سفر تین وادیوں کا
وادیٔ کیلاش، کمراٹ اور سوات کی سیر
ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی موسمِ گرما کے آتے ہی برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں، شفاف نیلے پانیوں کی پتھروں سے ٹکراتی فرحت بخش آوازوں اور سبز گھاس کے وسیع و عریض دلکش میدانوں کی حسین یادیں پہلوۓ قلب سے گوشۂ دماغ میں آنا شروع ہوگئیں اور ان حسین و دلفریب یادوں کے آتے ہی دوسال قبل کے رکھے rucksack (ہائیکنگ بیگ) کی جھاڑ پونچھ شروع کردی۔ 2020ء میں کرونا وبا کے باعث پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی تھی لہٰذا سال ِ گزشتہ اپنے سے کہیں دور پہاڑوں کو مخاطب کرکے خود کو یوں تسلی دی کہ
دل یہ کہتا ہےکہ شاید ہو فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
لیکن 2021ء میں تمام تر احتیاطوں کے ساتھ سیاحوں کو شمالی علاقہ جات میں سیاحت کی اجازت دی گئی تو گزشتہ سال کی تشنگی کو بھی اس طرح دور کرنے کی ٹھانی کہ امسال ایک کی بجاۓ تین وادیوں کا رخ کیا جاۓ۔پاکستان کے انتہائی خوبصورت شمالی علاقہ جات کی یہ تین وادیاں وادیٔ کیلاش، وادیٔ کمراٹ اور وادیٔ سوات تھیں۔
19 جون کی رات کو دعا و صدقہ کے ساتھ اس ارادہ پر باقاعدہ عمل کا آغاز کیا اور رات کے سفر کرنے کے بعد 20 جون کو علی الصبح راولپنڈی پہنچے۔ راولپنڈی، شمالی علاقہ جات کی طرف جانے کے لیے پاکستان کا جنکشن ہے اور پاکستان کے شمالی علاقوں کو جانے والے سیاح مرکزی دارالحکومت سے متصل اس جڑواں شہر سے ہوکر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔فجر کی اذان سے قبل ہی راولپنڈی کے مختلف اڈوں سے شمال کے کوہساروں کی جانب مسافروں کو لے جانے کے لیے بسوں اور ویگنوں کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ شہر کے ان معروف اڈوں میں سے سب سے معروف اڈہ پیرو دھائی ہے۔ہم نے چترال جانا تھا لہٰذا یہاں سے تیمر گرہ جانے والی گاڑی پر سوار ہوۓ۔
تیمر گرہ
چکدرہ انٹر چینج تک موٹر وے پر سفر کرنے کے بعد قریباً تین گھنٹے میں ہم تیمر گرہ شہر پہنچے۔ تیمر گرہ پاکستان کے ضلع دِیر زیریں کا ضلعی صدر مقام ہے۔ تیمر گرہ دریاۓپنجکوڑہ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔دیر زیریں میں سب سے بڑا بازار تیمر گرہ ہی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا نام تیموری سلطنت کے بانی تیمور بادشاہ کے نام سے کچھ اس طرح موسوم ہے کہ جب امیرتیمور ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو اس کا گزر تیمر گرہ سے ہوا اور وہاں وہ اپنے گھوڑے سے نیچے گر گیا لہٰذااس جگہ کا نام تیمور گرہ پڑ گیا جو کہ بعد میں رفتہ رفتہ تبدیلی کی وجہ سے تیمر گرہ بن گیا۔ مگر بعض کے نزدیک یہ درست نہیں کیونکہ اردو زبان کا آغاز بہت بعد میں ہوا جبکہ تیمور کا زمانہ اردوزبان سے قبل کا ہے۔ تیمر گرہ میں کچھ قدیم مقبرے بھی موجود ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قبریں آریہ لوگوں کی ہیں اور ان کا زمانہ 1500ء سے 600ء قبل مسیح عیسوی بتایا جاتا ہے۔
تیمر گرہ سے دِیر
تیمر گرہ سے vanتبدیل کرنے کے بعد ہمارا اگلا سفر چترال کی جانب تھا۔تیمر گرہ سے براستہ دِیر شہر تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد vans اور coasters چترال شہر کو روانہ ہوتی ہیں۔ یہ گاڑیاں فی سواری 750 روپے کرایہ صول کرتی ہیں۔ چنانچہ دِیر سے ہوتے ہوئےشام قریباً چار بجے چترال شہر پہنچے۔ راستے میں بعض چھوٹی tunnels سے گزرنے کے علاوہ لواری Tunnel سے بھی گزر ہوا۔
لواری سرنگ
یہ سرنگ پاکستان کے صوبہ خیبر پختو نخواہ کے ضلع چترال اور ضلع دِیر کے درمیان درہ لواری میں پہاڑوں کے نیچے.سے گزرتی ہے۔یہ سرنگ چترال اور دِیر کو ملاتی ہے۔یہ دو سرنگیں ہیں۔ان میں سے ایک کی لمبایٔ 8.5کلومیٹر اور دوسر ی کی لمبائی3 کلومیٹر ہے۔یہ پاکستان کی طویل ترین سرنگ ہے۔2017ء میں اس کی تکمیل کے بعد دِیر سے چترال کا زمینی سفر لگ بھگ اڑھائی سے تین گھنٹے مختصرہوگیا ہے۔اس کی تعمیر سے قبل سردیوں میں برف باری کے بعد لواری پاس ٹریفک کے لیٔے بند ہوجایا کرتا تھا۔ جس کے سبب چترال کا ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی راستہ منقطع ہوجاتا تھااور کھانے پینے کی اشیاء کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی تھی۔اسی طرح سرنگ بننے سے قبل لواری پاس سے گزرتے ہوۓبالخصوص سردیوں کے موسم میں ہر سال قریباً آدھ درجن انسان لقمۂ اجل بن جایا کرتےتھے۔ لواری ٹنل ایک عجوبے سے کم نہیں کیونکہ یہ سرنگ پہاڑوں کے بیچوں بیچ ساڑھے آٹھ کلو میٹر طویل سرنگ ہے۔ اس سرنگ کو تقریباً 26 ارب روپےکی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔اس کی تکمیل سے پشاور اور چترال کے درمیان مسافت 14 گھنٹے سے کم ہوکے 7 گھنٹے رہ گئی ہے۔لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد مسافروں کو ساڑھے دس ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنے سے نجات مل گئی ہے اور پورا سال آمد و رفت کی سہولت بھی میسر ہوچکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 68 سال کے دوران لواری ٹاپ کے راستے سفر کرتے ہوۓتقریباً 8 ہزار افراد نے برفانی ہواؤں اور تودوں کی زد میں آکر جانیں گنوائی۔اس طویل سرنگ میں خوبصورت برقی قمقمے لگے ہوئے ہیں جو اس سرنگ کے منظر کومزید دیدہ زیب بناتے ہیں۔یہ سرنگ دن میں کچھ وقت ٹریفک کے لیےبند بھی کی جاتی ہے۔بعض اوقات یہ دورانیہ دو سے تین گھنٹے بھی ہوتا ہے۔ہمارے پہنچنے سے چند منٹ قبل یہ سرنگ بند ہوچکی تھی چنانچہ ہمیں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ یہاں انتظار کرنا پڑا۔
چترال
شام کو چترال پہنچنےکے بعد شہر میں ہم نے دریاۓ چترال کے کنارے اپنے خیموں میں پڑاؤ کیا۔شہر میں قیام کے لئے درمیانے درجہ کےہوٹل بھی موجودہیں۔ شام کو چترال شہر دیکھنے کےلئے گئے۔ جس میں چترال کی قدیم مسجد،قلعہ،میوزیم اور پولوگراؤنڈ شامل تھے۔یہ شہر بہت زیادہ بڑا نہیں ہےلیکن بازار میں روزمرہ اشیائے ضرورت بآسانی دستیاب ہو جاتی ہیں۔چونکہ دکانداروں کی اکثریت کا تعلق اردگرد کے علاقوں سے ہے اس لیے بازار سرِ شام ہی بند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔رات کو دریاۓ چترال کے کنارے آگ جلائی اور باوجود بیس گھنٹے مسلسل سفر کے خود کھانا بنا یا۔ کھانا بنا نے کے لئے ہم گیس کے چھوٹے سلنڈر کا چولہا لے کر گئے تھے۔ کھا نے کے لئے چترال کے بازار سے ہی گوشت،ٹماٹر،ہری مرچ،گھی اوردیگر اشیائے ضرور یہ خرید کی گئیں۔کھانا بنانے کے دوران بعض مقامی افراد ہمارے پاس آگئے اور اس شہر کے بارہ میں بعض خود ساختہ کہانیاں سناتے رہے جسے ہم بڑی دلچسپی سے ایک کان سے سن کردوسرے کان کے ذریعہ خاموشی سے باہر نکالتے رہے۔
صبح جب اٹھے تو سورج نے ابھی آنکھ نہ کھولی تھی۔نماز پڑھ کر جب فارغ ہوۓ تو سورج کی کرنیں پہلے پہاڑوں اور پھر دریائےچترال پر پڑیں تو وادی کا حسن دوبالا ہو گیا۔ دریا خوب ٹھاٹھیں مارتابہہ رہا تھا۔ کچھ دوست تصویر کشی میں مصروف تھےجبکہ بعض صبح کا ناشتہ بنا نے کے فرائض کی انجام دہی کر رہے تھے۔ ناشتہ کے بعد جونہی فارغ ہوئے تو اپنے اگلے قیام یعنی وادیٔ کیلاش کا سفر کر نے کے لئے مکمل تیار تھے۔ خیمہ جات دورانِ تیاری ناشتہ اتارے جا چکے تھے۔ اڈے پر پہنچ کر ایک بڑی جیپ(land cruiser) میں سوار ہوۓ۔چترال سے وادیٔ کیلاش تک اس جیپ کا کرایہ 300 روپیہ فی سواری ہے۔وادیٔ کیلاش تین دیہاتوں رمبور،بمبوریت اور بریر پر مشتمل ہے۔
کیلاش کا خوبصورت راستہ
اگر آپ دِیر کی طرف سے درہ لواری کو عبور کرکے آرہے ہیں اور چترال جانے کی بجائے سیدھے وادیٔ کیلاش پہنچنا چاہتے ہیں تو چترال سے قریباً30 کلومیٹر پہلےبائیں جانب دروش نامی قصبے میں اتر جائیں۔ دروش سے آپ کو کیلاش کی جیپیں مل جائیں گی۔لیکن دِیر سے بھی آپ جیپ کروا کر کیلاش پہنچ سکتے ہیں۔دِیر سے دروش قریباًتین گھنٹے جبکہ دروش سے کیلاش تک قریباً دو گھنٹے جیپ کا سفر ہے۔دروش تک سڑک پختہ آتی ہے لیکن دروش سے آگے آیون تک کہیں کہیں پختہ سڑک ہے تاہم آیون سے آگے سڑک ناہموار اور غیر پختہ ہے۔چترال میں جیپ کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں چلتی۔چنانچہ یہاں سفر کا مطلب ہی جیپ کا سفر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ پہلےچترال اور پھر کیلاش جانا چاہتے ہیں توچترال کے جیپ اسٹینڈسے بھی آپ کو وادیٔ کیلاش کے لیے جیپ مل جاۓگی جو دروش اور آیون کے راستہ سے ہوتی ہوئی قریباً ساڑھے تین گھنٹے میں آپ کو کیلاش پہنچا دیتی ہے۔آیون وادیٔ کیلاش کا دروازہ ہے۔کیلاش کی تینوں وادیوں بمبورت، بریر اور رامبور کے راستے یہیں سے نکلتے ہیں۔ آیون خود بھی ایک خوبصورت، سرسبز اور پرسکون گاؤں ہے۔ یہ دریاۓ چترال کے عین کنارے پر واقع ہے۔اس کے کھیت اتنے سبز اور مخملیں ہیں کہ دور سے سبز رنگ کا ایک قالین معلوم ہوتے ہیں۔
چترال شہر سے35 کلو میٹر دورجنوب میں کوہ ہندو کش کے سر سبز پہاڑوں میں چھپی حسین مناظرسے بھر پوروادی ’’کیلاش‘‘ ہے جو عام پہاڑی وادیوں کے روایتی تاثر سے بالکل مختلف ہو نے کے باعث دیکھنے والے کے ذہن سے تا حیات نہیں مٹتی۔کیلاش میں رمبور، بریر اور بمبور ت تینوں وادیاں پہاڑوں کے تین علیحدہ سلسلوں میں واقع ہیں۔ ان تینوں میں سب سے خوبصورت اور بڑی وادی بمبورت ہے۔ یہ وادی اپنے درمیان میں بہتی نیلگوں شفاف پانی کی ندی اور اس کے پتھروں سے سر ٹکرا کر جھاگ اڑاتی لہروں کے گرد پھیلے دورویہ سبز کھیتوں پر مشتمل بےحد قابل دید ہے۔کیلاش کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔
جب آپ آیون سے کیلاش کی طرف چلیں تو راستہ بتدریج اونچا ہوتا جاتا ہے۔ دائیں جانب نیچے کی طرف ایک شفاف ندی کا پانی پتھروں سے ٹکراتا ہوا مخالف سمت میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ کچھ آگے چلیں تو ایک پل آتا ہے، جسے عبور کرتے ہی دوباش نامی ایک چیک پوسٹ ہے جس کی چھوٹی سی عمارت پر لہراتا ہوا پاکستان کا پرچم دور ہی سے نظر آجاتا ہے۔اس چیک پوسٹ سے دائیں جانب بمبوریت جبکہ بائیں جانب بریر کے لیے راستہ جاتا ہے۔یہاں سے کیلاش کی وادی میں داخل ہونے کے لیے مقامی افراد کے علاوہ سیاحوں کو 50روپے کا ایک ٹکٹ دیا جاتا ہے۔اس ٹکٹ کی آمدنی وادی کے راستوں کی مرمت اور دیگر ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے۔ پل عبور کر کے آپ ندی کے دائیں طرف محوِ سفر ہو جائیں گے اور کیلاش کا بھرپور حسن رفتہ رفتہ آپ کے سامنے بے نقاب ہوتا چلا جاۓ گا۔ گنگناتے ہوۓ شفاف پانی کے بے شمار چشمے راستے کے اوپر سے گزر کر ندی میں گرتے ہوۓ ملتے ہیں۔ سیبوں اور خوبانیوں کے درخت جابجا گزرنے والے راستہ پرجھکے ہوئےملتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ آنے والے سیاحوں کو جھک کر خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو احساس دلاۓ گا کہ آپ وادیٔ کیلاش میں ہیں۔ بمبوریت یا رمبور پہنچ کر اگر آپ مزید مہم جوئی چاہتے ہیں اور ہائیکنگ کا ارادہ رکھتے ہیں تو وادی کے دونوں طرف کے پہاڑوں میں سے کسی ایک سلسلے کو عبور کر کے بریر جاسکتے ہیں۔ بعض مہم جو سیاح یہ کر تے ہیں۔ یہ قریباً تین گھنٹے کی ہائیکنگ ہے۔
چترال اور وادیٔ کیلاش کی سیاحت کیلئے سال کے صرف چار مہینے ہی مناسب ہیں، کیونکہ اکتوبر سے مئی تک یہاں نہایت سخت سردی پڑتی ہے اور ہر سُو برف کا راج ہوتا ہے۔ چترال میں داخلے کا دروازہ یعنی درہ لواری شدید برف کی لپیٹ میں آکر بالکل بند ہو چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ صرف جون سے ستمبر تک کا موسم یہاں سیاحت کے لئے موزوں ہے۔
مقامی روایات کے مطابق کیلاشی سکندراعظم کی اس فوج کی اولاد ہیں جو فتوحات کے دوران صدیوں قبل ان علاقوں سے گزری تھی۔ مقامی لوگ اپنی اس تاریخ پر فخر محسوس کر تے ہیں۔ ان لوگوں کے خدوخال میں آج بھی یونانی جھلک نظر آتی ہے۔کیلاشی سال میں تین تہوار مناتے ہیں۔
کیلاشی گاؤں رمبور
آیون سے مکمل طور پر غیر پختہ اور ناہموار راستہ پر تقریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد کیلاش کے گاؤں رمبور پہنچے۔یہ گاؤں 72گھرانوں پر مشتمل ہے۔رمبور میں کچھ دیر قیام کیا۔یہاں کے ایک مقامی اسکول ٹیچر سے ملاقات ہوئی جو بڑی محبت سے ملے اور انہوں نے گاؤں کے مختلف حصوں کی سیر اور تعارف کروایا۔جس میں کیلاشیوں کی عبادت گاہ ’’جستک ہان‘‘ بھی شامل تھی۔رمبور بمبوریت کی نسبت چھوٹا گاؤں ہے اور رہائش کے لیے مناسب ہوٹلز نہیں ہیں لہٰذا سیاح یہاں بالعموم قیام نہیں کرتے۔
کیلاشی گاؤں بمبوریت اور بعض کیلاشی روایات
رمبور سے روانہ ہونے کے بعد قریباً ایک گھنٹہ سفر کر کے کیلاش کے ایک اور گاؤں بمبوریت پہنچے۔ شام کو بمبوریت گاؤں دیکھا اور کیلاشیوں کی تہذیب وثقافت سے آگاہی حاصل کی۔ یہاں مقامی افراد ایک دوسرے کو سلام کرنے کے لئے لفظ ’’اشپاتا‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ کیلاشی بڑے مہمان نواز ہیں اور پرتپاک انداز میں مہمانوں کا استقبال کر تے ہیں۔ خواتین یوں تو پردہ نہیں کرتیں لیکن سیاحوں کے تصویر لینے کو نا پسند کرتی ہیں۔ بمبوریت میں بھی کیلاشیوں کی عبادت گاہ گئے نیز قبرستان اور بشالی کی عمارت دیکھی۔بشالی اس عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں خواتین ایامِ ِمخصوصہ اور بچے کی پیدائش کے ایام یہاں گزارتی ہیں۔کیلاشی خواتین اپنے مخصوص لباس کے باعث پہچانی جاتی ہیں۔ یہ خواتین لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں جو سیپیوں اور موتیوں سے مزین ہوتی ہیں۔ کیلاشی مرد با لعموم داڑھی نہیں رکھتے جس کے با عث معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مرد کیلاشی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔مرد شلوار قمیص پہنتے ہیں۔پاکستانی معاشرے کے برعکس یہاں مرد و خواتین کا سماجی میل ملاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔کیلاشی سال میں تین تہوار مناتے ہیں جسے فیسٹیول کا نام دیتے ہیں۔ہر تہوار کا نام علیحدہ ہے۔کیلاش کی تینوں وادیوں کے رہنے والے افراد اپنی اپنی وادی میں میں یہ تہوارمناتے ہیں۔بمبوریت میں رہائش کے لیے مناسب ہوٹلز موجود ہیں اور یہاں آنے والے سیاح انہی ہوٹلوں میں رات گزارتے ہیں۔
کیلاش سے وادیٔ کمراٹ
رات بمبوریت میں شفاف پانی کے ایک نالے کے کنارے خیمہ زن ہوئے۔ چونکہ سفر طویل تھا لہٰذا اگلے روزطے پایا کہ ناشتہ راستہ میں ہی کیا جائے۔ اس جیپ نے دِیر تک فی سواری 700 روپیہ وصول کیا۔ قریباً چار گھنٹے مسلسل سفر کے بعد ہم دِیر پہنچے۔کچھ وقت دِیر میں قیام کے بعد دِیر کے اڈہ سے وادیٔ کمراٹ کی جانب روانگی ہوئی۔ دِیر بالا کے ضلع ہیڈ کوارٹرسے 500 میٹر قبل یاد گار فرید خان شہید (باب کمراٹ) سے ایک شاہراہ شروع ہوتی ہے جو آپ کو اس حسین و دلکش وادی تک لے جاتی ہے۔دیر سے کمراٹ تک قریباً چار گھنٹے کاسفر ہے۔
