• 29 اپریل, 2024

مسجد نبوی میں افسوسناک واقعہ اور مساجد کی حرمت

گذشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستان کے سیاسی پس منظر پرجو مناظر دیکھنے کو ملے وہ سر کو شرم سے جھکانے کے لئے کافی تھے۔ پہلے ایک دوسرے کو غدار اور ایجنٹ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگر یہ طوفان بد تہذیبی یہاں تک محدود رہتا تو شاید اس مضمون کو سپرد قلم کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو تی۔ لیکن حکومت پاکستان کے چند کارندوں کا مسجد نبوی میں موجود پاکستانیوں کے ایک گروہ نے ان کا پیچھا شروع کیا اور ’’چور چور‘‘ اور ’’غدار غدار‘‘ کے نعرے لگائے۔

ایک خام سی امید تھی کہ شاید اس موقع پر پوری قوم متحد ہو جائے۔ کیونکہ مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر ہلڑ بازی کی گئی تھی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ ایک طبقہ نے اس کی شدید مذمت کی جبکہ دوسرے گروہ نے اسے عوامی رد عمل قرار دیا۔ اور اس پر مزید کج بحثی اور دشنام طرازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس قسم کے واقعات کا تاریخی تجزیہ کرنے سے قبل کچھ احادیث پیش کرنا ضروری ہیں تا کہ اس اعتبار سے مساجد کے آداب کا اندازہ ہو سکے۔

مساجد کے بارے میں احکامات

سب سے پہلے اس حکم کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور نماز ادا کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ یہاں پر دنیاوی کام خواہ وہ ضروری نوعیت کے ہوں کرنا منع ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں یہ ذکر ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ حَيْوَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰہِ مَوْلَی شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللّٰہُ عَلَيْکَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مسجد میں کسی آدمی کو اپنی گمشدہ چیز کو بلند آواز کے ساتھ تلاش کرتے ہوئے سنے تو اسے کہنا چاہیے کہ اللہ کرے تیری یہ چیز نہ ملے کیونکہ یہ مسجدیں اس لئے نہیں بنائی گئیں۔

(صحیح مسلم، کتاب المساجد)

اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں جھگڑا کرنا اور آواز کو بلند کرنا سختی سے منع ہے۔ جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے

حدثنا احمد بن يوسف السلمي، حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا الحارث بن نبهان، حدثنا عتبة بن يقظان، عن ابي سعيد، عن مكحول، عن واثلة بن الاسقع، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:’ جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع اصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على ابوابها المطاهر، وجمروها في الجمع

ترجمہ: واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنی مسجدوں کو بچوں، پاگلوں خرید و فروخت کرنے والوں، اور اپنے جھگڑوں، زور زور بولنے، حدود قائم کرنے اور تلواریں کھینچنے سے محفوظ رکھو، اور مسجدوں کے دروازوں پر طہارت خانے بناؤ، اور جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو جلایا کرو۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد ولجماعات، بَابُ: مَا يُكْرَهُ فِي الْمَسَاجِدِ)

مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں جھگڑنا اور اونچی آواز میں بات تک کرنا منع ہے۔ اسی طرح مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خیمے میں تھے کہ آپ نے سنا لوگ اونچی آواز سے قرأت کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیمے کا پردہ ہٹایا اور فرمایا: خبردار تم میں سے ہر شخص اپنے رب کے ساتھ مناجات کر رہا ہے لہٰذا کوئی کسی کو تکلیف نہ دے۔ اور اپنی قرأ ت کی آواز بلند نہ کرے‘‘

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں اونچی آواز سے تلاوت کرنا بھی منع ہے تا کہ نماز میں کسی نمازی کی توجہ میں فرق نہ آئے۔ ان احادیث نبویہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسجد میں تو اونچی آواز سے بات کرنا یا تلاوت کرنا بھی منع ہے اور مساجد میں دنیاوی امور کی بجا آوری بھی نا پسندیدہ ہے۔ تو مسجد نبوی میں سیاسی نعرے مارنا اور ایک خاتون پر آوازیں کسنا، کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ اور یہ حرکت اس سیاسی پارٹی کے حامیوں نے کی ہے جو کہ اس بات کی دعویدار ہے کہ وہ پاکستان میں مدینہ کی ریاست قائم کرے گی۔ یقینی طور پر اس مذموم حرکت سے اس مقدس مقام کا تقدس مجروح کیا گیا ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے اس کی مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

اس پس منظر میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ ایک دن میں ایک طبقہ کے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا احترام اس طرح اٹھ گیا کہ انہوں نے اس مقدس مقام کو سیاسی نعرے بازی اور ہلڑ بازی کے لئے استعمال کیا۔ اور بعض بیان دینے والوں نے تو یہ انتہا کی کہ اسے عوامی رد عمل قرار دے کر جواز مہیا کرنے کی کوشش تا کہ آئندہ بھی جس کا دل چاہے مسجد نبوی میں اپنے سیاسی مخالفین کو گھیر کر اس طرح کی بد تمیزی کا مظاہرہ کریں۔ کوئی بھی معاشرہ ایک روز میں اتنی گراوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ اور خاص طور پر اسلام میں تو دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کا احترام بھی سکھایا گیا ہے۔ جب مسلمانوں کو اپنے دفاع میں جنگ کی اجازت دی گئی تو اس کا عبادتگاہوں کی حفاظت سے گہرا تعلق تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَلَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَلَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۱﴾

(حج: 41)

ترجمہ: یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا۔ محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناََ ضرور اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناََ اللہ بہت طاقت والا اور کامل غلبہ والا ہے۔

آج کل جب کہ اس افسوسناک واقعہ پر بحث عروج پر ہے۔ پوری قوم کی توجہ اس طرف مبذول ہونی چاہیے کہ یہ دن کیوں دیکھنا پڑا کہ پاکستانی مسلمان جمع ہو کر مسجد نبوی جیسے مقدس مقام پر سیاسی نعرے بازی کریں۔ مزاجوں میں یہ پستی ایک دن میں نہیں پیدا ہوتی۔ برسوں کی غلطیوں کی پاداش میں یہ سیاہ دن دیکھنا پڑتا ہے۔اس مضمون کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ تعین کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے یا کسی سیاسی بحث میں الجھا جائے۔ لیکن ایک بات تو حتمی ہے کہ کسی کی غلطی تو ہے۔ اور جن کی بھی غلطی ہے وہ پاکستانی ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ کس طرح شروع ہوا تھا

یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد مساجد کو سیاسی اور مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور ان کی بے حرمتی کرنے کے سلسلہ کا آغاز ہو گیا تھا۔پاکستان بنے کے بعد سب سے پہلے جن مساجد کو نشانہ بنایا گیا وہ جماعت احمدیہ کی مساجد تھیں۔ چنانچہ 13مئی 1951ء کو سمندری ضلع لائل پور میں احمدیوں کی ایک مسجد پر حملہ کر کے اسے کو نذرِ آتش کرنے کے علاوہ وہاں پر موجود لوگوں کو زدکوب بھی کیا گیا۔

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 صفحہ30-31)

جماعت احمدیہ کے خلاف یہ شورش جو کہ مارچ 1953 کو اپنے عروج پر پہنچی، اس میں صرف جماعت احمدیہ کی مساجد پر حملے نہیں کئے گئے بلکہ مخالفین نے اپنی مساجد کو بھی نہ صرف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا بلکہ ان کو فسادات پھیلانے کے لئے اور اغوا اور قتل و غارت جیسی مذموم حرکات کے لئے استعمال کر کے ان کی بے حرمتی کی گئی۔ ان فسادات کا مرکز لاہور تھا۔ اور پنجاب سے باہر اس شورش کو بہت کم پذیرائی ملی تھی۔ جب مارچ کے شروع میں ان فسادات نے شدت اختیار کی تو اس کا مرکز اندرون لاہور میں مسجد وزیر خان میں منتقل ہو گیا۔ اندرون شہر میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں تک پولیس کی بھاری نفری کے لئے پہنچنا آسان نہیں تھا۔اُس وقت ابو الحسن محمد احمد قادری اس مسجد کے امام تھے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف شورش برپا کر نے کے لئے جو مجلس عمل بنائی گئی تھی، یہ صاحب اس کے رکن تھے۔ جب 1953ء کے فسادات نے زور پکڑا تو لاہور میں عبد الستار نیازی صاحب اس کے نمایاں لیڈر بن کر سامنے آئے اور انہوں نے مسجد وزیر خان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔

مسجد کے لائوڈ سپیکروں کو استعمال کر کے رات کو اس قسم کا شور اہل شہر کو سنایا جاتا، جس سے لوگ یہ محسوس کریں جیسے کوئی بہت بڑا مجمع وہاں سے روانہ ہو رہا ہے اور شہر میں دہشت پھیلے۔ اور اس مرحلہ پر مخالفین جماعت نے سائیکلو سٹائل کراکے ایسے خطوط تقسیم کئے جن میں مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں وفاقی وزراء کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

جب فسادات عروج پر پہنچ رہے تھے تو ڈی ایس پی پولیس فردوس علی شاہ صاحب کو اطلاع ملی کہ مفسدین دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں یعنی منظور الحق صاحب اور محمد صادق صاحب کو اغوا کر کے مسجد وزیر خان لے گئے ہیں۔ان حالات میں جب فردوس علی شاہ صاحب پولیس کی ایک نفری کے ساتھ مسجدکی طرف بڑھ رہے تھے تو مفسدوں کا ایک ہجوم ان کے سامنے آیا، انہوں نے ان دو پولیس افسروں کےمتعلق سوال کیا کہ وہ کہاں ہیں، اس پر مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا اور چھروں اور چاقوں سے زخمی کر کے شہید کر دیا۔اس کے بعد مسجد وزیر خان اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حکومت کے قابو سے نکل چکا تھا اور کوئی ذمہ دار وہاں پر جانے کو تیار نہیں تھا۔اور لاہور کی دیواروں پر اشتہار شائع کئے گئے جس میں پولیس سے کہا گیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں کیونکہ حکومت کے خلاف جہاد شروع ہو چکا ہے۔ اور مودودی صاحب کا وقف یہ تھا کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔اور 5 مارچ تک یہ حالات ہو چکے تھے جس کے متعلق تحقیقاتی عدالت رپورٹ میں لکھا ہے:
’’جتنا دن چڑھتا گیا۔ حادثے پر حادثہ رونما ہوتا گیا۔ پولیس اور احمدیوں پر حملے کئے گئے۔ اور حکومت اور احمدیوں کے اموال و جائیداد کو آگ لگانے اور لوٹنے کا ہنگامہ جاری رہا۔‘‘

اور ایک سفارتکار نے اپنی حکومت کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ جب عبدالستار نیازی صاحب کاسنی رنگ کا چوغہ اور سبز رنگ کی پگڑی پہن کر مسجد وزیر خان کے مینارے سے اترتے تو یہ افواہ پھیلائی جاتی کہ (نعوذُباللّٰہ) یہ اگلے جہاں میں رسول اللہ اور اس شورش مارے جانے والے لوگوں کے ساتھ کھانا تناول کر کے اتر رہے ہیں۔ لاحول و لا قوۃ الا باللّٰہ

(The Ahmadis and Politics of Religious exclusion in Pakistan , by Ali Usman Qasmi, published by Anthem Press 2014 , page 102 -115)

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب صفحہ157 تا 167)

سیاسی مقاصد کے لئے مساجد کا مذموم استعمال

یہ تھا اس سلسلہ کا دردناک آغاز کہ مساجد کو اللہ کے ذکر کی بجائے فتنہ و فساد، بغاوت اور قتل و غارت کے لئے استعمال کیا جائے۔یہ مذموم حرکات احمدیوں کو نشانہ بنانے کے لئے شروع کی گئیں لیکن پھر ان کا سلسلہ رک نہ سکا۔کیا ان حرکات کے ساتھ دلوں میں مساجد کا احترام باقی رہ سکتا تھا؟ یہی تاریخ 1974 میں دہرائی گئی۔ اور مساجد کو مرکز بنا کر احمدیوں کے خلاف فسادات اور قتل و غارت کو ہوا دی گئی۔ان تفاصیل کا ذکر چھوڑتے ہوئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ مذموم طریقہ صرف جماعت احمدیہ کی مخالفت تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے مساجد کو بے دردی سے استعمال کیا اور ان کا تقدس مجروح کیا۔

چنانچہ جب 1977ء میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی کے مد مقابل سیاسی اتحاد قومی اتحاد نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ جب قومی اتحاد کے جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگائی گئی تو قومی اتحاد نے، جس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں، مساجد کو سیاسی مقاصد اور سیاسی احتجاج کے لئے استعمال کیا۔ ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ ان کی سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ مل جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حکومت ان پرہاتھ نہ ڈال سکے۔ جب مساجد کو مرکز بنا کر سیاسی شورش برپا کرنے کا سلسلہ آگے بڑھا تو حکومت نے اس کو روکنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ 31 مارچ کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مساجد میں داخل ہو کر گرفتاریاں کیں تو اس پر شدید احتجاج کیا گیا کہ مساجد کے تقدس کو مجروح کیا گیا ہے۔

