• 27 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ ستمبر 2019ء

خطبہ جمعہ سىّدنا امىر المومنىن حضرت مرزا مسرور احمد خلىفۃ المسىح الخامس اىّدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرمودہ 27؍ستمبر 2019ء بمطابق 27؍تبوک 1398 ہجرى شمسى بمقام جلسہ گاہ جماعت احمدىہ ہالىنڈ، نن سپىت (ہالىنڈ)

جلسے کا مقصد اىمان اور ىقىن مىں ترقى ہے

ىہ جلسے اس لىے منعقد کىے جاتے ہىں تا کہ بار بارہمىں اس بات کى ىاددہانى ہوتى رہے کہ ہمارى بىعت کا مقصد کىا ہے

اگر حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت کا حق ادا کرنا ہے تو اللہ تعالىٰ کى عبادت کا حق ادا کرنا ہو گا

اىمان اور ىقىن اور معرفت بڑھتى ہے تب ہى اللہ اور اس کے رسول کى محبت مىں اضافہ ہوتا ہے

’’خوش حالى کا اصول تقوىٰ ہے‘‘

عقل مندى کا تقاضا تو ىہى ہے کہ ان تىن دنوں کو اىک ٹرىننگ کىمپ کے طور پر سمجھا جائے

ہمىشہ ىاد رکھىں ىہ تعداد مىں اضافہ ىا مشن اور سىنٹرز بنانا ىامسجد تعمىر کرنا اسى وقت فائدہ دىتا ہے جب ان کے مقاصد کو پورا کىا جائے

ہر احمدى کو جو ان پابندىوں سے آزاد ہو کر زندگى گزار رہا ہے جو ان کو پاکستان مىں تھىں

خاص طور پر اس وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالىٰ کا شکر گزار ہونا چاہىے اورحضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت مىں آنے کا حق ادا کرنے کى بھرپور کوشش کرنى چاہىے۔

اپنى روحانى علمى اور اخلاقى حالت کو بہتر کرنے کى کوشش کرنى چاہىے

اللہ تعالىٰ اور اس کے رسول کى ہر بات کو اپنے ہر معاملے مىں تب ہى رہ نما بناىا جا سکتا ہے جب حقىقى محبت ہو

ىہ کوئى معمولى بات نہىں ہے کہ دنىا کى محبت بالکل نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کى محبت اس پر غالب آ جائے۔ اس کے لىے بڑى جدو جہد کى ضرورت ہے

جلسہ سالانہ کے مقاصد پورا کرنے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کى محبت مىں حقوق اللہ اور حقوق العباد کى بجا آورى کرتے ہوئے حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کى بىعت کے تقاضے پورے کرنے کى تلقىن

انتالىسوىں جلسہ سالانہ ہالىنڈ کا افتتاح

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج اللہ تعالىٰ کے فضل سے جماعت احمدىہ ہالىنڈ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور کئى سال بعد مجھے بھى اللہ تعالىٰ توفىق دے رہا ہے کہ آپ کے جلسے مىں شامل ہوں۔ گذشتہ کئى سال سے امىر صاحب جلسے پر آنے کا کہتے رہے مگر دوسرى جماعتى مصروفىات کى وجہ سے باوجود خواہش کے ىہ ممکن نہىں ہو سکا۔ بہرحال اللہ تعالىٰ کا فضل ہے کہ وہ مجھے آج اس جلسے مىں شامل ہونے کى توفىق عطا فرما رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں مىں ہالىنڈ مىں جماعت کى تعداد مىں اضافہ ہوا ہے،3/1 تو اضافہ ىقىناً ہوا ہے۔ بہت سے لوگ پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہىں، کچھ نئے لوگ بھى جماعت مىں شامل ہوئے ہىں ۔بہرحال دنىا کى دوسرى جماعتوں کى طرح ہالىنڈ کى جماعت بھى اپنى جو ان کى تعداد تھى ىا جو ان کے وسائل تھے اس لحاظ سے ترقى کر رہى ہے۔ لٹرىچر وغىرہ کى اشاعت بھى اب ىہاں بہتر طرىقے پر ہو رہى ہے۔ نئے سىنٹر اور اىک مسجد بھى جماعت کو ملى ہے۔ ابھى مىں نے دىکھى تو نہىں لىکن لوگوں سے المىرے کى مسجد کى خوب صورتى کى تعرىف سنى ہے کہ آپ لوگوں نے بڑى اچھى مسجد بنائى ہے۔ ان شاء اللہ تعالىٰ اگلے ہفتے اس کا افتتاح ىعنى رسمى افتتاح بھى ہو گا۔و ىسے تو وہاں نمازىں پڑھى جا رہى ہوں گى اور پڑھى جا رہى ہىں۔ لىکن ہمىشہ ىاد رکھىں ىہ تعداد مىں اضافہ ىا مشن اور سىنٹرز بنانا ىا مسجد تعمىر کرنا اسى وقت فائدہ دىتا ہے جب ان کے مقاصد کو پورا کىا جائے۔ پس ىہاں رہنے والے ہر احمدى کو اپنے جائزے لىنے کى ضرورت ہے اور اس بات کى ضرور ت ہے کہ دىکھے اور تلاش کرے کہ وہ کىا مقاصد ہىں جو ہم نے حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت مىں آ کر پورے کرنے ہىں۔