راستہ میں قصبہ شرینگل نے بھی آنکھیں بچھا کر ہمارا استقبال کیا۔ یہاں پر اپر دِیر، لوئر دِیر اور چترال کے طلباء کےلئے بنائی گئی ایک یونیورسٹی ’’بے نظیر بھٹو شرینگل یونیورسٹی‘‘ بھی موجود ہے، جس کا فنِ تعمیر خاصا متاثر کن لگا۔ شرینگل ایک خوبصورت قصبہ ہونے کے ساتھ ساتھ دِیر اپر کے بعد اس شاہراہ پر سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ یہاں پرسیاحوں کی رہائش اور کھانے پینے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے کے مزید سفر کے بعد ’’دروازوں‘‘ نامی گاؤں آتا ہے، جہاں دریا پر بنا پل آپ کو اس راستہ پر لے جاتا ہے جو ’’کمراٹ‘‘ سے ’’اتروڑ‘‘ اور ’’بادو گئی پاس‘‘ سے ہوتے ہوئے کالام پہنچاتا ہے۔تھل پہنچ کر ہم نے کچھ دیر نیچے اتر کر تھکاوٹ دور کرنے کی کوشش کی۔ یہاں ڈیڑھ سو سال قبل لکڑی سے تعمیر شدہ ایک خوبصورت جامع مسجد دارالاسلام کو دیکھنے کے بعد وادیٔ کمراٹ کی جانب روانہ ہوئے۔اگر آپ اپنی گاڑی پر وادیٔ کمراٹ کی سیر کے لیے آئے ہیں تو آپ کو اپنی گاڑی تھل کے قصبہ میں ہی پارک کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہاں سے آگے وادیٔ کمراٹ یا جاز بانڈہ آپ 4×4 جیپ پر ہی جاسکتے ہیں۔ بعض سیاح رات تھل میں دریا کے کنارے بنے ہوٹلز میں بھی بسر کرتے ہیں اور یہاں گزشتہ سفر کی تھکاوٹ دور کر کے اگلے روز آگے کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔
وادیٔ کمراٹ
تھل سے 20کلو میٹر لمبی وادی کمراٹ شروع ہو جا تی ہے۔ تھل سے کمراٹ تک چونکہ لوکل ٹرانسپورٹ نہیں ہیں اس لئے جیسا کہ ذکر کیا گیا یہاں سےآگے 4×4 گاڑی پر ہی سفر کیا جا سکتا ہے۔ لوکل جیپ ڈرائیورز یہاں 4 سے 5 ہزار روپے طلب کرتے ہیں۔ راستہ میں وہ جنگل آتے ہیں جو اس وادی کے حسن کی معراج اور انتہائی دل موہ لینے والے ہیں۔ اس جنگل کے آخر میں برف سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑ نظر آتے ہیں۔ کمراٹ میں خوبصورت جنگلوں، خیموں، عارضی ہوٹلوں کے لیے مختص جگہ، آبشار، کالاپانی، دو جنگہ، کنڈل شاہی بانڈہ، چروٹ بانڈہ، ازگلو بانڈہ اور آخر میں شہروز بانڈہ سے ہوتے ہوئے آپ بلند پہاڑی سلسلہ پر پہنچتے ہیں جسے عبور کرنے پر آپ چترال میں داخل ہو جائیں گے۔
تھل سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی کمراٹ کو جاتا ہے جہاں قدم قدم پر پر ہوش رُبا فطری نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، جبکہ دوسری طرف جاز بانڈہ ’’بانال‘‘ کا خوبصورت میدان ہے۔ بانال کو ہستانی زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پر پہاڑوں پر 5 سے 10 گھر ہوں اور گرمیوں میں لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہوں۔موسمِ گرما کے آغاز سے یہاں کے مقامی لوگ اپنے مال مویشیوں کو تقریباً 6ماہ کے لیے اوپر ان چرا گاہوں پر لے جاتے ہیں اور سردی شروع ہوتے ہی یہ لوگ نیچے تھل اور دیگر ذیلی علاقوں کی طرف ہجرت کر کے اپنے ساتھ مکھن،دیسی گھی اور پنیر کی وافر مقدار لے آتے ہیں، جن سے یہ پھر سردیوں کے موسم میں اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
وادیٔ کمراٹ کو جاتا راستہ تھل سے دریا کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں پختہ اور بیشتر کچا ہے۔ جنگل میں قریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد تھوڑی بلندی پر پانی کا شور سنائی دیا تومعلوم ہواکہ یہ کمراٹ کی مشہور آبشار ہے۔ گاڑی سے اتر کر ہم آبشار کی جانب بڑھ گئے۔ ابھی ہم پانچ منٹ ہی چلے تھے کہ بلندی پر ہمیں ایک پوری ندی تیزی سے نیچے گرتی ہوئی نظر آئی۔ آبشار بہت بلند اور وسیع تھی اور پانی کے گرنے کا شور جیپ ٹریک تک سنائی دے رہا تھا۔تقریباً 5 منٹ کی مسافت کے بعد سامنے آبشار کا پورا وجود نظر آیا۔ کیا کمال کی بلند سفید آبشار تھی۔ اسکردو کی منٹوخہ اور سوات کی مشہور آبشار جوار گوسے مشابہت رکھنے والی یہ آبشار حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔اب ہم آبشار کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے اور آبشار کے باریک قطروں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس آبشار کی بلندی تقریباً100 سے 120 فٹ تک ہے۔یہاں سے ہم واپس تھل کے لیے روانہ ہوئے۔
تھل تاجازبانڈہ
تھل واپس پہنچ کر ہماری اگلی منزل جاز بانڈہ تھی۔ جاز بانڈہ کےخوبصورت سر سبز میدانوں تک پہنچنے کے لیے تھل سے مسلسل چڑھائی اور خطرناک راستوں پر سفر کرتے ہوئے راستہ جندرئی گاؤں سے ہو کر جاتا ہے۔ جندرئی میں ایک خوبصورت میوزیم بھی ہے۔ جس میں وادی کمراٹ کو ہستان سے متعلقہ مختلف نواردات اور تاریخی طور پر اہمیت کی حامل چیزیں موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک جندرئی سے جاز بانڈہ کیلئے ساڑھے سات کلو میٹر پیدل جانا پڑتا تھا، جو تقریباً 3 سے 4 گھنٹے میں طے کیا جاتا تھا لیکن اب جیپ مزید اوپرٹکی ٹاپ تک لے جاتی ہے۔ یہاں سے جاز بانڈہ کا پیدل ٹریک قریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے ہے۔ تھل سے جندرئی اور پھر ٹکی ٹاپ دشوار گزار اور بعض جگہوں پر خطر ناک جیپ ٹریک ہے۔
رات قریباً ساڑھے آٹھ بجے ٹکی ٹاپ پہنچے۔ ہم نے پہنچتے ہی جیپ سے سارے خیمےاتارے اور کیمپنگ کی نیز کھانا بنانے کی تیاری شروع کردی۔ رات کو راولپنڈی سے خریدے گئے دال کے tin packs کھولے گئے اور تڑکا لگا کر پکائی گئی مزیداردال بھی سارے دن کی تھکاوٹ کو دور نہ کر سکی۔ لہٰذا سب نے کھانا کھاتے ہی خود کو سلیپنگ بیگز کے اندر بند کرکے ’’زپ زن‘‘ کر لیا۔
