• 5 مئی, 2025

جامعہ احمدیہ جرمنی میں جلسہ یوم مسیح موعودؑ کا انعقاد

23مارچ کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اسی حوالے سے جامعہ احمدیہ جرمنی میں مؤرخہ 23 مارچ 2022ء کو مجلس ارشاد کے تحت ’’جلسہ یوم مسیح موعودؑ‘‘ کا انعقاد ہوا۔ آج کے جلسہ کے لئے محترم عبد الباسط طارق صاحب، مربی سلسلہ کودعوت دی گئی۔

تلاوت و نظم

جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔عزیزم قویم احمد ملک نے سورۃ الصّف کی آیات 7 تا 10 مع ترجمہ پیش کیں۔ بعد ازاں عزیزم احسان احمد نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام

یارو! مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مر گئے

پیش کیا۔

پہلی تقریر

آج کے جلسہ کی پہلی تقریر مکرم نوید الظفر، استاذ جامعہ احمدیہ جرمنی نے پیش کی۔آپ کی تقریر کا عنوان ’’حضرت مسیح موعودؑ کی عالمگیر تباہ کاریوں کے متعلق پیشگوئیاں‘‘ تھا۔ آپ نے اپنی تقریر کوجو تین حصوں طاعون کے متعلق پیشگوئیاں، جنگوں کے متعلق پیشگوئیاں اور زلزلوں کے متعلق پیشگوئیاں پر مشتمل تھی، پیش کی۔

سب سے پہلے آپ نے طاعون کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ ؑ نے 6 فروری 1898ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپؑ نے اپنی ایک رؤیا کا ذکر تے ہوئے فرمایا کہ ملک میں طاعون پھیلی گی۔ اس وقت طاعون کا پنجاب میں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ 1894 ءمیں یہ بیماری چین میں پھوٹی اور 1896ء میں ہندستان میں پہنچی۔ اور بالآخر 1901ء میں اس بیماری نے پنجاب میں بہت زور پکڑا یہاں تک کہ 1913ء تک صرف پنجاب میں 22 لاکھ سے زائد اموت ہو چکی تھیں اور پنجاب میں سب سے زیادہ طاعون سے لوگ مرے تھے۔

تقریر کے دوسرے حصے میں آپ نے جنگوں کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا کہ اپریل 1904ء کے بعد 2 سال تک اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بار بار آئندہ جنگوں کے متعلق مطلع کیا۔ حضورؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ 16سال کے اند ر ایک سخت خطرناک زلزلہ آئے گا۔ چنانچہ جنگ عظیم اول اس پیشگوئی کی مصداق بنی۔ پھر آپؑ نے کی کوریاپر قبضہ ہو نے اور زار روس کی بری حالت کے بارہ میں جو پیشگوئیاں تھیں وہ بھی اسی زمانے میں پوری ہوئیں۔ دمشق کے بارہ میں یہ پیشگوئی ملتی ہے کہ اس کے ساتھ بھی خوفناک حادثہ ہو گا۔ چنانچہ 1925 ءمیں فرانس نے دمشق پر سخت بمباری کر کے شہر کو بالکل تباہ کر دیا۔

تقریر کے تیسرے حصے میں آپ نے زلزلوں کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا کہ 1904 ء میں حضورؑ کو خدا نے خبر دی کہ ایک تباہی آنے والی ہے جس میں سکونت کی عارضی اور مستقل جگہیں دونوں ہی مٹ جائیں گی۔ پھر آپؑ کو یہ الہام ہوا کہ موت دروازہ پر کھڑی ہے۔ چنانچہ 1905ء میں کانگڑا میں ایک شدید قسم کا زلزلہ آیا۔ کانگڑا میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور وہاں ان کے مقدس مقامات بھی تھے۔ زلزلہ نے ان سب کو تباہ کر دیا اور ریکارڈ کے مطابق 20 ہزار لوگ اس حادثہ میں مرے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ اصل تعداد سے بہت کم تھے۔

تقریر کا اختتام کرتے ہوئے آپ نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ارشاد پیش کیا جس میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی کہ ہر احمدی کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور ہر ایک فرد تک خدا کے پیغام کو پہنچائیں کہ وہ اپنے خالق حقیقی کے آگے جھکے اور اسکے حکموں پر عمل کرے۔

