سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 7 نومبر 1969ء کو خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔
’’رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ پہلے تو روزہ ہے۔ دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے۔ چوتھے سخاوت اور پانچویں آفات نفس سے بچنا ہے۔ ان پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں‘‘
(خطبات ناصر جلد2 صفحہ983)
رمضان المبارک کی عبادتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے دوسرے نمبر پر نماز کی پابندی کے ساتھ قیام اللیل یعنی رات کے نوافل کا ذکر فرمایا اور آج کے مضمون میں اسی کا ذکر ہو گا۔
قیام اللیل۔تہجد کے معانی
تَھَجّدُ الْقَوْمِ اسْتَیْقَظُوْالِلصَّلٰوۃِ اَوْ غَیْرِھَا
یعنی تَھَجّدُ الْقَوْمِ کے معنیٰ لوگوں کے سونے کے بعد نماز وغیرہ کے لئے بیدار ہونا۔
(السان العرب)
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’تہجد کے معنیٰ سو کر اٹھنے کے ہوتے ہیں اس لئے تہجد کی نماز سے پہلے سونا ضروری ہے۔ جو لوگ ساری رات جاگنے کے چلے کھنچتے ہیں وہ عبادت نہیں کرتے شریعت کے منشاء کو باطل کرتے ہیں ایسی عبادت قرآن کریم کے منشاء کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پہلی رات سوتے تھے اور آخر رات میں اٹھ کر تہجد پڑھتے تھے۔‘‘
(بخاری کتاب التہجد باب من نام اولی اللیل راحیااخرہ)، (تفسیر کبیر جلد6 صفحہ406)
قرآن کریم میں وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ نماز تہجد کو نَافِلَۃً قرار دیا گیا ہے اور نَافِلَۃً معنیٰ ہیں۔
1) اَلْغَنِیْمَۃُ غنیمت
2) اَلْعَطِیْعَۃُ بخشش
3) مَاتَفْعَلُہٗ مِمَّا لَا یَجِب غرض سے زائد عمل کرنا
(اقرب)
گویا تہجد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے غنیمت اور بخشش ہے۔ فرض سے زائد وہ عمل ہے جس کےنتیجہ میں عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا مقام محمود عطا ہوتا ہے۔
نماز تہجد کا وقت
سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں:
’’نصف شب کے بعد کسی وقت پو پھٹنے سےپہلے یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے، یہ نماز سو کر اٹھنے کے بعد پڑھنی چاہئے۔ گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گزرجائے تو یو ں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اٹھکر یہ نماز ادا کرے۔ اس نماز کا روحانی ترقیات سےبہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ114)
اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۲﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۴﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۵﴾ اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۶﴾ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّاَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۷﴾ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۸﴾
(المزمل: 2-8)
ترجمہ: اے چادر میں لپٹے ہوئے (خدا کی رحمت کا انتظار کرنیوالے) راتوں کو اٹھ اٹھ کے عبادت کرجس سے ہماری مراد یہ ہے کہ رات کا اکثرحصہ عبادت میں گزارا کر۔ یعنی اس کا نصف یا نصف سے کچھ کم کر دے (بعض راتیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں ان میں رات کا صرف تھوڑا سا حصہ صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے جاگا جاتا ہے لیکن فرماتا ہے جب دن کے برابر راتیں ہوں تو نصف رات جاگا کرو اور نصف سویا کرو اور جب لمبی راتیں ہوں تو زیادہ حصہ رات کا جاگا کرو اور تھوڑا حصہ سویاکرو اور جب جاگو تو اسمیں قرآن کی تلاوت کیا کرو) اور قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کر۔ ہم تجھ پر ایک ایسا کلام اتارنے والے ہیں (جو ذمہ داری کے لحاظ سے) بڑا بوجھل ہے۔ رات کا اٹھنا نفس کو پیروں کے نیچے مسلنے میں سب سے کامیاب نسخہ ہے اور رات کے جاگنے والوں کو سچ کی عادت بھی پڑ جاتی ہے (یعنی اس عبادت کی وجہ سے اس کی روحانیت کامل ہو جاتی ہے اور وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے لگ جاتا ہے۔)
