر ہم خاوندوں کو بھی اس میں شامل کرلیں تو  آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

  اصل بات یہ ہے کہ یہاں قرآن نے الفاظ  ’’اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلَادِکُمْ‘‘ استعمال کئے ہے۔ اور ازواج کا صرف بیویاں ہی مطلب نہیں ہوتا۔ میری نظر میں ازواج کے معانی خاوند اور بیوی دونوں کے ہیں۔ اگر خاوند اچھا نہیں ہے تو آپ کو (یعنی بیویوں کو) بہت محتاط رہنا  ہوگا  اور اُن کے (یعنی خاوندوں کے)  حرکات سے باخبر رہناہوگا  اگر وہ اسلام اور احمدیت کے برخلاف ہوں۔  تو یہ میرا خیال  ہے۔ اس کا ترجمہ (انگریزی ترجمہ والے قرآن میں) ’’بیویوں اور بچوں‘‘ کا کیا گیا ہے۔ لیکن جو عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ازواج ہے جس کا مطلب ساتھی کا ہے۔ اور ساتھی میں دونوں شامل ہوتے ہیں۔ سو  میں نے پتہ لگانے کی کوشش کی  کہ ہم نے اسے (لفظ بیویاں) کیوں استعمال کیا ہے۔ اور بالآخر مجھے اس بات کا پتہ چلا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی بھی یہی رائے تھی کہ ازواج کا مطلب ساتھی ہے۔ اور آپ نے اپنے اردو ترجمہ میں اس کا مطلب ازواج کیا ہے نہ کہ بیویاں۔ تو ساتھی اور اولاد۔  تو اگر آپ ساتھی کا لفظ استعمال کریں تو آپ کا اعتراض نہیں رہتا۔ تو اب اس کا حل ہوگیا۔ بات یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے خاوندبھی  آپ کے دشمن بن جاتے ہیں  اگر وہ آپ کو اسلام اور احمدیت کی تعلیمات کےخلاف عمل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ تو اسی لئے بعض دفعہ کچھ خواتین کا اپنے مردوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اور کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مردوں کا اپنی بیویوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ وہ جو اس کا ترجمہ کر رہے تھے وہ متأثر ہو چکے تھے۔ اُس زمانہ میں عورتیں اسلامی تعلیمات سے زیادہ واقف نہیں تھیں۔ مگر اب آپ کافی پڑھی لکھی ہوگئی ہیں۔آپ کو قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے۔ آپ قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں۔ آپ کو اسلام احمدیت کی روایات سے آگاہی ہے۔ آپ کے پاس علم ہے۔  بلکہ بعض دفعہ ہماری خواتین ہمارے مردوں سے زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے خاوندوں اور بچوں سے متنبہ رہو۔

ممبر لجنہ 2:

میر اسوال ہے کہ اِن غیر معمولی اور غیر متوقع  حالات میں  جس میں لوگوں نے اپنے  عزیز و اقارب کھوئے ہیں یا نوکریاں کھوئی ہیں یا بدلنی پڑی ہیں ۔ اور مالی حالات میں اونچ نیچ ہو۔ تو کوئی  کس طرح توکل علی  اللہ پر مضبوطی سے قائم رہ سکتا ہے؟

