• 17 جولائی, 2025

کیا گستاخِ رسول کی سزا قتل ہے؟

کچھ عرصہ قبل نہایت ہی ظالمانہ اور سفاکانہ واقعہ پاکستان میں ہوا۔ ایک سری لنکن کو بڑی بے دردی سے محض گستاخیٔ رسول کے الزام لگائے جانے پر سَو سے زیادہ لوگوں نے قتل کیا اور اس کی لاش کو جلا دیا اور پھر اس کے ساتھ فخر کے طور پر سیلفیاں بھی لیں۔ اور جب قاتلوں میں سے دو کا انٹرویو لیا گیا تو بڑے فخر اور خوشی سے انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس کو قتل کیا اور پھر ’’لبیک یا رسول اللّٰہ‘‘ اور ’’من سب نبیا فاقتلوہ‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس ملک میں پچھلی چند دہائیوں میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ یہ سب ظالمانہ کاروائیاں ہمارے پیارے آقا رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے بابرکت نام پر کی جارہی ہیں۔

حضرت محمد ﷺ وہ بابرکت وجود ہیں جنہوں نے نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں تک پر احسان کرنے کا نہ صرف حکم فرمایا ہے بلکہ خود عمل کر کے مثالیں قائم فرمائیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تمام انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ بنایا اور آپؐ کی پیروی کو فرض کر دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ

(القلم: 5)

یعنی یقیناً تو بہت بڑے خلق پر فائز ہے۔

پھر فرمایا:

لَّقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ

(الاحزاب: 22)

یعنی یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے۔

نیز فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ

(آل عمران: 32)

یعنی تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔

اور ایک اور جگہ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ

(الحجرات: 2)

یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔

ان چار آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ حضور اکرم ﷺ ہی ہیں۔ اللہ کی محبت ہمیں بغیر اتباعِ نبویؐ کے مل ہی نہیں سکتی اور اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا اور ایسے کام کرنا جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کئے اور نہ جن کا حکم دیا تو یہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی واضح نافرمانی ہے۔

اول تو یہ خود ہی ان ’’لبیک یا رسول اللّٰہ‘‘ کے نعرے مارنے والوں کی طرف سے گستاخیٔ رسولؐ ہے، کہ جس آقا و مطاع ﷺ نے کسی کو بھی آگ کی سزا دینے سے منع فرمایا اسی کے نام پر ایک معصوم شخص کو آگ میں جلایا گیا۔

حضرت اقدس خاتم الانبیاء رحمۃ اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بابرکت سیرت پر اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آنحضرتؐ نے کبھی بھی کسی کو اپنی گستاخی کی وجہ سے قتل نہیں کیا اور نہ کروایا۔ انبیاء علیہم السلام کی تو گستاخیاں ہوتی ہی ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ

(یٰس: 31)

یعنی ’’وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہیں‘‘۔ اس کے باوجود کوئی رسول گالیاں اور اپنی گستاخیاں سن کر کبھی مخالفین کو قتل کرنے نہیں نکلا۔ بلکہ ہمیشہ صبر اور حوصلہ سے برداشت کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کیا کیا نام رکھے گئے۔ قرآن کریم نے بے شمار جگہ ذکر فرمایا ہے۔ ساحر کہا گیا۔ مجنون کہا گیا۔ کذاب کہا گیا (نعوذ باللہ) مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ کبھی ان کو پیچھے مڑ کر گالی دی اور نہ کبھی ان کے قتل کا حکم صرف اس وجہ سے دیا کہ وہ شتمِ رسول کے مرتکب ہیں۔ اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی۔

اگر کسی کو جھوٹا اور جادو گر کہا جائے تو وہ بھی اس شخص کی گستاخی ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ایک نہایت کثیر تعداد ایسی ہے جو رسول کریم ﷺ کو جھوٹا کہتی ہے۔ خود آنحضرت ؐ کے زمانے میں حضورؐ کو دعویٰ نبوت کے بعد سخت جھوٹا کہا جاتا تھا۔ حالانکہ پہلے وہی لوگ حضورؐ کو صادق و اَمین کے القاب سے یاد کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَھُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡھُمۡ ۖ وَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ھٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ

(ص: 5)

