• 13 جولائی, 2025

آخری عشرہ رمضان ’’آگ سے نجات‘‘ (قسط دوم۔آخری)

آخری عشرہ رمضان ’’آگ سے نجات‘‘
کا ایک ذریعہ- اعتکاف
قسط دوم۔آخری

ماہ رمضان کا مسنون اعتکاف کس دن شروع کرنا چاہیے:۔ مسنون اعتکاف جس کی آپ ﷺ نے اپنے آخری رمضان میں صحابہ کو تاکید اور نصحیت کی ہے، وہ آئندہ سے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے کا حکم تھا۔ اس کا عملی اظہار، آنحضرت ﷺنے آخری عشرہ کے آغاز میں نماز فجر پڑھنے کے بعد اعتکاف شروع فرمایا اور ماہ شوال کا چاند طلوع ہونے پر اعتکاف ختم فرمایا۔ ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ: نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔

(البخاری کتاب الاعتکاف بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّہَا)

اسی طرح حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:۔ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَعْتَکِفُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَکُنْتُ أَضْرِبُ لَہُ خِبَاءً فَیُصَلِّی الصُّبْحَ ثُمَّ یَدْخُلُہُ: رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ میں آپ ﷺ کے لیے خیمہ تیار کرتی ، آپ ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس میں تشریف لے جاتے۔

(البخاری کتاب الاعتکاف بَابُ اعتکاف النساء)

آپﷺ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں۔چنانچہ لکھا ہے کہ ’’كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ: ’’آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں‘‘

(مسلم،کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر)

آئندہ سے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے کی ہدایت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت ابو سعید خدریؓ رسول پاک ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔ اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ فَخَرَجَ صُبْحَۃَ عِشْرِیْنَ فَخَطَبَنَا فَقَالَ اِنِّیْ اُرِیْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ۔ثُمَّ اُنْسِیْتُھَا اَوْ نَسِیْتُھَا فَلْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ اْلاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ: ہم نے آنحضرتؐ کے ہمراہ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر آپ بیسیویں کی تاریخ کی صبح کو باہر تشریف لائے اور ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی تھی مگر پھر مجھ سے بھلا دی گئی۔ یا یہ فرمایا کہ ’’میں بھول گیا‘‘۔ پس اب تم اس کو (رمضان کے) آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

(بخاری کتاب باب الصلاۃ و التراویح۔ باب التماس لیلۃ القدر فی السبع الاواخر)

پس آنحضور ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں (یعنی بیسویں روزے کی صبح سے) اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ فجر کی نماز پڑھ کر آپ اپنے معتکف میں تشریف لے جاتے تھے۔

(مسلم کتاب الصیام با ب متی یدخل من اراد الاعتکاف)

کیامسنون اعتکاف کے لیے روزہ کی شرط ہے؟مسنون اعتکاف وہی کہلائے گا جس میں روزہ بھی رکھا جائے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں: اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ …..اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے۔

(سنن ابو داؤد،کتاب الصیام،باب المعتکف یعود المریض روایت نمبر2473)

اور عیدالفطر کا چاند نظر آنے پر آپ اعتکاف ختم فرمایا کرتے تھے۔ یہ مسنون اعتکاف ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی چند دن مسجد یا گھر میں بیٹھ کر عبادت اور ذکر واذکار کرتا ہے تو اسے اس کا ثواب تو مل جائے گا مگر اسے ہم مسنون اعتکاف نہیں کہیں گے۔

اعتکاف کس وقت (ٹائم) بیٹھا جائے

اعتکاف 20رمضان کی نماز فجر سے شروع کرنا چاہیے کیونکہ آنحضورﷺ کی اس بارہ میں واضح سنت موجود ہے کہ آپ 10دن کا اعتکاف فرمایا کرت تھے اور دس دن اسی صورت میں مکمل ہوتے ہیں جبکہ 20رمضان کی صبح کو اعتکاف بیٹھا جائے۔

1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺرمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے، میں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کردیتی۔ آپﷺ صبح کی نماز (فجر) ادا کرتے پھر اس میں تشریف لے جاتے۔

(صحیح البخاری،ابواب الاعتکاف،باب اعتکاف النساءروایت نمبر2033)

2۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان میں اعتکاف فرماتے،آپؐ نماز فجر اداکرنے کے بعد اپنے معتکف میں تشریف لے جایاکرتے۔

(صحیح البخاری،کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی شوال روایت نمبر2041)

3۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر اداکرنےکے بعد اپنے معتکف میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔

(صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف،باب اعتکاف العشر الأواخر من رمضان روایت نمبر2785)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’ساتھ ہی ایک اور حکم بھی دیا کہ رمضان میں اس سنت کوبھی پورا کروکہ رمضان کی بیسویں صبح سے لے کردس دن اعتکاف کیاکرو۔ ان دنوں میں زیادہ توجہ الی اللہ چاہئے۔‘‘

(الحکم 17؍نومبر1907ء صفحہ5)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں۔ کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘

(الفضل جلد2نمبر64مورخہ 12؍نومبر 1914ء صفحہ نمبر 12 زیر عنوان، ضمیمہ درس صفحہ84)

20رمضان کی شام اعتکاف بیٹھنا:۔ایسے ممالک جہاں چاند کا حساب بہت پہلے ہو جاتا ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ رمضان کا مہینہ انتیس دن کا ہے یا تیس دن کا۔چنانچہ حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک دوست کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’آپ نے اعتکاف شروع کرنے کی تاریخ کے بارہ میں سوال اٹھایا ہے۔ مرکز میں تو ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ لوگ 20؍ رمضان کی صبح سے لے کر عصر کے بعد تک بیٹھتے رہے ہیں۔ آجکل چونکہ رمضان کی تاریخوں کا پہلے ہی واضح طور پر پتہ لگ جاتا ہے اور اعتکاف میں دس دن پورے کرنے بھی ضروری ہوتے ہیں اس لئے انتظامیہ سہولت کے مطابق فیصلہ کر لیتی ہے۔ اور 20کی عصر کے بعد بھی بیٹھیں تو 10 دن تو پورے ہو ہی جاتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 12؍مئی 2020ء۔صفحہ نمبر 16)

حضورﷺ کا اعتکاف کم از کم ایک عشرہ پر محیط دورانیہ کا ہوتا اور اس دوران روزے کی حالت میں ہوتے تھے۔ اسے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مسنون اعتکاف تو وہی ہے، لیکن اگر کوئی انسان عشرہ مکمل نہیں کرسکتا یا روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن وہ بیٹھ کر عبادت، ذکر الٰہی اور دعائیں کر رہا ہے تو ہم اس کو منع نہیں کر سکتے، کیونکہ کہی بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ اگر کوئی متذکرہ شرائط مکمل کئے بغیر اعتکاف کی سی حالت میں بیٹھ کر، مسجد میں بیٹھ کر تلاوت اور ذکرالٰہی اور دعائیں اور نوافل میں مشغول ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادات کو قبول نہیں کرے گا۔

اعتکاف بیٹھنے کی موزوں ترین جگہ جامع مسجد

اعتکاف کے لئے موزوں اور مناسب جگہ جامع مسجد ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے:۔ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ: جبکہ تم مساجد مىں اعتکاف بىٹھے ہوئے ہو

(البقرہ:188)

اسی طرح تعمیر کعبہ جو کہ مساجد کے لیے بطور اساس کے حکم رکھتا ہے۔اس کی بابت حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو ہدایت دی گئی تھی کہ: أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ: تم دونوں مىرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بىٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو (البقرہ: 126)

آنحضرت ﷺ، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں: لاَ اِ عْتِکَافَ إِلَّا فِی مَسْجِدٍ جَامِعٍ اعتکاف کی بابت سنت یہ ہے کہ وہ صرف جامع مسجد میں ہوتا ہے۔

(ابوداؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)

اس روایت کو علماء بطور دلیل بیان کرتے ہیں کہ اعتکاف مسجد میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ چنانچہ علامہ شوکانی (متوفی: 1250ھ) نیل الاوطار لکھتے ہیں اس حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں: ’’فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَسْجِدَ شَرْطٌ لِلِاعْتِكَافِ‘‘ (نیل الاوطار از امام الشوکانی۔ كِتَابُ الِاعْتِكَافِ جزء4 صفحہ317) کہ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے اعتکاف مسجد کے ساتھ مشروط ہے۔

