میرے ایک دوست (جنہوں نے اپنا نام بتانا مناسب خیال نہیں کیا) بیان کرتے ہیں :
کرونا کی وباء کے آغاز مارچ 2020ء میں ہی مجھے کمپنی والوں نے قبل از وقت نوٹس دے دیا کہ فرم میں کام کم ہوگیا ہے اور آپ کی ملازمت کو بحال رکھنا مشکل ہوگا اس لئے اگلے ماہ سے کہیں اور ملازمت تلاش کریں۔ایسی پریشان کن صورت حال میں میرے دل سے آواز آئی۔ وَاللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ اور ہر قسم کی پریشانی دھوئیں کی مانند غائب ہوگئی۔ (برسبیلِ تذکرہ خاکسار یہ بھی عرض کرتا چلے کہ سویڈن میں بیروزگاری الاؤنس ان افراد کیلئے ہوتا ہے جو کسی خاص یونین کے ممبر ہوں۔ ان کو اس یونین کی ممبر شپ فیس کے طور پر سو سے ڈیڑھ سوکرونر تک ماہوار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جو بیروزگار ہونے کی صورت میں، ایک سال کی مدت تک تنخواہ کا ساٹھ سے اسی فیصد ادا کرتے ہیں۔) تو میں بھی ایک ایسی یونین کا ممبر تھا اس لئے جیسے ہی بیروزگار ہوا تو یونین کی جانب سے بیروزگاری الاؤنس لگ گیا جو میری ضروریات کیلئے کافی تھا۔
اب اپریل 2020ء کا مہینہ تھا اور رمضان کی بھی آمد آمد تھی۔ ماہ رمضان کے بابرکت آغاز میں ہی جماعت کی جانب سے اعلان ہوا کہ احباب مسابقت فی الخیرات کے تحت اپنے وعدہ جات بابت تحریک جدید و وقفِ جدید سو فیصد ادا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ اعلان سُن کر دل میں خیال آیا کہ ہر سال جماعت ماہ رمضان میں یہ اعلان کرتی ہے اور اِن الہٰی تحریکات کے مالی سال کے اختتام پر حضورِ انور ایدہ الله تعالیٰ مختلف ممالک کے بارے میں واقعات سناتے ہیں کہ فلاں آدمی نےیہ قربانی کی، اپنا سو فیصد وعدہ ادا کیا تو خدا تعالیٰ رجوع برحمت ہوا اور مالی وسعت ملی۔ تو کیوں نہ اس بار میں بھی یہ نسخہ آزما کر دیکھوں۔ یہی سوچ کر میں نے فون اٹھایا اور جماعت کے ایک بزرگ کو فون کرکے رمضان میں ہی یہ قربانی کرنے کے بارےمیں پوچھا کہ آخر رمضان ہی کیوں یہ قربانی کی جائے؟ تو جواب میں ان بزرگ نے فرمایا کہ ’’بیٹا یہ سنّت نبویﷺ ہے۔ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے بہتر،سب سے شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے، مگر رمضان المبارک میں سخاوت اور غرباء پروری کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا، حضور ﷺ کی سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی سخاوت رمضان المبارک میں تیز وتند آندھی سے بھی زیادہ آگے چلتی تھی۔‘‘ یہ جواب سن کر میں نے بھی دل میں ٹھان لی کہ اپنے وعدہ جات بابت الہٰی تحریکات سو فیصد ادا کرنے ہیں اورجب عملی جامہ پہنانے کے لئے بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو معقول رقم اکاؤنٹ میں نہ ہونے کے باعث مارے خفت کے ہنسی نکل گئی کہ اب کیا بنے گا؟ تاہم مندرجہ ذیل آیت اللہ تعالیٰ کی جناب سے دل میں ڈالی گئی اور غیر معمولی طور پر سکینت عطا ہوئی۔
ازدیاد ایمان کے لئے آیت ملاحظہ فرمائیں:
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَاللّٰہُ یَقۡبِضُ وَیَبۡصُۜطُ ۪ وَاِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ
(البقرہ: 246)
ترجمہ:کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھائے۔ اور اللہ (رزق) قبض بھی کر لیتا ہے اور کھول بھی دیتا ہے۔ اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
پھر سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ
(ال عمران: 10)
ترجمہ :یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