جىسا کہ مىں نے کہا کہ ان پچھلے چند سالوں مىں بہت سے احمدى ہجرت کر کے ىہاں آئے ہىں اور ىہاں جماعت کى تعداد مىں بھى اضافہ ہوا ہے۔ کىوں ہجرت کر کے آئے ہىں؟ اس لىے کہ خاص طور پر پاکستان مىں احمدىوں کو مذہبى آزادى نہىں ہے، احمدىوں کو مذہب کے نام پر تنگ کىا جاتا ہے، ان کے حقوق سلب کىے جاتے ہىں اس لىے کہ انہوں نے زمانے کے امام کو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى پىش گوئى اور حکم کے مطابق مانا ہے۔ ہمىں اللہ تعالىٰ کا نام لىنے اور اس کى عبادت کرنے سے اس لىے روکا جاتا ہے کہ ہم آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے عاشقِ صادق کى بىعت مىں کىوں آئے ہىں۔ مسجدىں بنانا تو اىک طرف ہمىں اپنے لوگوں کى تربىت کے لىے جلسے اور اجتماع کرنے سے بھى روکا جاتا ہے بلکہ گھروں مىں بھى قانون کى رُو سے ہم نمازىں نہىں پڑھ سکتے۔ عىدِ قربان پر ہم جانوروں کى قربانى نہىں کر سکتے بلکہ قانون اس کى اجازت نہىں دىتا۔اس پر بھى مقدمے ہو جاتے ہىں اور اس لىے بھى کہ نام نہاد علماء اور ان کے چىلوں کے جذبات مجروح ہوتے ہىں۔ پس اىسے حالات مىں بہت سے احمدى پاکستان سے ہجرت کر کے دوسرے ممالک جہاں مذہبى آزادى ہے چلے جاتے ہىں، ہجرت کر گئے ہىں۔

آپ مىں سے بھى جو ىہاں ہجرت کر کے آئے ہىں انہىں ىہاں مذہبى آزادى بھى ہے اور مالى اور معاشى لحاظ سے بھى اپنى حالتوں کو بہتر کرنے کے مواقع بھى ملے ہىں۔پس ہر احمدى کو جو ان پابندىوں سے آزاد ہو کر زندگى گزار رہا ہے جو ان کو پاکستان مىں تھىں خاص طور پر اس وجہ سے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالىٰ کا شکر گزار ہونا چاہىے اور حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت مىں آنے کا حق ادا کرنے کى بھرپور کوشش کرنى چاہىے۔ اپنى روحانى ،علمى اور اخلاقى حالت کو بہتر کرنے کى کوشش کرنى چاہىے۔ اس بات پر ہى خوش نہىں ہو جانا چاہىے کہ ہم آزاد ہىں اور کوئى اىسى پابندى ہم پر نہىں ہے جو ہمىں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکے۔ اگر ہمارے عمل اللہ تعالىٰ کے حکموں کے مطابق نہىں، اگر ہم نے اپنے اندر پاک تبدىلىاں پہلے سے بڑھ کر پىدا کرنے کى کوشش نہىں کى اور اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولؐ کى محبت کے اظہار پہلے سے بڑھ کر ہم سے ظاہر نہىں ہو رہے تو اس آزادى کا کىا فائدہ ہے، ان جلسوں مىں شامل ہونے کا کىا فائدہ؟ ىہ مساجد کى تعمىر کرنے کا کىا فائدہ ہے؟ حقىقى فائدہ تو ہمىں اس آزادى کا تب ہى ہو گا جب ہم بىعت کا حق ادا کرىں۔

حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے ان جلسوں کے انعقاد کا اعلان بھى اللہ تعالىٰ سے اِذن پا کر فرماىا تھا اور اس لىے فرماىا تھا کہ ان جلسوں کى وجہ سے ہم مىں پاک تبدىلىاں پىدا ہوں، ہم دىن کو دنىا پر مقدم کرنے والے بنىں اور اس کا صحىح فہم اور ادراک ہمىں حاصل ہو۔ ہم اللہ تعالىٰ اور اس کے رسول صلى اللہ علىہ وسلم کى محبت اپنے دلوں مىں پىدا کرنے والے ہوں۔ اپنى روحانى ، اخلاقى اور علمى حالت بہتر کرنے والے ہوں اور اس کے لىے ہر ممکن کوشش کرىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام اىک جگہ جلسے کے مقاصد کو بىان فرماتے ہوئے فرماتے ہىں اور اپنى بىعت  مىں آنے والوں کو نصىحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں کہ ’’تمام مخلصىن داخلىن سلسلہ بىعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بىعت کرنے سے غرض ىہ ہے کہ تا دنىا کى محبت ٹھنڈى ہو۔ اور اپنے مولىٰ کرىم اور رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کى محبت دل پر غالب آ جائے اور اىسى حالت انقطاع پىدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔‘‘

(آسمانى فىصلہ، روحانى خزائن جلد 4 صفحہ 351)