البتہ مساجد میں اعتکاف کے بارے میں بھی علماءوفقہاء میں اختلاف ہے۔ علماء کا ایک گروہ (حضرت حذیفہؓ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ) اس بات کا قائل ہے کہ صرف تین مساجد یعنی مسجدحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ دوسرےگروہ (امام مالکؒ، ابن عبدالحکمؒ وغیرہ) کے نزدیک اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہی بیٹھا جاسکتا ہے ہر مسجد میں نہیں کیونکہ اگر دوسری مسجد میں بیٹھے گا تو نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے اسے اپنی مسجد سے جامع مسجد آنا پڑے گا جو اعتکاف کو منقطع کرنے کے مترادف ہوگا۔تیسرے گروہ (امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، ثوریؒ وغیرہ) کے نزدیک ہر مسجد جہاں مؤذن اور امام ہواور پنجوقتہ نمازیں ادا کی جاتی ہوں وہاں اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔جبکہ چوتھا گروہ مسجد کے علاوہ بھی ہر جگہ اعتکاف بیٹھنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ مثلاً محمد بن عمر بن لبابہ مالکی وغیرہ

(بدایة المجتھد و ہدایة المقتصد جزء2 صفحہ76)

علامہ ابن حجر(متوفی:852ھ) لکھتے ہیں: ’’وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى مَشْرُوطِيَّةِ الْمَسْجِدِ لِلِاعْتِكَافِ إلَّا مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ الْمَالِكِيَّ، فَأَجَازَهُ فِي كُلِّ مَكَان، وَأَجَازَ الْحَنَفِيَّةُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَكِفَ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَهُوَ الْمَكَانُ الْمُعَدُّ لِلصَّلَاةِ فِيهِ. وَفِيهِ قَوْلٌ الشَّافِعِيِّ قَدِيمٌ. وَفِي وَجْهٍ لِأَصْحَابِهِ وَلِلْمَالِكِيَّةِ: يَجُوزُ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ لِأَنَّ التَّطَوُّعَ فِي الْبُيُوتِ أَفْضَلُ‘‘ (فتح الباري لابن حجر جزء4 صفحہ272) یعنی علماء مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنے پر متفق ہیں سوائے محمد بن عمر بن لبابہ مالکی کے، اس نے ہر جگہ اعتکاف بیٹھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اور حنفیوں کے نزدیک صرف عورت اپنے گھر میں نماز کی مقرر کردہ جگہ پر اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ اور اس بارے میں شافعی کا بھی ایک قدیم قول ہے۔ اور اس کے اصحاب اور مالکیوں کےلیے ایک توجیہ یہ ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یہ جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ نفلی عبادت گھروں میں کرنا افضل ہے۔

یہی بات علامہ شوکانی نے نیل الاوطار کے متذکرہ حوالہ میں بیان کی ہے۔

الغرض نصّ سے تو مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنا رائج عمل ہے۔ لیکن بامر مجبوری یاکسی وبائی بیماری جیسے آج کل کورونا وغیرہ ہے، تو ایسی صورت حال میں گھروں میں بھی صرف ایسی جگہ اعتکاف کیا جاسکتا ہے جو ’’مسجد البیت‘‘ یعنی نمازیں ادا کرنے کےلیے مخصوص کی گئی ہو۔

اس بابت حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کاایک ارشاد ہماری راہنمائی کرتا ہے۔چنانچہ لکھا ہے کہ الٰہ آباد سے ایک دوست نے آپؓ سے دریافت کیا کہ یہاں احمدیوں کی مسجد تو کوئی نہیں۔ میں نے ایک مکان اپنی رہائش کیواسطے کرایہ پر لیا ہوا ہے اسی کے ایک کمرے میں احمدی برادران نماز اور جمعہ پڑھ لیتے ہیں کیا ماہ رمضان میں وہاں میں اعتکاف کر سکتا ہوں؟