صبح اٹھے تو ٹکی ٹاپ کی حسین پہاڑیاں اپنا ہرا بھرا حسن دکھا رہی تھیں۔ ناشتہ بنایا گیا اور بعد ناشتہ ٹکی ٹاپ کے حُسن کو کیمرہ میں سمونے کے بعد اس سفر کی پہلی ہائیکنگ کا آغاز کیا گیا۔ ٹکی ٹاپ سے جاز بانڈہ قریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی ہائیک ہے۔ جاز بانڈہ جانے کیلئے گھوڑے بھی مل جاتے ہیں۔ ابتداء میں کافی چڑھائی ہے لیکن بعد میں درمیانے درجے کی چڑھائیاں آتی ہیں۔ جاز بانڈہ تک تمام راستہ نہایت خوبصورت اور درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ راستہ میں جگہ جگہ چشمے بہتے اور پہاڑوں سے نیچے پانی گرتا نظر آتا ہے۔
جاز بانڈہ
قریباً سوا گھنٹے سے دو گھنٹوں کے دوران تمام دوست جاز بانڈہ پہنچ چکے تھے۔ جاز بانڈہ کی خوبصورتی کو دیکھتے ہی تمام تھکاوٹ دور ہو چکی تھی۔
یہاں کے حسین منظر کو دیکھتے ہی بے اختیار سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا یہ شعر زبان پر جاری ہو گیا
ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
جاز بانڈہ کا وسیع و عریض سر سبز میدان سطح سمندر سے 8900 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ جاز بانڈہ پہاڑوں کے درمیان چاروں جانب گھرا ایک وسیع سر سبز میدانی علاقہ ہے۔ یہاں بہت سے huts اور خیمے لگے ہوئے ہیں جہاں سیاح آکر قیام کرتے ہیں۔پہلے یہاں سیاحوں کا بہت زیادہ رحجان نہ تھا مگر چند سالوں سے سیاح بکثرت اس حسین وادی کا موسمِ گرما میں رخ کرتے ہیں۔اسکول اور کالجز بھی اپنے طلباء کو لے کر یہاں آتے ہیں۔
کٹورا جھیل
ہم نے اپنے خیمے اور rucksacks ایک خیمے میں رکھے۔ کچھ دیر سستانے کے بعد sticks اور برساتیاں پکڑیں اور اپنی اگلی منزل کٹورا جھیل کی جانب رخ کیا۔ جاز بانڈہ سے کٹورا جھیل کاپیدل سفر اور ٹریکنگ ساڑھے چار کلو میٹر ہے جو دو سے اڑھائی گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔ کٹورا جھیل کا ٹریک بھی فطرت کے نئے رنگوں سے آپ کا تعارف کرواتا ہے۔یہ راستہ پتھریلا ہے۔لیکن بہت دشوار گزار نہیں اور گائیڈکے بغیر طے کیا جا سکتا ہے۔سطح سمندر سے 1500 فٹ بلندی پر واقع کٹورا جھیل ہے۔ گلیشئرز کے خوبصورت فیروزہ مائل رنگ کے پانی والی اس جھیل کے ارد گرد پہاڑ وادی نیلم کی رتی گلی جھیل کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
اس جھیل کو مقامی زبان میں ’’گان سر‘‘ کہا جاتا ہے۔ کٹورا جھیل جاتے ہوئے ڈھنڈبانڈہ، ٹورہ جھیل اور چھوٹی جھیلوں کے ساتھ بڑی آبشاروں دنوپشکیر، کونڑ اور کاڑد کے علاوہ کئی خوبصورت جھرنے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گول کٹورے کی مانند ’’کٹورا جھیل‘‘ دنیا کی منفرد جھیل ہے۔ آبشار سے گرتے پانی اور جھیل میں تیرتے برف کے ٹکڑوں کو آپ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ جھیل چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑی گلیشئرز اور الپائن کے دیو قامت گھنے جنگلات میں گھری ہوئی ہے۔ ان جنگلات میں نایاب جانوروں کی کثرت ہے، جس میں مارخور قابل ذکر ہیں۔ جھیل سے متعلق کئی دیو مالائی کہانیاں بھی مشہور ہیں جو جھیل سیف الملوک کی طرح آپ کو مقامی لوگوں سے سننے کو ملیں گی۔
جازبانڈہ آبشار
کٹورا جھیل سے واپس آکر جاز بانڈہ میں کچھ دیر سستانے کے بعد جاز بانڈہ سے نیچے کی جانب ایک ٹریک جا رہا ہے اس ٹریک پر قریباً نصف گھنٹہ چلنے کے بعد ایک نہایت خوبصورت اور بڑی آبشار آتی ہے۔ یہ آبشار بھی قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے۔ قریباً ڈیڑھ سو میٹر کی بلندی سے بہت تیزی کے ساتھ پانی نیچے گرتا ہے۔ قریب جانے پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بالعموم یہاں سیاح ذرا کم آتے ہیں کیونکہ راستہ قدرے دشوار گزار ہے۔
جاز بانڈا آبشار
رات جاز بانڈہ اپنے کیمپ میں گزاری اور tin pack میں موجود حلیم کو گرم کیا اور مقامی ہوٹل سے چپاتیاں لے کر سارے دن کی ہائیکنگ کے بعد شدید بھوک کو دور کیا۔ یہاں رات گئے تک کیمپ فائر سے بھی محظوظ ہوئے۔ سیاحوں کی ایک کثیر تعداد یہاں آئی ہوئی تھی۔ جاز بانڈہ سے دو دن کا ہائیکنگ ٹریک ازمس بانڈہ سے کنڈول جھیل پر اترتا ہے۔ یعنی وادیٔ کمراٹ سے وادیٔ سوات ہائیکنگ کرتے ہوئے اترا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے موسم کا اچھا ہونا اورمقامی گائیڈ کو ساتھ لے کرجانا ناگزیر ہے۔
صبح اٹھنے اور ناشتہ کرنے کے بعد واپس ٹکی ٹاپ کی جانب روانہ ہوئے۔ واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا کیونکہ اترائی تھی۔ قریباً پون گھنٹے میں ٹکی ٹاپ پہنچے۔ ٹکی ٹاپ میں چونکہ جیپ موجود نہ تھی لہٰذا پیدل جندرئی پہنچے۔ یہاں سے بذریعہ جیپ تھل پہنچے۔
وادیٔ کمراٹ سے اتروڑ کے راستے وادیٔ سوات