ان آیات کی تشریح میں جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ترجمہ محترم مولانا میر محمد سعید صاحب کا مرتب کردہ ہے لکھا ہے:
’’نِصْفَہٗ۔ تہجد۔ رات کی نماز۔ نِصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ مراد یا تو چھ بجے شام سے نو بجے رات تک اور پھر تین بجے سے چھ بجےتک تہجد، قرآن،تسبیح و تہلیل کا وقت ہے یا اڑھائی بجے سے نصف شب ہو جاتی ہے یعنی چھ گھنٹے۔ کیونکہ مغرب کے بعد سے نو بجے تک تین گھنٹے اور تین بجے سے چھے بجے تک یا اڑھائی بجے سے چھ بجے تک جملہ چھ گھنٹے ہوئے جو نصف شب ہوتی ہےیا چونکہ راتیں بڑھتی گھٹتی رہتی ہیں اس لئے متوسط رات میں نصف شب ہے اور چھوٹی راتوں میں نصف سے کم اور بڑی راتوں میں نصف سے زیادہ قیام کرنے کا ارشادہے اور چونکہ حکم قطعی نہیں بلکہ اَوْ کے ساتھ ارشاد ہوا ہے تو طبیعت کے نشاط و انشراح پر بھی اس قیام اللیل کا حوالہ کیا گیا ہے یعنی چھوٹی راتوں میں بحالت نشاط زیادہ قیام کر سکتا ہےکہ بڑی راتوں میں بحالت عدم نشاط کم اس نماز کو پڑھنے والے اور مداومت کرنے والے ہیں ایک حدیث میں حضور کی زبانی اَشْرَافُ اُمَّتِیْ کا خطاب پاتے ہیں شَرَفَ کے معنیٰ بلند درجہ کے ہیں یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص نہیں ہے جیسے عوام کا خیال ہے کیونکہ قرانی طرز اسی قسم کا ہے کہ کبھی مخاطب خاص اور بیان عام ہوتاہے جیسا سورۃ بنی اسرائیل لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ (بنی اسرائیل) میں مخاطب خواص آپ معلوم ہوتے ہیں اس تمام رکوع میں یہی طرز ہے کہ مراد عام ہے اور مخاطبات خاص تو تہجد سب ہی کو پڑھنا چاہئے اور مشکوٰۃ شریف وغیرہ میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قیامت کے دن سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے اور ایک پکارنے والا پکارے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنا بستر چھوڑ کر تہجد، صبح کی نماز کے لئے اٹھا کر تے تھے۔ وہ کھڑے ہو جائیں گے وہ تھوڑے ہی ہوں گے پس ان کو مل جائے گا حکم کہ تم بلا حساب جنت میں چلے جاؤ۔ اس کے بعد دوسروں کا حساب شروع ہو گا اور فرمایا رحمت اس شخص پر جو تہجد کے واسطے آپ بھی اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھاوے۔ اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی مارے اسی طرح عورت کرے۔‘‘
نماز تہجد کی فضلیت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر آتا ہے اور پکارتا ہے کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ کون مجھے سے سوال کرتا ہے کہ میں اسکا سوال پورا کروں۔ کون مجھ سے بخشش چاہتا ہے کہ میں اسے بخش دوں یہ طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نماز تہجد کی فضلیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّاَقۡوَمُ قِیۡلًا
(المزمل: 7)
کہ تہجد کے لئے بیدار ہونا ایسا مجاہد ہ ہے جو نفس کو دبانے،اس پر قابو پانے،اسے مسلنے کا کامیاب نسخہ ہے۔
حضرت مصلح الموعودؓفرماتے ہیں:
’’رات کو خدا تعالیٰ کے حضور گرے رہنے والوں کی روحانیت ایسی کامل ہو جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سچ کے عادی ہو جاتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ542)
خدا کےبرترو بالا افضل الرسل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا گیا:
وَ مِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا
(الدھر: 27)