یعنی اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے کوئی ڈرانے والا آیا۔ اور کافروں نے کہا یہ سخت جھوٹا جادو گر ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ حضرت اقدس محمد ﷺ کو کفارِ مکہ کذاب اور جادو گر کہتے تھے۔ مگر حضور اکرم ﷺ نے کبھی ان لوگوں کو اس وجہ سے قتل نہیں کروایا۔ حالانکہ یہ تمام لوگ شاتمِ رسول تھے۔ اور نہ ہی حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم نے ان کو قتل کیا۔ کیا آجکل کے مسلمان ان بزرگوں سے بڑھ کر عاشق رسولؐ ہیں؟ خدا تعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت 2 جو کہ آغاز میں درج کی ہے میں صاف فرماتا ہے کہ رسول سے آگے نہ بڑھنا۔ مگر آجکل کے مسلمان اپنا عشقِ رسول ثابت کرنے کے لئے حضور اکرمؐ کی نافرمانی کرتے ہوئے آپؐ سے آگے بڑھتے ہیں اور بے گناہوں کا قتلِ عام کرتے پھر رہے ہیں۔

عاص بن وائل وہ بد بخت تھا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ابتر کہا تھا۔ (تفسیر ابنِ کثیر سورۃ الکوثر آیت 3) مگر حضور ﷺ نے اس پر کوئی فتویٰ قتل نہیں دیا۔ نہ کسی عاشقِ رسولؐ صحابی نے اسے قتل کیا۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا زبردست جواب دیا اور فرمایا:
اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الۡاَبۡتَرُ (الکوثر: 4) یقیناً تیرا دشمن ہی ہے جو ابتر رہے گا۔ اور اس کے بیٹے عمرو بن العاص مسلمان ہوئے۔

ان کفار کی گالیوں اور گستاخیوں کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم أَلاَ تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللّٰهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں تعجب نہیں کہ اللہ قریش کی گالیوں اور ان کی لعنتوں کو مجھ سے کیونکر دور کرتا ہے۔ وہ مذمم (مذمت کیا ہوا) کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں حالانکہ میں تو محمد ہوں۔

محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
علیک الصلٰوۃ علیک السلام

حضرت اقدس رحمت اللعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خود فرما دیا ہے کہ حضورؐ کو دی ہوئی ہر گالی خود خدا تعالیٰ دور کرتا ہے۔ اور جو بھی کوئی گالی دیتا ہے تو وہ حضورؐ کو پہنچتی ہی نہیں کیونکہ حضورؐ وہ ہیں ہی نہیں۔ حضورؐ تو محمد ﷺ ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جو بھی حضور ﷺ کو نعوذ باللہ کذاب یا مجنون یا ساحر یا کچھ اور کہتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے الفاظ کے مطابق نہ تو وہ حضورؐ کو گالی دے رہا ہے اور نہ ہی حضور کو اس کی گالی سے کچھ فرق پڑ رہا ہے۔

بر صغیر کے مشہور عالم علامہ شبلی نعمانی آنحضرت ﷺ کو دی جانے والی تکالیف کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’آنحضرت ﷺ بدستور دعوت اسلام میں مصروف ہوئے، قریش اگرچہ آنحضرت ﷺ کے قتل کا ارادہ نہ کر سکے، لیکن طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے، راہ میں کانٹے بچھاتے تھے، نماز پڑھنے میں جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے تھے، بد زبانیاں کرتے تھے، ایک دفعہ آپ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، عقبہ بن معیط نے آپؐ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچی کہ آپؐ گھٹنوں کے بل گر پڑے۔‘‘

(سیرۃ النبی ؐ صفحہ153، از علامہ شبلی نعمانی ؒ)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر عاشق رسول کون تھا؟ حضرت ابو بکرؓ سب سے افضل صحابی تھے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر قاتلانہ حملہ آپؓ کے سامنے ہوا تو آپؓ نے اس ظالم کو قتل نہیں کیا۔ حالانکہ سب سے بڑھ کر تو یہی موقعہ ہونا چاہیے تھا کہ حضرت ابو بکرؓ اسی وقت اس ظالم کی گردن اڑا دیتے جو آپؓ کے آقا کو مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر آپؓ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ صرف آنحضرت ﷺ کا دفاع کیا۔ اور نہ ہی آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ کو اس بد بخت کے قتل کا حکم دیا۔ واقعہ یوں ہے کہ:

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ، مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم وَهُوَ يُصَلِّي، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ فَقَالَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللّٰہُ.‏ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ‏

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً)

’’یعنی عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے: میں نے حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے سخت سے سخت اس سلوک کے متعلق پوچھا جو مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا: میں نے عقبہ بن ابی معیط کو دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آپؐ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے تو اس نے آپؐ کی گردن میں (اپنی) چادر ڈالی اور نہایت زور سے آپؐ کا گلا گھونٹا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر آن پہنچے اور انہوں نے عقبہ کو دھکا دے کر آپؐ سے ہٹایا اور کہنے لگے: کیا تم ایک شخص کو اس بات پر مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری پاس کھلے کھلے دلائل بھی لایا ہے۔‘‘