حضور انور

جب آپ کے پاس زیادہ کام ہو اور آپ دنیوی معاملات میں مشغول ہوں   اور اپنا کام کر رہے  ہوں  اور دوسرے کاموں اور ملازمتوں میں مصروف ہوں  تو عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ آپ  نمازوں کی طرف پوری  توجہ نہیں دیتے۔ تو میں اس بات کو  دوسری طرح دیکھتا ہوں۔ جب کبھی انسان کسی مشکل میں ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ سجدہ ریز ہوتا ہے۔ تو یہی وہ وقت ہے جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنی نمازوں کو بروقت ادا کریں۔ اور خداتعالیٰ سے دعا کریں  کہ وہ اُن تمام مسائل  کو دور کرے اور آپ اس مشکل گھڑی سے نکل جائیں۔ تو میری رائے میں آپ کوپہلےسے  زیادہ استقامت دکھانی چاہئے۔  جب آپ  کی اچھی نوکری ہو، آپ کما بھی رہے ہو اور دنیوی کاموں میں مصروف ہو  تو ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کون ہے؟ اور یہ کہ ہمیں کس کس وقت خدا کی عبادت کرنی ہے؟ یا یہ کہ آیا ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی بھی چاہئے یا نہیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کو پھر یاد نہیں رکھتا۔ دیکھیں! ہم اس دنیا میں یہ  دیکھتے  ہیں کہ وہ لوگ جو دنیوی چیزوں میں مشغول ہیں وہ عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔  اسی وجہ سے مغربی دنیا میں دہریت پھیلتی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُن کی اپنی صلاحیتوں ، اُن کی تعلیم ، اُن کے علم اور اُن کے بہتر مالی  حالات کی وجہ سے ہے۔ تو یہی ہم وعمومی طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔ کہ وہ لوگ جو دنیا دار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں بجالاتے۔  اور نہ ہی اُن احکامات کی تعمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے۔ اس کے برعکس  جو غریب لوگ ہیں وہ زیادہ تر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اور اب اگر آپ سمجھتی  ہیں کہ آپ  پر ایک کڑا وقت آگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کریں  کہ وہ آپکی  تمام مشکلات کو دور کر دے لیکن ساتھ ہی یہ عہد  بھی کریں کہ جب  آپکے  حالات دوبارہ ٹھیک ہوجائیں  تو آپ کبھی بھی خشوع و خضوع والی نمازوں کی ادائیگی کو ترک نہیں کریں گے۔ بس یہی وہ وقت ہے جب آپ اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ جھکیں۔ جب آپ کسی مشکل میں ہیں، جب آپ کا بچہ بیمار ہے، تو  آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ جب آپ خود بھی کسی مشکل میں ہیں یا بیمار ہیں  تو آپ اللہ تعالیٰ سے کامل صحت کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ تویہی وہ وقت ہے جب آپ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں۔ بجائے یہ کہنے کے کہ ہم کس طرح دعا مانگیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کس طرح ادا کریں۔

مرد 1

حضور! میرا سوال ہے کہ ایک مرتبہ پھر بر اعظم افریقہ بے شمار جنگوں اور بغاوتوں سے چور چور ہے۔ افریقی سربراہان  کے لئے پیارے حضور کی کیا نصائح ہیں؟

حضور انور

دنیا کا کون سا کونا ہے جو اِن چیزوں سے پاک ہے؟ صرف افریقہ ہی نہیں بلکہ ہم دنیا کی ہر جگہ دیکھتے ہیں۔   اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یورپ کے حالات افریقہ سے زیادہ خطرناک ہیں  کیونکہ یہ حالات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ میں کئی سالوں سے بتا رہا ہوں کہ ملک اور معاشرہ کے امن کی خاطر انصاف کی ضرورت ہےاور  کامل انصاف کی۔  جب تک ہماری لیڈر شپ اپنے کاموں میں اپنی عوام کے لئے سچ اور انصاف سے کام نہیں لیتی۔ ہم معاشرہ میں امن کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اور یہ چیزیں چلتی رہیں گی۔ آپ جہاں بھی دیکھتے ہیں کہ راہنما اچھے ہیں ، اپنی عوام سے مخلص ہیں ، وہ ممالک  خوشحال ہیں۔ یا کچھ حد تک  ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے افریقہ میں  اور ایشیا میں بھی بہت سے ایسے ممالک ہیں  اور یورپ میں بھی اب ہم دیکھتے ہیں کہ راہنما مخلص نہیں ہیں۔ پس ہم دعا کرتے ہیں اور اِن راہنماؤں سے کہتے ہیں کہ وہ اخلاص اور سچائی پر قائم رہیں۔ اور اپنے خالقِ حقیقی کو پہچانیں۔ اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اللہ ان کے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُس کے لئے وہ جواب دہ ہوں گے۔ اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں۔ تب وہ اچھے اعمال بجالائیں گے ۔ پس ہمیں اُنہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ خدائے واحد موجود ہے۔ اور وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہی ایک جہان ہی ہے۔ بلکہ وہ اگلے جہان میں اپنے تمام اعمال کے لئے جوابدہ ہوں گے۔ اور جو کوئی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اُس کے بارہ میں آپ سے پوچھا جائے گا۔ اور اگر آپ اپنی ذمہ داری کو صحیح طرح ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو سزا دیگا۔ پس یہ وہ واحد چیز ہے جو اُن کی اصلاح کر سکتی ہے۔ یہ بات میں ہمیشہ کرتا آرہا ہوں ، جب بھی مجھے اِن لیڈروں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔ یا یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ تمام ممالک اور براعظم حقیقی اسلام لے آئیں۔  جیسا آپ نے تلاوت میں سنا ہے جو آپ کے سامنے کی گئی ہے۔ کہ پھر  آپ ایک قوم بن جاؤ گے اور ایک دوسرے سے اخلاص سے پیش آؤ گے ۔  اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کروگے اور  اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو گے۔ یہ واحد حل ہے ۔ ورنہ کسی قسم کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں۔