(Pakistan between mosque and military , by Hussain Haqqani, page 110)
(Religious Motivation behind Political Movement: A Case Study of Nizam-e-Mustafa Movement, by Rizwan Ullah Kokab ,Muhammad Arif Khan , Pakistan Vision Vol. 19 No. 127 -134)

مزار بھی قتل و غارت کی زد میں

جب اس طرح مقدس اور مذہبی مقامات کا احترام ختم کر دیا جائے تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ کسی فرقہ اور مسلک کے مذہبی مقامات مجفوظ نہیں رہتے۔ اور تو اور فوت شدہ ہستیاں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔ چنانچہ پاکستان میں بار بار مختلف مزاروں کو خود کش دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا اور ان مزاروں کا احترام بھی مجروح ہوا۔ مارچ 2005ء میں پیر راخیل شاہ پر حملہ ہوا اور 46 لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔مئی 2005ء میں بری امام پر حملہ ہوا اور 20 لوگ ہلاک ہوئے۔ جولائی 2010ء میں داتا دربار پر دھماکہ کیا گیا اور 42 لوگ ہلاک ہوئے۔ اکتوبر 2010ء میں پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر دھماکہ ہوا اور5 افراد مارے گئے۔ اکتوبر 2010ء میں ہی کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر دھماکہ ہوا اور8 افراد ہلاک ہوئے۔ 2013ء میں ڈیرہ غازی خان میں سخِی سرور کے مزار کے نزدیک دھماکہ ہوا اور41 افراد ہلاک ہوئے۔ فروری 2013ء میں غلام شاہ غازی پر حملہ ہوا اور 8 افراد اس کا نشانہ بنے۔نومبر 2016ء میں شاہ نورانی پر حملہ ہوا اور 52 آدمی جان کی بازی ہار بیٹھے۔ جون 2016ء میں شمالی پاکستان میں ایک مزار کو نشانہ بنایا گیا اور 61 افراد مارے گئے۔ فروری 2017 میں لال شہباز قلندر کے مزار پر حملہ ہوا اور 88 افراد اس میں مارے گئے۔ اس عمل نے اتنی ذہنی پستی پیدا کر دی ہے کہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم بزرگان کی عظمت کا خیال بھی نہیں کیا گیا۔

جماعت احمدیہ کی مساجد پر حملوں کا جاری سلسلہ

اسی طرح بار بار پاکستان میں مختلف فرقوں کی مساجد کو دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جس طرح حال ہی میں 22مارچ کو پشاور میں شیعہ احباب کی ایک مسجد میں دھماکہ کیا گیا اور اس میں 58 افراد کا خون بہایا گیا۔ اگر 1884ء سے اب تک صرف احمدیوں کی ان مساجد کا ذکر کیا جائے جنہیں منہدم کیا گیا تو اب تک جماعت احمدیہ کی 31 مساجد منہدم کی گئی ہیں۔ اس عرصہ میں 43 مساجد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سر بمہر کر دیا۔ 28 مساجد کو آگ لگائی گئی یا اسے نقصان پہنچایا گیا۔ ان سالوں میں 18 پر زبردستی حملہ کر کے قبضہ کر لیا گیا۔ احمدیوں کی 60 مساجد کی تعمیر کو روکا گیا۔ کیا ان نام نہاد کارناموں کو سرانجام دینے کے بعد یہ آگ احمدیوں تک محدود رہی۔ نہیں یہ آگ پھیلتی رہی اور مختلف مسالک کی مساجد اور مذہبی مقامات اس کی زد میں آتے گئے اور اب اتنی ذہنی پستی پیدا ہو چکی ہے کہ کچھ پاکستانیوں نے مسجد نبوی کی عظمت کا لحاظ بھی نہیں کیا اور اپنی ہلڑ بازی اور سیاسی نعروں سے اس مقدس مقام کا تقدس پامال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور یہ سوچے کہ آخر ان غلطیوں کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟

فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا
کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے کیوں خون ہوا ارمانوں کا

طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی
مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا

(ابونائل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