پس بڑا واضح ارشاد ہے کہ مىرى بىعت مىں آ کر صرف زبانى دعوے تک نہ رہو بلکہ مخلصىن مىں شامل ہو جاؤ اور اخلاص اور وفا مىں اس وقت ترقى ہو سکتى ہے جب اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کى محبت سب محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس لىے شرائطِ بىعت مىں بھى آپ نے ىہ شرط رکھى ہے کہ بىعت کرنے والا قال اللہ اور قال الرسولؐ کو ہر معاملے مىں دستور العمل قرار دے گا (ماخوذ از ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانى خزائن جلد3 صفحہ564)۔ اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولؐ کى ہر بات کو اپنے ہر معاملے مىں تب ہى رہ نما بناىا جا سکتا ہے جب حقىقى محبت ہو۔ پس ىہ جلسے اس لىے منعقد کىے جاتے ہىں تا کہ بار بار ہمىں اس بات کى ىاددہانى ہوتى رہے کہ ہمارى بىعت کا مقصد کىا ہے۔ ىہ کوئى معمولى بات نہىں ہے کہ دنىا کى محبت بالکل نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کى محبت اس پر غالب آ جائے۔ اس کے لىے بڑى جدو جہد کى ضرورت ہے۔ اور جب ہم نے عہدِ بىعت کىا ہے تو ىہ جد و جہد کرنى چاہىے اور کرنى پڑے گى۔ ہمىں اپنے دنىاوى کاروبار اپنى عبادتوں کے لىے قربان کرنى پڑىں گے۔ دنىاوى مصروفىات اللہ تعالىٰ کے حق ادا کرنے کے لىے قربان کرنے پڑىں گى۔ جو چىز ہمىں اللہ تعالىٰ کے قرب سے روکتى ہے اس سے بچنا ہو گا۔ اگر ہمارى ملازمتىں، ہمارى تجارتىں اللہ تعالىٰ کا حق ادا کرنے سے روکتى ہىں تو ہمىں حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى جماعت مىں رہنے کے لىے ان برائىوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا، ان روکوں کو دُور کرنا ہو گا۔ اسى طرح اگر ہمارى انائىں، ہمارى نام نہاد دنىاوى عزتىں اور شہرتىں، ہمارى خود غرضانہ سوچىں اور عمل حقوق العباد ادا کرنے سے روک رہى ہىں تو ىہ بھى اللہ تعالىٰ کے حکم کى نافرمانى ہے۔ حقوق العباد ادا کرنے کا بھى اللہ تعالىٰ نے حکم فرماىا ہے اور ىہ نافرمانى کر کے ہم حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى جماعت مىں رہنے کے مقصد کو پورا نہىں کر رہے۔

پھر جس بات کى طرف آپؑ نے توجہ دلائى ہے وہ ہے رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم سے محبت۔ آپؑ نے واضح فرماىا کہ رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم سے محبت تمام انسانوں سے محبت سے زىادہ ہونى چاہىے، ان سب پر حاوى ہونى چاہىے کىونکہ خدا تعالىٰ تک اب رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے ذرىعے سے ہى پہنچا جا سکتا ہے۔ آپؐ کے حکموں پر عمل کر کے اور آپؐ کى سنت پر چل کر ہى خدا تعالىٰ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دعاؤں کى قبولىت اور انجام بخىر ہونے کا وسىلہ اب آپ صلى اللہ علىہ وسلم ہى ہىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہىں کہ

’’دىکھو اللہ تعالىٰ قرآن شرىف مىں فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّهُ (اٰلِ عمران: 32)‘‘ ىعنى کہہ دے اے لوگو! اگر تم اللہ تعالىٰ سے محبت رکھتے ہو تو مىرى اتباع کرو تو اس صورت مىں وہ بھى تم سے محبت کرے گا ىعنى اللہ تعالىٰ بھى محبت کرے گا اُس وقت جب تم رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کى پىروى کروگے، ان کى سنت پر عمل کرو گے، ان کے حکموں کو بجا لاؤ گے۔ حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں کہ ’’خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى پىروى ہى اىک راہ ہے اور کوئى دوسرى راہ نہىں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مدعا صرف اس اىک واحد لاشرىک خدا کى تلاش ہونا چاہىے۔‘‘ ىہى مقصد ہونا چاہىے کہ ہم نے صرف واحد اور لاشرىک خدا کى تلاش کرنى ہے کسى اَور چىز کى تلاش نہىں کرنى، کسى اَور کو اللہ کے مقابلے پر کھڑا نہىں کرنا۔ فرماىا ’’شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہىے، رسوم کا تابع اور ہوا و ہوس کا مطىع نہ بننا چاہىے۔‘‘  فرماىا ’’دىکھو مَىں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى سچى راہ کے سوا اَور کسى طرح انسان کامىاب نہىں ہو سکتا۔‘‘آپؑ فرماتے ہىں کہ ’’ہمارا صرف اىک ہى رسولؐ ہے اور صرف اىک ہى قرآن شرىف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کى تابعدارى سے ہم خدا کو پا سکتے ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 124-125)

