• 29 اپریل, 2024

کچھ یادیں کچھ باتیں

ہمارے خاندان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت ہمارے داداجان میاں حبیب اللہ صاحب کے چچا زاد بھائیوں صحابہ مسیح موعودؑ حضرت میاں سیف اللہ صاحب اور حضرت سندرحسین صاحب ولد کرم الہٰی صاحب کے ذریعہ داخل ہوئی۔ رجسٹر روایات (رفقاء) جلد نمبر 10 کے صفحہ261 اور صفحہ264 پر درج ہے کہ انہوں نے بالترتیب 1904ء اور 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 1914ء میں ہمارے داداجان نے بیعت کر کے قادیان محلہ دارالبرکات میں سکونت اختیار کر لی اس طرح خلافت کے سایہ تلے یہ خاندا ن پروان چڑھنے لگا۔

پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاکسار کی درخواست پرمیرے دونوں بیٹوں عزیزم سعید احمد نذیر اور عزیزم نوید احمد ظفر کے نکاحوں کا اعلان کرتے ہوئے از راہ شفقت فرمایا کہ ’’یہ خاندان قادیان کے پرانے خاندانوں سے ہے اور جماعت سے گہرا تعلق ہے۔‘‘ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

دراصل خلافت کی شفقتوں کا سلسلہ تو والدین سے ہی شروع ہو گیا تھا چنانچہ ہمارے پیارے والدین کا نکاح بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1949ء میں کچی بیت مبارک ربوہ میں بعد نماز مغرب پڑھا تھا۔ جس کا کچھ حصہ بعد میں ہمارے گھر کا حصہ بن گیا۔ جہاں ہمارا بچپن گزرا۔

جہاں تک خاکسار کا تعلق ہے خلافت کی شفقتوں کا آغاز پیدائش سے ہی ہو گیا تھا جب محترم اباجان کی درخواست پر سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خاکسار کا نام مجید احمد تجویز فرمایا تھا۔ حضرت مصلح الموعودؓکی وفات پر خاکسار کی عمر 10 سال تھی۔ لیکن یا د ہے کہ محترمہ والدہ ہمیں کبھی کبھی حضور سے ملانے لے جایا کرتی تھیں۔ ہماری چھوٹی پھوپھو جو کہ سلائی کرتی تھیں ان کا خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے گھروں میں آنا جانا رہتا تھا۔

خلافت ثالثہ میں شفقتوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ویسے بھی ذرا ہوش آنی شروع ہو گئی تھی۔ والد صاحب چھٹی پرتشریف لاتے تو ہمیں ضرور ملاقات پر لے کر جاتے۔ جلسہ سالانہ پر ملاقاتوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ والد محترم کی طرف سے خصوصی ہدایت ہوتی کہ وقت ملاقات جلسہ سالانہ کی ڈیوٹی سے رخصت حاصل کر کے حاضر ہو ں تا ملاقات ہو سکے۔

پھر خلافت کے سایہ تلے ہم بڑے ہوتے رہے۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد کالج میں داخلہ ہوا۔ ایف ایس سی اور بی ایس سی میں خدام الاحمدیہ کی طرف سے خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ہمراہ گرمیوں میں ایبٹ آباد اور جہلم کے سفروں میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان سفروں میں حضورؒ کے سنگ گزارے ہوئے لمحات زندگی کا سرمایہ ہیں اور کبھی نہیں بھلائے جا سکتے۔ بعد نماز مغرب حضور کی مجالس عرفان میں شرکت کرتے۔گو اس وقت عمر میں پختگی نہ تھی مگر اپنے آپ کو خوش قسمت ترین تصور کرتے تھے اور اپنی اس خوش بختی پر پھولے نہیں سماتے تھے۔ حضورؒ بعض دفعہ از راہ شفقت فرداً فرداً ہمارا حال بھی دریافت کرتے۔ خوراک کا پوچھتے اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایات جاری فرماتے۔ وہ لمحے نہیں بھولتے جب روزانہ اپنے دست مبارک سے ایک روپے کا نیا نوٹ عنایت فرماتے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے بی ایس سی کے بعد ایک ملاقات کے دوران حضور انورؒ نے استفسار فرمایا کہ کیا کر رہے ہو۔ خاکسار نے عرض کی کہ حضور فارغ ہوں۔ فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ احمدی بچہ فارغ ہو۔ ایک چٹ پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کے نام سطور میں لکھا کہ عزیزم کو بھجوا رہا ہوں مناسب بندوبست کیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) جو اس وقت ناظم وقف جدید تھے ان کی سفارش پر ملک منور صاحب (مرحوم) نائب ناظر دارالضیافت جو کہ اس وقت لاہور میں تھے ان کے نام ایک رقعہ ملا اور ان کی کوشش سے بی ایس سی کے امتحانات کے بعد ایم ایس سی کے داخلہ تک لاہور میں Eclipse Dyers and Dry Cleaners کے ہاں ملازمت کی۔

