تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت مولانا عبدالرحمن ؓفاضل درویش
سابق ناظر اعلی وامیر مقامی قادیان
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ راہ
گاہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ راہ
آپ کی وفات پر نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ کی شخصیت ایسی نہیں کہ آسانی سے آپ کو بھلایا جا سکے اور آپ کو یاد نہ کیا جا سکے۔آج بھی آپ کے صحبت نشیں آپ کو دیکھنے اور سننے والے اور آپ کے بے شمار شاگرد رشید دنیا بھر میں موجود ہیں۔عرصہ دس سال 1967 سے 1977تک راقم الحروف کو آپ کے خطبات جمعہ، خطبات نکاح، تقاریر، وعظ و نصیحت اور لگاتار جلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی خطابات آپ کے روبرو آپ کے سامنے بیٹھ کر سننے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کے سکینت بخش سائے میں یہ حسین و جمیل سال گزرے۔آپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اور ہماری نسلیں آپ کے نقش قدم پر چلیں اور آپ کے بتائے ہوئے راستوں پر گامزن رہیں۔
آپ کی پررعب شخصیت کسی حال میں بھی محتاج تعارف نہیں۔ یادوں کی جگالی کرتے ہوئے دل بھوجل ہوجاتا ہے، قلم حرکت نہیں کرتا، ہاتھ کانپنے لگتا ہے، عالم بالاسے آپ کی گرج دار آواز آج بھی کانوں میں ٹکراتی ہے۔ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ آپ کا شمار 313 درویشان قادیان میں بھی ہوتا ہے جو تاریخ احمدیت کا ایک سنہری اور درخشندہ باب ہے۔ جنہیں اولوالعزم حضرت مصلح موعود ؓ نے تقسیم ملک کے وقت قادیان کے مقامات مقدسہ کی پاسبانی کے لئے انتخاب فرمایا تھا۔ ان میں سرفہرست آپ کا نام بھی ہے۔ تادم آخر آپ نے اس فریضہ کو بلند ہمتی، کڑی محنت اور جفاکشی سے خود بھی اور درویشان کرام کو ساتھ لے کر پوری ذمہ داری اور وفاداری کے ساتھ کماحقہٗ ادا کیا اور یہ 313 کی وہی نسبت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر جہاد کے لئے 313 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کا انتخاب فرمایا تھا جو ہزاروں پر بھاری پڑے تھے۔ اور حضورﷺ سے یہ عہد کیا تھا ’’ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے۔‘‘ یہاں پر بھی 313 درویشان قادیان نے حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضلؓ کی قیادت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے یہ عہد کیا تھا کہ ’’ہم قادیان کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے آگے بھی رہیں گے پیچھے بھی رہیں گے اور دائیں بھی رہیں گے بائیں بھی رہیں گے‘‘۔ اس عہد کو کمال حد تک پورا کر دکھایا اور ایک تاریخ رقم کر دی۔ اس کی کسی قدر تفصیل خاکسار کے ایک مضمون اسی اخبار الفضل آن لائن لندن کی ایک اشاعت میں آچکی ہے۔
آپ نے 85 سال کی صحت مند عمر پائی خود کو اس قدر فٹ رکھا کہ بیماری پاس بھی نہیں آئی اس عرصہ میں آپ نے شاندار کارناموں کے ایسے نقوش اور یادگاریں چھوڑیںہیں جو ہمیشہ آپ کی یاد دلاتی رہیں گی۔ حضرت امیر صاحب کے الفاظ جو صرف اور صرف آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتے تھے گویا آپ کے لئے یہ الفاظ مخصوص ہیں، ہندو ہوں، ہو عیسائی ہوں، ہو سکھ ہوں، غیر احمدی ہوں یا احمدی ہوں، کسی بھی شخص کی زبان سے یہ الفاظ حضرت امیر صاحب نکلتے تو آپ کی پررعب اور پروقار بزرگ شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی گویا آپ سامنے کھڑے ہیں مجھے نہیں معلوم یہ کرشماتی صورت حال کسی اور امیر کے حصہ میں بھی آئی ہو۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ آپ ہر ایک کے ساتھ بلا مذہب و ملت حسن سلوک اور احسان فرماتے تھے ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے، ان کی مشکلات کو دور کرتے، ان کی پریشانیوں کا حل نکالتے گویا خیر الناس من ینفع الناس (حدیث شریف) کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپ کی ساری زندگی ہی خدمت دین اور خدمت خلق میں گزری ہے آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی کوئی گوشہ مخفی نہیں تھا آپ کے پاس اقتدار بھی تھا اور اختیار بھی تھا کبھی بھی اپنے اس کا بے جا استعمال نہیں کیا۔ حقدار کو اس کا حَقُّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (قرآن کریم) کی بھی آپ کو اچھی طرح پرکھ تھی اس کے معنی اور مفہوم کو بخوبی جانتے ہوئے اس پر عمل کرتے تھے جانب داری اور اقرباء پروری سے آپ کا دامن ہمیشہ پاک و صاف رہا۔
