پان افریقن ایسو سی ایشن یوکے کے ایک ممبر نے سوال کیا کہ حضور! میرا سوال ہے کہ ایک مرتبہ پھر بر اعظم افریقہ بے شمار جنگوں اور بغاوتوں سے چور چور ہے۔ افریقی سربراہان کے لئے پیارے حضور کی کیا نصائح ہیں؟
حضور انور نے فرمایا:۔
دنیا کا کون سا کونا ہے جو اِن چیزوں سے پاک ہے؟ صرف افریقہ ہی نہیں بلکہ ہم دنیا کی ہر جگہ دیکھتے ہیں۔ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یورپ کے حالات افریقہ سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ حالات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ میں کئی سالوں سے بتا رہا ہوں کہ ملک اور معاشرہ کے امن کی خاطر انصاف کی ضرورت ہےاور کامل انصاف کی۔ جب تک ہماری لیڈر شپ اپنے کاموں میں اپنی عوام کے لئے سچ اور انصاف سے کام نہیں لیتی۔ ہم معاشرہ میں امن کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اور یہ چیزیں چلتی رہیں گی۔ آپ جہاں بھی دیکھتے ہیں کہ راہنما اچھے ہیں، اپنی عوام سے مخلص ہیں، وہ ممالک خوشحال ہیں۔ یا کچھ حد تک ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے افریقہ میں اور ایشیا میں بھی بہت سے ایسے ممالک ہیں اور یورپ میں بھی اب ہم دیکھتے ہیں کہ راہنما مخلص نہیں ہیں۔ پس ہم دعا کرتے ہیں اور اِن راہنماؤں سے کہتے ہیں کہ وہ اخلاص اور سچائی پر قائم رہیں۔ اور اپنے خالقِ حقیقی کو پہچانیں۔ اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اللہ ان کے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُس کے لئے وہ جواب دہ ہوں گے۔ اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں۔ تب وہ اچھے اعمال بجالائیں گے۔ پس ہمیں اُنہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ خدائے واحد موجود ہے۔ اور وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہی ایک جہان ہی ہے۔ بلکہ وہ اگلے جہان میں اپنے تمام اعمال کے لئے جوابدہ ہوں گے۔ اور جو کوئی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اُس کے بارہ میں آپ سے پوچھا جائے گا۔ اور اگر آپ اپنی ذمہ داری کو صحیح طرح ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو سزا دیگا۔ پس یہ وہ واحد چیز ہے جو اُن کی اصلاح کر سکتی ہے۔ یہ بات میں ہمیشہ کرتا آرہا ہوں، جب بھی مجھے اِن لیڈروں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔ یا یہ کوشش کر سکتے ہیں کہ تمام ممالک اور براعظم حقیقی اسلام لے آئیں۔ جیسا آپ نے تلاوت میں سنا ہے جو آپ کے سامنے کی گئی ہے۔ کہ پھر آپ ایک قوم بن جاؤ گے اور ایک دوسرے سے اخلاص سے پیش آؤ گے۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کروگے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو گے۔ یہ واحد حل ہے۔ ورنہ کسی قسم کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں۔
پان افریقن ایسو سی ایشن یوکے کے ایک اور ممبر نے سوال کیا کہ میرا سوال ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے بعض PAAMA ممبران بعض جماعتی میٹنگز میں اس وجہ سے شامل نہیں ہوتے کہ وہ میٹنگ زیادہ تر اردو زبان میں کی جاتی ہیں اور وہ سمجھ نہیں سکتے۔ پھر ایسی میٹنگز میں شامل ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے۔
حضور انور نے فرمایا:۔
دیکھو! اس کے لئے منتظمین اور عہدیداران ذمہ دار ٹھہرائے جانے چاہئیں کہ وہ اپنی میٹنگ اردو میں کیوں کرتے ہیں۔ میں نے بہت دفعہ کہا ہے ہماری میٹنگز 70فیصد انگریزی میں ہونی چاہئیں۔ تاکہ سب سمجھ سکیں۔ اور انگریزی بولنے والوں کو بھی موقع ملنا چاہئے کہ وہ بھی ان میٹنگز میں کچھ کہہ سکیں۔ چاہے وہ تقریر یا خطاب وغیرہ ہو۔ چاہے وہ عہدیدار ہوں یا نہ ہوں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر بات لوگوں کو سمجھ نہیں آتی تو میٹنگ کا 70 فیصد انگریزی میں ہونا چاہئے اور 30 فیصد حصہ اردو میں ہونا چاہئے۔ پس یہ نیشنل امیر صاحب کی ذمہ داری ہے جو کہ یہاں موجود ہیں اور آپ کے لوکل صدران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عاملہ کو کہیں کہ میٹنگز انگریزی میں منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ سب ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بہر حال، اگرچہ نہ شامل ہونے والے اُس ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں جو ایسی مجلس میں بیٹھنے سے ملتا ہے۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول کا ذکر ہو۔ اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب کے اقتباسات پڑھے جاتے ہوں۔ لیکن، اس کے علاوہ، یہ عہدیداران کی غلطی ہے۔ پروگرام کا کم از کم 70 فیصد انگریزی میں ہونا چاہئے۔ پس آپ میرا یہ پیغام اپنے صدر جماعت تک پہنچا سکتے ہیں۔
(This week with Huzoor نشر شدہ 3؍مارچ 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 22؍ مارچ 2022ء)