• 26 جون, 2025

رمضان کا پیغام

اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،مغفرتوں اور جہنم کی آگ سے نجات دلانے والا بابرکت مہینہ اب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ گیارہ مہینوں سے کروڑوں دل اس کی آمد کے انتظارمیں دل و جان فرش راہ کئے ہوئے تھے۔ رمضان آتا ہے تو جماعت مومنین کے گھروں میں جشن کا سا سماں ہوتاہے۔ وہ ظاہری قمقمے روشن کرنے کی بجائے نیکی اور تقویٰ کے چراغوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں اور کمر ہمت کَس کر نیکیوں کے ہر میدان میں سبقت لے جانے کا عزمِ صمیم کر لیتے ہیں۔ گویا رمضان کی آمدکے ساتھ نیکیوں کا ایسا موسم بہار شروع ہوجاتا ہے جو مومنوں کے لیے روحانی ا ور جسمانی بیماریوں سے نجات کا ذریعہ بن جاتاہے۔ رمضان کے مہینہ میں وہ صرف بھوک اور پیاس ہی برداشت نہیں کرتے بلکہ وہ ہمہ وقت اپنی توجہ نیکیوں اور تقویٰ کے حصول پر مرکوز رکھتے ہیں۔اس مہینہ میں وہ عبادات، نوافل، صدقات و خیرات، دعاؤں کے بجالا نے کی طرف غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی چھوٹی نیکی کو چھوڑتے ہیں اور نہ کسی بڑی نیکی سے پیچھے رہتے ہیں بلکہ وہ ہر بدی کو بیزار ہوکر ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رمضان جسم اور روح کی کثافتیں دُور کرنے کا مہینہ ہے۔صوم کے لغوی معنی کسی کام سے رُکنا بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے روزے کی اصل غرض اور علت غائی یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے بھوکا پیاسا رہنے سے کچھ غرض نہیں جب تک وہ بدیوں کو ترک کرنے کی سعی نہ کرے۔ پس اصل چیز اپنے آپ کو بدیوں کے زہریلے اثرات سے بچانا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ (صحیح البخاری، 30۔کتاب الصوم،باب8: مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فِی الصَّوْمِ) جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ ایسا شخص کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ گویا رمضان کی برکت سے جو نیک ماحول بن جاتاہے اس کی وجہ سے انسانی طبائع خود بخود نیکیوں کی طرف مائل ہونے لگتی ہیں۔اگر اس نیک ماحول میں بھی کسی کے اندر پاک تبدیلی پیدا نہیں ہوتی تو اُس انسان کو اپنی حالت پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ کیونکہ روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ نیکیوں کی ٹریننگ کا مہینہ ہے۔پس جو انسان پوری کوشش،مضبوط ارادے اور پختہ عزم کے ساتھ نیکیوں میں مداومت اختیار کرتا ہے وہ نہ صرف گناہ کی کثافتوں سے پاک کیا جاتا ہے بلکہ اُس کے اندر آئندہ زندگی میں نیکیوں کے میدان میں آگے بڑھنے کی نئی اُمنگ پیدا ہوجاتی ہے۔

جس طرح جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اچھی غذا، صاف ستھری ہوا اور مناسب طرزِ زندگی ضروری ہے اسی طرح روح کی پرورش کے لیے عبادت،تسبیح وتحمید، ذکر واذکار اور اچھی عادات اپنا نا ضروری ہے۔ روزے کی حالت میں نمازوں کا خاص التزام، تلاوتِ قرآن کریم، تہجد کے ذریعہ قیام اللیل اور شب بیداری،تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور مناجات، خضوع و خشوع اور عاجزی سے مانگی جانے والی دعائیں،قرب الہٰی کے لیے جسم و روح کے سجدے، اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی رحمت، مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کی التجائیں، یہ وہ طریق ہیں جو روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہیں۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ (سنن نسائی،کتاب قیام اللیل، بَاب:ثَوَابُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا) جو شخص رمضان کے مہینہ میں ایمان کی حالت میں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رات کوعبادت کرتا ہے تو اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

