• 21 جولائی, 2025

ہمارا کام حقیقی اسلام کا محبت، امن اور ہم آہنگی بھرا پیغام پھیلانا ہے

پان افریقن ایسو سی ایشن یوکے کے ایک ممبر نے سوال کیا کہ میرا سوال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مطابق اس زمانہ کا جہاد،قلم کا جہاد ہے کیونکہ اسلام پر قلم کے ذریعہ حملہ کیا جاتا ہے۔ اگر پہلے زمانہ کے مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت ملی تھی تو احمدیوں کو پاکستان اور دیگر ممالک میں ظلم و ستم کے خلاف دفاعی طور پر لڑنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟ کیونکہ یہ ظلم و ستم قلم کے ذریعہ نہیں کیا جاتا۔

حضور انور
دیکھیں! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ میں اس دنیا میں، اس زمانہ میں، امن قائم کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اور میں مسیح موسوی ؑ کے نقش قدم پر آیا ہوں۔ کیا حضرت عیسیٰ ؑ نے کبھی اپنے معاندین کے خلاف جنگ و جدال کیا ہے؟ نہیں۔ اُن کی مخالفت کی گئی، اُن کو مارا گیا، اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا، گو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچا لیا تھا وہاں سے، مگر انہوں نے ان تمام شدائد کو برداشت کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کے نقش قدم پر آیا ہوں۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے ہیں کہ اب جہاد بالسیف جائز نہیں رہا۔ آپ نے آنحضور ﷺ کی بخاری میں مندرج حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف جائز نہیں ہوگا۔ ہمارا کام حقیقی اسلام کا محبت، امن اور ہم آہنگی بھرا پیغام پھیلانا ہے۔ اس پیغام کے ذریعہ جو ہمیں حاصل ہو رہا ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدال کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا ہے۔ آخر لڑائی کے نتیجہ میں ہمیں کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ ایسے پاکستانی جو احمدیت کی آغوش میں آئے ہیں وہ ایسے لوگوں میں سے آئے ہیں، اُن کی وہی سوچ اور نفسیات تھی، اُن میں سے بعض جنگجو قبائل سے آئے ہیں مگر اس کے باوجود احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اسلام احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ ہمیں صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور ان سب مظالم کو برداشت کیا جائے جو مخالفین کی طرف سے احمدیوں پر کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اُس کو اور اُس کی جماعت کو اُن تمام مظالم کا نشانہ بنایا جائے گا لیکن اُن کو برداشت کرنا ہوگا۔ چنانچہ اسی وجہ سے ہم بدلہ نہیں لیتے۔ ہم بدلہ لے سکتے ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہم ملک کے امن کو برباد کرنے والے ہوں گے۔ جو کہ پہلے سے ہی خطرہ میں ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو یہ کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ ہم ایک گروپ بنا کر پٹرول بم اور دیگر بم بنا کر ملک میں افراتفری پیدا کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ایسا کر سکتے ہو مگر پھر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ٹھیک ہے۔ تم اور تمہارے مخالفین جو چاہو کرو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے پاس کوئی محفوظ جگہ نہ رہی۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی جائے، یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ و السلام کے زمانہ میں ہمیں اپنا پیغام محبت، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ پھیلانا چاہئے اور صبر دکھانا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے۔

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ میں پیارے حضور سے بہت محبت کرتا ہوں تاہم میں نے نوٹ کیا ہے کہ جب بات کھیلیں کھیلنے کی ہو یا فٹ بال میچ دیکھنے کی ہو، تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے بجائے حضور انور کو ایم ٹی اے میں دیکھنے کی نسبت اِن چیزوں کی طرف زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ میراسوال یہ ہے کہ میں اپنے اندر پیارے حضور کے لئے ایسے جذبات اور لگن کیسے پیدا کر سکتا ہوں جو کھیلوں اور ہر ایک کام سے کہ جو میں کرتا ہوں زیادہ ہو کہ میں حضور انور کو ایم ٹی اے پر دیکھنے کی خواہش رکھوں اور ہر آن آپ کی باتیں سنوں؟

حضور انور
دیکھیں! حدیث میں آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر پیار کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو مومن میری خاطر اور میری رضا حاصل کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے پیار کریں تو میں بھی اُن سے پیار کروں گا۔ اور اُن پہ کثرت سے اپنے فضل نازل کروں گا۔ پس اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ خلیفہ وقت سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر پیار کرتے ہیں تو پھر باقی تمام محبتیں اَور طرف ہونی چاہئیں اور صرف ایک بات آپ کے سامنے ہونی چاہئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر ہی آپ خلیفہ وقت سے اور ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ اسی طرح خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کی خاطر جماعت احمدیہ سے پیار کرتا ہے۔ اگر یہ بات آپ کے ذہن میں ہو تو فٹ بال اوردوسری چیزوں کے لئے آپکی رغبت، خلافت اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں ہوگی۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے اُن سے (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟ والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا کہ ہاں میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ پھر اُن کے بیٹے نے پوچھا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہوں۔ پھر اُن کے بیٹے نے پوچھا کہ دو محبتیں ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔ آپ میر ے سے بھی اور اللہ تعالیٰ سے بھی پیار کرتے ہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی محبت کا وقت آتا ہے تو صرف ایک محبت (دل میں) ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی۔ چنانچہ اگر نماز کا وقت ہو اور آپ اُس وقت ٹیلی ویژن پہ فٹ بال کا میچ دیکھ رہے ہوں جو آپ کو بہت پسند ہو تو آپ کو ٹیلی ویژن بند کرنا چاہئے اور پہلے نماز ادا کرنی چاہئے۔ جلد بازی میں نہیں بلکہ توجہ اور تضرع کے ساتھ۔ اور پھر اس کے بعد، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو بے شک میچ دیکھ لیں۔ اسی طرح اگر خلیفہ وقت تقریر یا خطاب فرما رہے ہوں اور براہ راست آپ سے مخاطب ہوں تو آپ کو پہلے خلیفہ وقت کی باتوں کو سننا چاہئے اور بعد میں آپ بے شک میچ کی ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو اپنی ترجیحات پر توجہ دینی چاہئے کہ کون سی محبت آپ کو زیادہ عزیز ہے؟ یعنی آپ کا دین، آپ کی خلافت سے وابستگی، آپ کی اللہ تعالیٰ سے محبت یا آپ کی فٹ بال سے رغبت یا اس ٹیم سے رغبت جو آپ کو پسند ہے۔ یہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ میں آپ کو کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو خلیفہ وقت سے زیادہ محبت کرنی چاہئے۔ یہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہوگا۔ دیکھیں! مجھے پتہ ہے آپ کی نیک فطرت ہے۔

(This week with Huzoor نشر شدہ 04مارچ 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن 22؍مارچ 2022ء)

پچھلا پڑھیں

کچھ یادیں کچھ باتیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مئی 2022