• 28 اپریل, 2024

آنحضرتﷺ کی حدیث مبارکہ کی روشنی میں قبولیت دعا کے دو واقعات

جوتی کا تسمہ اور رسّی کا استعمال

کئی سال پہلے کی بات ہے۔9مئی 1991ء کو مسجد فضل لندن میں ایک روح پرور تقریب منعقد ہوئی۔ دراصل یہ ان احمدی بھائیوں کا اجتماع تھا جنہوں نے گزشتہ چندسالوں میں فیضانِ احمدیت سے حصہ پایا تھا۔ نو احمدی خواتین بھی پردہ کی رعایت سے اجلاس میں شامل تھیں۔احمدی بھائیوں کی زبانی ان کے حالات اور واقعات سن کر سامعین نے بہت لطف اٹھایا۔ احمدیت میں آنے والے ان نئے احمدی بھائیوں اور بہنوں کی تعلیم وتربیت کی غرض سے پروگرام کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ حاضرین (نئے اور پُرانے احمدی) بھی اپنی زندگیوں میں قبولیت دعا کے واقعات سنا ئیں جو سب کے لئے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق تو مذ ہب کی جان ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس تعلق کے بغیر شجرِایمان بے ثمر اور بے رونق رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس کے خاص فضل سے ہمارے تربیتی فورم کا پروگرام بہت ایمان افروز ثابت ہوا۔ اس مختصر نوٹ کا مقصد اس تقریب کی تفصیلی روداد لکھنا نہیں بلکہ ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرنا ہے جس نے ایک اور مختصر لیکن بہت ایمان افروز واقعہ کی یاد تازہ کردی۔

پہلا واقعہ

قبولیت دعاکے واقعات سنانے والوں میں ہمارے ایک بزرگ مکرم کیپٹن محمد حسین چیمہ مرحوم بھی تھے۔ انہوں نے جو واقعات سنائے ان میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ ایک روز وہ پٹنی کے علاقہ میں اپنے گھر سے لندن مشن آنے کیلئے روانہ ہوئے تو چند قدم چلنے کے بعدیہ احساس ہوا کہ ان کے ایک بوٹ میں تسمہ نہیں ہے۔اس وجہ سے وہ بوٹ ڈھیلا محسوس ہورہا تھا اور چلنے میں بھی دقت ہورہی تھی۔ تسمہ کی ضرورت کا خیال آتے ہی ان کا ذہن فوراً اس حدیث کی طرف گیا جس میں ہمارے پیارے آقاحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
لِیَسْئَلْ اَحَدُ کُمْ رَبَّہ‘ حَاجَتَہ‘ کُلَّھَا حَتَّی یَسْئاَلَ شِسْعَ نَعْلِہِ اِذَا انْقَطَعَ

(سنن الترمذی۔کتاب الدعوات)

چاہئے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی سب ضروریات کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کیا کرے حتی کہ جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے۔
مکرم چیمہ صاحب نے بیان کیا کہ اس حدیث کاخیال آتے ہی ذہن فوراً دعا کی طرف مائل ہو گیا اور وہ زیرلب دعا کرتے ہوئے لندن مشن کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ دیکھا کہ سٹرک کے کنارے ایک تسمہ گراپڑا ہے۔ اور وہ تھا بھی عین اسی رنگ اور طرز کا جس طرح کا دوسرا تسمہ ان کے بوٹ میں تھا۔ اس قدر جلد دعا کی قبولیت اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو لفظاً لفظاً پورا ہوتے دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریزہوگیا۔یہ واقعہ جملہ حاضرین کے لئے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوا۔