خاکسار کی پیاری امی کو پِتّے کے درد کا عارضہ تھا۔ بعض دفعہ تکلیف اتنی بڑھ جاتی کہ برداشت سے باہر ہوتی۔ ایک دفعہ صبح تکلیف ہوئی اور بڑھتے بڑھتے خطرناک ہو گئی۔ حضورؒ کی خدمت میں دعا اور رہنمائی کے لئے لکھا۔ جب یہ پیغام حضور انورؒ کی خدمت میں بھجوایا گیا تو محترم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب حضور انورؒ کے ڈاکٹری معائنہ کے لئے موجود تھے۔ شفقت کا یہ عالم تھا کہ حضورؒ نے ڈاکٹر صاحب کو ہدایت جاری فرمائی۔ چنانچہ محترم ڈاکٹر صاحب وہاں سے سیدھے گھر تشریف لائے اور امی کا معائنہ کرنے کے بعد دوائی تجویز کی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے، حضور انور کی دعاؤں سے بہت جلد ہماری امی جان کو افاقہ ہو گیا۔

خاکسار نے ایم ایس سی کے دوران نصرت جہاں کے لئے وقف کر دیا تھا۔ وہ دن بھی یاد ہے کہ امتحانات کے بعد ابھی ایم ایس سی کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ ایک دن حضورؒ نے یاد فرمایا۔ حضورؒ دفتر میں تشریف فرما تھے۔ میز کے اس طرف ایک دروازہ ہوتا تھا جہاں سے غالباً حضور انور اندرون خانہ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ وہیں پاس ہی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ حضور انور ڈاک ملاحظہ فرما رہے تھے۔سلام کے جواب کے بعد ارشاد فرمایا کہ ’’تمہیں غانا بھجوا رہا ہوں۔ پانی نہیں وہاں۔ بجلی نہیں ہے۔ مینڈک کھانے پڑیں گے۔ جاؤ گے۔‘‘ ساتھ ہی فرمایا جاؤ تیاری کرو۔ ایک دو دفعہ صورتحال کی آگاہی کے لئے اور رہنمائی کے لئے حضورؒ سے ملاقاتوں کی سعادت حاصل ہوئی۔30 ستمبر کوالوداعی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ درخواست کی کہ حضور بڑے بھائی (مکرم حنیف محمود صاحب) کی شادی ہے۔ فرمایا کہ شادیاں تو ہوتی رہتی ہیں۔ پہنچو تیاری کرو میں آرہا ہوں۔ چنانچہ حضور انور نے 1980ء کے اوائل میں افریقہ کا ایک تاریخ ساز دورہ فرمایا تھا۔

حضورؒ کی شفقتوں کا سلسلہ اس قدر وسیع تھا کہ دسمبر 1982ء میں جب خاکسار پاکستان آیا تو ہر طرف آنکھیں یادوں کی بارات لئے اس پر نور وجود کو ڈھونڈتی رہیں۔ یہ شاید خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شفقتوں کا نتیجہ تھا اور بھر پور تعلق کا نتیجہ تھا کہ خلافت رابعہ کے آغاز میں ایک لمبا عرصہ خواب میں دونوں خلفاء نظر آتے رہے۔ بہر حال خلافت رابعہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ میرے خیال میں میَں نے پاکستان میں 3ماہ کا عرصہ گزارا۔ حضور انور کی شفقتوں کی داستان اتنی لمبی ہے کہ ناممکن ہے کہ یہاں بیان کر سکوں۔ شاید حضورؒ کو بھی میری اندرونی کیفیت کا اندازہ تھا۔ آپ نے اس خلاء کو جو خاکسار خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر محسوس کر رہا تھا اس کو ایک دو ملاقاتوں میں ہی پُر کر دیا۔ 13دسمبر 1982ء کو پہلی ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ دربار خلافت میں حاضری دی۔ خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں ایک پین بطور تحفہ پیش کیا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں انتہائی معمولی بات ہے۔ خلیفۂ وقت کے پاس تو ایک سے ایک بڑھ کر قیمتی پین موجود رہتے ہیں۔یہ بات کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ میں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ واقف زندگی سے تحفہ وصول نہیں کرتا اس لئے مجبوری ہے۔ لیکن شاید حضورؒ نے میری اس وقت کی قلبی کیفیت کو محسوس فرمایا اور تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ چلو ایک کام کرتے ہیں میں تحفہ تو وصول نہیں کرتا ہاں میرے پین کے ساتھ تبدیل کر لو اور اپنی جیب سے پین نکال کر مجھے دے دیا اور اس طرح میرا تحفہ قبول فرمایا اور اس غلام کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس وقت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔

پھر خاکسار نے اپنا نکاح پڑھوانے کے لئے حضور انورؒ کی خدمت میں درخواست کی توفرمایا کہ میں تو قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے نکاح نہیں پڑھاتا۔ پھر کچھ توقف کے بعد ایک درخواست پر اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا ’’مجبوری ہے نہیں پڑھا سکتا۔ ہاں نکاح کے وقت ضرور دعا میں شامل ہو سکوں گا۔ ملک سیف الرحمن صاحب نکاح پڑھائیں۔ کسی دن بعد نماز عصر رکھ لیں۔‘‘

نکاح کے بعد ایک اور درخواست لے کر حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا کہ حضور شفقت فرمائیں اور شادی کی تقریب میں شرکت فرمائیں۔ امید نہیں تھی کیوں کہ جلسہ سالانہ کے بعد ملاقاتوں کا زور تھا۔بیرون ممالک سے بھی وفود آئے ہوئے تھے۔۔ حضورؒ نے از راہ شفقت شرف ملاقات بخشا۔ درخواست پیش کی۔ استفسار فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟خا کسار نے عرض کی حضور شادی میں شرکت کی خواہش ہے۔ محترم اباجان اور محترم خسر صاحب کی درخواستیں ہیں۔ فرمایا ایک طرف آسکتا ہوں بتاؤ کدھر آؤں۔ بچی کی طرف یا تمہارے گھر ولیمہ پر۔ خاکسار نے عرض کی حضور دعا پر تشریف لے آئیں۔ انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا۔ فرمایا یہ ٹھیک ہے۔ آپ کےاس جواب سے مجھے خوشی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ چند منٹس کے لئے آؤں گالیکن واہ رے خلافت حضور اپنے قیمتی وقت سے چند لمحے نکال کر تشریف لائے۔ تقریباً 45 منٹ حضور تشریف فرما رہے۔ دعا کروائی اور رخصت ہوئے۔ ولیمہ کے لئے فرمایا کہ میرے پیارے بھائی (حضرت مرزا وسیم احمد صاحب) قادیان سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ربوہ میں ہیں۔ میری نمائندگی کریں گے۔ چنانچہ اگلے روز حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضور انور کی نمائندگی میں تشریف لائے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب محترم والد صاحب کے کلاس فیلو بھی تھے۔

شادی کے دو دن بعد حضور انور نے یاد فرمایا۔ ہم دونوں میاں بیوی حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرمایا تمہارے لئے تحفہ رکھا ہوا ہے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر سے منگوا کر خود عنایت فرمایا۔ ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر تھا اور کچھ رقم تھی۔ اہلیہ کی طرف دیکھ کر فرمایا اس کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ خاکسار نے عرض کی کہ حضور چھٹی ختم ہو رہی ہے تو فرمایا کہ لکھو درخواست میں نے ہی منظور کرنی ہے۔ پریشانی کس بات کی ہےچنانچہ سارا بند و بست ہوا اور شادی کے بعد ہم دونوں اکٹھے ہی غانا گئے۔

1988ء میں حضورؒ نے مغربی افریقہ کا دوررہ فرمایا۔ اکرہ ائیرپورٹ پر حضور کی تشریف آوری ہوئی۔ استقبال کے لئے ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا۔ خاکسار بھی مجمع میں اہلیہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ حضور تیزی سے گزرتے ہوئے ہاتھ لہرا کہ سلام کا جواب دے رہے تھے۔ اچانک رکے اور اہلیہ کو دیکھ کر فرمایا کہ ابھی تک یہیں پھنسی ہو۔ تمہاری بہن کو مل کر آرہا ہوں۔ بالکل خیریت سے ہیں۔ فکر کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر خاکسار کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ جب حضور انور اسارچر سکول کے دورہ پر تشریف لائے تو خاکسار اسکول کا پرنسپل تھا۔ یہ اسکول ایک چھوٹے سے ٹیلے کی چوٹی پر تھا۔ حضور انورؒ کے استقبال کے لئے بچے گیٹ سے ہی دو رویہ قطاروں میں جھنڈیاں پکڑے اس سڑک کے کنارے کھڑے تھے جو کہ نیچے مین روڈ سے اسکول تک آتی تھی اور کچی سڑک تھی۔ ہم سب حضور انورؒ کے انتظار میں کھڑے تھے کہ حضور کی گاڑی اوپر آتی ہے اور ہم استقبال کرتے ہیں۔ اچانک دیکھا کہ حضور پیدل ہی اوپر تشریف لا رہے ہیں۔ آتے ہی فرمایا کہ سکول کے بچے اتنے اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے سڑک کے دونوں طرف کھڑے تھے۔ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں گاڑی میں مٹی اڑاتا اوپر آ جاتا اس لئے میں نے گاڑی نیچے ہی رکوا دی تھی۔ واہ کیا پیار تھا بچوں سے۔

اوپر آتے ہی خاکسار کی بیٹی جو کہ میری انگلی پکڑے کھڑی تھی اس کو گود میں اٹھا لیا اور فرمایا آؤ فوٹو کھینچواتے ہیں۔ اور تمام حاضرین کے ساتھ جس میں اسکول کے اساتذہ بھی شامل تھے ایک فوٹو بنوایا۔ اور اس کے بعد سارے سکول کا دورہ فرمایا۔ کھیلوں کا پروگرام دیکھا۔ انعامات تقسیم فرمائے۔ خاکسار کی بیٹی انگلی پکڑے حضور انورؒ کے ساتھ ساتھ رہی۔ حتٰی کہ جب سپورٹس کا پروگرام ہو رہا تھا تو یہ حضور انورؒ کی گود میں بیٹھی تھی۔ خاکسار نے ایک دو دفعہ عرض کی کہ حضور بچی مجھے دے دیں فرمایا نہیں رہنے دو۔ حضور انورؒ کے چلنے کی رفتار بھی ماشاء اللہ بہت تیز تھی۔ بیٹی کہیں گر گئی۔ اور روتے ہوئے عرض کی ’’اباحضور آپ بہت تیز چلتے ہیں‘‘۔ حضور انورؒ اس کے بعد اس کے ساتھ ساتھ انتہائی دھیمی رفتار میں چلتے رہے۔ اور ایک جگہ حضور انور نے تقریباً بیٹھ کر اس سے کوئی بات بھی کی۔ یہ تو آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ حضور انور نے اس کے کان میں کیا کہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حضور انورؒ نے دریافت فرمایا تھا کہ اب تو تیز نہیں چل رہا۔

خلافت کا یہ غلام اپنے آقا کی اس شفقت کو کن الفاظ میں بیان کرے۔ ناممکن ہے۔ ایک دفعہ غانا میں اسارچرمیں ہی السر کی شدید شکایت ہو گئی۔ بڑی مشکل میں دن گزر رہے تھے کہ اہلیہ نےحضور انور کو دعا کے لئے لکھا۔ پیارے آقا کا جواب آیا کہ کچھ کیلا خشک کر کے پیس لیں اور صبح شام دودھ کے ساتھ کھلائیں۔ اللہ فضل کرے گا اور آج تک اس کے بعد خاکسار کو یہ شکایت نہیں ہوئی۔

