دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 15
نری دعائیں کچھ نہیں کرسکتیں
ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہوکر دارالامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجۃ اللہ کے حضور دعا کے لئے التجاء کی۔ آپؑ نے فرمایا
’’ہم دعا کریں گے‘‘
10اگست کی شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں کے متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا۔ حضرت نے خود 11اگست کو ان کے مکان پر جاکر دیکھنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لئے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے۔ آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔ زاں بعد بطور تبلیغ فرمایہ کہ
میں نے دعا کی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ جبتک اللہ تعالیٰ کی مرضی اور امر نہ ہو۔ دیکھو۔ اہل حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں۔ مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر اور اذن ہو کیونکہ اس نے اُدْعُوۡنِیۡ تو کہا ہے مگر اَسْتَجِبْ لَکُمْ بھی ہے۔
یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خداتعالیٰ سے صلح کرلے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لئے آیا ہے۔ اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبتک انسان اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا۔ اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان تبدیلی کرلے تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت کرتا ہے۔ اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے۔ خداتعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں۔ بلکہ اس کی تو شان ہے۔ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (یٰسٓ: 83)
ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا جس سے اس کا ہاتھ ورم کرگیا۔ آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ اس نے معمولی بات سمجھی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔ دوسرے دن جب میں سیر کو گیا تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔ میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا۔ اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا۔ اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔ غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے۔ تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ مگر اس کے لئے ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔ پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے۔ تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے۔ وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد: 18) ایسا ہی پہلی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ حزقیل نبی کی کتاب میں بھی درج ہے۔
انسان بہت بڑے کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا۔ تو خدا اس کا تمام کام کردیتا ہے۔ خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کردیتا ہے۔ پھر خداتعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ317-319)
گناہ کا صحیح علاج
میرے نزدیک خداتعالیٰ کا خوف اور خشیت ایسی چیز ہے جو انسان کی گناہ کی زندگی پر موت وارد کرتی ہے جب سچا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے تو پھر دعا کے لئے تحریک ہوتی ہے اور دعا وہ چیز ہے جو انسان کی کمزوریوں کا جبر نقصان کرتی ہے۔ اس لئے دعا کرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ کا وعدہ بھی ہے اُدْعُوۡنِیۡٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) بعض وقت انسان کو ایک دھوکا لگتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک ایک مطلب کے لئے دعا کرتا ہے اور وہ مطلب پورا نہیں ہوتا تب وہ گھبراجاتا ہے۔ حالانکہ گھبرانا نہ چاہئے۔ بلکہ طلبگار باید صبورو حمول۔ دعا تو قبول ہوجاتی ہے لیکن انسان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا۔ کیونکہ وہ اپنی دعا کے انجام اور نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے لئے وہ کرتا ہے جو مفید ہوتا ہے۔ اس لئے نادان انسان یہ خیال کرلیتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے علم میں یہی مفید تھا کہ وہ دعا اس طرح پرقبول نہ ہوبلکہ کسی اور رنگ میں ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے آگ کا سرخ انگارہ دیکھ کر مانگے تو کیا دانشمند ماں اسے دیدے گی؟ کبھی نہیں۔ اسی طرح پر دعا کے متعلق کبھی ہوتا ہے۔ غرض دعائیں کرنے سے کبھی تھکنا نہیں چاہئے دعا ہی ایسی چیز ہے جو خدا کی طرف سے ایک قوت اور نور عطا کرتی ہے۔ جس سے انسان بدی پر غالب آجاتا ہے۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 352)
دعاؤں سے کام لینا چاہئے
…دعاؤں سے کام لینا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے۔ اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے۔ ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی سے اس کے حضور نہیں آتا وہ اس کی کیا پرواہ کرسکتا ہے۔ دیکھو اگر ایک سائل کسی کے پاس آجاوے اور اپنا عجز اور غربت ظاہر کرے تو ضرور ہے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک ہو۔ لیکن ایک شخص جو گھوڑی پر سوار ہو کر آوے اور سوال کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر نہ دو گے تو ڈنڈے ماروں گا۔ تو بجز اس کے کہ خود اس کے ڈنڈے پڑیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ خداتعالیٰ سے اَڑ کر مانگنا اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کا موجب ہے۔ دعاؤں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اَڑ کر مانگنا اور بات ہے۔ یہ کہنا کہ میرا فلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کردوں گا۔ یا یہ کہدوں گا یہ بڑی نادانی اور شرک ہے اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے۔ ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں۔ قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا۔ بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُوۡنِیۡٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:61) لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ الآیۃ (البقرہ: 156) اُدْعُوۡنِیۡٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ میں اپنی منوانا چاہتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے۔ ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے…خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرہ:156) پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو۔ یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے والوں کو بشارت دو بلکہ صبر کرنے والوں کو۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اگر بظاہر اپنی دعاؤں میں ناکامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے۔ اہل اللہ کو نظر آجاتا ہے کہ یہ کام ہونہار ہے۔ پس جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں۔ ورنہ قضا و قدر پر راضی رہتے ہیں۔ اہل اللہ کے دو ہی کام ہوتے ہیں جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضا و قدر اس طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں۔ جیسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا۔ جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھا۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ ,386-385 آن لائن ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔ امریکہ)