• 28 اپریل, 2024

عید الفطر تشکر کا دن

عید الفطر
تشکر کا دن

عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں۔ عید کے لغوی معنی بار بار لوٹ کر آنے والی کے ہیں۔ چونکہ یہ ہر سال آتی ہے اس وجہ سے بھی اسے عید کہتے ہیں۔ اسلام میں عید کے لفظ کو یوم الفطر اور یوم الاضحی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں یعنی روزہ ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادت ِ رمضان کا ثواب عطا کرتا ہے، لہذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔

صدقہ فطر

فطرانہ یا زکوٰۃ وہ صدقہ ہے جسے نمازِ عید الفطر سے پہلے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ وہ مرد ہو عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، بچہ ہو یا بوڑھا۔ ہر مسلمان اپنے اور ان اہل خانہ کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہے جن کی وہ قانونی طور پر کفالت کرتا ہے۔

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے روزے دار کو لغو اور بے ہودہ اقوال و فعال کے اثرات سے جو روزے کے دوران سرزرد ہو جاتے ہیں ، پاک کرنے اور عید کے دن مساکین کو کھانا مہیا کرنے کے زکاۃ الفطر (فطرانہ) فرض قرار دی، چنانچہ جس نے اسے نماز (عید) سے پہلے پہلے ادا کر دیا تو یہ ایسی زکاۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔

(سنن ابی داود، حدیث نمبر 1609)

اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فطرانہ نماز عید الفطر سے پہلے ادا کرنا چاہئے، اگرچہ عید سے ایک یا دو روز پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس فطرانے کی مقدار ایک صاع ہے جو چار ‘‘مُد’’ ہوتا ہے۔ کلو گرام کے لحاظ سے صاع کا وزن سوا دو کلو بنتا ہے۔

حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں ہم (نبی ﷺ کے زمانے میں) فطرانہ ایک صاع اناج یا گندم یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر 1506)

بہتر یہ ہے کہ فطرانہ اجناس میں سے دیا جائے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہے، تاہم اگر رقم کے ذریعے ادا کیے بغیر چارہ نہ ہو تو رقم بھی دی جاسکتی ہے۔ زکوۃ الفطر ایسے افراد پر فرض نہیں ہے جن کے پاس دن بھر کا کھانا موجود نہ ہو۔

پیارے نبیؐ کے عید کےبارے میں اعمال مسنونہ

عید کے اس بابرکت تہوارکے لئے بھی پیارے نبی ﷺ نے آداب سکھائے اور ہدایات دیں۔ عید کے دن آنحضرت ﷺ خاص صفائی کا اہتمام فرماتے۔ غسل فرماتے، مسواک اورخوشبو کا استعمال کرتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے۔ اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی و مذہبی تہوارمیں شمولیت کے لئے آنحضرت ﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔

آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے روز صبح کچھ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید پر جاتے تھے۔ البتہ عیدالاضحی کے دن آپ قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عیدگاہ تشریف لاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لے جاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پرظاہر ہو اورباہم ملاقات اورخوشی کے زیادہ مواقع میسر آئیں۔ اوردونوں راستوں پر آباد لوگ آپؐ کی برکت حاصل کر سکیں۔

(ترمذی ابواب العیدین باب فی خروج النبی ﷺ الی العید فی طریق)

سنت مبارکہ کے درج ذیل پہلو ہےجن پرعید کے دن عمل کرنا مسنون ہیں

عمدہ صاف لباس جوپاس ہو پہنا جائے

غسل کرنا

مسواک کرنا

شرع کے موافق اپنی آرائش زبائش کرنا

خوشبو لگانا

صبح کو بہت سویرے اٹھنا

عید گاہ بہت سویرے جانا

اچھا کھانا پکانا اور قبل عید گاہ جانے کے کوئی شریں چیز جیسے کھجور وغیرہ کھانا

قبل عید گاہ جانے کے صدقہ فطر دے دینا

عید کی نماز عیدگاہ میں جا کر پڑھنا

جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا

پیادہ پا جانا

راستے میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْاَللّٰہُ اَکْبَرْوَلِلّٰہِ الْحَمْدُ آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا چاہئے

(ابن ماجہ باب ماجاالاغتسال فی العیدین، ترمذی باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج ابواب العیدین)

نمازِ عیدین کا حکم اور وقت

نماز عیدین کا حکم ہجرتِ مدینہ کے پہلے سال دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اور فرحت کے لئے سال میں دو اہم دن مقرر کئے جن میں سے ایک عید الاضحی اور دوسرا عید الفطر کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو (دیکھا کہ) وہاں کے لوگ دو دن کھیل تماشے میں گزارتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایام جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو ایام : یوم الاضحی اور یوم الفطر عطا فرمائے ہیں۔

(أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب صلاة العيدين)

ماہ رمضان گزرنے پر یکم شوال کو افطار کرنے اور روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عید الفطر اور دسویں ذوالحجہ کو حج کی برکات میسر آنے کی خوشی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں عید الاضحیہ منائی جاتی ہے۔ نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے مرد عورت بچے سبھی شامل ہوتےہیں۔

(ترمذی کتاب الصلوۃ باب خروج النساءفی العیدین صفحہ70)

عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نمازیں واجب کی طرح سنت موکدہ ہیں

اچھے کھانے ، خوبصورت کپڑے اورکھیل کود تو ظاہری خوشی کے اظہارکے طریقے ہیں۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کا اللہ اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد عید کے روز مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔ عید کی دو رکعت نماز کسی بھی کھلے میدان یا عیدگاہ میں زوالِ شمس سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے۔ عید کی نماز باجماعت ہی پڑھی جا سکتی ہے اکیلے جائز نہیں۔

مختلف احادیث کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ عیدین کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے اور سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ نماز شروع فرماتے۔ نمازسے فراغت کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ حضور ﷺ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے، ضروری احکام کا اعلان فرماتے اور پھراس سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتے۔

(بخاری کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)

عید کے خطبہ میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو امام علیحدہ طورپر بھی عورتوں کو خطاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ایک عید کا خطبہ دیا اس کے بعد آپ عورتوں کی صفوں کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ خاوندوں کی اطاعت کی اور زبان درازی سے بچنے کی تلقین فرمائی اور صدقہ دینے کی تحریک کی۔ حضورﷺ کی اس تحریک پر عورتیں ہاتھوں، کانوں اور گلے کے زیور اتار اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد رسول اللہؐ واپس تشریف لائے۔

(بخاري، الصحيح، كتاب العيدين، باب الصلاة قبل العيد وبعدها، 1: 335)

آنحضرت ﷺ جب نماز مکمل کر لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ، لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے توآپؐ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ عیدگاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ہوں ،نہ مدینہ کامنبر یہاں لایاجا سکتاتھا بلکہ آپؐ زمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔

(بخاری کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)

حضرت جابرؓ بتاتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت بلالؓ کے کندھے کاسہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی اطاعت کی رغبت دلائی اور نصیحت کی اور پھر انعامات خداوندی وغیرہ یاد دلائے۔ پھر آپؐ خواتین کی طرف تشریف لے گئے اورانہیں نصیحت کی۔

(مسلم، الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب2: صفحہ603)

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عید اور جمعہ ایک ہی دن اکٹھے آ گئے۔ آپؐ نے نماز عید پڑھائی اور پھر فرمایا عید کی نماز جمعہ کا بدل ہے اس لئے اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے نہ آنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ البتہ ہم ان شاء اللہ وقت پرجمعہ پڑھیں گے۔

(سنن ابن ماجہ الجزء الاول کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)

اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عیدالفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن زوال سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔

(ابوداود کتاب الصلوۃباب اذالم یخرج الام للعید من یومہ)

تکبیرات عید

نماز عید میں نہ تکبیر ہوتی ہے نہ اذان۔ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ بھرآسمان پر جانے کا ہے۔ موسم کے حالات کے لحاظ سے عید کا وقت لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھ کر مقرر کرنا چاہئے۔ عام طورپر عید الفطر نسبتاً تاخیر سے اور عیدالاضحی جلدی پڑھی جائے یہی سنت ہے۔

نماز عید کی دونوں رکعات میں بلند آواز سے قرأت کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں پہنچتے تو اذان و اقامت کے بغیرہی نمازشروع فرما دیتے اور سنت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی فعل نہ کیا جائے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ جب عیدگاہ پہنچتے تو عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے اور نہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے۔ پہلی رکعت میں سات مسلسل تکبیریں کہتے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک ہلکا سا وقفہ ہوتا۔ تکبیرات کے درمیان آپ ﷺ سے کوئی مخصوص ذکر مروی نہیں۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ جب تکبیریں ختم فرماتے تو قرأت شروع کرتے۔ یعنی سورہ فاتحہ پھر اس کے بعد سورہ ق و القرآن المجید، ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانۡشَقَّ الۡقَمَرُ پڑھتے۔ بسااوقات آپ ﷺ دو رکعتوں میں سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی اور ہَلۡ اَتٰٮکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ پڑھتے۔ جب قرأت سے فارغ ہو جاتے تو تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے۔ پھر ایک رکعت مکمل کرتے اور سجدہ سے اٹھتے۔ پھر پانچ بار مسلسل تکبیریں مکمل کر لیتے تو قرأت شروع کر دیتے۔ اس طرح ہر رکعت کے آغاز میں تکبیریں کہتے اور بعد میں قرأت کرتے۔

(ترمذی، ابن ماجہ باب کم یکبر الا مام فی صلوٰۃ العیدین، ابن ماجہ فی الخطبۃ فی العیدین)

وبائی حالات میں نماز عید گھر میں کیسے ادا کی جاسکتی ہے

آجکل وبائی مرض کرونا وائرس کی وجہ سے تقربیاً سارے ممالک میں لاک ڈاوٴن یا ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے نماز عید کا مسئلہ زیر غور ہے۔ جبکہ اکثر مقامات پر اجتماعات کی ممانعت ہے اور سماجی فاصلے اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے تو اس موقع پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا گھروں میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی ہے کہ نہیں ؟ یا عید پڑھنے کے لئے اہل شہر کا کسی عید گاہ یا جامع مسجد میں جمع ہونا ضروری ہےِ؟ اس ضمن میں درج ذیل امور ہمارے لئےمشعل راہ ہے:
فتح مکہ کے موقع پر غیر معمولی حالات درپیش تھے اور روایات کے مطابق آپ عید الفطر کی نماز ادا نہ فرما سکے۔ گویا پیارے نبی ﷺ کے اسوہ مبارک نے ہمیشہ کے لئے امت مسلمہ کی راہنمائی فرمادی کہ ہنگامی حالات درپیش ہوں تو اس بارہ میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔

نماز جمعہ ایک فریضہ ہے جس میں شمولیت کے لئے سورۃ الجمعہ میں فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ کے الفاظ میں تاکیدی حکم دیدیا گیا۔ جبکہ عیدین کی فرضیت اور تاکید کے بارہ میں ایسا کوئی حکم قرآن کریم میں موجود نہیں۔ لہٰذا موجودہ وبائی حالات میں اگر نماز جمعہ کے لئے کوئی متبادل صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں تو عید کے لئے کوئی متبادل آسان راستہ اختیار کرنا کیسے ممنوع ہو سکتا ہے؟

ایک بارش کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عباس نے اذان کے دوران ’’صلوا فی بُیوتِکم‘‘ یعنی گھروں میں ہی نماز پڑھ لو کا اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا اور یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ایسا کرنا پیارے نبی ﷺ کی سنت مبارک سے ثابت ہے۔ پس اگر عید کو جمعہ کی فرضیت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائےتو گھر میں عید پڑھنے کے لئے اس ارشاد سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

اگر کسی گاؤں، شہر یا ملک میں کوئی ایک گھرانہ ہی مسلمان ہو تو ایسی صورتوں میں عید کی نماز گھر پر ہی ادا ہوسکتی ہے۔ صحابہ رسول ﷺ کے اسوہ مبارک سے ثابت ہے کہ کسی مجبوری کی صورت میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر میں جمع کر کے ویسے ہی نماز ادا ہوسکتی ہے جیسے مسجد میں پڑھی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کے غلام ابن عتبہ زاویہ نامی گاوٴں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر کے سب مکینوں کو جمع کرکے شہر والوں کی طرح نمازِ عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔

(الجامع الصحیح البخاری کتاب العیدین باب اذافاتہ العیدیصلی رکعتین)

موجودہ حالات کے بارہ میں امامِ وقت کی نصائح

موجودہ وبائی حالات میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ہمیں بعض ایسے اصول عطا فرمائے ہیں کہ اگر ہم ان ارشادات کو اپنا راہنما بنا لیں تو ہماری یہ عید ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

گھروں کو مسجد بنا دیں

اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی آنحضورﷺ کا مقصد حیات تھی۔ موجودہ حالات میں اسلامی فرائض کی ادائیگی کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں ’’آجکل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جاسکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں ادا کرنا ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ 27 مارچ 2020ء)

حکومتی ہدایات کی پابندی بھی ضروری ہے

اسلامی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اصولی راہنمائی فرماتے ہوئے ایک نصیحت آپ نے یہ فرمائی کہ ’’یہ بیماری ایسی ہے جس میں ایک دوسرے سے بیماری پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کو روکنے کے لئے حکومت نے بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت ان پر چلنا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ 27 مارچ 2020ء)