تھل سے ایک جیپ پر کنڈول جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سارا غیر پختہ جیپ ٹریک ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں اس راستہ کو مزید کشادہ کر نے کا کام شروع ہوا، جس کی وجہ سے اب یہ روڈ مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لیے وادی ٔ کمراٹ سے وادی کالام و سوات پہنچنے کا آسان ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ راستہ تھل سے اتروڑ جا رہا ہے۔ ایک لینڈ کروزر جیپ جس پر با آسانی 12 سے 14، افراد سوار ہو جاتے ہیں، تھل سے اتروڑ پہنچانے کا قریباً دس ہزار روپیہ وصول کرتے ہیں۔
یہ راستہ بے حد دشوار گزار، انتہائی گھنے اور بلند جنگلات سے ہوتا ہوا گزرتا ہے۔اس راستہ سے وادیٔ کمراٹ سےوادیٔ سوات کا سفر اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد سفر ہے۔ اس سفر کے لیے جیپ اور چاک و چوبند ڈرائیور کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ قریباً چار گھنٹے کا سفر ہے لیکن دورانِ سفر انتہائی خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سرسبزپہاڑ اوران سے نیچے آتے ٹھنڈے پانیوں کے چشمے آپ کا ساتھ اختتامِ سفر تک نبھاتے ہیں۔ ایک مقام بڑوائی ٹاپ بھی آتا ہے جو قابلِ دید ہے۔ ہم اس ٹاپ پر کچھ دیر کے لیے رکے اور تھل سے خریدے آ موں سے دو دو ہاتھ کئے۔ جبکہ بعض چار چار ہاتھ کرنے سے بھی نہ چوکے۔یوں لگتا تھا کہ آموں کے معاملہ میں سب ہی غالب کے مداح ہیں۔
اتروڑ گاؤں
اتڑور پہنچنے کے بعد اتڑور کے بازارسے کچھ خریداری کی۔ وادی اتڑور جو کالام سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 7300 فٹ کی بلندی پر واقع چاروں طرف سے خوشنما پہاڑوں، فلک بوس چوٹیوں، گھنے جنگلات اور برف پوش کہساروں سے گھری ہوئی ہے۔ اتڑور کے گاؤںمیں قدیم دور کی لکڑی سے مزین گلکاری سے بھری ہوئی ایک عالی شان مسجد ہے۔ اتڑور کا بلند قامت پہاڑ دسیسان جو زیادہ زر خیزی کی وجہ سے اس علاقہ کی مشہور چراگاہ ہے، جس میں لطف اٹھانے کی لیے سبزہ کے فرش بچھے ہیں، ٹھنڈے چشمے ہیں اور دلکش آبشار ہیں۔ اس کے علاوہ اس وادی میں چار مشہور جھیلیں ہیں جو کنڈولوڈنڈ، سمس ڈنڈاور خاپیر و ڈنڈ کے نام سے مشہور ہیں۔ جن تک راستے اتڑور بازار سے نکلتے ہیں۔ سارا راستہ جنگل، پانی، آبشاروں اور جھرنوں سے آراستہ ہے۔ ان کے علاوہ اسی اتڑور میں مونگا نامی اور چورات نامی گلیشئرزہیں جہاں تک پہنچنے میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ راستہ میں خوبصورت آبشاریں اوچار اور اردگائل کے نام سے مشہور ہیں۔
اتڑور کی وادی بہت ہی پر سکون وادی ہے۔ پوری وادی مختلف دریاؤں مثلاًدریائےگبرال،دریائے سپین خوڑ، دریائے کنڈولو اور دریائے خاپرو سے بھری ہے۔ اس کے علاوہ مختلف آبشاروں اور ندی نالوں کا پانی بھی ان دریاؤں میں آکر جمع ہو جا تا ہے جو موسم کو بڑا معتدل اور پر کشش بناتا ہے۔ دریا کی تیزی اور تندی دیکھنے کے لیے یہ علاقہ زیادہ مسحور کن علاقہ ہے۔ اس وادی تک پہنچنے اور گھومنے میں کوئی دشواری نہیں۔ رات قیام نہ کرنا ہو تو پھر بھی ایک دن کے ٹرپ کے بعد واپس کالام با آسانی آیا جا سکتا ہے۔ اتڑور اب گاؤں کی بجائے ایک قصبہ بن چکا ہے اور اس کے بازار میں بنیادی ضرورت کی جملہ اشیاء آسانی سے میسر آجاتی ہیں۔
اتڑور سے روانہ ہوئے تو شام کے ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ ہمارا ارادہ کنڈول کے راستہ میں رات لدّومیں کیمپنگ کرنے کا تھا۔ تا ہم چلتے چلتے قریباً ایک گھنٹہ میں جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ لدّو سے کنڈول کا راستہ بعض جگہوں پر دشوار اور خطرناک بھی ہے۔ یہ جیپ ٹریک قریباً ایک سال قبل ہی بنا ہے لیکن ایڈونچر سے بھر پور ہے۔
کنڈول جھیل
سوات کی خوبصورت ترین جھیلوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کا راستہ پہلے دشوار اور مشکل تھا۔ کالام سے اتڑورڑ جیپ پر جایاجاتا۔ وہاں سے کنڈول کے لیے ہائیکنگ کا آغاز ہوجاتا تھا جو کہ قریباً3 سے 4 گھنٹے کی تھی اب اس کا راستہ بہت آسان ہو گیا ہے۔ اب جھیل تک جیپ ٹریک جاتا ہے۔ جب آپ اس جھیل پر پہنچیں گے تو آ پ کو احساس ہو گا کہ گویا ہم جنت آ پہنچے۔ کنڈول جھیل کالام اتڑور کی چالیس کی قریب معلوم جھیلوں میں سے سب سے بڑی ہے۔ اس کی بلندی دس ہزارفٹ اور لمبائی ڈیڑھ کلو میٹر جبکہ چوڑائی قریباً ایک کلو میٹر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی گہرائی سو فٹ ہے۔ اس جھیل کو چاروں اطراف سے بلند و بالا بر فانی پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ جبکہ مشرق کی جانب سے اس سے پانی کا اخراج ہوتا ہے جو ایک بڑی ندی کی صورت میں لدّو کی جانب بہتا ہے۔ لدّو میں سپین خوڑ جھیل سے آنے والے پانی کے ملاپ کے باعث پانی کے بہاؤ کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ پانی بالآخر دریائے گبرال میں مل جاتا ہے۔ کنڈول جھیل میں ٹراؤٹ مچھلی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ کنڈول اور اس سے آنے والی ندی میں عمدہ قسم کی ٹراؤٹ کی بہتات ہے۔ حسب ضرورت شکار کیا جا سکتا ہے کنڈول جھیل کو مقامی زبان میں کنڈولو ڈند بھی کہا جا تا ہے۔ کنڈول کا مطلب پیالہ یا جام کے ہیں اور چونکہ یہ جھیل ایک پیالہ سے مشابہہ ہے اس لیے اس کا نام کنڈول جھیل ہی مشہور ہو گیا۔ چاندنی راتوں میں اس کے حسن سے محفوظ ہونے والے کسی عاشق نے یہ بھی مشہور کیا کہ چودھویں کا چاند اس کے نیلگوں پانی میں سونے کے جام کی طرح نظر آتا ہے۔ سیف ا لملوک کی طرح کچھ اور کہانیاں بھی سننے کو ملیں۔ مختصر یہ کہ وادیٔ کالام اوراتڑور کی یہ سب سے خوبصورت جھیل ہے۔