ایسے لوگ اپنی راتوں کوہی زندہ نہیں کرتے بلکہ اُن کے دن بھی ذکرالہٰی سے معنون ہوتے ہیں۔وہ اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مرکوز رکھتے ہیں گویا وہ اپنے آپ کو خالصۃً للہ کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور تہلیل اُن کی زبانوں پر جاری رہتی ہے اور اُن کے کان پاک کلمات کے سننے سے لذت پاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی وہ ذرائع ہیں جو روزے کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں اور انہی راہوں سے گزر کر وہ اپنے ربّ کی لقاء حاصل کریں گے۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزہ کے۔ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ ہوتا ہوں اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہوتو وہ کوئی فحش بات نہ کرے اور نہ شوروغل کرے۔ اور اگر کوئی اُس کو گالی دے یا اُس سے لڑے تو چاہیے کہ وہ یہ کہہ دے: میں روزہ دار شخص ہوں۔ اور اُسی ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد ؐ کی جان ہے!یقیناً روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بوئے مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ پہلی خوشی اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہوگا۔ (صحیح البخاری،30: کتاب الصوم، باب9: ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَاءِمٌ اِذَا شُتِمَ حدیث نمبر 1904)

رمضان اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن کے بغیر رمضان نہیں اور رمضان کے بغیر قرآن نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبِیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرہ: 186) ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کردینے والے امور ہیں۔‘‘ پس رمضان اور قرآن کریم کو آپس ایک خاص مناسبت ہے یہی وجہ ہے رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر حضرت جبریل علیہ السلام رسول کریمﷺ کے پاس تشریف لاتے اور جس قدر قرآن کریم نازل ہوچکا ہوتا اُسے آپ کے ساتھ مل کر دہراتے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: عَلَیْکُمْ بِالْقُرْاٰنِ فَاتَّخِذُوْہُ اِمَامًا وَّ قَاءِدًا، فَاِنَّہٗ کَلَامُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الَّذِیْ ھُوَ مِنْہُ وَاِلَیْہِ یَعُوْدُ فَاٰمِنُوْا بِمُتَشَابہہٖ وَاعْتَبِرُوْا بِاَمْثَالِہٖ۔ (کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام،الباب السابع،فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، الفصل الاوّل فی فضائل حدیث: 2300) تم قرآ ن کو لازم پکڑو اور اس کو امام اور قائد بنالو کیونکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو اسی سے نکلا ہے اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس اس کے متشابہ پر ایمان لاؤ اور اس کی مثالوں سے عبرت وسبق حاصل کرو۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کریم کیا کرو۔ یقیناً وہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو اس میں خیر کم اور شر زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ پڑھ جاتا ہے

(کنزالعمال، کتاب ادب المعبر، الفصل الثانی فی آداب البیت والبناء، حدیث: 41496)

جو شخص قرآن کریم پڑھنے کی خاطر اپنی رات کی نیندوں کو قربان کرے گا قیامت کے روز قرآن اُس کے لیے شفیع کے طور پر آئے گا اور اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: …… قرآن کہے گا میں نے اسے رات کی نیند سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں یعنی روزے اور قرآن کی شفاعت قبول کی جائے گی۔

(مسند احمد۔ مسند المکثرین من الصحابہ حدیث:7336)

رسول کریم ﷺ نے ایسے شخص کو قابل رشک قرار دیا ہے جو قرآن کریم سیکھتا اور اُس کی تلاوت میں دن رات مصروف رہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قابل رشک صرف دو آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت میں مشغول رہتاہے تو ایک دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا قرآن کا علم ہوتا تو میں بھی اس کی طرح تلاوت کرتا رہتا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اُسے اُس کی راہ میں خرچ کرتا ہے جسے دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش! مجھے بھی اللہ اتنا مال دیتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔

(صحیح البخاری،کتاب التوحید والرد علی جھمیۃ وغیرھم،باب قَوْلِ النَّبِیِّﷺ رَجُلٌ اَتی اللّٰہُ الْقُرْآنَ۔۔۔ حدیث: 7528)

روزوں کی فرضیت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ: 184) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ گویا روزے کااصل مقصد تقویٰ کی کھیتوں کو پروان چڑھانا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے دل میں تقویٰ کے بیج بو کر اُنہیں نیکیوں کے پانی سے سیراب کر تا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کامیابی کے تاج سے سرفراز کیا جائے گا۔ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا (الشّمس: 10) ’’یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا۔‘‘ پس روزہ ایک عبادت ہی نہیں ہے بلکہ عبادات میں ترقی کرنے کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ اگرچہ اسلام سے پہلے بھی روزے فرض تھے جیسا کہ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ: 184) کے الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ جس طرح دوسری عبادات کو اُن کی معراج تک پہنچا یاہے بالکل اسی طرح آپ ﷺ کے ذریعہ روزے بھی اپنی معراج کو پہنچے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی جزاکو اپنی لقا کا ذریعہ ٹھہرا دیا۔

آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ فطرت کا خمیر نیکی اور تقویٰ کی پاکیزہ مٹی سے اُٹھایاگیا تھا یہی وجہ ہے کہ نیکیاں ہی آپ کے تمام اعمال کانمایاں حصہ تھیں۔ آپﷺ نے اپنی زندگی میں جس قدر دکھ درد،بھوک پیاس کی شدت، تبلیغ دین اور جہاد فی سبیل اللہ کے دوران تکلیفیں اُٹھائیں نیز آپ کا دن رات خشیت الہٰی، عبادات، راتوں کے قیام، رکوع وسجود میں گھنٹوں اللہ سے رازونیاز میں گزارنا وہ سب رمضان کی تمام کیفیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا لیکن اس کے باجود رمضان کے آتے ہی آپﷺ کمر ہمت کَس لیتے اور پہلے سے بہت بڑھ کر نیکی اور تقویٰ کے حصول کے لیے کوشاں ہوجاتے۔ پس رمضان اس لیے آیا ہے کہ ہر مومن اطاعتِ الہٰی میں سرتسلیم خم کرے، اپنی خواہشات پر ضبط کرنا سیکھے اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے ہر قربانی کے لیے تیارہوجائے۔ تہجد، دعا، تسبیح، تحمید، تہلیل (سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ) نیز دیگرذکر و اذکار کی طرف خاص توجہ دے۔ تلاوت قرآن کریم کی عادت کو پختہ کرلے۔ صدقات و خیرات کے ذریعہ مستحقین کی مدد کرے۔ خوردونوش میں اسراف سے بچے اور جسمانی و اخلاقی صحت کے لیے اپنے اندر اعتدال کی عادت پیدا کرے۔اللہ تعالیٰ سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگے اورآئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے کثرت سے دعا ئیں کرے۔ اس مجاہدہ کے ذریعہ اُس کے اندر مَلکی صفات پیدا ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ ان شاء اللہ۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ہم احمدیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ تقویٰ کیا ہے اور ہم نے اسے کس طرح اختیار کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مواقع پر تقویٰ کے بارے میں ہمیں بتایا کہ متقی کون ہے؟حقیقی راحت اور لذت اصل میں تقویٰ ہی سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ دنیا کی لذتوں میں راحت ہے۔ کس طرح ہمیں نیکیاں بجالانی چاہئیں۔ انسان کو حقیقی مومن بننے کے لیے اپنا ہر کام خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرنا چاہئے اور یہی ایک بات ہے جو مومن اور کافر میں فرق ڈالتی ہے۔ اور یہ بھی آپ نے ہمیں بتایا اللہ تعالیٰ کی معرفت میں انسان ترقی کرے۔ ہر روز جو آئے، ہر آنے والا دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت میں آگے لے جانے والا ہو، نہ کہ وہیں کھڑے رہیں یا ان لوگوں کی طرح ہوں جو صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دکھانے کے لیے روزے رکھتے ہیں نہ کہ تقویٰ میں بڑھنے کے لیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍مئی 2018ء الفضل انٹرنیشنل 8؍جون 2018ء صفحہ 6)

رمضان کا ایک پیغام حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مہینے کے دوران جہاں اپنے نفس کی خرابیوں کو دور کرنے اور اپنی بے جا خواہشات پر قابو پانے کی ضرورت ہے وہیں اپنے عزیزو اقارب کا پہلے سب بڑھ کر خیال رکھنے اور خاص طور پر مفلس اور نادار لوگوں کی پہلے سے بڑھ کر مدد کی ضرورت ہے۔

پس رمضان کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس مبارک مہینہ کی برکت سے نیکی کے جن کاموں کی عادت پختہ ہوگئی ہے اُسے آئندہ بھی جاری رکھا جائے تاکہ ہمارا ہرقدم ہمیں ہمارے مقصد حیات کے قریب تر کرنے والا ہو۔ اللہ کرے کہ ہم اُسی طرح رمضان میں داخل ہوں جس طرح ہمارے ہادی ورہنما ﷺ داخل ہوا کرتے تھے اورہم اسی طرح رمضان کو الوداع کہیں جس طرح ہمارے آقاو مولیٰ ﷺ اسے الوادع کیا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ: اِذَا سَلِمَ رَمَضَانُ سَلِمَتِ السَّنَۃُ (الجامع الصغیر، الجزء الاوّل حدیث: 675) جب رمضان سلامتی سے گزر جائے تو سمجھو کہ سارا سال سلامت رہے۔ اللہ کرے کہ ہماری زندگیوں میں آنے والے تمام رمضان اور تمام سال سلامتی کے ساتھ گزرنے والے ہوں۔

(ظہیر احمد طاہر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