فرماىا تم ىاد رکھو کہ قرآن شرىف اور رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے فرمان کى پىروى اور نماز روزہ وغىرہ جو مسنون طرىقے ہىں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کى اَور کوئى کنجى ہے ہى نہىں۔ ىہى اىک راستہ ہے کوئى اور دوسرا راستہ نہىں۔ پس ان برکات کو حاصل کرنے کے لىے رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم سے محبت اور اس محبت کى وجہ سے آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے حکموں پر چلنا بھى ضرورى ہے۔ اگر ىہ نہىں تو حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے واضح فرما دىا کہ پھر مىرى بىعت بھى بے فائدہ ہے۔ تمہارا ىہاں جلسوں پر جمع ہونا بھى بے فائدہ ہے۔ آپ علىہ السلام نے فرماىا مَىں تو اللہ تعالىٰ کے اس محبوب کا عاشق ہوں۔ پس اگر تم مىرى بىعت مىں رہنا چاہتے ہو تو لازما ً تمہىں بھى مىرے محبوب سے محبت کرنى ہو گى۔

پھر فرماىا اپنے اندر حالتِ انقطاع پىدا کرو ىعنى اىسى حالت پىدا کرو جو دنىا کے لہو و لعب اور چکا چوند سے تمہىں علىحدہ کر دے۔ تمہارا ہر عمل اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کے احکام کے تابع ہو جائے۔ ىقىناً دنىا کمانا اور دنىا کے کام اور کاروبار کرنا ىہ منع نہىں ہے، خدا تعالىٰ نے ہى ان کا حکم دىا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علىہم ىہ کام کىا کرتے تھے، وہ بھى کاروبار کرتے تھے ،تجارتىں کرتے تھے، ان کے بڑے بڑے کاروبار تھے۔ وہ بھى لاکھوں اور کروڑوں کے کاروبار کرتے تھے اور لىن دىن کرتے تھے اور لاکھوں اور کروڑوں کى جائىداد کے مالک تھے لىکن اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولؐ کى محبت ان پر غالب تھى اور وہ ہر وقت اس فکر مىں رہتے تھے کہ ہم نے اللہ تعالىٰ کى عبادت کے حق بھى ادا کرنے ہىں اور رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے حکموں کى پىروى بھى کرنى ہے۔ انہىں ىہ فکر ہوتى تھى کہ ہم سے کوئى اىسا فعل سرزد نہ ہو جائے جس سے ہمارا محبوب ہم سے ناراض ہو۔ آج کل مىں خطبات مىں صحابہ کا ذکر کرتا ہوں۔ بہت سارے صحابہ کى مثالىں ملتى ہىں کىسى ان کى عبادتىں تھىں، کىسا ان کا آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى اطاعت کا معىار تھا، آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے لىےکس محبت کے ان کے جذبات تھے ۔ پس انہىں ىہ فکر ہوتى تھى کہ ہمارے سے اىسا کوئى فعل سرزد نہ ہو جائے جو ہمارے محبوب کو ہم سے ناراض کر دے۔ پس ہمارے ذہنوں مىں بھى ىہ بات رہنى چاہىے کہ تمام تر دنىاوى مصروفىات کے باوجود ہم نے اللہ تعالىٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت مىں کمى نہىں آنے دىنى۔ ان شاء اللہ ۔اور اس کے لىے حتى المقدور اللہ تعالىٰ اور کے رسول کے حکموں پر عمل کرنے کى کوشش کرنى ہے اور اپنى حالتوں کو بہتر کرنے کے لىے اورجلسے کے روحانى ماحول سے فىض اٹھانے کے لىے اور اپنى عملى حالتوں مىں بہترى لانے کے لىے ہى ہم ان تىن دنوں کے لىے جمع ہو ئے ہىں۔

پس ىہ ہمىشہ خىال رکھنا چاہىے اور ىہى ہمارى سوچ ہونى چاہىے کہ ہمارے ىہاں تىن دن جمع ہونے کا مقصد کىا ہے۔ ىہى کہ اس روحانى ماحول سے فىض اٹھائىں، اپنى عملى حالتوں مىں بہترى لانے کى کوشش کرىں اور اپنى برائىوں کو دور کرىں، ان دنوں مىں عبادتوں کے ساتھ ساتھ ذکرِ الٰہى اور استغفار کى طرف ہم توجہ دىں۔ اگر ہمارى ىہ سوچ نہىں تو ہمارا جلسے پر آنا فضول ہے۔ عقل مندى کا تقاضا تو ىہى ہے کہ ان تىن دنوں کو اىک ٹرىننگ کىمپ کے طور پر سمجھا جائے اور ہمارى عملى حالتوں مىں جو کمىاں ہو گئى ہىں اور ہو جاتى ہىں جب انسان اىک ماحول سے باہر نکلتا ہے تو انہىں دور کرنے کى کوشش کرىں۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام اىک جگہ جلسے کے فوائد بىان کرتے ہوئے فرماتے ہىں کہ

’’حتى الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربّانى باتوں کے سننے کے لىے اور دعا مىں شرىک ہونے کے لىے اس تارىخ پر آ جانا چاہىے‘‘ اور فرماىا ’’اور اس جلسہ مىں اىسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو اىمان اور ىقىن اور معرفت کو ترقى دىنے کے لىے ضرورى ہىں۔‘‘

(آسمانى فىصلہ، روحانى خزائن جلد 4 صفحہ 351-352)