جھیل پر پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی۔ بر لبِ جھیل کیمپنگ کا آغاز کر دیا گیا اور ساتھ ہی رات کے لئے کھانے کا انتظام بھی شروع کیا۔ ہمارے علاوہ جھیل پر اور کوئی سیاح نہ تھا۔ رات نو بجے کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو جھیل کے ارد گرد موجود وافر تعداد میں موجود خشک لکڑیوں کا فائدہ اٹھا یا گیااور کیمپ فائر کا آغاز کیا گیاجو رات گئے جاری رہا۔ یہ چودھویں کی رات تھی۔ آسمان پر بادل نہ تھا اور چاند بھر پور صورت میں آسمان پر بلکہ یوں محسوس ہو تا تھا کہ عین ہمارے سر پر موجود ہے۔ جھیل پر ایک شعروادب کی محفل بھی بپا ہوئی۔
اگلے روزجبکہ ابھی باقی دوست ادائیگیٔ نماز کے بعد لحافوں میں گزشتہ روز کی تھکاوٹ دور کرنے کی سعیِ ناکام فرمارہے تھے خاکسار جھیل کے کنارے بیٹھا خداتعالیٰ کی قدرت اور رعنائی سے فیضیاب اور لطف اندوز ہو رہا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جھیل کے کنارے گزشتہ شب چودھویں کے نظارۂ ماہِ تمام کی یاد میں ایک قطعہ کہا
کل رات کو نظارۂ مہتاب بھی کیا خوب تھا
گو یارِ کامل نہ سہی پر سایۂ محبوب تھا
دیکھا اُسے جب مظہرِ نورِ خدا، میں کہہ اٹھا
اےچاند کیوں یونہی عبث تُو جابجا منسوب تھا
بعد ناشتہ ہماری اگلی منزل اسپن خوڑ جھیل تھی۔ کنڈول سے اسپن خوڑ جانے کے لئے ایک گائیڈ کی مدد لی گئی۔ یہ قریباً دو سے اڑھائی گھنٹے کا ہائیکنگ ٹریک ہے۔
اسپن خوڑ جھیل
’’سپین خوڑ (Spin Khwar)‘‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’سفید یا صاف و شفاف پانی کی ندی‘‘ کے ہیں۔ یہ جھیل شمال کی طرف سے کنڈول جھیل اور مشرق کی طرف سے وادیٔ اتڑوڑ کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ سپین خوڑ جھیل تین اطراف (مشرق، شمال، جنوب) سے فلک بوس پہاڑوں کے درمیان گِھری ہوئی ہے۔ مغربی طرف سے بڑے بڑے پتھروں نے جھیل کے نیلے پانی کا راستہ روک رکھا ہے جس کی وجہ سے پانی نے ان پتھروں کے بیچ گہرائی میں اپنا راستہ نکال لیا ہے جو ایک آبشار کی شکل میں جھیل سے کوئی ایک گھنٹہ کی مسافت تک نیچے پہاڑ کے دامن میں بہتا ہے۔
سپین خوڑ جھیل تک رسائی دو راستوں کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔ پہلارا راستہ لدّو سے براہ راست جھیل کی طرف پہنچتا ہے جو نسبتاًبہتر اور سہل ہے۔ مذکورہ راستہ سپین خوڑآبشار تک پہنچ کر مزید دو چھوٹے راستوں میں تقسیم ہو جا تا ہے۔ آبشار کی طرف منہ کر کے دائیں طرف شروع ہونے والا راستہ گھنے جنگل میں سے ہو کر مسلسل چڑھائی کی شکل میں اوپر جھیل تک پہنچتا ہے۔ اس راستے سے چل کر انسان قدرت کو اپنی تمام تر عنائیوں کے ساتھ جلوہ گر پاتا ہے۔ گھنے جنگل میں مختلف پرندوں کی مسحور کن آوازیں گویا کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ چاروں طرف سبزہ، ہر یالی اور رنگ برنگےجنگلی پھول آنکھوں کو تراوت بخشتے ہیں۔ قدم قدم پر چھوٹے چھوٹے جھرنے پیاس بجھانے کیلئے شور مچاتے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر ہر دس پندرہ منٹ کے بعد مختلف گھاٹیوں میں جمی ہوئی برف پورا کر دیتی ہے۔ یہاں سے لدّو سے سپین خوڑ آبشار تک کاراستہ کوئی تین گھنٹے بنتا ہے۔
دوسرا راستہ لدُّو سے ہو کر کچھ آگے جا کر کنڈول جھیل کی طرف سے نکلتا ہے۔ وہاں کم وقت میں سپین خوڑ جھیل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ راستہ بڑے بڑے پتھروں کے درمیان میں نکلتا ہے۔ چونکہ یہاں تقریباً ہر بارش کے بعد چھوٹی بڑی سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہیں، اس لئے اس راستہ پر درخت نامی کوئی شے نہیں ہے۔ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستے میں بڑے بڑے پتھر تقریباً جھیل تک بکھرے پڑے ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے سورج کی شعاعیں وقتاًفو قتاًتنگ کر تی رہتی ہیں اور پیاس بھی خوب لگتی ہے۔ چونکہ راستہ میں دو تین جگہوں پر پتھروں کے درمیان پانی گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس لئے پیاس باآسانی بجھائی جا سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ دورانِ سفر پانی کی بوتل ساتھ رکھی جائے۔اگر پہاڑوں پر چھڑنے کی تھوڑی بہت مشق ہو تو اس راستے سے ساڑھے تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد جھیل تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی راستہ سے ہم جھیل پر پہنچے۔کچھ دیر جھیل پر گزارنے کے بعد واپسی کا سفر اختیار کیا اورواپسی پر اترائی کی وجہ سے قریباً ایک گھنٹے میں لدُّو پہنچے۔ جہاں ہماری جیپ جس پر سامان موجود تھا، منتظر تھی۔یہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں شاہی باغ دیکھنے کا پروگرام بن گیا۔