اور رات کے وقت بھی اس کے سامنے سجدہ کیا کراور رات کو دیر تک اس کی تسبیح کیا کر۔
اس حکم خدا وندی کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے کیسے عمل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ یوں فرماتا ہے۔
اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَنِصۡفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ
(المزمل: 21)
(اے رسول) تیرا رب جانتا ہے کہ تودو تہائی رات سے کچھ کم نمازکے لئے کھڑا رہتا ہے اور کبھی کبھی نصف کے برابر اور کبھی ایک تہائی کے برابر اس طرح کچھ تیرے ساتھی بھی۔
صحابہ کی نماز تہجد کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا۔
کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ ﴿۱۸﴾ وَبِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾
(الذاریات:18۔19)
راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور صبح کے وقت بھی وہ استغفار کیا کرتے تھے۔
وَ الَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا
(الفرقان: 65)
مومن اور عباد الرحمان کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور وہ اپنے رب کیلئے راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
اسطرح فرماتا ہے۔
تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا
(السجدہ: 17)
ان (یعنی مومنوں) کے پہلو ان کے بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں (یعنی تہجد کیلئے) اور وہ اپنے رب کو اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے اور اس کی رحمت حاصل کرنے کیلئے پکارتے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’تہجد کی ادائیگی بھی عباد الرحمان کا شعار قرار دیا گیا ہے۔ اور بتا یا گیا ہے کہ انکی راتیں خراٹے بھرتے ہوئے نہیں گذرتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت اور عبادت میں گذرتی ہیں۔ وہ جسمانی تاریکی کو دیکھ کرڈرتے ہیں کہ کہیں ان پر روحانی تاریکی بھی نہ آجائے اور وہ دعاؤں اور استغفار اور انابت سےخدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر4 صفحہ542)
عام دنوں میں گھر وں میں رہتے ہوئے صحابہ ؓ تہجد ادا کیا ہی کرتے تھے۔ اور جب جنگوں میں جاتے تو دوران جنگ بھی تہجد کی ادائیگی فرض عین سمجھ کر ادا کرتے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
’’تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب روم کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تو رومی جرنیل نے اپنا ایک وفد مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا اور اس نے کہا کہ تم مسلمانوں کے لشکرکو جا کر دیکھو اور پھر واپس آکر بتاؤ کہ ان کی کیا کیفیت ہے وہ وفد اسلامی لشکر کا جائزہ لے کر واپس گیا تو اس نے کہاہم مسلمانوں کو دیکھ آئے ہیں وہ ہمارے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جن ہیں۔کیونکہ ہم نے دیکھا کہ وہ دن کو لڑتے ہیں اور رات کوتہجد پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہمارے سپاہی جو دن بھر کے تھکے مدندے ہوتے ہیں وہ تو رات کو شرابیں پیتے اور ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور جب ان کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو آرام سےسو جاتے ہیں مگر وہ لوگ کوئی عجیب مخلوق ہیں کہ دن کو لڑتے ہیں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اسکا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے لڑنا بے فائدہ ہے چنانچہ دیکھ لو اس ذکر الہیٰ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان سے ان کی مدد کے لئے اترا اور اس نے انہیں بڑی بڑی طاقتور حکومتوں پر غالب کر دیا عرب کی ساری آبادی ایک لاکھ اسی ہزار تھی مگر انہوں نے روم جیسے ملک سے ٹکر لے لی جس کی بیس کروڑ آبادی تھی۔ پھر انہوں نے کسریٰ کے ملک پر حملہ کر دیا اور اس کی آبادی بھی بیس تیس کروڑ تھی۔گویا پچاس کروڑ کی آبادی رکھنے والے ممالک پر ایک لاکھ اسی ہزار کی آبادی رکھنے والے ملک کا ایک حصہ حملہ آور ہوا۔ اور پھریہ ملک اتنے طاقتور تھے کہ ہندوستان بھی ان کے ماتحت تھا چین بھی ان کے ماتحت تھا اسی طرح ترکی آرمینیا، عراق اور عرب کے اوپر کے ممالک یعنی فلسطین اور مصر وغیرہ بھی ان کے ماتحت تھے۔ مگر باوجود اتنی کثرت کے مٹھی بھر مسلمان نکلے تو انہوں نے ان لوگوں کا صفایا کر دیا اور بارہ سال کے عرصہ میں ان کی فوجیں قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرائیں یہ فتوحات جو مسلمانوں کو حاصل ہوئیں صرف ذکر الہیٰ اور يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا کا نتیجہ تھیں۔‘‘
(تفسیر کبیرجلد4 صفحہ363۔364)
دوسروں کو تحریض
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے زمانہ مبارک میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے میں جنت میں جہاں جانا چاہتا ہوں وہ مجھے اڑا کر لے جاتا ہے اور میں نے دیکھا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھے دوزخ کی طرف لے جانے لگے کہ انہیں ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے مجھے کہاڈرو نہیں اور اس نے ان دونوں فرشتوں سے کہا کہ اسے چھوڑ دو۔ وہ لکھتے ہیں میں نے اپنا یہ خواب اپنی بہن حضرت حفصہؓ کو بتایا تو انہوں نے میرا یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
عبد اللہ بہت اچھا آدمی ہے اسے چاہئے کہ وہ رات کو تہجد بھی ادا کیا کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعدحضرت عبد اللہ بن عمرؓرات کو بہت کم سوتے تھے ایک روایت میں ہے کہ ہمیشہ رات کو نماز پڑھا کرتے تھے۔
(بخاری کتاب التہجد)
حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو میں لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ سے ملنے گیا تو آپﷺ کا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گیا۔ اَنَّ وَجْھَہٗ لَیْسَ بِوَجْہِ کذَّابٍ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہے۔ اس وقت آپﷺ نے نصیحت فرمائی۔ باہم سلام کیا کرو۔ لوگوں کو کھانا کھلایا کرو۔ صلہ رحمی کیاکرو۔
(سنن دارمی باب فضل صلاۃ اللیل، ترمذی: 2485)
سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں۔
ایک دفعہ رات کے وقت آپ ﷺ اپنے داماد حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے گھر گئے اور باتوں باتوں میں دریافت فرمایا کہ کیا تم تہجد بھی پڑھا کر تے ہو۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ یا رسول اللہ ﷺ! پڑھنےکی کوشش تو کرتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت کسی وقت آنکھ نہیں کھلتی تو نماز رہ جاتی ہے آپ ﷺ اِسی وقت اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور بار بار فرمایا وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (بخاری کتاب التہجد) آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اگر رات کو میاں کی آنکھ کھلے اور وہ تہجد کے لئے اٹھے تو اپنی بیوی کو بھی تہجد کے لئے جگائے اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے اور اگر بیوی کی آنکھ کھل جائے اور اس کا میاں جگانے کے باوجود نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکاسا چھینٹا دے۔ آپ ﷺ تہجد کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں اپنے بندوں کے قریب آجاتا اور ان کی دعاؤں کو ان کی نسبت بہت زیادہ قبول فرماتا ہے۔
(تفسیر کبیرجلد4 صفحہ543)
حضرت بلالؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