جنوبی ہند سے ایک جنگلی جانور ہاتھی پر سوار دو خانہ بدوش گھومتے گھماتے قادیان ریلوے اسٹیشن کے پاس آ کر اپنا ڈیرہ جما دیا ان میں ایک ہندو تھا دوسرا مسلمان ان میں سے ایک جو مسلمان تھا وہ اچانک فوت ہوگیا اس کا ساتھی بہت پریشان ہوا وطن سے کوسوں دور اور پنجاب میں ان دنوں کوئی مسلم آبادی نہیں تھی۔ اسی اثناء ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے مشورہ دیا کہ مینارۃ المسیح کے پاس جاؤ اور حضرت امیر صاحب سے ملو آپ کا حل نکل آئے گا۔ چنانچہ وہ محلہ احمدیہ قادیان میں آکر حضرت امیر صاحب سے ملا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ حضرت امیر صاحب نے بلا کسی تحقیق و تصدیق بلا تاخیر مکرم بدرالدین صاحب عامل درویش جنرل سکریٹری کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور ہدایت دی کہ یہ ہندو ہے اس کا ایک ساتھی مسلمان فوت ہوگیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن قادیان کے پاس میت ہے وہاں سے میت کو لے کر آؤ اورغسل اور کفن دو اور نماز جنازہ پڑھائو اور عام بچوں کے قبرستان میں تدفین کرو۔چنانچہ اس ہدایت پر مکمل عمل ہوا آپ نے ایک اجنبی ہندو کی زبان پر بھروسہ کرکے اس کی پریشانی کو دور کر دیا۔
خاکسار مدرسہ احمدیہ قادیان سے فارغ التحصیل ہوا دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے اور رزلٹ آنے پر نظارت دعوت و تبلیغ قادیان میں حاضری ہونی تھی ایک درویش بھائی جو دفتر میں مددگار کارکن تھے صبح ہی صبح خاکسار کے پاس آئے کہنے لگے حضرت! میرا ایک ضروری کام کر دو ان دنوں خاکسار کو ہر ایک چھوٹا بڑا حضرت کے نام سے بلاتا تھا مجھے پاکستان اپنے رشتے داروں سے ملنے جانا ہے بڑی مشکل سے دو ماہ کا ویزا لگ گیا ہے افسر صاحب کہہ رہے ہیں اس قدر چھٹی نہیں دے سکتے دفتری کام میں حرج ہوگا آپ اپنی جگہ کسی متبادل شخص کو لے آؤ اسے معاوضہ بھی دیں گے اور آپ کی چھٹی بھی منظور کر دیں گے۔ چنانچہ خاکسار درویش بھائی کے ہمراہ دفتر حاضر ہوا اور اس کام کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر دی ان کی چھٹی منظور ہوئی اور وہ پاکستان چلے گئے۔ ابھی دفتر میں کام کرتے ہوئے صرف دو تین دن ہی گزرے تھے کہ ایک ضروری دفتری ڈاک لیکر حضرت امیر صاحب کے دفتر میں حاضر ہوا۔ ڈاک رجسٹر ٹیبل پر سامنے رکھ دیا۔گرج دار آواز میں کہا یہ کیا ہے؟ میں نے ساری صورت حال بیان کر دی۔ فرمانے لگے کوئی ضرورت نہیں ہے یہ رجسٹر ان کو واپس کر دو اور کہو کہ امیر صاحب نے اپنے دفتر میں ٹیبل پر کام کرنے کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔یہ ہے آپ کی قدردانی اور حسن سلوک۔آپ جانتے تھے گر حفظ مراتب نہ کنی زندیق۔ اگر مقام و مرتبہ کا خیال نہ رکھو گے تو زندیق اور بے دین شمار ہوں گے۔
بہت کم عمر ہی میں آپ کے ماموں حضرت حافظ شیخ حامد علی رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو بعد میں آپ کے خسر بھی ہوئے۔ آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت قادیان کے دینی ماحول میں ہوآپ کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کرایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دینی درسگاہ مدرسہ احمدیہ قادیان کے آپ وہ دوسرے خوش نصیب طالب علم ہیں جو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے اور اسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہو کر استاد مدرسہ احمدیہ مقرر ہوئے اور ساتھ ہی ٹویٹر بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے فرائض بھی خوش اسلوبی سے بجا لاتے رہے۔ پھر آپ ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ مقرر ہوئے وہاں درس و تدریس میں ایک طویل عرصہ تک جڑے رہے بے شمار چوٹی کے علماء و مبلغین، مربیان اور معلمین کو آپ کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۃ المسیح الاولؓ اور خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی براہ راست صحبت میں رہ کر جو جو موتی چنے اور تربیب حاصل کی اسے اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کر دیا۔ آپ کا یہ فیض صدقہ جاریہ کہ طور پر نسل در نسل جاری رہے گا۔ تقسیم ملک سے قبل ہی آپ کو مسجد اقصیٰ قادیان کی مرکزی مسجد میں امامت کے فرائض پر مامور کیا گیا۔ خلفاء مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی اورسند آپ کو ہمیشہ حاصل رہی۔ اظہار تشکر کے طور پر اس کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ آپ کا روز کا معمول تھا بلاناغہ روزانہ ہی قدیم لنگر خانہ کی طرف جاتے ہوئے چبوترے کے پاس آرام کردہ کرسی پر بعد نماز عصر سے مغرب کی اذان تک براجمان رہتے (آج وہاں چبوترے پر کانفرنس ہال تعمیر ہوا ہے) شاید کوئی مصیبت زدہ شخص، کوئی غم کا مارا درویش بھائی اپنی روداد غم سنانے کے لئے حاضر ہو۔ کوئی راز ونیاز کی باتوں میں آپ سے مشورہ کرے کوئی پریشان حال شخص اپنی پریشانی کی دوری کے لئے دعا کی درخواست کا خواہاں ہو۔ آپ بلا مذہب و ملت ہر ایک کی رستگاری کرتے۔ سائل و مسؤل کے علاوہ کسی دوسرے کو خبر بھی نہ ہوتی باہر کی بات باہر ہی رہتی اور دفتر کی بات دفتر میں رہتی۔ آج بھی اس راستے سے گزر ہوتا تو آنکھیں آپ کو ڈھونڈتی ہیں قدم لڑکھڑاتے ہیں آگے نہیں بڑھتے۔ جبکہ نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ پچاس پر پانچ سال ہو چکے ہیں آپ کی گرجدار آواز کانوں میں گونجتی ہے کیا حال ہے کہاں جا رہے ہو سر پر ٹوپی کیوں نہیں جس کی شدت میں نرمی تھی جس کے رعب دبدبہ میں پیار تھا جس کی جھڑک میں شفقت تھی وہ آج ہم میں نہیں وہ اپنے دفتر میں بولتے تو بڑے گیٹ تک انکی آواز سنائی دیتی۔ خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں۔
تقسیم ملک کے بعد آپ کو قادیان میں امیر جماعت مقرر کیا گیا تو قادیان کے دونوں مرکزی مساجد مسجد مبارک اور مسجد اقصی تا وفات 1977 تک باری باری (ایک باری حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کی) خطبات جمعہ اور خطبات نکاح اور امامت کے فرائض سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسجد اقصیٰ میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد نماز عشاء تک مسجد ہی میں ذکر الہی میں مشغول رہتے۔ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد اپنے گھر چلے جاتے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ناظر اعلی و صدر انجمن احمدیہ کی اہم ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی تھی پوری ذمہ داری، ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ کمال حسن نظام اور خوبی سے آخر دم تک اس فریضہ کو ادا کیا ہے۔ دفتری اوقات کی پابندی کرتے، دفتری وقت سے پہلے دفتر میں حاضر ہوتے اور دفتری وقت ختم ہونے کے بعد سب سے آخر میں دفتر سے باہر آتے۔ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی کے علاوہ ناظم دارالقضاء و صدر قضاء بورڈ وغیرہ کے مختلف محکمہ آپ کے سپرد تھے۔ جو بھی بزرگان سلسلہ کی طرف سے آپ کو خدمات پر مامور کیا گیا پوری خندہ پیشانی اور بشاشت قلب اور کشادہ دلی سے اسے قبول کیا اور اپنی سعادت اور خوش نصیبی جان کر ذمہ داری سے فرائض بجالاتے رہے۔ سالہا سال تک تادم آخر جلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی اجلاس کی صدارت آپکے حصہ میں آئی۔ انتظامی امور میں آپ کو کمال مہارت تھی اس کے ساتھ عالم با عمل تھے۔ درویشان قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کے لئے ایک بہت ہی وسیع سائبان تھے جسے قدرت نے اپنے پاس بلا لیا۔ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا ’’موت العالم موت العالم‘‘ زیر وزبر کا فرق ہے۔ یعنی ایک عالم کی موت ایک عالم (دنیا) کی موت ہے آپ کی وفات پر یہ عقدہ کھلا۔ یہ ضرب المثل آپ کی وفات سے واضح ہوئی آپ نے اپنے آخری سفر پر غمزدہ درویشان قادیان کے کندھوں پر کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لئے
مذہب اسلام میں نوحہ کرنے کی ممانعت ہے جب سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات ہوئی تو ان کے قبیلہ اور گھر والوں نے نوحہ کرنا شروع کیا کسی نے دربار خلافت میں حضرت عمر بن خطاب ؓسے اس بات کی شکایت کردی تو آپ ؓ نے فرمایا ’’انہیں نوحہ کرنے دو ایسی شخصیت دنیا سے اٹھ گئی ہے ان پر جس قدر بھی نوحہ کیا جائے کم ہے‘‘
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کی اچانک وفات اور جدائی بھی درویشان قادیان کے لئے اس صورتحال سے کچھ کم نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام عطا فرمائے اور درجات بلند کرتا چلا جائے۔آمین ثم آمین
(علامہ محمد عمر تماپوری۔ انڈیا)