‏‏یہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اسوہ۔ اور اس سے پیش قدمی کرنے سے اللہ تعالیٰ نے سورۃالحجرات میں منع فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اپنی ذات کے لئے کوئی انتقام نہیں لیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

لَا اِنْتَقَمَ لِنَفْسِہِ شَیْئًا۔

(کتاب الطبقات الکبیر باب ذکر صفۃ اخلاق رسول اللہ، از محمد بن سعد)

’’یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا۔‘‘

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم طائف گئے اور تبلیغ کی تو وہاں کے اوباش لوگوں نے سخت گالیاں دیں اور حضور ﷺ کو سخت زخمی کیا۔ مگر ان کو بھی آپؐ نے معاف فرما دیا۔ چنانچہ مختصر سیرت الرسول ﷺ میں لکھا ہے کہ:
’’اسی سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی خدمت میں پہاڑوں کے انچارج فرشتہ کو بھیجا کہ اگر آپؐ اشارہ فرمائیں تو وہ ان پہاڑوں کو آپس میں ملا دے، جن کے درمیان مکہ اور طائف واقع ہیں اور دونوں شہروں کو پیس کر رکھ دے؟ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’نہیں۔ بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی پشتوں سے ایسے اشخاص پیدا فرمادے گا جو اسے واحد جان کر اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں گردانیں گے۔‘‘ (مختصر سیرت الرسول ﷺ صفحہ152، از امام محمد بن عبد الوہاب مترجم محمد خالد سیف) اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔ وہ بھی زخمی ہوئے مگر نہ انہوں نے اور نہ ہی حضورؐ نے کسی ایک مخالف کو قتل کیا۔

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ شاتمِ رسول اور حضور ﷺ کو دکھ دینے والوں کو حضور ﷺ نے فرشتہ کے ان کو سزا دینے کی اجازت مانگنے کے باوجود منع کیا اور معاف فرما دیا اور فرمایا کہ ان کی نسلوں سے موحد پیدا ہوں گے۔ اگر نبی کو گالی یا دکھ دینے کی سزا قتل ہے تو کیوں رسول اللہ ﷺ نے فرشتہ کو ان ظالموں کو پہاڑوں کے درمیان پیسنے کا ارشاد نہ دیا؟ یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ۔ ابن سعد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

کَانَ أَحْسَنُ النَّاسِ خُلُقاً…لَا یَجْزِی بِالسَّیِّئَۃِ مِثْلَھَا، وَلٰکِنْ یَعْفُوَ وَ یَصْفَحَ

(کتاب الطبقات الکبیر باب ذکر صفۃ اخلاق رسول اللہ ﷺ، از محمد بن سعد)

’’یعنی آپؐ اخلاق کے لحاظ سے تمام لوگوں سے بہترین تھے۔‘‘ اگر آپؐ سے کوئی برائی کی گئی تو اس کا بدلہ لینے کے بجائے معاف فرماتے اور درگزر کرتے تھے۔ یہ اس بابرکت وجود کی حضور ﷺ کے متعلق گواہی ہے جن کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو۔

بہت سے مسلمان اپنے اس غلط عقیدہ کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل یہ مکی واقعات ہیں اور اس وقت رسول کریم ﷺ کو حکومت نہیں ملی اور حضورؐ اور صحابہؓ (نعوذ باللہ) کمزور تھے اس لئے وہ قتل نہ کر سکے۔ اور دلیل کے طور پر وہ کعب بن اشرف اور اس جیسے کچھ اور کفار کا نام لے کر کہتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ لوگ حضورؐ کو حکومت ملنے کے بعد قتل کروائے گئے کیونکہ یہ گستاخ اور شاتمِ رسول تھے۔ اول تو یہ خود ان لوگوں کی طرف سے گستاخی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کمزور تھے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ فرماتا ہے:

وَاللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ

(المائدہ: 68)