بس یہی سوچ کر فوراً اپنا سوفیصد وعدہ ادا کردیا اور ساتھ ساتھ وصیّت کا چندہ بھی اصل شرح کے مطابق ہی ادا کردیا۔ اس کے بعد اگلے ماہ مجھے کمپنی والوں نے بلایا اور بتایا کہ کیوں کہ مجھے ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا، اس لئے یہ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ میرے تمام واجبات ادا کردئیے جائیں اور اسی وجہ سے مجھے دو ماہ کی تنخواہیں اکٹھی دے کر فارغ کیا جائے گا۔ میں اسی وقت جب دفتر سے نکلا تو سجدۂ شکر بجا لایا۔ کیونکہ جتنے پیسے انہوں نے میرے حساب میں بنائے تھے وہ تو میرے پورے سال کے اخراجات کے لئے کافی تھے اور اتنے پیسے اکٹھے آج تک میرے بینک اکاؤنٹ میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اللہ اکبر! ساتھ ہی اونچی آواز میں نعرہ لگایا کہ
جے ویکھاں میں عملاں ولّے،
تے کجھ نئیں میرے پلّے
جے ویکھاں تیری رحمت ولّے،
بلے، بلے، بلے، بلے
اس کے بعد ایمان ایسا قوی ہوا کہ بیروزگار ہونے کے باوجود میں نے ہرماہ شرح آمد کے حساب سے چندہ وصیت ادا کرنا شروع کردیا جوکہ 10/1 سے بڑھ کر 6/1 ہوگیا اور بظاہر وقت کے ساتھ ساتھ بینک اکاؤنٹ بھی کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا تاہم خدا کی محبت دل میں روز بروز تقویت پکڑتی جارہی تھی۔ دن گزرتے گئے،نئی ملازمت کیلئے انٹرویوز ہوتے رہے مگر بظاہر کام بنتا دکھائی نہیں دیا۔یہاں تک کہ سال کے اختتام تک بیروزگاری الاؤنس بھی بہت کم ہوگیا تھا اور ساتھ ساتھ گھر کے اخراجات بھی تھے۔ مگر دل دیوانہ اپنی ہی دھن میں محبت الہٰی کی دھونی رمائے بیٹھا تھا۔
پھر مارچ 2021 ءکے اوائل میں ایک کمپنی والوں کی طرف سے انٹرویو کیلئے کال آئی جنہوں نےمجھے ستمبر 2020 ءمیں ایک اور ملازمت کیلئے مسترد کیا تھا جو بظاہر بڑی عجیب سی بات تھی کیوں کہ انکے دفتر میں اس کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔
علیٰ ہٰذالقیاس تین انٹرویوز کے بعد اس عورت کی اگلے ماہ کال آئی اور اس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ ہم آپکو یہ ملازمت پیشکش نہیں کرسکتے جس کو سُن کر دل بیٹھ سا گیا مگر اگلے ہی لمحے کہنے لگی کہ تاہم ڈائریکٹر فلاں فلاں کو تمہارا گزشتہ تجربہ پسند آیا ہے اور ایک ایسی ملازمت جو کہ ہم نے تاحال مشتہر نہیں کی اسکے لئے آپکو چُنا گیا ہے۔ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو ایک دو روز میں بتادیں۔ میں نے اسی وقت دو رکعت چاشت کی نماز ادا کی اور اللہ کے حضور عافیت و رہنمائی طلب کی اور ساتھ ہی حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس بابت قبولیت دعا کے گُر نظروں سے گزرا جو کہ کچھ یوں ہے۔
’’یہ طریق بھی صلحاء نے بتایا ہے کہ جس قسم کی مشکل پیش ہو اسی قسم کی مشکل جس کا ازالہ یا دور کرنا تمہارے اپنے بس میں ہو کسی دوسرے حاجت مند کی دور کرنے کی کوشش کرو اس پر خدا تم پر بھی رحم کر دے گا۔‘‘
انہی دنوں میرے ایک دوست جو کہ بیرون از ملک تھے کال آئی اور اپنی مالی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور جیسے بھی ہو کچھ کرکے مجھے پیسے بھیجیں، ورنہ مالک مکان مجھے گھر سے نکال دے گا کیونکہ تین ماہ سے میں کرایہ ادا نہیں کر سکا۔ میں نے مذکورہ بالا اقتباس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے دوست کی مدد کردی اور مطمئن ہوگیا۔
جس دن ڈائریکٹر کے ساتھ تنخواہ کے بارے میں بات ہونی تھی اسی دن علی الصباح خواب میں تنخواہ کے معین اعداد خدائے غیّور نے لکھے ہوئے دکھائے بعینہٖ جو ڈائریکٹر نے حتمی طور پر ملازمت کے معاہدہ پہ لکھے۔