فرمایا ہاں آپ وہیں اعتکاف کر لیں۔

(ارشادات نور جلد سوم صفحہ161 ایڈیشن 2015ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں خواتین کی طرف سے سوال ہوا کہ: کیا اعتکاف دس دن سے کم بیٹھنے کی اجازت ہے؟

جوابا ًفرمایا کہ ’’نہیں۔ جو عورت ایسی حالت میں ہو کہ اس کو پورے دس دن کی توفیق نہ ملے۔ تو اس کو بیٹھنا ہی نہیں چاہئے۔ گھر میں تبرکاً بیٹھ جائیں اصل اعتکاف تو بیت الذکر میں ہوتا ہے۔

(لجنہ سے ملاقات ریکارڈنگ 9جنوری 2000ء مأخوذ از روزنامہ الفضل 8مئی 2000ء صفحہ5)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے سوال ہوا کہ: کیا گھر میں اعتکاف ہو سکتا ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ: مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔

(فرمودات مصلح موعود ؓ دربارہ فقہی مسائل زیر عنوان اعتکاف صفحہ171)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس وبائی صورت حال میں نہایت اعلیٰ راہ نمائی فرمائی ہے کہ ’’اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد بڑا واضح ہے کہ ’’مسجد کے باہراعتکاف ہوسکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔‘‘ اور یہی میرا موقف ہے۔ تاہم عورتوں کو گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت ہے۔

نیز فرمایا: ’’باقی اعتکاف بیٹھنا ہر ایک کے لیے ضروری بھی نہیں لیکن چونکہ آجکل لوگوں کو مسجدوں میں نماز یا جمعہ کے لیے آنے کی اجازت نہیں، اس لیے گھروں میں کسی نے نماز کے لیے کوئی معین جگہ کی ہوئی ہے جہاں لوگوں کا عام آنا جانا نہیں ہے تو وہاں اعتکاف بیٹھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں پھر گھر والے مل کر باجماعت نمازوں کے ساتھ ساتھ اس جگہ جمعہ بھی ادا کریں۔ لیکن یہ اجازت صرف مجبوری کے حالات میں ہے۔ عام دنوں میں مسجدوں میں ہی اعتکاف بیٹھنا چاہیے۔‘‘ (سر کلر از طرف جماعت یوکے مورخہ 9؍مئی 2020ء)

(بحوالہ: الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 12مئی 2020ء صفحہ نمبر11)

باقی بہرحال اس کے علاوہ اگر کوئی چند دن مسجد یا گھر میں بیٹھ کر عبادت اور ذکر واذکار کرتا ہے تو اسے اس کا ثواب تو مل جائے گا مگر اسے ہم مسنون اعتکاف نہیں کہیں گے۔چونکہ تندرست مرد کیلئے مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھنا ضروری ہے، اس لیے بغیر حقیقی مجبوری کے وہ گھر میں مسنون اعتکاف نہیں بیٹھ سکتا۔

اعتکاف بیٹھنے کی شرائط:۔ جہاں تک معتکف کی شرائط کا تعلق ہے تو اعتکاف کےلیے مرد، عورت اور ممیز (تمیز کی عمر تک پہنچنے والے) بچے کا مسلمان ہونا، عاقل و بالغ اور اعتکاف کے بارے میں آگاہی و فرق کامعلوم ہونا ضروری ہے۔ نیز مردوں کا جنابت سے اور عورتوں کا حیض اور نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ مالکی مسلک کے نزدیک ایک اور شرط یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی۔

(الفقہ علی المذاہب الاربعة جزء 1صفحہ531)

ازواج مطہرات رسول اللہﷺ سے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں ہے: فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ أَنْ تَعْتَكِفَ، فَأَذِنَ لَهَا (بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی شوال) کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے اعتکاف کی اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر اعتکاف بیٹھیں۔

کیااعتکاف کرنے والے کے لیے مسجد میں چارپائی یابستربچھانا درست ہے؟ اعتکاف کے دنوں میں ضرورت پڑنے پر مسجد کے کسی کونے میں یا کسی اور مناسب جگہ میں چارپائی بچا کر سونا جائز ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ ایسا کرنے سے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو کوئی دقت پیش نہ آئے۔