پس جلسے کا مقصد اىمان اور ىقىن مىں ترقى ہے، معرفت مىں بڑھنا ہے۔ آپؑ نے اىک موقعے پر ىہ بھى فرماىا کہ ىہ دنىاوى مىلوں کى طرح کا مىلہ نہىں ہے۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانى خزائن جلد6 صفحہ395) کہ ہم اکٹھے ہو گئے اور شور و غل کر دىا اور جمع ہو گئے اور اپنى تعداد ظاہر کر دى ۔ىہ تو مقصد نہىں ہے۔ پس جلسے پر آنے والے ہر شخص کو ،مرد کو بھى، عورت کو بھى، جوان کو بھى، بوڑھے کو بھى اس طرف توجہ رکھنى چاہىے کہ اس کا اىمان اور ىقىن اور معرفت بڑھے تا کہ خد ااور اس کے رسول کى محبت مىں اضافہ ہو۔ اىمان اور ىقىن اور معرفت بڑھتى ہے تب ہى اللہ اور اس کے رسولؐ کى محبت مىں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالىٰ کے مقام اور رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کے مقام کى پہچان ہى ہمىں نہىں ہے، اگر اللہ تعالىٰ کى ہستى کا ہمىں ىقىن ہى نہىں ہے تو معرفت کس طرح، ترقى کس طرح ہو سکتى ہے۔ اس معرفت مىں بڑھنے سے ہى اىمان مىں ترقى ہو گى۔

پس ہمىں ىہ نہىں سمجھنا چاہىے کہ ہم صرف رونق کے لىے اىک جگہ جمع ہو گئے ہىں اور اِدھر اُدھر کى باتىں کرنے مىں وقت گزار کر ہم چلے جائىں۔ اگر ىہ سوچ ہے تو جىسا کہ مىں نے پہلے بھى کہا کہ پھر جلسے پر آنا بے فائدہ ہے۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام نىکىوں کے بجا لانے کى طرف توجہ دلاتے ہوئے جن مىں وہ نىکىاں بھى ہىں جو اللہ تعالىٰ کے حقوق ادا کرنے کے لىے ہىں اور وہ نىکىاں بھى ہىں جو اللہ تعالىٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لىے ہىں فرماتے ہىں کہ

’’نىکى کو محض اس لىے کرنا چاہىے کہ خدا تعالىٰ خوش ہو اور اس کى رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کى تعمىل ہو قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو ىا نہ ہو۔‘‘ پس ىہ ہے حقىقى محبت کا فلسفہ کہ اللہ تعالىٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کرىں جس مىں عبادتىں بھى شامل ہىں اور اللہ تعالىٰ کے بندوں کے حقوق بھى شامل ہىں اور ان حکموں پر عمل اس لىے نہىں کرنا کہ اس کے بدلے مىں خدا تعالىٰ ہمىں اجر دے گا، کوئى ثواب ہو گا۔ ہاں اللہ تعالىٰ کسى نىک عمل کو بغىر اجر کے نہىں جانے دىتا، ضرور اجر دىتا ہے۔ حقىقى اىمان کا تقاضا ىہ ہے جىسا کہ آپؑ نے فرماىا کہ نىکى صرف اس لىے نہىں کرنى کہ ہمىں کچھ ملے بلکہ اس لىے کرنى ہے کہ ہمارے خدا کا حکم ہے کہ ىہ نىکىاں کرو۔ آپؑ فرماتے ہىں ’’اىمان تب ہى کامل ہوتا ہے جبکہ ىہ وسوسہ اور وہم درمىان سے اٹھ جاوے۔‘‘ اجر ملے گا کہ نہىں ملے گا اس قسم کى سوچوں مىں نہ پڑ جاؤ۔ اگر ىہ سوچىں ہىں تو اىمان کامل نہىں ہو سکتا ۔ فرماىا کہ ’’اگرچہ ىہ سچ ہے کہ خدا تعالىٰ کسى کى نىکى کو ضائع نہىں کرتا ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (التوبہ: 120)‘‘ کہ اللہ تعالىٰ محسنوں کا اجر کبھى ضائع نہىں کرتا۔ فرماىا ’’مگر نىکى کرنے والے کو اجر مدّنظر نہىں رکھنا چاہىے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 371-372)

پس حقىقى نىکى ىہى ہے کہ بغىر کسى لالچ کے ىا انعام کے کى جائے اور اس اصول کو سامنے رکھ کر ہم بندوں سے بھى حسنِ سلوک کرىں، اىک دوسرے کے حق ادا کرنے کى کوشش کرىں اور اس لىے کرىں کہ اللہ تعالىٰ کا حکم ہے کہ اىک دوسرے سے حسنِ سلوک کرو۔ رسولِ مقبول صلى اللہ علىہ وسلم کا حکم ہے، آپؐ کى سنت ہے، آپؐ کے ارشادات ہىں کہ اىک دوسرے کے حق ادا کرنے کى کوشش کرو اور اعلىٰ اخلاق دکھاؤ تو چاہے بندوں سے اس کا بدلہ ملے ىا نہ ملے، اللہ تعالىٰ ضرور اس نىکى کا بدلہ دىتا ہے۔ پس جب ہمارا خدا اىسا سلوک ہم سے کرتا ہے تو کس قدر بڑھ کر ہمارى ىہ ذمے دارى بنتى ہے کہ اس کى رضا کے لىے ہم ان تمام باتوں پر عمل کرىں جن کے کرنے کا ہمىں حکم دىا گىا ہے اور اُن تمام برائىوں سے بچىں جن سے بچنے کا ہمىں اس نے ہمىں حکم دىا ہے۔

ىہاں آ کر، ان ملکوں مىں آ کر، ترقى ىافتہ ملکوں مىں آ کر ہمىں اپنى حالتوں اور آزادى کے نام پر، ہر قسم کى لغوىات مىں پڑنے والے ماحول مىں آ کر ہمىں اپنى حالتوں پر نظر رکھنے کى بہت زىادہ ضرورت ہے۔ بعض دفعہ کشائش نىکىوں کے کرنے مىں ر وک بن جاتى ہے۔ حالات بہتر ہوتے ہىں، آدمى اپنے ماضى کو بھول جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہىں کہ فلاں دنىاوى کام اگر ہم نے نہ کىا تو ہمىں نقصان ہو جائے گا لىکن اللہ تعالىٰ فرماتا ہے کہ رزق دىنے والا مىں ہوں۔ پس ىہ بات عموماً دنىا دار مىں دىکھنے مىں آتى ہے کہ وہ اس طرف توجہ دىتا ہے کہ نقصان نہ مجھے ہو جائے اور اللہ کے حق ادا نہىں کرتا اور اس بات مىں بدقسمتى سے ہم مىں سے بھى بعض لوگ شامل ہىں کہ اپنى نمازوں کو اپنے کاموں کے لىے قربان کر دىتے ہىں۔ نماز کا وقت آىا، دوسرى طرف کام ہے تو نماز چھوڑ دى ىا نماز بعض دفعہ بعد مىں جمع کر کے پڑھ لى ىا بعض دفعہ پڑھتے ہى نہىں ، بھول جاتے ہىں لىکن دنىاوى کام نہىں چھوڑتے تو اس سے بچنے کى ہمىں کوشش کرنى چاہىے۔ ىا پھر اىسى جلدى جلدى نمازىں پڑھتے ہىں کہ جس طرح اىک فرض ہے جو گلے سے اتارنا ہے جىسا کہ مىں نے پہلے بھى کہا کہ ىہ اللہ تعالىٰ سے محبت نہىں ہے ،ىہ تو اس دنىا سے محبت کا اظہار ہے۔ پس اگر حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت کا حق ادا کرنا ہے تو اللہ تعالىٰ کى عبادت کا حق ادا کرنا ہو گا۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام نے اس طرف ہمىں توجہ دلائى کہ اس حقىقت کو سمجھو کہ عبادت اللہ تعالىٰ کى محبتِ ذاتى سے رنگىن ہو کر کى جائے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ107)

ىہ اصل چىز ہے۔ اللہ تعالىٰ کى عبادت کرو اور فرض سمجھ کے نہ سر سے ٹالو بلکہ فرض مىں محبتِ ذاتى ہو جائے اور اس سے رنگىن ہو کر ىہ عبادت کى جائے اور جب ذاتى محبت سے عبادت ہو گى پھر دنىاوى غرضىں سب ختم ہو جائىں گى۔ پھر دىن کو دنىا پر مقدم کرنے کى حقىقت ظاہر ہو گى اور جب دنىاوى غرضىں ختم ہو جائىں گى تو خدا پھر اىسے اىسے ذرائع سے رزق دے گا کہ انسان کے وہم و گمان مىں بھى نہىں ہوتا۔ جىسا کہ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۔ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ  (الطَّلَاق: 4،3) جو شخص اللہ تعالىٰ کا تقوىٰ اختىار کرتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا جو شخص اللہ کا تقوىٰ اختىار کرتا ہے اللہ تعالىٰ اس کے لىے کوئى نہ کوئى اىسى راہ ،راستہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے رزق آنے کا خىال بھى نہىں ہو گا۔حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام اس کى وضاحت مىں فرماتے ہىں کہ پس خوش حالى کا اصول تقوىٰ ہے۔ پھر فرماىا  ىہ بالکل سچ ہے کہ خدا تعالىٰ اپنے بندوں کو ضائع نہىں کرتا اور ان کو دوسروں کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوظ رکھتا ہے، ہاتھ پھىلانے سے محفوظ رکھتا ہے۔ فرماىا مىرا تو اعتقاد ہے کہ اگر اىک آدمى باخدا اور سچا متقى ہو تو اس کى سات پشت تک بھى خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ245)