یعنی اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ کیا اللہ بھی کمزور ہو گیا تھا (نعوذ باللہ)؟ اور پھر یہ کہ فرشتہ نے آکر پوچھا مگر پھر بھی ان کے قتل کا حکم نہ دیا۔ اور حضرت ابو بکرؓ جو صحاباؓ میں سب سے افضل تھے، حضرت عمرؓ جن کے سایہ سے بھی شیطان ڈرتا تھا، سید الشہداء حضرت حمزہؓ جن سے ابو جہل بھی ڈر کے خاموش ہو گیا تھا، حضرت علیؓ جن کے متعلق حضورؐ نے فرمایا کہ لا فتی الا علی ولا سیف الا ذوالفقار، اور بھی بہت سے صحابہؓ۔ کیا سب ہی کمزور تھے؟ یہ کہنا کہ مکی زندگی میں حضور ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کمزور تھے، بدلہ بھی نہ لے سکتے تھے تو یہ تو نہایت ہی ہتک اور گستاخی رسولؐ ہے اور گستاخی صحابہؓ ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ اس وقت صبر کا حکم تھا تاکہ صبر کے ذریعہ ایمانی ترقی ہو سکے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیارے آقا کی مدح میں فرماتے ہیں:
’’انسان کا خُلق اس کی فتح اور کامیابی کے متعلق ہوتا ہے کہ جو کچھ صبر وغیرہ اخلاق فاضلہ مصیبت اور بلا کے وقت دکھلاتا ہے وہی فتح اور اقبال کے وقت دکھلاوے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں قسم کے وقتوں پر اخلاق دکھانے کا موقعہ ملا جو خلق عظیم تنگی اور بلا کے وقت آپ نے مکہ میں دکھائے تھے وہی آپ نے بادشاہ ہو کر دکھلایا۔‘‘

(ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ جلد2 صفحہ437)

ان معترضین کا یہ اعتراض بھی غلط ہے۔ کیونکہ کعب بن اشرف اور اس جیسے دوسرے مخالفین کے قتل کا حکم گستاخی رسول اور شتمِ رسول کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ بغاوت اور فساد کی وجہ سے تھا۔ عصرِ حاضر کے ایک مشہور عالم انجینئر محمد علی مرزا اپنے ایک لیکچر میں جس کا عنوان ہے ’’گستاخِ رسول کی سزا اور امام ابن تیمیہ‘‘ اس میں کہتے ہیں کہ ’’کعب بن اشرف اور جو باقی ایک دو اکا دکا واقعات یہ پیش کر کے plea لیتے ہیں، وہ تو context ہی بالکل different ہے۔ وہ تو عہد شکنی کی سزا ہے۔ وہ بالکل different چیز ہے۔‘‘

صحیح بخاری اور سنن ابی داود اور دیگر کتب احادیث و سیرت میں اس کے قتل کی وجہ لکھی ہوئی ہے اور وہ محض حضور ﷺ کو گالی دینا نہیں تھی۔ چنانچہ سنن ابی داود میں آتا ہے کہ:

وَكَانَ كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ يَهْجُو النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَكَانَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلاَطٌ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ يَعْبُدُونَ الأَوْثَانَ وَالْيَهُودُ وَكَانُوا يُؤْذُونَ النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم وَأَصْحَابَهُ فَأَمَرَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ بِالصَّبْرِ وَالْعَفْوِ فَفِيهِمْ أَنْزَلَ اللّٰهُ ‏[وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ]‏ الآيَةَ فَلَمَّا أَبَى كَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَى النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم أَمَرَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رَهْطًا يَقْتُلُونَهُ فَبَعَثَ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ وَذَكَرَ قِصَّةَ قَتْلِهِ فَلَمَّا قَتَلُوهُ فَزِعَتِ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ فَغَدَوْا عَلَى النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم فَقَالُوا طُرِقَ صَاحِبُنَا فَقُتِلَ ‏.‏ فَذَكَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم الَّذِي كَانَ يَقُولُ وَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم إِلَى أَنْ يَكْتُبَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ كِتَابًا يَنْتَهُونَ إِلَى مَا فِيهِ فَكَتَبَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْمُسْلِمِينَ عَامَّةً صَحِيفَةً

(سنن ابی داود کتاب الخراج و الإمارۃ و الفیء باب کیف کان اخراج الیھود من المدینۃ)

کعب بن اشرف (یہودی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفارِ قریش کو آپؐ کے خلاف اکسایا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے۔ ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پوجتے تھے، اور یہود بھی، وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے۔ تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبر اور عفوو درگزر کا حکم دیا۔ انہیں کی شان میں یہ آیت وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ (تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے۔) اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی سے باز نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کو قتل کرا دیں تو آپؐ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا (اس قتل کا قصہ صحیح البخاری کتاب المغازی میں بیان ہوا ہے۔ ناقل) جب ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہو گئے اور دوسرے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رات میں ہمارا سردار مارا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ باتیں ذکر کیں جو وہ کہا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پابندی کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمومی صحیفہ (تحریری معاہدہ) لکھا۔

طبقات ابن سعد میں وہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کو حضور اکرم ﷺ نے یہود کو یاد کرایا کہ اِن اِن جرائم کا کعب بن اشرف مرتکب ہوا تھا۔ جب اس کا قتل ہو گیا تو لکھا ہے کہ:

فَأَصْبَحَتِ الْیَھُوْدُ مَذْعُوْرِیْنَ، فَجَاءُوْا النَّبِیَّ ﷺ، فَقَالُوْا: قُتِلَ سَیِّدُنَا غِیْلَۃ! فَذَکّرَھُمُ النَّبیُّ ﷺ صَنِیْعَۃَ وَمَا کَانَ یَحُضُّ عَلَیْھِمْ وَ یُحَرِّضُ فِی قِتَالِھِمْ وَ یُؤْذِیْھِمْ، ثُمَّ دَعَاھُمْ إِلٰی أَنْ یَکْتُبُوْا بینہ و بینھم صلحاً أَحْسَبَہ۔

(کتاب الطبقات الکبیر باب سریّۃ قتل کعب بن أشرف، محمد بن سعد)

’’یعنی یہود کی صبح خوف کی حالت میں ہوئی، نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور شکایت کی کہ ہمارا سردار دغا سے قتل کیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے افعال یاد دلائے کہ کس طرح وہ لوگوں کو بر انگیختہ کرتا تھا، لڑائی پر ابھارتا تھا اور ایذاء پہنچاتا تھا۔ آپؐ نے انہیں اس امر کی دعوت دی کہ اپنے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدۂ صلح لکھ دیں جو کافی ہو۔‘‘

(ترجمہ از علامہ عبد اللہ العمادی)

یہ تھی کعب بن اشرف کی حقیقت اور اسی سے ملتی جلتی باقی چند ایک باغیوں فسادیوں کی حقیقت۔ مگر ان نام نہاد ملاؤں اور ان کے چیلوں نے آنحضور ؐ کی سیرت کو جس طرح سے غلط رنگ دیا ہے در حقیقت یہی لوگ ہیں جو گستاخی رسولؐ کے مرتکب ہیں۔

آجکل مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سب سے بڑا شاتمِ رسولؐ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی تھا۔ مگر اس کے ساتھ بھی رسول اللہؐ کا طریقہ مشفقانہ تھا۔ یہ وہ شخص تھا جو حضور ﷺ کے متعلق نہایت نازیبا الفاظ استعمال کرتا تھا۔ یہانتک کہ خود قرآنِ کریم نے اس کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ فرماتا ہے:

لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡھَا الۡاَذَلَّ

(المنافقون: 9)

یعنی ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس (مدینہ) میں سے نکال باہر کرے گا۔

اس واقعہ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ:

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رضى اللّٰه عنهما قَالَ كُنَّا فِي غَزَاةٍ ـ قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً فِي جَيْشٍ ـ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ يَا لَلأَنْصَارِ‏.‏ وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ‏.‏ فَسَمِعَ ذَاكَ رَسُولُ اللّٰہِ صلى اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ ‏ ’مَا بَالُ دَعْوَى جَاهِلِيَّةٍ؟‘‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللّٰہِ كَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ‏.‏ فَقَالَ ‏‏ ’دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ‘.‏ فَسَمِعَ بِذَلِكَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَىٍّ فَقَالَ فَعَلُوهَا، أَمَا وَاللّٰہِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ‏.‏ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰہِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم ‏’دَعْهُ لاَ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ‘

(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ سواء علیھم أستغفرت لھم أم لم تستغفر لھم لن یغفر اللّٰه لھم إن اللّٰه لا یھدی القوم الفاسقین)

’’یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کسی غزوہ کے لئے گئے ہوئے تھے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا۔ اس پر اس انصاری نے بآوازِ بلند کہا کہ اے انصار! میری مدد کو آؤ اور مہاجر نے جب معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو اس نے بآوازِ بلند کہا کہ اے مہاجرو! میری مدد کو آؤ۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیں۔ تو آپؐ نے دریافت فرمایا۔ یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی آوازیں بلند ہو رہی ہیں؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یا رسول اللہؐ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مار دیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنا چھوڑ دو۔ یہ ایک بُری بات ہے۔ بعد میں یہ بات عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے سنی تو اس نے کہا مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ لوٹے تو مدینہ کا معزز ترین شخص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا۔ عبداللہ بن اُبی کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ حضرت عمرؓ کی بات سن کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس سے درگزر کرو۔ کہیں لوگ یہ باتیں نہ کہنے لگ جائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔

مزید اس واقعہ کے متعلق سیرت ابن ہشام میں آتا ہے کہ:

عبد اللّٰهؓ أَتَی رَسُولُ اللّٰه ﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُولُ اللّٰهؐ، إِنَّہُ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ تُرِیدُ قَتْلَ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ اُبَیّ فِیْمَا بَلَغَکَ عَنْہُ، فَإِنْ کُنْتَ لَابُدَّ فَاعِلاً فَمُرْنِی بِہِ، فَأَنَا أَحْمِلُ إِلَیْکَ رَأْسہ، فَوَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمَتْ الخَزْرَجُ مَا کَانَ لَھَا مِنْ رَجُلٍ أَبَرَّ بِوَالِدِہِ مِنّی، وَ إِنّی أَخْشَی أَنْ تَأْمُرَ بِہِ غَیْرِی فَیَقْتُلَہُ، فَلَا تَدَعْنِی نَفْسِی أَنْظُرُ إِلٰی قَاتِلِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبیّ یَمْشِی فِی النَّاسِ، فَأَقْتُلَہُ فَأَقْتُلَ مُؤْمِناً بِکَافِرِ، فَأَدْخُلَ النَّارَ؛ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَتَرَفَّقُ بِہِ وَ نُحْسِنُ صُحْبَتَہُ مَا بَقِیَ مَعَنَا

(السیرۃ النبویّۃ لإبن ھشام باب غزوہ بنی مصطلق)

’’یعنی حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ عبد اللہ بن ابی کو قتل کرانا چاہتے ہیں بسبب اس کی اس بات کے جو آپ تک پہنچی ہے۔ اگر آپ ضرور ہی اس کام کو کرنا چاہتے ہیں تو مجھ کو حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کی گردن اڑا دوں۔ قسم ہے خدا کی خزرج اس بات کو جانتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا نہیں ہے۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر میرے سوا کسی اور شخص کو آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور اس نے قتل کیا تو پھرمجھ سے ہرگز گوارہ نہ ہوگا کہ میں اس قاتل کو زندہ زمین پر چھوڑ دوں پھر میں اس مؤمن کو کافر کے بدلے میں قتل کرنے سے دوزخ میں جاؤں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم اس کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔

یہ تھا حضرت خاتم الانبیاء رحمۃ اللعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ۔ اس شاتمِ رسول کو بھی جس کی دی ہوئی گالی کو خود قرآن نے بطور گواہی بیان فرمایا ہے اس بد بخت کے متعلق بھی حضورؐ فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہم نرمی کریں گے۔ تو پھر اور کون ہے جو یہ کہے کہ گستاخیٔ رسول کی سزا قتل ہے۔ جب عبد اللہ بن ابی فوت ہوا تو اس وقت آنحضرت صلعم کا کیا رویہ تھا۔ حدیث میں آتا ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَىٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللّٰہِ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ، فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَمِيصَهُ فَقَالَ ‏‏ آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ‏ فَآذَنَهُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رضى الله عنه فَقَالَ أَلَيْسَ اللَّهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ ‏‏أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ قَالَ ‏‏اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ‏‏فَصَلَّى عَلَيْهِ‏‏

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الْكَفَنِ فِي الْقَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عبد اللہ بن ابیّ جب مر گیا تو اس کا بیٹا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپؐ مجھے اپنی قمیص دیں تا میں اس میں اس کو کفناؤں اور آپؐ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں اور اس کی مغفرت کی دعا کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اپنی قمیص دی اور فرمایا: (جب جنازہ تیار ہو تو) مجھے اطلاع دینا۔ اس کا جنازہ میں پڑھوں گا۔ چنانچہ اس نے آپؐ کو اطلاع دی۔ جب آپ نے اس کا جنازہ پڑھنا چاہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپؐ کو کھینچ لیا اور کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقوں کا جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا۔ آپؐ نے جواب دیا: مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ان کے لئے مغفرت کی دعا کر یا نہ کر اگر ستر بار بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔ چنانچہ آپؐ نے اس کا جنازہ پڑھا۔

حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کُرتہ بھی دے دیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ 262)

جب فتح مکہ ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تمام وہ کفار حاضر کئے گئے جو پچھلے انیس بیس سالوں سے دکھ پہ دکھ اور تکالیف پہ تکالیف دیتے جا رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان کی گستاخیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو معاف فرما دیا۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’آپؐ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جبارانِ قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کے مٹانے میں سب سے پیش رو تھے۔ وہ بھی تھے جن کی زبانیں رسول اللہ ﷺ پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں۔ وہ بھی تھے جن کی تیغ و سنان نے پیکر قدسی ﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں۔ وہ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے راستہ میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آنحضرت ﷺ کی ایڑیوں کو لہو لہان کر دیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے بھی بجھ نہیں سکتی تھی۔ وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینہ کی دیواروں سے آ آ کر ٹکراتا تھا۔ وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی ریت پر لِٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔ رحمتِ عالم ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور خوف انگیز لہجہ میں پوچھا: ’تم کو کچھ معلوم ہے میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘ یہ لوگ اگرچہ ظالم تھے، شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے۔ پکار اٹھے کہ: ’أَخٌ کَریمٌ و إِبنُ أَخٍ کریمٍ‘ تو شریف بھائی ہے، اور شریف برادزادہ ہے۔ ارشاد ہوا: لا تَثْرِیبَ علیکمُ الیومَ اذْھَبُوْا فَأَنتم الطلقاء۔ تم پر کچھ الزام نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ کفارِ مکہ نے تمام مہاجرین کے مکانات پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب وہ وقت تھا کہ ان کے حقوق دلائے جاتے۔ لیکن آپؐ نے مہاجرین کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنی مملوکات سے دست بردار ہو جائیں۔‘‘