مرد 2:

میرا سوال ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے بعض PAAMA  ممبران بعض جماعتی میٹنگز میں اس وجہ سے شامل نہیں ہوتے کہ وہ میٹنگ  زیادہ تر اردو زبان میں کی جاتی ہیں اور وہ  سمجھ نہیں سکتے۔ پھر ایسی میٹنگز  میں شامل ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے۔

حضور انور

دیکھو! اس  کےلئے  منتظمین اور عہدیداران  ذمہ دار ٹھہرائے جانے چاہئیں  کہ وہ اپنی میٹنگ اردو میں کیوں کرتے ہیں۔ میں نے بہت دفعہ کہا ہے ہماری میٹنگز 70فیصد انگریزی میں ہونی چاہئیں۔ تاکہ سب سمجھ سکیں۔ اور انگریزی بولنے والوں کو بھی موقع ملنا چاہئے کہ وہ بھی ان میٹنگز  میں کچھ کہہ سکیں۔ چاہے وہ تقریر یا خطاب وغیرہ ہو۔ چاہے وہ عہدیدار ہوں یا نہ ہوں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر بات لوگوں کو سمجھ نہیں آتی تو  میٹنگ کا 70 فیصد انگریزی میں ہونا چاہئے  اور 30 فیصد حصہ اردو میں ہونا چاہئے۔  پس یہ نیشنل امیر صاحب کی ذمہ داری ہے جو کہ یہاں موجود ہیں  اور آپکے لوکل  صدران کی ذمہ داری ہے  کہ وہ اپنی عاملہ کو کہیں کہ میٹنگز  انگریزی میں منعقد کی جانی چاہئیں  تاکہ سب ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔  بہر حال،  اگرچہ نہ  شامل ہونے والے اُس ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں جو ایسی مجلس میں بیٹھنے سے ملتا ہے۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول کا ذکر ہو۔ اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب کے اقتباسات پڑھے جاتے ہوں۔ لیکن ، اس کے علاوہ، یہ عہدیداران کی غلطی ہے۔ پروگرام  کا کم از کم 70 فیصد انگریزی میں ہونا چاہئے۔ پس آپ میرا یہ پیغام اپنے صدر جماعت تک پہنچا سکتے ہیں۔

مرد 3:

میرا سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مطابق اس زمانہ کا جہاد ،قلم کا جہاد ہے کیونکہ اسلام پر قلم کے ذریعہ حملہ کیا جاتا ہے۔ اگر پہلے زمانہ کے مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت ملی تھی تو احمدیوں کو پاکستان اور دیگر ممالک میں ظلم و ستم کے خلاف دفاعی طور پر لڑنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟ کیونکہ یہ ظلم و ستم قلم کے ذریعہ نہیں کیا جاتا۔

حضور انور

دیکھیں! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ میں اس دنیا میں،  اس زمانہ میں،  امن  قیام کرنے  کے لئے آیا ہوں۔ اور میں مسیح موسوی  ؑکے نقش قدم پر آیا ہوں۔ کیا حضرت عیسیٰ ؑ نے کبھی اپنے معاندین کے خلاف جنگ و جدال کیا ہے؟ نہیں۔ اُن کی مخالفت کی گئی، اُن کو مارا گیا، اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا، گو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچا لیا تھا وہاں سے، مگر انہوں نے ان تمام شدائد کو برداشت کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کے نقش قدم پر آیا ہوں۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے ہیں کہ اب جہاد بالسیف جائز نہیں رہا۔ آپ نے آنحضور ﷺ کی بخاری میں مندرج حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف جائز نہیں ہوگا۔ ہمارا کام حقیقی اسلام کا  محبت، امن اور ہم آہنگی  بھرا  پیغام پھیلانا ہے۔ اس پیغام کے  ذریعہ جو ہمیں حاصل ہو رہا ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدال کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا ہے۔ آخر لڑائی  کے نتیجہ میں ہمیں کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ ایسے پاکستانی جو احمدیت کی آغوش میں آئے ہیں وہ ایسے لوگوں میں سے آئے ہیں ، اُن کی وہی سوچ اور نفسیات تھی ، اُن میں سے بعض جنگجو  قبائل سے آئے ہیں مگر اس کے باوجود احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اسلام احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ  ہمیں صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور ان سب مظالم  کو برداشت کیا جائے جو مخالفین کی طرف سے احمدیوں پر کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اُس کو اور اُس کی جماعت کو اُن تمام مظالم کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن اُن کو برداشت کرنا ہوگا۔  چنانچہ اسی وجہ سے ہم بدلہ نہیں لیتے۔ ہم بدلہ لے سکتے ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہم ملک کے امن کو برباد کرنے والے ہوں گے۔ جو کہ پہلے سے ہی خطرہ میں ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ  کو یہ کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ ہم ایک گروپ بنا کر پٹرول بم اور دیگر بم بنا کر ملک میں  افراتفری  پیدا کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ایسا کر سکتے ہو مگر پھر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ٹھیک ہے۔ تم اور تمہارے مخالفین جو چاہو کرو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔  اگر  اللہ تعالیٰ ہمیں چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے پاس کوئی محفوظ جگہ نہ رہی۔ لہٰذا  بہتری اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی جائے ، یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ و السلام کے زمانہ میں ہمیں اپنا  پیغام محبت ، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ پھیلانا چاہئے اور صبر دکھانا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے۔