رات کو نماز تہجد کے لئے بیدار ہو ا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلی اقوام میں سے صالحین کا طریق ہے۔ رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی قربت عطا کرتا ہے۔ اور گناہوں سے روکتا ہے اور برائیوں کو مٹاتا ہے اور جسمانی تکالیف سے محفوظ کرتا ہے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبی ﷺ3549)
تہجد کے فوائد
نوافل کا انسان کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ نوافل کے ذریعہ جب انسان صِبْغَۃَ اللّٰہِ۔ اللہ کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ تو اللہ اسکا ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث نبوی ظاہر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک میں اس سب محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔
(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع 501)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
کہ جب کوئی شخص رات کو بیدار ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرتا ہے پھر وہ دونوں دو رکعت ادا کرتے ہیں تو اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والوں میں ان کا نام لکھا جاتا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ما جاء فیمن ایقظ اھلہ من اللیل 1335)
استاذی المکرم چوہدری محمد علی صاحب مضطر عارفی اپنے خوبصورت اشعار میں ادھی رات کو اٹھ کر خدا وند تعالیٰ کا درکھٹکھٹانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
جاگ اے شرمسار! آدھی رات
اپنی بگڑی سنوار آدھی رات
وہ جو بستا ہے ذرے ذرے میں
کبھی اس کو پکار آدھی رات
دو گھڑی عرض مدعا کرلے
وقت ہے سازگار آدھی رات
کھلتے کھلتے کھلے گا باب قبول
عرض کر بار بار آدھی رات
(اشکوں کے چراغ 405)
حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ نے کیا خوبصورت فرمایا ہے۔
اَفْلَحَ مَنْ یُعَالِجُ الْمَسَاجِدَ
وَ یَقْرَأُ الْقُرْانَ قَآئِمًا وَّقَاعِدًا
وَلَا یَبِیْتُ اللَّیْلَ رَاقِدًا
(سیرۃ النبیﷺ از علامہ شبلی نعمانی صفحہ182)
ترجمہ: کامیاب ہے وہ شخص جو مساجد تعمیر کرتا ہے۔ اور اٹھنے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور راتوں کو جاگتا ہے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ احباب جماعت کو نماز تہجد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’پینسٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر تو شاید ایک تعداد تہجد پڑھتی ہو اور انکو خیال بھی آجاتا ہو لیکن انصار کی جو ابتدائی عمر ہے اس میں بھی تہجد کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یقیناً ایک تعداد ہے جو تہجد کا التزام کرنے والی ہے۔ بلکہ خدام میں سے بھی ہیں لیکن انصار میں یہ تعداد اکثریت میں ہونی چاہئے‘‘
(سبیل الرشاد جلد4 صفحہ287)
سیدنا امام آخر الزمان حضرت مہدی معہود مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔۔۔۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو۔ کمزوریوں کو چھوڑدو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل بناؤ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ25 جدید ایڈیشن)
پھر فرمایا:
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں جو زیادہ نہیں وہ دو رکعت پڑھ لیں کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقعہ بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے۔ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے۔ جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں۔ کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے۔ لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی در داور غم نیند سے بھی بڑھکر ہے جو بیدار کر رہا ہے‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ182 جدید ایڈیشن)
تہجد کے لئے اٹھنے کے تیرہ طریق