دوسرا واقعہ

مکرم چیمہ صاحب نے یہ واقعہ سنا کر مجھے بھی ایک اور دلچسپ واقعہ یاد کروا دیا۔ڈیڑھ یادو سال پہلے کی بات ہے ۔میں ایک جماعتی دورہ پر غالباً لیڈز جماعت کے اجلاس میں شمولیت کے بعد بریڈفورڈ جا رہا تھا۔ہمارے انگریزاحمدی مبلغ مکرم طاہر سلبی(SELBY) اپنی کار میں تھے۔اور میں مشن کی دوسری کار میں دیگررفقاء کیساتھ تھا۔موٹروےM62 پر تیزی سے سفر کر رہے تھے ۔بارش خوب تیز برس رہی تھی۔ سلبی صاحب نے اچانک اپنی کار سڑک کے کنارے کھڑی کرلی۔میں نے بھی کار روک لی اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟پتہ لگا کہ ان کی کار کے انجن کے اوپر کا ڈھکن جس کو انگریزی میں بونٹ(Bonnet) کہتے ہیں کسی خرابی کی وجہ سے ڈھیلا ہو گیا ہے۔اور بار بار ہوا کے زور سے کچھ اوپر ہو جاتاہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں کار چلانا خطرے سے خالی نہیںتھا۔
سلبی صاحب خود ہی اس خرابی کو دور کرنے میں لگ گئے اور تھوڑی دیر میں یہ مژدہ سنایا کہ خرابی ٹھیک ہوگئی ہے۔ سب دوبارہ روانہ ہوگئے لیکن تھوڑی دیربعد پھر رکنا پڑا۔اب پتہ چلا کہ جو وقتی علاج انہوں نے کیا تھا وہ پائیدار ثابت نہیں ہوا اور خرابی اسی طرح قائم ہے۔کہنے لگے کہ بونٹ کو اوپر اٹھنے سے روکنے کے لئے رسی سے باندھنے کی ضرورت ہے۔ہم موٹروے کے کنارے پر کھڑے تھے، اندھیرے میں تیز برستی بارش میں، رسی کیسے تلاش کی جائے؟ عجیب مشکل آن پڑی تھی جس کا کوئی حل جلدی میں نظر نہیں آتا تھا۔ مکرم سلبی صاحب نے بھی اور میں نے بھی اپنی اپنی کاروں میں اِدھراُدھر رسی کی بہت تلاش کی لیکن کہیں نہ مل سکی۔
بارش تیز تر ہورہی تھی۔رات کا اندھیرا مزید پریشانی کاموجب بن رہا تھا۔ایک چھوٹی سی رسی کے نہ ملنے کی وجہ سے ہم سب عجیب بے بسی کے عالم میں کھڑے دعاؤں میں مصروف تھے کہ اچانک، اللہ کے فضل سے،میری توجہ رسول مقبولﷺ کی مذکورہ بالا حدیث کی طرف گئی۔میں نےسب کو دعا کرنے کی تاکید کی اور خود بھی دعا کی۔ اس کے بعد میری نظر اچانک مکرم سیلبی صاحب کے بوٹوں پر پڑی تو وہاں تسمے دکھائی دیئے۔فوراً خیال آیا کہ جوتی کے تسمہ سے بھی رسی کا کام لیا جا سکتا ہے۔ سلبی صاحب نے فوراً اپنے بوٹ کا تسمہ کھولا اور بڑی ہوشیاری سے اس سے رسی کا کام لیتے ہوئے بونٹ کو اس طرح مضبوطی سے باندھ دیا کہ تیز ہوا سے بھی اوپر نہ اٹھ سکے۔ پوری تسلی کرنے کے بعدچند منٹ میں ہم پھر سوئے منزل روانہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کچھ دیر میں ہم سب خیریت سے بیت الحمد پہنچ گئے۔
تیز بارش میں بھیگتے وقت تو لمبی وضاحت کا موقعہ نہ تھا۔منزل پر پہنچ کر جب میں نے مکرم سیلبی صاحب کو تسمہ کے استعمال کے پس منظر میں راہ نمائی کر نیوالی حدیث سے آگاہ کیا تو وہ بھی اس سے خوب محظوظ ہوئے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے شکر کے کئی دریچے ہم پر کھل گئے۔ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خیریت سے منزل پر بر وقت پہنچا دیا۔ مزید شکر کیا کہ ہادی اعظمﷺ کی ایک مبارک حدیث ہماری راہ نما ثابت ہوئی اور کس طرح رسول بر حقﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی یہ ایک بات جو حقیقت میں ایک مثال کے طور پر تھی لفظاً لفظاً ہماری مشکل کا حل ثابت ہوئی۔ فالحمد لِلّٰہ ِ
جوتی کے ایک تسمہ نے ہماری اس وقت کی ضرورت کو جس طرح پورا کیا اس کی یاد آج بھی ایک پُر لطف نقش کے طور پر ذہن پر مرتسم ہے۔ اللہ کرے کہ ہم سب کی زندگیاں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پاک کلام اور اس کے پیارے حبیبﷺ کے زندگی بخش ارشادات کے سایہ میں بسر ہوں اور قدم قدم پر ہمیں اس کے شکر کا حق ادا کرنے کی توفیق ملتی رہے۔ آمین

مولاناعطاء المجیب راشد۔ امام مسجدفضل لندن

پچھلا پڑھیں

آپ کا اپنا اخبار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2019