 اور ان کى حفاظت فرماتا ہے سوائے اس کے کہ خود کوئى بدقسمتى سے اپنے اىسے اعمال کر لے جو اللہ تعالىٰ کے فضل سے محروم ہو جائے۔ آپؑ فرماتے ہىں کہ
’’انسان کو چاہىے کہ سارى کمندوں کو جلا دے۔‘‘ جو بھى وسىلے ہىں، جو بھى کمندىں ہىں ان سب کو جلا دو ’’اور صرف محبتِ الٰہى ہى کى کمند کو باقى رہنے دے۔‘‘ صرف اىک وسىلہ ہو، اىک کمند ہو، اىک ذرىعہ سمجھو جس سے تم سب کچھ حاصل کر سکتے ہو اور وہ ہے محبت الٰہى کى کمند۔ آپؑ فرماتے ہىں ’’……سچ ہے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر فرماتے ہىں ’’……اىسے بنو کہ تا تم پر خدا تعالىٰ کى برکات اور اس کى رحمت کے آثار نازل ہوں۔‘‘ فرماتے ہىں ’’…… وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلى دنىا ہى کے لذائذ اور حظوظ ہىں اس کى عمر کىا فائدہ بخش ہو سکتى ہے؟‘‘ جس کا مقصد ہى ىہ ہے کہ مجھے عمر مل جائے اور اس دنىا کى آسائشىں اور لذتىں مجھے حاصل ہو جائىں اس کا فائدہ کىا ہے۔ ’’اس مىں تو خدا کا حصہ کچھ بھى نہىں۔ وہ اپنى عمر کا مقصد صرف عمدہ کھانے کھانے اور نىند بھر کے سونے اور بىوى بچوں اور عمدہ مکان کے ىا گھوڑے وغىرہ رکھنے ىا عمدہ باغات ىا فصل پر ہى ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پىٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔‘‘ اىسا شخص اللہ تعالىٰ کا بندہ نہىں ہے اور اس کى عبادت کرنے والا نہىں ہے بلکہ بندہ کہلا ہى نہىں سکتا بلکہ وہ تو صرف اپنى ذاتى اغراض کى عبادت کر رہا ہے۔ اس کو تو ىہ غرض ہے کہ مىرى جائىداد ہو، مىرى دولت ہو، مىرے گھر ہوں، مىرے پاس کارىں ہوں، پہلے گھوڑے رکھے جاتے تھے، گھوڑوں کى مثالىں دى ہىں، آج کل کاروں کى مثالىں ہىں، اچھى اچھى قسم کى کار ہو۔ ىہ تو صرف مقصد نہىں ہے۔ ہاں اللہ تعالىٰ نے نعمتىں دى ہىں ان سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہىے لىکن ىہ مقصد نہ ہو۔ اگر صرف ىہى مقصد ہے تو پھر فرماىا وہ تو صرف ان چىزوں کا ہى بندہ ہے اور ان کى عبادت کرتا ہے اور اىسا شخص اللہ تعالىٰ کا بندہ اور اس کى عبادت کرنے والا نہىں کہلا سکتا۔ پھر بلکہ وہ اپنے ذاتى اغراض کى عبادت کر رہا ہے۔ فرماىا ’’اس نے تو اپنا مقصود و مطلوب اور معبود صرف خواہشاتِ نفسانى اور لذائذ ِحىوانى ہى کو بناىا ہوا ہے۔‘‘ ىہى اس کى خواہشات ہىں۔ ’’مگر خدا تعالىٰ نے انسان کے سلسلۂ پىدائش کى علّتِ غائى‘‘ اس کا بنىادى مقصد ’’صرف اپنى عبادت رکھى ہے۔‘‘ جىسا کہ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذارىات: 57) ‘‘اور مىں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنى عبادت کے لىے پىدا کىا ہے۔ پس فرماتے ہىں ’’پس حصر کر دىا ہے۔‘‘ ىہاں فىصلہ کر دىا، پابند کر دىا ’’کہ صرف عبادتِ الٰہى مقصد ہونا چاہىے اور صرف اسى غرض کے لىے ىہ سارا کارخانہ بناىا گىا ہے۔ برخلاف اس کے اَور ہى اَور ارادے اور اَور ہى اَور خواہشات ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 246-247)

لىکن ہوتا کىا ہے؟ دنىا مىں اس وقت بالکل اس کے خلاف ہو رہا ہے، اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ اس مقصد کے بجائے ہر انسان کے اَور ہى اَور ارادے ہىں، دنىا مىں پڑ گئے ہىں اور اَور ہى اَور خواہشات ہىں، خواہشات بھى عجىب طرح کى ہو گئى ہىں۔ اللہ تعالىٰ کو حاصل کرنے کى خواہش سے زىادہ دنىاوى خواہشات بڑھ گئى ہىں۔ پس ىہ باتىں ہمىں غور اور فکر مىں ڈالنے والى ہونى چاہىىں کہ کس طرح ہم اپنى زندگى کے مقصد کو حاصل کرنے والے بنىں۔ صرف اس ورلى زندگى کى فکر نہ کرىں۔ ہمارى سوچىں، ہمارى محنت صرف اس دنىا کو حاصل کرنے مىں صرف نہ ہو جائے بلکہ ہم اپنى زندگى کے اصل مقصد کو حاصل کرنے کے لىے اپنى تمام تر صلاحىتىں بروئے کار لانے والے ہوں۔ ان ملکوں مىں آ کر ہم اللہ تعالىٰ کے فضل کو جذب کرنے کى کوشش کرتے ہوئے اس کى عبادت کا حق ادا کرنے والے بنىں۔ ہمارے ارادے اور ہمارى خواہشات اَور ہى اَور نہ ہوں جىسا کہ حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے فرماىا بلکہ ہم اپنے پىدا کرنے والے کوپہچاننے والے بنتے ہوئے اپنى پىدائش کا حق ادا کرنے والے بنىں اور اس زمانے مىں جس مقصد کے لىے اللہ تعالىٰ نے حضرت مسىح موعود علىہ السلام کو مبعوث فرماىا ہے اس کو پورا کرنے والے بنىں۔ حضرت اقدس مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہىں
مىں اس لىے بھىجا گىا ہوں تا اىمانوں کو قوى کروں، مضبوط کروں اور خدا تعالىٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں ،کىونکہ ہر اىک قوم کى اىمانى حالتىں نہاىت کم زور ہو گئى ہىں اور عالَم ِآخرت صرف اىک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد کى زندگى کو تو سمجھتا ہى کوئى نہىں، سمجھتے ہىں اىک کہانى ہے، افسانہ ہے، کچھ بھى نہىں ہو گا۔ فرماىا اور ہر اىک انسان اپنى عملى حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جىسا کہ ىقىن دنىا اور دنىا کى جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جىسا کہ بھروسا اسے دنىاوى اسباب پر ہے ىہ ىقىن اور بھروسا ہرگز اس کو خدا تعالىٰ اور عالم آخرت پر نہىں۔ زبانوں پر کچھ اَور ہے مگر دلوں مىں دنىا کى محبت کا غلبہ ہے۔ زبان پر بے شک اللہ کا نام ہے لىکن دلوں پر دنىا کى محبت کا غلبہ ہے اور ىہ غلبے کا اظہار عملوں سے ہو جاتا ہے۔ آپؑ نے فرماىا کہ ىہود مىں خدا کى محبت ٹھندى ہو گئى تھى تو مسىح آ ىا تھا اس وقت ان کو دىن کى طرف لانے کے لىے اور خدا کى طرف لانے کے لىے اور اب مىرے زمانے مىں بھى ىہى حالت ہے۔ سو مَىں بھى بھىجا گىا ہوں کہ اىمان کا زمانہ پھر آئے اور دلوں مىں تقوىٰ پىدا ہو۔