بعض لوگ تہجد کے لئے اٹھنا بھی چاہتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ہم رات کو اٹھیں کیونکر۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1916ء کو جو تقریر ذکر الہیٰ کے عنوان سے فرمائی تھی آپ نے اس میں تیرہ طریق بتائے تھے جن سےرات کو اٹھنے میں مدد مل سکتی ہے میں انکو خلاصۃً یہاں درج کرتاہوں۔ (لیکن تفصیل جاننے کیلئے اور اصل لطف اٹھانے کے لئے اصل تقریر پڑھنی چاہئے)۔
عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ عرصہ ذکر کر لے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جتنا عرصہ وہ ذکر کرے گا صبح سےاتنا ہی قبل اس کی آنکھ ذکر کرنے کے لئے کھل جائے گی۔
عشاء کی نماز پڑھ لینے کے بعد کسی سے کلام نہ کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد بغیر کلام کئے سو جانا چاہئے۔
وضو کر کے چارپائی پر لیٹے۔
سونے لگے تو کوئی ذکر کر کے سوئے۔
سوتے وقت کامل ارداہ کر لیا جائے کہ تہجد کے لئے ضرور اٹھوں گا۔
وتروں کو عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تہجد کے وقت کے لئے رہنے دے۔جب یہ خیال ہو گا کہ وتر پڑھنے ہیں تو ضرور اٹھے گا اور جب اٹھے گا تو نفل بھی پڑھ لے گا۔
عشاء کی نماز کے بعد اتنی دیر نفل پڑھیں کہ نیند آجائےاس روحانی ورزش سے سویرے نیند کھل جائے گی۔
جن دنوں نیند زیادہ آئے اور وقت پر آنکھ نہ کھلے تو نرم بستر ہٹا دیا جائے۔
سونے سے کئی گھنٹے پہلے کھانا کھا لیا جائے۔
صفائی کی حالت میں سوئے۔ صفائی کی حالت میں سونے والوں کو ملائکہ جگا دیتے ہیں۔
بستر کی پاکیزگی روحانیت سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے اسکا خاص خیال رکھیں کہ بستر پاک صاف ہو۔
میاں بیوی ایک بستر میں نہ سوئیں۔
دل کو کینہ اور بغض سے پاک کر کے سوئیں روح پاک ہونے کی وجہ سے تہجد کے لئے اٹھنےکی توفیق مل جائے گی۔
(تقاریر محمود فرمودہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن صفحہ 38۔43)
تہجد کے لئے بیدار ہونے پر دعا
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ نبی کریمﷺ جب رات کو بیدار ہوتے تو نماز تہجد کا آغاز کیسے فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نےفرمایا۔ جب آپﷺ رات کو بیدار ہوتے تو نماز کے آغاز میں کہتے۔
اے اللہ! جبرائیل، میکائیل، اسرافیل کے رب۔ آسمانوں اور زمینوں کو بنانے والے، غیب اور ظاہر کا علم رکھنے والے تو اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ تو میرے حق سے متعلق جو اختلاف کیا گیا ہے اس بارے میں رہنمائی فرما کہ تو ہی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔
(سنن ترمذی کتاب الدعوات بابفی الدعاء عند افتتاح الصلٰوۃ اللیل 3420)
تہجد کے لئے بیدار ہونے کے بعد کی دعا
حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو یہ دعا کرتے۔
(بخاری کتاب التہجد بات التہجد باللیل)
ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز تہجد سے فارغ ہوئے۔ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا۔
اے اللہ! میں تجھ سے تیری ایسی رحمت کا طلبگا ر ہوں جس سے میرا دل ہدایت پا جائے /سیدھی راہ پر آجائے۔ اور اس کے ذریعے میرے معاملات مجتمع ہو جائیں اور اس کے ذریعےمجھے جمعیت حاصل ہو۔ اور اس سے میرے پوشیدہ معاملات کی اصلاح پزیرہو جائے اور میرا ظاہر رفعت پکڑ جائے اور میرے عمل پاکیزہ ہو جائیں اور تو مجھے الہام کر اور اس کے ذریعے میرے پیاروں کو متحد کر دے۔ اور مجھے ہر قسم کی برائی سے بچا۔اے اللہ! مجھے ایسا ایمان اور یقین عطا فرما جس کے بعدکفر نہ ہو اور ایسی رحمت جس کے ذریعے میں دنیا اور آخرت میں تیری کرامت کا شرف اور بزرگی کو پالوں۔اے اللہ! میں تجھ سےانجام کا ر کامیابی کا طلبگار ہوں اور شہداء کی مہمانی اور نیکوں کی زندگی اور دشمنوں کے خلاف مدد کا طلبگار ہوں۔