میرے منہ سے یک لخت یہ اشعار جاری ہوگئے:
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
(براہین احمدیہ، حصہ چہارم صفحہ401 مطبوعہ 1884ء)
موصوف مزید بیان کرتے ہیں کہ آیت ممدوحہ بالا وَاللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ (جمعہ: 12) کے حوالہ سے خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے فرمایا:
’’اللہ کو خیرالرازقین یقین کرو اور مت خیال کرو کہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہوگا۔ کبھی ایسی جرأت کرنے کی کوشش نہ کرو کہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدّم کرلو۔ خدا کیلئے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پالیتا ہے۔ تُم جانتے ہوکہ ابُوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا چھوڑا تھا اور کیا پایا؟ صحابہؓ نے کیا چھوڑا ہوگا۔ اس کے بدلہ میں کتنے گُنا زیادہ خُدا نے انکو دیا۔ خُدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے؟ لِلہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض! تجارتوں میں خسارہ کا ہوجانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہوجانا قرینِ قیاس ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے لئے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی انسان خسارہ نہیں اُٹھا سکتا‘‘
(الحکم 28 فروری 1903 ص7)
اسی ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’اس وقت ضرورت ہے کہ اسلام کے لئے اور سلسلہ احمدیہ کے لئے ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو، کی جائے اور جب تک تم میں سے ہر ایک قربانی نہیں کرے گا، ان ترقیوں کے منہ نہیں دیکھ سکو گے جو مقدر ہیں۔ زید و بکر کی قربانی تمہارے لئے کافی نہیں ہوسکتی۔ تمہارے لئے تمہاری اپنی ہی قربانی کام آنے والی ہے۔ اگر تم دوسروں کی قربانیوں پر خوش ہو گئے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہوگی جیسی کسی پنڈت کے متعلق مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک پنڈت صبح کے نہانے کو فرض قرار دیتا تھا۔ صبح کے وقت دریا پر گیا۔ سردی کا موسم تھا اتنی تو جرأت نہ ہوئی کہ دریا میں داخل ہو کر نہائے۔ ایک کنکر اٹھا کر اس کو مخاطب کرکے کہنے لگا۔ ’’تورا شنان سو مورا شنان‘‘ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہی ہے۔ یہ کہہ کر کنکر دریا میں ڈال دیا۔ راستہ میں ایک دوسرا پنڈت ملا۔ اس نے کہا بھئی کیسے نہائے۔ اس نے ترکیب بتلائی۔ اس پنڈت نے اسے مخاطب کرکے کہہ دیا کہ ’’تورا شنان سو مورا شنان‘‘ اور واپس آگیا۔ پس سید عبد الطیف اور عبد الرحمن خان کی قربانی کو اپنے لئے کافی نہ سمجھو۔ کسی کی نماز سے اپنی نماز ادا نہیں ہوسکتی۔ جو کچھ ان سے ظاہر ہوا، وہ ان کا کام تھا۔ تم اپنا فرض آپ ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرماوے کہ ہم ان قربانیوں کو ادا کریں۔ جن کی اس وقت اسلام کے لئے ضرورت ہے اور ہمیں وہ دن نصیب کرے کہ ہم پوری ترقیاں دیکھیں اور اسلام اپنی اصلی شان میں آجائے۔‘‘
(خطباتِ محمود جلد6 صفحہ243 بحوالہ الفضل 24 جون 1919ء)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
اُسے دے چکے مال و جاں بار بار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے
(نشان آسمانی، صفحہ46 مطبوعہ 1892ء)
اللہ تعالیٰ اس دوست کے نفوس و اموال میں برکت ڈالتا چلا جائے۔ آمین
(محمد عبد الحی۔ گوتھن برگ، سویڈن)