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ’’اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ اِذَا اعْتَکَفَ طُرِحَ لَہٗ فِرَاشُہٗ وَیُوْضَعُ لَہٗ سَرِیْرُہٗ وَرَائَ اُسْتَوَانَۃِ التَّوْبَۃِ‘‘ (ابن ماجہ کتاب الاعتکاف باب فی المعتکف یلزم مکان من المسجد) یعنی حضور ﷺ جب اعتکاف شروع فرماتے تو آپؐ کے لئے بستر بچھایا جاتا اور ایک ایسے ستون کی اوٹ میں آپ کی چارپائی بچھائی جاتی جس کا نام توبہ کا ستون تھا۔ (ایک مشہور واقعہ کی وجہ سے اس ستون کا نام استوانہ التوبہ پڑ گیاتھا)

دوران اعتکاف بلند آواز سے تلاوت کرنا مناسب نہیں جبکہ قریب دیگر معتکفین بھی ہوں

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اعتکاف ایک انفرادی عبادت ہے اور کوئی ایسا فعل نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسرے معتکفین کی عبادت میں حرج ہوتا ہو۔ حتی کہ قرآن مجید بھی دھیمی آواز سے پڑھنے کی ہدایت ہے۔چنانچہ حضرت ابو سعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
اعْتَكَفَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ، فَكَشَفَ السِّتْرَ، وَقَالَ: ’’أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ، فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ‘‘، أَوْ قَالَ: ’’ي الصَّلَاةِ‘‘ آنحضرت ؐ نے مسجد میں اعتکاف کیا۔ اعتکاف کے دوران آپ نے بعض افراد کو اونچی آواز سے تلاوت قرآن مجید کرتے سنا۔ اس پر آپ ﷺنے اپنے خیمہ کا پردہ ہٹا کر فرمایا: اے لوگو! تم میں سے ہر ایک شخص اپنے خدا سے سرگوشی کر رہا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے کو تکلیف مت دو اور نہ ہی نماز میں یا قرآن مجید پڑھتے ہوئے ایک دوسرے کے مقابل پر اونچی آواز سے قراء ت کرو۔

(سنن ابو داؤد ابواب قیام اللیل باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل)

اسی مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:۔ ’’آپﷺ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ’’آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراء ت بالجہر نہ کرو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔مطبوعہ بیروت) یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیاز کر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرت ؐ نے فرمائیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ781)

٭… معتکف ذکر الٰہی اورعبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرے۔ فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا درست نہیں اور نہ بالکل خاموش رہنا درست ہے کیونکہ اسلام میں ’’چپ‘‘ کا روزہ نہیں۔ ’’وَلَا یَتَکَلّم اِلَّا بِخَیْرٍ وَیُکْرَہُ لَہُ الصَّمْتُ لِاَنَّ صَوْمَ الصَّمْتِ لَیْسَ بِقُرْبَۃٍ‘

(ہدایۃ باب الاعتکاف)

معتکف کس قسم کی حوائج ضروریہ کے لیے
مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟

حدیث کے الفاظ ہیں: ’’کان لا یدخل البیت الا لحاجۃ الانسان اذا کان معتکفا‘‘ (مسلم کتاب الطہارۃ جواز غسل الحائض رأس زوجھا) یعنی آنحضرت ﷺ اعتکاف کی حالت میں سوائے انسانی حاجت کے گھر میں نہیں آتے تھے۔

انسانی حاجت سے کیامراد ہے۔ اس کا ایک مفہوم بیت الخلاء جانا ہے۔ اس مفہوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے لئے مسجد سے باہر آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر محلہ کی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہے تو جمعہ پڑھنے کے لئے جامع مسجد جانے کی بھی اجازت ہے۔ اور اسے بھی حاجت انسانی سمجھا گیاہے۔ ان کے علاوہ باقی ضروریات مثلاً درس القرآن یا اجتماعی دعا میں شامل ہونے، بال کٹوانے، کھانا کھانے (سوائے اس کے کہ مجبوری ہو مثلاً گھر سے کھانے لانے والا کوئی نہ ہو)، نماز جنازہ پڑھنے، کسی عزیزکی بیمار پرسی کرنے یاکسی کی مشایعت کے لئے باہر آنے کی اجازت میں اختلاف ہے۔ اکثر ان اغراض کے لئے مسجد سے باہر آنے کو جائز نہیں سمجھتے اور اعتکاف کی روح بھی اس امرکی مقتضی ہے کہ ان ثانوی اغراض کے لئے معتکف مسجد سے باہر نہ آئے بلکہ کلی انقطاع کی کیفیت اپنے اوپر وارد کرنے کی کوشش کرے اور اس قسم کی ترغیبات اور خواہشات کی قربانی دینے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔ تاہم بعض فقہاء نے کہا ہے کہ حوائج ضروریہ میں کچھ وسعت ہے۔ بعض اور ضرورتوں کے لئے بھی معتکف مسجد سے باہر جا سکتاہے۔ خاص طورپر ضروری شہادت کے لئے جانے کی اہمیت مسلّم ہے کیونکہ:

(الف): ممانعت کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کا کوئی صریح ارشاد موجود نہیں۔

(ب): اعتکاف کا لغوی مفہوم صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان عبادت کی نیت سے مسجد میں کچھ عرصہ کے لئے بیٹھ رہے۔

(ج): بعض روایات سے بھی اشارۃ ً اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کسی اور ضرورت کے پیش نظر بھی مسجد سے باہرجا سکتاہے۔

ان کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ

کیا معتکف بیمار کی عیادت کے لیے جاسکتا ہے؟

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَمُرُّ بِالْمَرِيضِ، وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، فَيَمُرُّ كَمَا هُوَ، وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْهُ‘‘ وَقَالَ ابْنُ عِيسَى: قَالَتْ: ’’إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ‘‘ ترجمہ: نبی ﷺ اعتکاف میں ہوتے اور مریض کے پاس سے گزرتے تو اس سے حال پوچھ لیتے اورآپؐ رکتے نہیں تھے۔ اور اسی طرح ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ آپؓ نے فرمایا نبیﷺ مریض کی عیادت کرلیتے اور آپ ؐ اعتکاف میں ہوتے۔

(ابو دا ؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)

اسی طرح حضرت عائشہؓ حضورﷺ کی اعتکاف کی بابت سنت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:۔ ’’السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ‘‘: ترجمہ: سنت یہ ہے معتکف نہ کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے اور نہ نماز جنازہ کے واسطے جائے اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلق کرے اور نہ کسی ضرورت کے لئے باہر نکلے سوائے انسانی ضرورت کے لئے اور اعتکاف درست نہیں مگر روزہ کے ساتھ اور اعتکاف درست نہیں مگرجامع مسجد میں۔

(ابو دا ؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض)

اسی طر ح حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ جن ایام میں آپ مسجد میں اعتکاف بیٹھی ہوئی ہوتی تواُس وقت کے متعلق فرماتی ہیں: ’’اِنْ کُنْتُ لَاَدْخُلُ الْبَیْتَ لِلْحَاجَۃِ وَالْمَرِیْضُ فِیْہِ فَمَا اَسْألُ عَنْہُ اِلَّا وَ اَنَا مَارَّۃٌ‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصوم باب فی المعتکف یعود المریض… الخ صفحہ127) جب بھی مَیں قضائے حاجت کے لئے گھرآتی اور گھرمیں کوئی بیمارہوتا تو چلتے چلتے اس کی طبیعت پوچھ لیتی۔ (آپ ٹھہرنے کوروا نہ سمجھتیں)۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیادت مریض کے جواز کے بارہ میں جو لکھاہے اس کا بھی غالباً یہی مطلب ہے کہ ایسے رنگ میں عیادت جائز ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس قسم کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ’’یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت کے لئے جا سکتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں نکلنا چاہئے۔ یہ بھی عین آنحضرت ؐ کی تعلیم کے مطابق ہے۔حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہ ؐ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔ پس آپؐ قیام کئے بغیر اس کا حال پوچھتے۔‘‘ (ابو دا ؤد کتاب الصیام باب المعتکف یعود المریض) پھر اسی طرح ابن عیسیٰ کی ایک ایسی ہی روایت ہے۔ تو تیمار داری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آ گئے۔ یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے (وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لئے اور ہر قریبی کے لئے، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں۔ اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی۔ یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جا سکیں اس کی اجازت ہے،ویسے بھی جانے کے لئے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے۔ یہ مَیں باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ784-783)