اے اللہ! میں تیرے حضور! اپنی حاجت پیش کرتا ہوں اگرچہ میری عقل کوتاہ ہے اور عمل کمزورہیں پھر بھی میں تیری رحمت کا محتاج ہوں۔اے معاملات کا فیصلہ کرنے والے اور سینوں کو شفا دینے والے جیسے تو دو دریاؤں کو ملنے سے جدا رکھتا ہے میں تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے عذاب سعیر اور ہلاک کرنے والی دعا سے اور قبر کے فتنہ سے دور رکھیو۔اے اللہ! جو خیر میری عقل نہ سمجھ پائے اور اس تک میری نیت بھی نہ پہنچے اور میں اس خیر کا مطالبہ بھی نہ کر سکوں جس کا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی سے وعدہ کیا ہے یا ایسی خیر جیسے اپنے بندوں میں سے کسی کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میں تجھ سے اس کا طلبگار ہوں۔ اے رب العالمین میں اسے تیری رحمت کے وسیلے سے مانگتا ہوں۔ اے قوتوں کے اور اچھے کاموں کے مالک میں قیامت کے دن تجھ سے امن چاہتا ہوں اور جنت چاہتا ہوں۔ رکوع کرنے، عاجزی کرنے والوں، سجدہ کرنے والوں اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے والوں کے ساتھ یقیناًتو بار بار رحم فرمانے والا ہے۔ انتہائی محبت کرنے والا ہے اور تو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔اے اللہ! ہم کو ہدایت کرنے والے، ہدایت پانے والےبنا، گمراہ کرنے والے اورگمراہ ہونے والے نہ بنا۔ تیرے اولیاء کے لئے سلامتی کا موجب اور اپنے دشمنوں کو دشمن بنا۔ جو شخص تجھ سے محبت رکھتا ہے ہم تیری محبت کی وجہ سےاس سے محبت رکھیں اور محض تیری خاطر تیرے دشمن سے جو تیرا مخالف ہے دشمنی رکھیں۔اے اللہ! یہ میری دعا ہے اور تو ہی اسے قبول فرماسکتا ہے اور یہ میری کوشش ہے اور تجھ پر ہی بھروسہ ہے۔اے اللہ! میری قبر میں نور پیدا فرما اور میرے دل میں اور میرےآگے اور میرے پیچھے اور میرے دائیں اورمیرے بائیں اور میرے اوپر اور میرے نیچے اور میرے کانوں میں اور میری آنکھوں میں اور میرے بالوں میں اورمیرے چہرہ میں اورمیرے بدن میں اور میرے گوشت میں اور میرے خون میں اور میری ہڈیوں میں نور پیدا فرما۔اے اللہ میرا نور بڑھا دے اور مجھے نورعطا فرمااور مجھے نور بنادے۔پاک ہے وہ ذات جس نے عزت کی چادراوڑھی اور اس کے بارے میں فرمایا۔ پاک ہے وہ جس نے بزرگی کاجامہ اوڑھا۔اور اس کواپنے لئے خاص کیا۔ پاک ہے وہ جس کے سوا کوئی تسبیح کے لائق نہیں پاک ہے وہ ذات جو بڑے فضل والا ہے، نعمتوں والا ہے۔ پاک ہے وہ جوبزرگی والا اور عزت والا ہے۔پاک ہے وہ جو صاحب جلال اکرام ہے۔
(ترمذی کتاب الدعواۃباب ما جاء ما یقول اذا قام من اللیل الی الصلٰوۃ 3419)
تہجد کی رکعات
اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کبھی سات رکعت پڑھتے کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعت ادا فرماتے۔
(بخاری 1139)
آپ رات کے آغاز میں سو جاتے اور اخیر رات میں اٹھتے اور نماز ادا فرماتے۔ فرماتی ہیں آپﷺ نماز تہجد کبھی بیٹھ کر اداکرتے نہیں دیکھا۔ ہاں جب آپ ﷺ کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی تو بیٹھ کر تلاوت فرماتے جب، تیس،چالیس آیات رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے انکی تلاوت کرتے اور پھر رکوع میں جاتے۔
- اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُاَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰت ِوَالْاَرْضِ وَ مَنْ فِیْھِنَّوَلَکَ الْحَمْدُ
اے اللہ! تعریف کے لائق صرف تو ہی ہےآسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے انہیں تو ہی قائم رکھے ہوئے ہےاور تعریف تیرے لئے ہی ہے
- اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِوَلَکَ الْحَمْدُاَنْتَ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