خاکسار کے پاس ان دنوں وہ گھر تھا جہاں پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مقیم تھے۔ یہ سعادت خاکسار کو حاصل رہی کہ سلاگا سے حضور انورؒ کی ٹرانسفر پر خاکسار کی پوسٹنگ سلاگا ہوئی اور اس گھر میں رہنے کا موقع ملا جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مقیم تھے۔ پھر حضور انور کی جب تبدیلی ٹیمالے ہوئی تو خاکسار کی تبدیلی سلاگا سے اسارچر ہو گئی۔ اور یہاں بھی اسی گھر میں رہنے کا موقع ملا جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے قیام کے دوران مقیم تھے۔
خاکسار کے حصہ یہ سعادت آئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب اسکول کے دورہ پر تشریف لائے تو دوپہر کا کھانا خاکسار کے گھر پر تناول فرمایا۔ اسی دن جلسہ سالانہ غانا کا افتتاح بھی تھا۔ وقت کی قلت تھی۔ محترم امیر صاحب مولانا عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم کی ہدایت تھی کہ 15 بیس منٹ میں فارغ کرنا ہے۔ خاکسار نے چائے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اور ساتھ کھانے کا بھی بندوبست تھا۔ حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور کھانا بھی ہے اور چائے بھی۔ وقت کم ہے۔ اگر مناسب خیال فرماویں تو چائے لگوا دی جائے اور کھانا ساتھ کر دیا جائے۔ حضور نے فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کھانا تیار ہو اور چائے پر اکتفا کر لیں۔ فرمایا ’’آب آمد تیمم برخواست‘‘ ساتھ ہی فرمایا کہ میں کھانا اکیلے نہیں کھاؤں گا۔ خاکسار نے عرض کی حضور تقریباً 250 بندوں کے لئے کھانا تیار ہے۔ اور ایک ہی وقت میں کھانا کھولا جائے گا۔ فرمایا پھر ٹھیک ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ اکٹھے کھانا تناول فرمایا۔ حضورؒ کا کھانے کا انداز اس قدر سادہ تھا کہ آپ کی میز پر آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے چیفس نے بیک زبان یہ کہا کہ آپ کے آقا تو بہت ہی سادہ ہیں۔ ہم تو کچھ اور ہی سمجھ رہے تھے۔ حضور انور نے سالٹ پانڈ پہنچ کر وقت پر جلسہ سالانہ کا افتتاح بھی فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ایک تھوڑے سے وقت میں برکت فرمائی۔ یہاں ایک اور بات عرض کر دوں کہ حضور روانگی کے لئے گاڑی میں تشریف رکھ چکے تھے۔ خاکسار حضور کی کھڑکی کی طرف کھڑا تھا۔ شیشہ نیچے ہوا اور فرمایا کہ سارے ایک کتاب میرے سامنے رکھتے ہیں دستخط کرنے کے لئے تم نے نہیں رکھی۔ حضور گھر میں تھے اور کتاب دفتر میں۔ خاکسار نے عرض کی کہ حضور دیر ہو رہی ہے۔ میں جلسہ گاہ سالٹ پانڈ ہی لے آتا ہوں۔ فرمایا نہیں۔ دروازہ کھلا اور حضور کار سے نیچے اترے اور دفتر کی طرف چلنا شروع کیا کہ یہیں لکھ کر جاؤں گا۔ چنانچہ سکول بلاک کی طرف گئے اور دفتر میں بیٹھ کر حضور انورؒ نے ازراہ شفقت سکول کی لیب اورا سٹاف کی کوششوں کو سراہتے ہوئے فرمایا:

I am very happy to have visited this school which is run according to the noble traditions of Jamaat-e-Ahmadiyya. Mr. Majeed Ahmade Bashir and his staff deserves special appreciation and prayers. May Allah bless them all and may they prosper ever more.

اور اس کے بعد حضور نے آفس پر لگی تختی کی نقاب کشائی کے بعد دعا کروائی اور پھر روانگی ہوئی۔ اور اس سارے عرصہ میں خاکسار کی بیٹی پھر حضور کے ساتھ ساتھ رہی۔اس بچی نے حضورؒ کی شفقت سے بھرپور حصہ لیا۔ اس دورہ کے تقریباً 10 سال بعد ہم پاکستان میں تھے جب والدہ محترمہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا۔ حضورؒ کی طرف سے جو تعزیتی خط موصول ہوا اس میں آخر میں اپنے دست مبارک سے ایک لائن کا اضافہ کیا کہ ’’عزیزہ نزہت اور بچوں کو خاص طور پر تسلی کا پیغام اور دعا۔‘‘ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس غلام کی کیا حالت ہوئی ہو گی جب آقا کو اس کے بچوں کے نام بھی زبانی یاد ہوں۔ ہم گھر میں اس بچی کو (اب ماشاء اللہ اس کی شادی ہو چکی ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے) نزہت کے نام سے نہیں بلاتے بلکہ صبا کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ ایک پُر شفیق باپ اپنے بچوں سے مخاطب ہے۔