بعض دیگر ضروی و حقیقی حاجات کے لیے
بوقت ضرورت حجرہ اعتکاف سے باہر نکلنا

بعض روایات سے بھی اشارۃ ً اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کسی اور ضرورت کے پیش نظربھی مسجد سے باہرجا سکتاہے۔ مثلاً ایک بار حضرت صفیہ ؓ رات کو آپ ؐسے ملنے گئیں اوردیر تک باتیں کرتی رہیں اورجب واپس ہوئیں تو آپ انہیں گھر تک پہنچانے آئے حالانکہ گھر مسجدسے کافی دور تھا۔چنانچہ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا فَحَدَّثْتُهُ، ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ،فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ ﷺ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّﷺَ: ’’عَلَى رِسْلِكُمَا، إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ‘‘قَالَا:سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:’’إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، فَخَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا‘‘، أَوْ قَالَ: ’’شَرًّا‘‘ ترجمہ: ’’رسول اللہ ؐ اعتکاف میں تھے۔ میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی۔ اور میں نے آپ ؐ سے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لوٹی تو آپؐ بھی میرے ساتھ اٹھے۔حضرت صفیہ ؓ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زید ؓ کے مکانوںمیں تھا۔ راستے میں انصاری راہ میں ملے۔ انہوں نے جب آپ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے (ان انصاریوں کو) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو۔ یہ صفیہ بنت حُییّ ہے۔ ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپ کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ آپ نے فرمایا: نہیں، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے۔‘‘

(ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ’’تو ایک تو آپ نے اس میں شیطانی وسوسے کو دور کرنے کی کوشش فرمائی۔ بتا دیا کہ یہ حضرت صفیہ ہیں، ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر کچھ دور تک چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ اگر مسجد میں حوائج ضروریہ کا انتظام نہیں ہے، غسل خانوں وغیرہ کی سہولت نہیں ہے تو اگر گھر قریب ہے تو وہاں بھی جایا جا سکتا ہے۔ آج کل تو ہر مسجد کے ساتھ انتظام موجود ہے اس لئے کوئی ایسی دقّت نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ784)

دوران اعتکاف اپنی حالت سنوار کے رکھنا اور مناسب خوبصورتی اختیار کرنا مناسب ہے

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ :۔ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ ’’إِذَا اعْتَكَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ‘‘ ترجمہ: رسول اللہ ؐ جب اعتکاف فرماتے تو آپ سر میرے قریب کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی اور آپؐ گھر صرف حوائج ضروریہ کے لئے آتے۔

(ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ’’بعض لوگ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ اعتکاف میں اگر عورت کا، بیوی کا ہاتھ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں کتنا بڑا گناہ ہو جائے گا۔ اور دوسرے یہ کہ حالت ایسی بنا لی جائے، ایسا بگڑا ہوا حلیہ ہو کہ چہرے پر جب تک سنجیدگی طار ی نہ ہو، حالت بھی بُری نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ آدمی عبادت کر رہا ہے۔ تو یہ غلط طریق کار ہے۔تو یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اعتکاف میں اپنی حالت بھی سنوار کے رکھنی چاہئے اور تیار ہو کے رہنا چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ بیوی یا کسی محرم رشتے دارسے اگر آپ سر پر تیل لگوا لیتے ہیں یا کنگھی کروا لیتے ہیں اس وقت جب وہ مسجد میں آیا ہو تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29اکتوبر 2004ء خطبات مسرور جلد2 صفحہ785)

پس حقیقت تو یہی ہے کہ مسنون اعتکاف تو وہی ہے جو روزے کی حالت میں ہوں لیکن اگر کوئی انسان روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن وہ بیٹھ کر عبادت، ذکر الٰہی اور دعائیں کر رہا ہے تو ہم اس کو منع نہیں کر سکتے، کیونکہ کہی بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ اگر کوئی غیر روزہ دار اعتکاف میں بیٹھ کر مسجد میں بیٹھ کر تلاوت اور ذکرالٰہی اور دعائیں اور نوافل میں مشغول ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادات کو قبول نہیں کرے گا۔

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