(ماخوذ از کتاب البرىہ، روحانى خزائن جلد13 صفحہ291 تا 293 حاشىہ)

پس آج ہمارا کام ہے کہ آپ کى بىعت کا حق اد اکرتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو خدا تعالىٰ کى محبت مىں بڑھائىں، توحىد کو اپنے دلوں مىں راسخ کرىں۔ خدا تعالىٰ اور اس کے رسول صلى اللہ علىہ وسلم کى محبت کے مقابلے مىں دنىا اور اس کى آسائشوں کو پسِ پشت کرىں وہاں اپنے اندر ان پاک تبدىلىوں کے ساتھ اس معاشرے کو بھى خدا تعالىٰ کے قرىب لانے کى کوشش کرىں۔ آج دنىا خدا تعالىٰ کے وجود کو ماننے سے انکارى ہے اور ہر سال کافى بڑى تعداد مىں لوگ خدا کے وجود سے انکارى ہوتے چلے جا رہے ہىں اور مذہب کو چھوڑتے چلے جا رہے ہىں، عىسائىت مىں بھى اور دوسرے مذاہب مىں بھى بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں مىں بھى۔

پس جو ىہ لوگ انکارى ہو رہے ہىں تو اىسى صورت مىں خدا تعالىٰ کى محبت ہم اپنے دلوں مىں پىدا کر کے دنىا کو بھى خدا تعالىٰ کے وجود کى حقىقت سے آگاہ کرىں۔ تب ہى ہم اس جلسے کے مقصد کو بھى پورا کرنے والے ہوں گے اور تب ہى ہم حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت کے حق کو بھى ادا کرنے والے ہو گے۔ صرف اپنے اندر خدا تعالىٰ کى محبت اور اس کے رسول کى محبت پىدا کرنا ہى کافى نہىں ہے ، اتنا ہى کام نہىں ہمارا بلکہ اس سے بھى بڑھ کر کام ہے ہمارا بلکہ اپنى اولادوں اور اپنى نسلوں کے دلوں مىں بھى خدا تعالىٰ کى محبت اور اس کے رسول ؐکى محبت پىدا کرنے کے لىے ہمىں بھرپور کوشش کرنى ہو گى اور اسى طرح جىسا کہ مىں نے کہا دنىا کو بھى خدا تعالىٰ کے وجود کى حقىقت سے آگاہ کرنا ہو گا۔ حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰة والسلام کى بىعت مىں آ کر، آپؑ کے مشن کو اور آپؑ کے مقصد کو آگے بڑھانا ہمارى بھى ذمہ دارى ہے۔ اللہ تعالىٰ ہمىں اس کى توفىق عطا فرمائے۔

ىہ جلسے کے دن اپنى عبادتوں کے معىاروں کو بڑھانے اور ان پر مستقل رہنے کے لىے ہم صَرف کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالىٰ اور اس کے رسول کى محبت مىں ہمىشہ بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور دنىا کى لذتىں اور خواہشات ہم پر کبھى حاوى نہ ہوں اور ىہ بھى ىاد رکھىں کہ ىہ سب کچھ اللہ تعالىٰ کے فضل کے بغىر ممکن نہىں ہو سکتا اس لىے اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لىے بھى بہت دعاؤں کى ضرورت ہے اور اس طرف بہت توجہ دىنى ہو گى۔ اللہ تعالىٰ ہمىں اس کى توفىق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنىشنل 18؍اکتوبر 2019ء صفحہ 5 تا 8)

اگلا پڑھیں

الفضل اسلام کی سچی خدمت کرنے والا اخبار ہے غیر از جماعت افراد کا اظہار حقیقت