اس دورہ کےمعاً بعد 17-03-1988 کو پیاری امی کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’غانا اور سیرالیون میں آپ کے بیٹوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ ماشاء اللہ خوب خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعادت کو بڑھائے اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آپ کی طرف سے ہمیشہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔‘‘ اس سے بڑھ کر اور کیا دعا چاہئے تھی۔

16-06-1988 کو چھوٹے بھائی عزیزم ڈاکٹر مبارک شریف کو ایک خط کے جواب میں لکھا کہ ’’عزیزم حنیف احمد محمود صاحب اور عزیزم مجید احمد بشیر کی طرف سے بھی ماشاء اللہ خوشی کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایک ایک فرد کےکام پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ والد محترم کی وفات پر حضور انورؒ کا محترمہ والدہ صاحبہ کو فون پرتسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ بی بی آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں کو وقف کی توفیق عطا کی ہے۔ بعد ازاں دو اور بھائیوں عزیزم مظفر احمد مبشر اور عزیزم نعیم احمد صدیق کو بھی مجلس نصرت جہاں کے تحت وقف کی سعادت نصیب ہوئی۔

شفقتوں کی عادت اس قدر پڑ چکی تھی کہ تھوڑا سا بھی وقفہ خط میں پڑتا تو بے چینی شروع ہو جاتی تھی۔ ایک لمبا عرصہ گزر گیا حضور کی طرف سے خط کا جواب موصول نہ ہوا۔ لازمی امر ہے کہ حضورؒ کی مصروفیات کی وجہ سے ہو گا۔ کہیں لکھ بیٹھا کہ حضور اگر انجانے میں گستاخی ہو گئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔ ناراض نہ ہوں۔جواب آیا کہ ’’آپ کا پر خلوص خط ملا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ آپ نے میری ناراضگی کا ذکر کیا ہے میں نے تو نہیں کہا کہ ناراض ہوں اور نہ مجھے علم ہے۔ گھبرائیں نہیں خدمت دین بجا لاتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔‘‘ گاہے بگاہے حضور انورؒ کی شفقتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بچوں کی تربیت کے بارہ میں حضور رہنمائی فرماتے رہے۔ ایک دفعہ ابا جان جب بڑے بیٹے سعید احمد نذیر کو قرآن کریم پڑھا رہے تھے تو وہ جزم پر اٹک گیا۔ بچے کی والدہ کو کہا کہ وہ حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھیں اور رہنمائی حاصل کریں۔ انتہائی شفقت بھرا خط ملا کہ ’’آپ نے جو اپنے بچہ کے متعلق تحریر کیا ہے آپ گھبرائیں نہیں بعض بچے بعض خاص جگہ اٹکتے ہیں۔ صرف سمجھا کر آگے گزر جانا چاہئے وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی سمجھ آ جائے گی۔‘‘

(محررہ 90/6/26) انتہائی رہنماء اصول ہے جو ہم سب کو بچوں کو قرآن کریم سکھانے میں مد نظر رکھنا چاہئے۔