خدمت انسانیت کے دن عید الفطر اللہ تعالیٰ کی بڑائی اورعظمت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا بہترین موقع ہے۔ صدقہ الفطر کی تعلیم میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ موجودہ ایام میں عید الفطر کے موقع پر حضور انور کا یہ ارشاد پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ’’حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ اللہ کا قرب پانے کے دن ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2020ء)

شعائر اللہ کا احترام
تربیت اولاد کے لئے ضروری ہے

موجودہ حالات میں بچوں کو اسلامی تعلیم سے وابستہ رکھنے کے بارہ میں حضور کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔ ایسا کرنے سے بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نماز پڑھنا ضروری ہے اورباجماعت پڑھنا ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ 27 مارچ 2020ء)

دعاؤں کے دن

جیسے آجکل کے حالات یا ایام جا رہے ہیں حضور انور نے ان ایام کو دعاؤں کے دن قرار دیتے ہوئے 10 اپریل کے خطبہ میں فرمایا کہ ‘‘اپنے لئے ، اپنے پیاروں کے لئے، عزیزوں کے لئے، جماعت کے لئے اور عمومی طور پر انسانیت کے لئے دعائیں کرنی چائیں ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2020ء)

پس عید کے موقع پر حضور انور کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے عزیز و اقارب، دوستوں اور پیاروں کے لئے مجسم دعا بن جائیں۔

قرآن و سنت، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کے ارشادات کی روشنی میں عید الفظر کیسے منائی جائے
عام طورپر لوگ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان عیدالفطر کی خوشی اس لئے مناتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی بھوک ، پیاس اور دوسری خصوصی پابندیوں کی قید سے نجات ملی اور اب وہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں کھانے پینے اور دیگر امور میں تمام شرعی حدود و قیود کو پھلانگتے پھریں۔ یہ تصور جاہلانہ تصور ہے اور رمضان اور روزہ کی حقیقی غرض و غایت سے عدم واقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ اس قسم کے تصور کے حامل مسلمان ہی ہیں جن کے روزے ان کی زندگیوں میں ذرہ بھر بھی پاک تبدیلی نہیں کرتے کیونکہ ان کا روزہ محض بھوکا اور پیاسا رہنے کی حد تک ہوتا ہے اور وہ ایک رسم کے طور پر اسے رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ اپنے ماحول میں ایسے لوگوں کی زندگی پر، ان کی سوسائٹی پر، ان کی معاشرتی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عملاًوہ رمضان میں بھی ایسے بہت سے افعال قبیحہ کے مرتکب ہوتے رہے ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور اُن افعال کے مرتکبین کے لئے خدا کے کلام میں سخت وعید یں آئی ہیں۔

جہاں تک جماعت احمدیہ مُسلمہ کا تعلق ہے تو ہماری عید کی خوشی اس وجہ سے ہے کہ ہمیں اللہ نے اپنے فضل وکرم سے یہ توفیق بخشی کہ اُس کے حکم سے، اُس کی رضا کی خاطر روزے رکھیں۔ اس لئے کہ ہمارا افطار کرنا بھی اُسی کے حکم کے تابع ہے۔ ہماری حقیقی خوشی خدا کے حکموں کی اطاعت و فرمانبرداری میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کی خوشی میں ہم بعض دیگر مسلمانوں کی طرح فضول، لغو اور بیہودہ ناچ گانے کی مجالس یا پُرتعیش دعوتوں میں منہمک نہیں ہوتے بلکہ جیسا کہ خداتعالیٰ کا منشاء ہے ہماری توجہ خدا کی تکبیر و تحمید اور اس کے ذکر اور شکر کی طرف پہلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں مومنین سے ایسی ہی خوشی منانے کی توقع رکھی گئی ہے۔ چنانچہ جہاں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم دیا گیا اور روزے سے متعلق مختلف احکامات بیان فرمائے گئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَلتُکْمِلُو ا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلیٰ مَا ھَدَاکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن۔ (البقرہ: 180) یعنی اس حکم کی غرض یہ ہے کہ تم ایک مقررہ عِدّت کو پورا کرو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تا کہ تم شکر کرو۔

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے

(ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی من قام فی لیلۃ العیدین)

حضرت مسیع موعود فرماتے ہیں ’’بنی نوح انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی خدمت وعبادت ہے اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ اور یہ زبردست ذریعہ عید کے موقع پر اپنے آس پاس نادار یتیم مسکین لوگوں سے ہمدردی اورشفقت سے پیش آ کر حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ438)