توہی آسمانوں اور زمین کا نور ہےاور تعریف تیرے لئے ہی ہےآسمانوں اور زمین کا تو ہی بادشاہ ہے
- وَلَکَ الْحَمْدُاَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدَکَ الْحَقُّ وَلِقَآؤُکَ حَقٌّ
اور تعریف کے لائق صرف تو ہی ہےتو برحق ہے اور تیرا وعدہ بھی بر حق ہےاور تیری ملاقات برحق ہے
- وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَ النَّارُحَقٌّ
اور تیرا قول برحق ہےاور جنت برحق ہےاور دوزخ برحق ہے
- وَ النَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَ مُحَمَّدٌﷺ حَقٌّ وَ السَّاعَۃُ حَقٌّ
اور نبی برحق ہیںاور محمدﷺ برحق ہیںاور قیامت کا آنا برحق ہے
- اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُوَبِکَ اٰمَنْتُوَعَلَیْکَ تَوَّکَلْتُ
اے میرے اللہ! میں نے تجھے قبول کیاہےاور میں تجھ پر ایمان لایاہوںاور میں تجھ پر توکل کرتاہوں
- وَاِلَیْکَ اَنَبْتُوَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَکَمْتُ
اور تیری طرف ہی میں جھکتا ہوں اور میں تیری خاطر ہی جھگڑتا ہوں اور تیرے ہاں ہی فیصلہ کی غرض سے آتا ہوں
- فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَ مَآ اَخَّرْتُوَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُاَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَ اَنْتَ الْمُؤَخِّرُ
پس مجھے معاف فرما میرے اگلے پچھلے گناہ اور میرے چھپے گناہ اور میرے ایسے گناہ جو میں نے اعلانیہ کئے ہیںاول و آخر تو ہی ہے
- لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَاَوْ لَآ اِلٰہَ غَیْرُکَوَزَادَ عَبْدُ الْکَرِیْمِ اَبُوْاُمَیَّۃَ
تیرے سوا کوئی معبود نہیںیاتیرے علاوہ کوئی معبود نہیںعبد الکریم ابو امیہ نے اس دعا میں اضافہ کیا
- وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَاِلَّابِاللّٰہِ
یعنی اللہ کی مدد کے بغیر کسی گنا ہ سے بچنے اور کوئی نیکی بجا لانے کی ہم میں طاقت و قوت نہیں ہے
رسول اللہ ﷺ نماز میں لمبا قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ کے قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کے پاؤں یا کہا پنڈلیوں پر ورم آ جاتے جب آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپﷺاسقدر محنت اور مشقت اور تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا۔ اَفَلَآ اَکُوْنُ عَبْداً شَکُوْراً۔ کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔
(بخاری: 1130)
آپﷺ سجدے بھی بہت طویل فرماتے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ اتنا لمبا سجدہ فرماتے کہ تم میں سے کوئی شخص اس دوران پچاس آیات تلاوت کر سکتا ہے۔
(بخاری کتاب التھجد)
اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے ایک دفع پوچھا گیا کہ رمضان میں رسو ل اللہ ﷺ کی نماز تہجد کیسے ہوتی تھی؟
آپ نے فرمایا:
رسول اللہﷺ رمضان میں بھی اور رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعت پڑھتے یہ نہ پوچھو کہ وہ کیسی عمدہ اور کس قدر لمبی ہوتی تھیں۔ پھر چار رکعت اور پڑھتے نہ پوچھو کہ وہ کس قدرعمدہ اور کس قدر لمبی ہوتی تھیں پھر تین رکعت وتر ادا فرماتے۔
(بخاری کتاب التھجد باب قیام النبی ﷺ باللیل فی رمضان وغیرہ1147)
اندھیری راتوں کی دعاؤں سے پیدا ہونے والا انقلاب
رسول اللہ ﷺ کی ان اندھیری راتوں کی دعاؤں نے جو انقلاب پیدا کیا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس کا ذکر کر تے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزراکہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑگئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہیٰ معارف جاری ہوئےاور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ۔
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد4)
(قمر الدین قمر)