انّی معک یا مسرور کی بشارت لئے خلافت خامسہ کے دورکا آغاز ہوا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ شفقتوں کا آغاز تو خلافت سے قبل ہی ہو چکا تھا۔غانا میں قیام کے دوران ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس عاجز پر بہت اعتماد کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ضمناً بتا تا چلوں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ محترم امیر صاحب غانا بھی خاکسار پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے۔ دو بچوں کی پیدائش بھی وہیں ہوئی تھی۔ اس لئے بھی آپ مجھے غانین ہی کہا کرتے اور انتہائی پیار کا سلوک کرتے۔ ایک دفعہ پاکستان تشریف لائے تو واپسی پر مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ آپ تو ہیں ہی غانین۔ اگر آپ ہماری خدمت نہ کرتے تو ہم آپ کو غانین کے زمرہ سے نکال دیتے۔ پھر دورہ لاہور کی رپورٹ جب حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی تو اس نالائق اور عاجز کے لئے بھی دعا کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا کہ ’’سب کے لئے دعا کی ہے‘‘۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ ایک دفعہ لندن میں خاکسار کے چھوٹے بیٹے عزیزم نوید احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ نے تعارف کروایا تو فرمانے لگے کہ پہلے بتایا ہوتا تو تمہیں بھی حضور انور سے ملاقات کے لئے لے جاتا۔ اپنے ابا کی وجہ سے تم بھی تو غانین ہوئے۔ اسی طرح ایک دفعہ قادیان میں خاکسار کی بیٹی ملی تو اسے یہ کہہ کر تحائف دئیےکہ تم تو غانین ہو۔ بڑے بیٹے کے نکاح کے موقعہ پر باوجود بیماری کے مسجد فضل لندن تشریف لائے۔ فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غانین کے نکاح پر ہم نہ آئیں۔ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لائے۔ بہر حال یہ ایک اعزاز تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ محض حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ کی اس وقت خاکسار پر بے پناہ شفقت کا نتیجہ تھی۔ دوران قیام ہر ممکن مدد کی۔ کبھی بھی مشکل میں آپ کی طرف رجوع کیا تو بڑے ہی پیار سے اور انتہائی مختصر انداز میں معاملہ سمجھا دیا۔ اور مناسب رہنمائی فرمائی۔ کوتاہی یا غلطی پر درگذر فرماتے۔ چہرے پر کبھی ناراضگی کا اظہار نہ ہوتا۔ اگر کوئی مذاق کرتا تو ہنس کر ٹال دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے بے انتہا فراست سے نوازا تھا۔

حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ کے دورہ کے دوران محترم امیر صاحب نے حضور انورؒ کے اعزاز میں ممبران عاملہ،مربیان کرام، اساتذہ کرام اور ڈاکٹر صاحبان کے لئے ایک پُر فضا مقام ABURI GARDENS پر پکنک کا انتظام کیا۔ رات کو ہم قریبی مشن ہاؤس بمقام KOFURIDUA میں مقیم تھے۔ صبح روانگی تھی۔خاکسار سے دریافت فرمایا کہ راستہ آتا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا پھر آگے چلو۔ ایک ROUND ABOUT پر EXIT لینا تھا۔ پہلے تو ہم واقعی بھول گئے لیکن دوسرے چکر میں شرارت سوجھی۔ دوبارہ چکر لگایا تو آپ نے اپنی گاڑی سائیڈ پر روک لی اور فرمایا کہ سات پھیرے پورے کر لو۔ جب پورے ہو جائیں تو بتا دینا۔

نظام کی پابندی کا اس قدر خیال کرتے کہ ایک دفعہ جب حضور انور کے ٹیمالے جانے کے بعد خاکسار کی تقرری اسارچر بطور پرنسپل ہوئی تو بعض معاملات کی سمجھ نہ آتی تھی۔ محترم امیر صاحب کے ذریعہ درخواست کی تو حضور انور ٹیمالے سے ایک لمبا، تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر کر کے تشریف لائے اور انتہائی پیار سے تمام معاملات سمجھائے اور کسی قسم کے شکوہ کے بغیر واپس تشریف لے گئے۔ اور بعد میں بھی جب کبھی ملاقات ہوتی تو حالات پوچھتے اور قیمتی نصائح سے نوازتے۔ کبھی کبھی اشعار گن گنا لیتا تھا۔ آپنے بھی کہیں سُن لیا تو محترم امیر صاحب سے سفارش کی کہ اس سے نظم پڑھوائیں۔ چنانچہ جلسہ ہائے سالانہ اور اجتماعات کے دوران اردو نظم پڑھنے کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔ 1988ء کے اس جلسہ سالانہ میں جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تشریف لائے، حضور کے افتتاحی خطاب سے قبل بھی خاکسار کو حضرت مسیح موعود ؑ کے اردو کلام سے چند اشعار پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