(سیرۃ النبیؐ صفحہ315۔316 از علامہ شبلی نعمانی)

اُطْلُبْ نَظِیرَ کَمَالِہِ
فَسَتَنْدَمَنَّ مُلَدَّدَا

تو اس کے کمال کی نظیر تلاش کر
سو تو (اس میں) یقیناً حیران ہو کر شرمندہ ہو گا۔

یہ ہے حضور ﷺ کا حقیقی اسوہ۔ خواہ کافر ہو خواہ منافق حضورؐ نے ہر ایک کے ساتھ نیک سلوک کیا۔ عصرِ حاضر کا مشہور عالمِ دین انجینئر محمد علی مرزا اپنے لیکچر میں کہتا ہے کہ:
’’عبد اللہ ابن ابی واضح مثال ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رحمۃ اللعالمین ہونے کی۔ اور دعوت کے اعتبار سے آپ ﷺ کی حکمتِ عملی کیا تھی۔ غلبہ بھی ہو گیا تھا اسلام کا۔ اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان لوگوں کو قتل نہیں کروایا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر کئی لوگوں کے قتل کے فتوے دئیے۔ انہوں نے بھی جب آ کے معافی مانگ لی…عکرمہ ابن ابی جہل، کہا تھا غلافِ کعبہ میں بھی چھپا ہو تو قتل کر دینا۔ اس نے آکے حضورؐ سے معافی مانگ لی۔ آپؐ نے معاف کر دیا حالانکہ اس سے بڑا کوئی گستاخ نہیں تھا۔‘‘

اس بارہ میں علامہ شبلی نعمانی مؤطا امام مالک سے حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حارث بن ہشام کی صاحبزادی ام حکیمؓ عکرمہ بن ابی جہل کی زوجہ تھیں۔ وہ فتح مکہ کے دن اسلام لائیں لیکن ان کے شوہر عکرمہ بن ابو جہل اسلام سے بھاگ کر یمن چلے گئے۔ ام حکیمؓ یمن گئیں اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گئے اور مکہ میں آئے۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان کو دیکھا تو فرطِ مسرت سے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم مبارک پر چادر تک نہ تھی، پھر ان سے بیعت لی۔‘‘

(سیرۃ النبی ؐ صفحہ 319 از علامہ شبلی نعمانی)

حضرت اقدس مسیح موعود و امام مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری شان میں فرماتے ہیں:
’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلّی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لا تثریب علیکم الیوم کہا… اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کہ جو ایک زمانہ دراز تک آنجنابؐ نے اُن کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا آفتاب کی طرح اُن کے سامنے روشن ہو گیا۔‘‘

(براہینِ احمدیہ حصہ سوم حاشیہ11، روحانی خزائن جلد1 صفحہ286۔288)

اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت
بشو از دل ثنا خوانِ محمدؐ

’’اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تہہ دل سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مدح خواں بن جا۔‘‘

یہ وہ اسوہ ہے جس کی ہمیں پیروی کرنی چاہئے۔ یعنی اپنے شدید سے شدید مخالف کو بھی معاف کرنا چاہئے۔ ہاں اگر وہ اللہ اور رسولؐ کا دشمن ہے تو زیادہ سے زیادہ اس سے قطع تعلقی کا حکم ہے۔ مگر اس سے پہلے اس کو دعوتِ حق کی طرف بلانے کا کام بھی ہمارا ہے کیونکہ آج کل بہت سے لوگ کم علمی اور نا فہمی کی بِنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کو حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

وَلَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ۚ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَبَیۡنَہٗ عَدٰوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ

(حٰمٓ السجدۃ: 35)

نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے (برابر)۔ ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت پر ایسا زبردست عمل کر کے دکھایا کہ جانی دشمن دوست ہو گئے۔ حضرت عمرؓ جو حضورؐ کو قتل کرنے نکلے تھے ایسے مخلص ہوئے کہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے خلیفہ ہوئے۔ حضرت عکرمہؓ ایسے جاں نثار ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو شہادت کے مقام پر پہنچایا۔ بے شمار ایسے دشمن تھے جو شاتم اور گستاخِ رسولؐ تھے مگر حضور اکرمؐ کے اسوہ سے گہرے دوست بن گئے اور ہر چیز اور ہر شخص سے بڑھ کر اللہ اور رسولؐ سے محبت رکھنے والے ہو گئے۔ یہ وہ کامل اور حسین نمونہ ہے جسے اپنانے کی آج مسلمانوں کو سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ جتنی بھی گستاخیاں ہو رہی ہیں یہ آجکل کے مسلمانوں کے رویہ کو دیکھ کر ہو رہی ہیں نہ کہ حضور ﷺ کی سیرت پڑھ کر۔ بلکہ جب امام جماعت احمدیہ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مغربی ممالک کے حکمرانوں کے سامنے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی امن پسند تعلیم اور سیرت پیش کرتے ہیں تو ان غیر مسلموں کا برملا اظہار ہوتا ہے کہ ایسی پیاری تعلیم تو ہمیں پہنچی ہی نہیں۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ جو کچھ مسلمان آجکل کر رہے ہیں وہی اسلام ہے۔ تو دراصل یہ مسلمانوں کی غلطی ہے کہ وہ حضور ﷺ کی سیرت کی حقیقی تصویر غیر مسلموں کو پیش نہیں کرتے۔

؎حسینانِ عالم ہوئے شرمگیں
جو دیکھا وہ حسن اور وہ نورِ جبیں
پھر اس پر وہ اَخلاق اکمل تریں
کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے خلقِ کامل زہے حسنِ تام
علیک الصلٰوۃ علیک السلام

ان تمام حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ توہینِ رسالت کی کوئی دنیاوی سزا نہیں۔ شاتمِ رسول کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ ہاں ہمارا یہ کام ہے کہ ان تک حضرت اقدس خاتم الانبیاء رحمۃ اللعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح سیرت اور حضور کا حسین اسوہ پیش کریں اور اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے کنارہ کشی کر لیں۔ مگر نہ ان کو قتل کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے اور نہ ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت اسلام دیتا ہے جیسا کہ پاکستان میں سری لنکن شخص کے ساتھ کیا گیا۔ بس ایسے شخص سے قطع تعلقی کر لینا چاہیے۔ مگر قتل جائز نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سیرت نبویؐ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اوّل ہی اوّل انسان کی نظر انسانی اخلاق پر پڑتی ہے اس واسطے اس خُلق کا کمال ایک بڑا بھاری اور شاندار معجزہ ہے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ایسے کئی ایک نمونے پائے جاتے ہیں کہ بعض لوگوں نے محض آپؐ کے اخلاقی کمال کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مشرک عیسائی مہمان آیا۔ صحابہ ؓ اس کو اپنا مہمان بنانا چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں یہ میرا مہمان ہے اس کا کھانا میں لاؤں گا۔ چنانچہ اس مشرک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاں مہمان رکھا اور اس کی بہت خاطر تواضع کی اور عمدہ عمدہ کھانے اس کو کھلائے اور عمدہ مکان اور اچھا بسترہ اس کو رات بسر کرنے کے واسطے دیا مگر وہ بوجہ کھانا زیادہ کھا جانے کے بد ہضمی کی وجہ سے رات بھر اسی کوٹھری میں رفع حاجت کرتا رہا۔ مکان اور بسترہ خراب کر دیا۔ صبح منہ اندھیرے ہی شرم کے مارے اُٹھ کر چلا گیا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاش کی اور وہ نہ ملا تو بہت ہی افسوس کیا اور کپڑے جو نجاست سے آلودہ ہوگئے تھے خود اپنے دستِ مبارک سے صاف کر رہے تھے کہ وہ اتنے میں واپس آگیا کیونکہ وہ اپنی ایک بیش قیمت صلیب بھول گیا تھا۔ اس کو آتے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بہت خوش ہوئے اور اس سے کوئی اظہارِ رنج نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اس کی مدارات اور خاطر کی اور اسکی صلیب نکال کر اس کو دیدی۔ وہ شخص اس واقعہ سے ایسا متاثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ502)

اگر خواہی دلیلے عاشِقش باش
محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ

آپؑ مزید فرماتے ہیں:
’’اُس انسانِ کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں، مگر اس خُلقِ مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ اُن کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا، تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضورؐ کے مخالف آپؐ کی عزّت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے۔ یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ64)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح میں فرماتے ہیں:
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا۔…وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو… اللّٰھم صل و سلّم و بارک علیہ و اٰلہ و اصحابہ۔‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ308)

(سید حاشر ہود احمد۔جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