حضرت خلیفۃالمسیح الاول فرماتے ہیں ’’آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ایام تھےجبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لئے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی۔ راتوں کو اٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدق اس مہینہ کی برکات میں سے ہے۔ آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔ دوبُک گہیوں کے یا چار جَو کے پر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے بیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا وہ زیادہ دیویں۔‘‘

(خطبات نور صفحہ179)

حضرت خلیفۃ الثانی فرمایا۔ ’’میں اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر اپنا فضل نازل کرے تاکہ ہم سے ہر شخص کو حقیقی عید میسر ہو کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہ صرف اپنے لئے عید منائیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی، جو مصائب اور دکھوں میں گرفتار ہیں عید کا سامان مہیا کردیں‘‘

(خطبہ عید الفطر 9 فروری 1932)

پھر ارشاد فرماتے ہیں
’’جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباء کی فلاح اور بہبود کے لئے خرچ کرو۔ یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہوگی درحقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔ کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چا ہیے کہ تہارے گھر میں دولت تو ہو مگر اسے اپنے لئے خرچ نہ کرو بلکہ دوسروں کے لئے کرو۔

(خطبہ عید الفطر 12مئی 1956 از خطبات محمود جلد اول ص342)

حضرت خلیفۃ الثالث نے خلافت کے آغاز میں ہی اس امر کی خواہش ظاہر فرمائی کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہیے۔ آپ اس اس سلسلہ میں عہدیداروں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ ’’آج میں ہر ایک کو ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دارہےاس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا۔ دیکھو میں یہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17دسمبر 1965 از خطبات ناصر جلد اول صفحہ52)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے عید کے اس اہم سبق کی طرف بار بار توجہ دلائی۔ آپ ایک موقع پر فرماتے ہیں۔ ’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن امراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں اور وہ تحفے جو آپس میں بانٹتے ہیں۔ آپس میں بھی ضرور کچھ نہ کچھ بانٹیں۔ کونکہ حق ہے یہ ذوی القربیٰ کا بھی حق ہے۔ دوستوں کا بھی حق ہے۔ وہ حقوق بھی ادا ہونے چاہیں۔ ۔۔۔

کوشش کریں کہ حقی المقدور ایک سے زیادہ گھر بانٹیں مگر بہرحال یہ کوئی تکلیف مالایطاق دینے والی بات تو نہیں ہے عید منانی ہے آپ نےجتنی عید بھی آپ منا سکیں آپ کی توفیق کے مطابق ہے آپ ان گھروں میں جائیں، ان کے حالات دیکھیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتٰیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی ۔۔۔۔۔

یہ ہے عید جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید ہے یہ وہ عید ہے جو درحقیقت ہر سچے مذہب کی عید ہے۔۔۔۔۔۔ پس جس کو یہ عید نصیب ہو جائے اس کو اور کیا عید چاہیے۔ اس کی عیدیں ہی عیدیں ہے۔ یہی وہ عید ہے جو اسلام کی عید ہے۔‘‘

(خطبہ عید الفطر 12جولائی 1983 از خطبات طاہر عیدین ص18-20)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ نے اس اہم امر کی طرف یوں توجہ دلائی ’’عید کے دن ہر احمدی اپنے ماحول میں جائزہ لے اور ضروت مندوں کا خیال کرے۔ یہ عمل خدا کے فضل سے ذاتی اور جماعتی سطع پر ہو رہا ہے ،لیکن ابھی بہت گنجاش موجود ہے۔ یہ کام اچھا کھلانے اور پہنانے تک ہی ختم نہیں کرنا۔ جس طرح عید کے دن ان کا خیال رکھا جا رہا ہے ان رابطوں کو توڑنا نہیں بلکہ ان پر نظر رکھیں خود بھی ان کا دھیان رکھیں اور نظام کو مطلع کریں۔ ان کو کام پر لگائیں ان کی ہمت بندھائیں یہ ان پر جاری احسان ہوگا اس طرح کم استطاعت والوں کو اٹھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اگلے سال عید پر دوسروں کی مدد کر رہا ہو۔ اس طرح پرمعاشی استحکام سے اخلاقی معیار بھی بلند ہوں گے اور پاکیزہ معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔‘‘

(خطبہ عید الفطر 26نومبر 2003 از الفضل 3دسمبر 2003)

اللہ تعالیٰ ہمارے لئے یہ عید ہر لحاظ سے مبارک کرے اور رمضان کی برکات ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں آمین

(درثمین احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