شاہی باغ
اتڑور سے شاہی باغ اوپر کی جانب ایک راستہ جارہا ہے جو دشوار اور غیر ہموار ہے۔ جیپ پر قریباڈیڑھ گھنٹے سفر کے بعد شاہی باغ پہنچا جا تا ہے۔پُر ہجوم اور پُر شور زندگی سے بہت دور سوات کی وادیٔ گبرال کا ’’شاہی باغ‘‘ سیاحوں کو اپنے سر سبز ماحول، پائن اور بید کی مہک، تازہ ہوا، چہچہاتے پرندوں اور نیلے آسمان وجھرنوں کی بدولت منفرد تسکین فراہم کرتا ہے۔
بلند و بالا چوٹیوں میں واقع یہ مقام جسے شاہی باغ کے نام سے جا نا جا تا ہے، ایک ایسا زبردست سیاحی مقام ہے جو کہ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اور کالام سے 30 کلو میٹر دور ہے۔ یہ دیگر تمام مقامات سے مختلف ہے جس کی وجہ یہاں کے جنت نظیر مناظر ہیں، یہاں کے رنگ انتہائی نمایاں اور پرکشش ہیں، یہ چھاٹا سا سر سبز جزیرہ پر سکون دریاؤں سے گھرا ہے جہاں چار سو پرندوں کی چہچہاہٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مصوروں نے فطرت کی سب سے خوبصورت پینٹنگ کو پینٹ کیا، جس کیلئے شوخ رنگوں کا استعمال کیاگیا، ہر رنگ اتنا نمایاں اور پرکشش ہے کہ ہر ایک کو لگتا ہے کہ یہ مصنوعی جنت ہے۔ یہ کیمپنگ کیلئے بہترین ہے کیونکہ یہ چھوٹی وادی مختلف النوع سرور فراہم کرتی ہے، یہاں دن کی خوبصورتی مختلف اور کسی سے اس کا موازنہ ممکن نہیں۔ یہاں اوپر پہاڑوں سے آنے والے پانی سے ایک نہر جاری ہے جس میں سیاحوں کی تفریح کے لیے کشتی رانی کا انتظام ہے۔ ہمارے بعض ساتھی کشتی رانی سے محظوظ ہوئے۔یہاں سے ہم کالام کی طرف روانہ ہوئے۔ کالام پہنچ کر فیصلہ ہوا کہ یہاں رکنے کی بجائے مہوڈنڈ جھیل پر رات قیام کیا جائے۔ قریباً دو گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد ہم مہوڈنڈپہنچے۔
مہو ڈنڈ جھیل
وادیٔ کالام سے مہوڈنڈ جھیل کا فاصلہ لگ بھگ 35 سے 40 کلو میٹر ہے۔ یہ فاصلہ با آسانی تین گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے۔ مہوڈنڈ جانے کے لیے کالام سے جیپیں اور کاریں چلتی ہیں۔ راستے میں اوشو، مٹلتان، پلوگا اور دیگر چھوٹے بڑے خوبصورت روایتی دیہاتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ راستے میں ایک خوبصورت جنگل بھی آتا ہے۔جھیل جاتے ہوئے راستے میں دریائے سوات بھی آپ کا ہمم سفر رہتا ہے۔
مہو ڈنڈ کو یہ نام کیوں دیا گیا اس حوالے سے تمام لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ مہے پشتو زبان میں مچھلی کو کہا جاتا ہے جبکہ ڈنڈ جھیل کو یعنی مچھلیوں کی جھیل۔ چونکہ یہاں مچھلیاں بکثرت پائی جاتی تھی اس لئے یہ نام دیا گیا تا ہم اگر تاریخی حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ پشتونوں کی سوات آمد سولہویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہوئی تھی جب پشتو زبان یہاں مشہور نہیں تھی تو اسے یہ نام کیسے دیا گیا۔ بعض کے نزدیک سوات میں یو سفزئی کی آمد سے پہلے ہندؤں اور بدھ مت والوں کی حکومتیں گزری ہیں اس لئے یہ نام ہندوؤں نے مہا ڈنڈ رکھا یعنی بڑی جھیل۔ بدھ مت کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مہاتما بدھا کی یہاں آمد کی وجہ سے اس کا نام مہاڈنڈ یعنی مقدس جھیل یا مہا تما بدھ جھیل رکھا جو بعد میں بگڑ کر مہوڈنڈبن گیا۔اس جھیل کا کل رقبہ 1500سے 1700کنال ہے، سطح بلندی 9400 فٹ ہے۔ مہوڈنڈ سے 20 منٹ کی مسافت پرنسبتاً ایک چھوٹی جھیل سیف اللہ واقع ہے۔ یہاں جانے کے لیے جیپ ٹریک بنا ہوا ہے جبکہ پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک اس جھیل پر چند خیمے لگے ہوتے تھے۔ لیکن اب اس جھیل کا منظر ناران سے ملتا جلتا ہے کیونکہ کثرت سے خیمہ جات اور huts بن گئے ہیں۔ رات گزارنے کے بعد اگلے روز ہماری واپسی کالام کی جانب ہوئی۔ یہ ہفتہ کا دن تھا۔ چنانچہ واپسی پر ہمیں سیکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں مہوڈنڈ کی جانب جاتی نظر آئیں۔ قریباًسوا دو گھنٹے میں کالام پہنچے۔
کالام
کالام وادیٔ سوات میں دریائے سوات کے کنارے ضلع سوات، خیبرپختونخواہ میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 6800 فٹ ہے۔ یہ اسلام آباد سے 270 کلو میٹر جبکہ مینگورہ سے 99 کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہاں گرمیوں میں موسم نہایت خوشگوار رہتا ہے اور سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔کالام اب ایک چھوٹا سا قصبہ بن چکا ہے اور یہاں بحرین اور مدین کی طرف سے ایک پختہ سڑک آ رہی ہے۔ جس کے باعث نہ صرف سفر کی مسافت کم ہو گئی ہے بلکہ بکثرت سیاح بالخصوص گرمیوں میں یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
قریباً شام پانچ بجے ہماری یہاں سے روانگی ہوئی۔ کالام سے مینگورہ کا کرایہ 300 روپے فی سواری ہے۔ بحرین و مدین کے راستے ہوتے ہوئے ہم رات آٹھ بجے مینگورہ پہنچے۔ یہاں رات کا کھانا کھانے کے بعد راولپنڈی کیلئے کوسٹر پر سوار ہوئے۔اور یوں ہمارا یہ چھ روزہ سفر اختتام پذیر ہوا۔
(م م محمود)