مرد 4:

میرا سوال یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میں پیارے حضور سے بہت محبت کرتا ہوں تاہم میں نے نوٹ کیا ہے کہ جب  بات کھیلیں کھیلنے کی ہو یا  فٹ بال  میچ  دیکھنے کی ہو،   تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حضور انور کو ایم ٹی اے میں دیکھنے کی نسبت اِن چیزوں کی طرف زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ میراسوال یہ ہے کہ میں اپنے اندر پیارے حضور کے لئے ایسے جذبات اور لگن کیسے پیدا کر سکتا ہوں جو کھیلوں  اور ہر ایک کام سے کہ جو میں کرتا ہوں زیادہ ہو کہ میں حضور انور کو ایم ٹی اے پر دیکھنے کی خواہش رکھوں اور ہر آن آپ کی باتیں سنوں؟

حضور انور

دیکھیں! حدیث میں آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر پیار کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو مومن میری خاطر اور میری رضا حاصل کرنے کی  خاطر ایک دوسرے سے پیار کریں تو میں بھی اُن سے پیار کروں گا۔ اور اُن پہ کثرت سے اپنے فضل نازل کروں گا۔ پس اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ  خلیفہ وقت سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر پیار کرتے ہیں تو پھر باقی تمام محبتیں اَور طرف ہونی چاہئیں اور صرف ایک بات آپ کے سامنے ہونی چاہئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر ہی آپ خلیفہ وقت سے اور ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ اسی طرح خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کی خاطر جماعت احمدیہ  سے پیار کرتا ہے۔ اگر   یہ بات آپ کے ذہن میں ہو تو فٹ بال اوردوسری چیزوں کے لئے آپکی رغبت، خلافت اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں ہوگی۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے اُن سے (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے  پیار کرتے ہیں؟ والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا کہ  ہاں میں تم  سے پیار کرتا ہوں۔ پھر اُن کے بیٹے نے پوچھا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہوں۔ پھر اُن کے بیٹے نے پوچھا کہ دو محبتیں ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔ آپ میر ے سے بھی اور اللہ تعالیٰ سے بھی پیار کرتے ہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی محبت کا وقت آتا ہے تو صرف ایک محبت (دل میں) ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی۔ چنانچہ  اگر نماز کا وقت ہو اور آپ اُس وقت ٹیلی ویژن پہ فٹ بال کا میچ دیکھ رہے ہوں جو آپ کو بہت پسند ہو تو آپ کو ٹیلی ویژن بند کرنا چاہئے اور پہلے نماز ادا کرنی چاہئے ۔  جلد بازی میں نہیں بلکہ توجہ اور تضرع کے ساتھ۔  اور پھر اس کے بعد، اگر آپ کے پاس   وقت ہو تو بے شک میچ دیکھ لیں۔ اسی طرح اگر خلیفہ وقت تقریر یا خطاب فرما رہے ہوں  اور براہ راست آپ سے مخاطب ہوں تو آپ کو پہلے خلیفہ وقت کی باتوں کو سننا چاہئے اور بعد میں آپ بے شک میچ کی ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو اپنی ترجیحات پر توجہ دینی چاہئے کہ کون سی محبت آپ کو زیادہ عزیز ہے؟ یعنی آپ کا دین، آپ کی خلافت سے وابستگی، آپ کی اللہ تعالیٰ سے محبت یا  آپ کی فٹ بال سے رغبت یا اس ٹیم سے رغبت جو آپ کو پسند ہے۔ یہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ میں آپ کو کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو خلیفہ وقت سے زیادہ محبت کرنی چاہئے۔ یہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ دیکھیں! مجھے پتہ ہے آپ کی نیک فطرت ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

آپؑ نے اپنی بعثت اور صداقت کے بارے میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان فرمایا