بعدازاں عزیزان فطین احمد، اعتزاز شاہ اور نعمان داؤد نے ایک ترانہ

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح

پیش کیا۔

تقریر مہمان خصوصی

آج کے جلسہ کی آخری تقریر مکرم عبدالباسط طارق صاحب، مربی سلسلہ کی تھی آپ کی تقریر کا عنوان ‘‘حضرت مسیح موعودؑ بطور آنحضورﷺ کے مظہر اتم ’’تھا۔

آپ نے آغاز میں سورۃ جمعہ کی آیات 4 تا 6 کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ان آیات سے آنحضورﷺ کی آمد ثانی کا ثبوت ملتا ہے لیکن کیونکہ ایک انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی وفات کے بعد دبارہ زندہ ہو جائے اس لئے ظاہر ہے کے آنے ولا کوئی اور وجود ہو گا لیکن آنحضورﷺ سے اتنی گہری مشابہت رکھے گا کہ گویا آنحضورﷺ ہی دبارہ آگئے۔ گویا آنے والا آپ ﷺ کا مظہر اتم ہوگا۔ جس طرح ایک شخص شیشہ میں اپنا مکمل عکس دیکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات سے اس بات کی وضاحت کی کہ مظہر اتم کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ آپؑ ہی آنحضورﷺ ہیں بلکہ حضورؑ نے تو اپنے آپ کو آنحضور ﷺ کا احقر الغلمان قرار دیا ہے۔

پھر آپ نے اس بات کی وضاحت کی کہ مظہر اتم بننے کے لئے عشقِ رسول ﷺ اور آپؐ کی اطاعت ضروری ہے۔ اس کے ضمن میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں سے کئی ایک مثالیں پیش کیں جن سے حضورؑ کا آنحضورﷺ سے بے انتہاء عشق ظاہر ہوتا ہے۔

آپ نے ذکر کیا کہ آنحضور ﷺ کے روحانی فیوض ہمیشہ کے لئے جاری ہیں۔ آپؐ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین آئے، پھر مجددین پھر مجدد اعظم ؑ اور آج خلافت علی منہاج النبوۃ ایک بار پھر بطور مظہر النبیﷺ ہمارے سامنے ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔

واقعات کی روشنی سے یہ بات واضح کی کہ کس طرح آپ ؑ آنحضورﷺ سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس ضمن میں آپ نے کئی واقعات پیش کئے جن سے حضرت مسیح موعودؑ کا عفو و رحم ظاہر ہوا اور اس طرح آپؑ کی مشابہت حضرت رحمۃ للعالمین ﷺ سے ثابت ہوئی۔

ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضورؑ کے پاس ایک گھڑی تھی۔ ایک دن وہ گھڑی خراب ہو گئی۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے آپؑ نے ایک دوست کو لاہور بھیجا کہ وہاں جا کر فلاں شخص سے اس گھڑی کو ٹھیک کروا لائیں۔ جب وہ دوست اس شخص کے پاس پہنچتے ہیں اور اسے گھڑی دیکھا تے ہیں تو وہ شخص چونک جاتا ہے اور بتا تا ہے کہ میں نے خواب میں یہی گھڑی دیکھی ہے اور مجھے بتا یا گیا کہ یہ آنحضورﷺ کی گھڑی ہے۔

پھر آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک عورت اپنی بچی کو لے کر حضورؑ کے پاس آتی اورآپؑ سے اپنی بچی کے لئے جس کو آنکھوں میں سخت تکلیف تھی مدد مانگی۔ اس پر حضورؑ اپنا لعاب دہن اس بچی کی آنکھوں پر لگا یا۔ اس دن کے بعد اس بچی کو دبارہ آنکھوں کی تکلیف نہیں ہوئی۔ اسی طرح آنحضورﷺ کا بھی ایک واقعہ ملتا ہے کہ حضرت علیؓ کو آنکھوں میں سخت تکلیف تھی تو آپؐ اپنا لعاب دہن حضرت علیؓ کی آنکھوں پر لگایا جس سے حضرت علیؓ ٹھیک ہو گئے۔

اختتامی کلمات

جلسہ کے اختتام پر مکرم شمشاد احمد قمر، پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے مکرم مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرتے بیان کیا کہ ہم سب کو چاہئے کہ قرآن کریم اور آنحضورﷺ کی سیرت اور اسی طرح کتب حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کی سیرت کا مطالعہ کرتے رہیں تاکہ ہم ان دو عظیم الشان شخصیات کو سمجھ سکیں اور ان کی تعلیم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں۔مہمان خصوصی کی دعا سے جلسہ کا اختتام ہوا۔

(حامد اقبال۔ شعبہ تاریخ جامعہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