یہ تعلق تو تھا ہی۔ میں جانتا ہوں کہ اس میں اس نالائق کی کوئی خوبی نہ تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تعلق میں مزید اضافہ اور پختگی اس وقت آئی جب میرے والد صاحب کو آپ کے ساتھ وکالت مال ثانی میں کام کرنے کا موقع ملا۔حضور انور آپ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہمارے بھائی جان کی ’’محسن والدین‘‘ کتاب کا مسودہ ملاحظہ کرنے کے بعد آپ نے بطور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا کہ کچھ عرصہ آپ کے والد صاحب اور خاکسار، وکالت مال ثانی میں اکٹھے کام کرتے رہے ہیں۔ جہاں ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ نے جو کچھ ان کے بارہ میں لکھا ہے وہ ان میں موجود خوبیوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔جب آپ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تھے تو جب بھی ربوہ جاتا بچوں کو ملانے ضرور حاضر ہوتا۔ دعا کی درخواست کے ساتھ بچوں کی تعلیم اور اپنی ملازمت کے لئے مشورہ بھی حاصل کرتا۔ بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ غالباً آپ کے والد محترم حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات پر تعزیت کے لئے گھر گیا۔ اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔عصر کی نماز کے بعد کا وقت تھا۔ باتوں میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ فرمایا آؤ نماز پڑھ آئیں۔اور ہم بیت مبارک میں نماز کی ادائیگی کے لئے تشریف لے گئے۔ واپسی پر خاکسار نے اجازت چاہی۔ فرمایا ٹھیک ہے لیکن رات کے وقت لاہور کا سفر نہیں کرنا۔ خاکسار کا لاہور پہنچنا بہت ضروری تھا۔ لیکن آپ کی ہدایت کے موجب خاکسار نے اگلے دن سفر کیا۔ ڈر تھا کہ لیٹ پہنچنے پر جہاں میں کام کرتا تھا وہاں کی انتظامیہ کی طرف سے جواب طلبی ہو گی لیکن یہ محض آپ کی دعا تھی کسی نے بھی نہ پوچھا۔ایک دفعہ یو کے میں ٹیچنگ کے لئے چانس مل رہا تھا۔ خاکسار وقت لے کر آپ کی خدمت میں مشورہ کے لئے حاضر ہوا۔ بہت تفصیل میں جا کر امریکہ اور یورپ کے حالات پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یورپ بہتر ہے۔الغرض کسی بھی معاملہ میں آپ سے مشورہ چاہا تو آپ نے انتہائی پرشفقت انداز میں رہنمائی فرمائی۔

مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جیسے اس عاجز پر شفقتیں انڈیل ہی دی ہوں۔ 2005ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کینیڈا کا دورہ فرمایا۔ بڑی بہن کے اسرار پر ویزاکے لئے درخواست دی اور ساتھ ہی حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا۔ ویزا سے انکار ہو گیا۔ حضور انور کی طرف سے بذریعہ فیکس جواب موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ویزا کے حصول میں آسانی پیدا کرے۔اپیل تو نہیں لیکن خاکسار نے کینیڈین ہائی کمیشن کو ویسے ہی ایک خط لکھا تھا کہ میری درخواست پر نظر ثانی کی جائے۔ عین اس دن جس دن صبح حضور انور کا فیکس موصول ہوا اسی دن کینیڈین ہائی کمیشن کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے کیس پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ آپ اپنے پاسپورٹس ٹی سی ایس کے ذریعہ ارسال کردیں۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے ویزے لگے اور ہم کینیڈا عین اس دن پہنچے جس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی لندن کے لئے روانگی تھی۔ حضور انور انتہائی شفقت فرماتے ہوئے شرف ملاقات بخشا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضور سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اصل میں تو 1988ء کے بعد خلیفہ وقت سے یہ ملاقات تھی۔ دوران ملاقات استفسارفرمایا کہ کیسے آنا ہوا۔خاکسار نے عرض کی کہ حضور آپ سے ملنے کی تمنا تھی جو آپ کی دعاؤں سے پوری ہو گئی ہے۔ فرمایا اتنی دور آئے ہو۔ لندن آجاتے۔ اہلیہ نے بتایا کہ حضور لندن والے ویزا نہیں دیتے۔ فرمایا اب درخواست دیں اللہ فضل کرے گا۔ چنانچہ 2006ء میں ساری فیملی لندن جلسہ پر گئی۔ یہ محض اور محض آپ کی دعاؤں کے نتیجہ سے ہوا۔ ورنہ تو ہر سال لندن والے مجھے ویزا دینے سے انکار کردیتے تھے۔ اس کے بعد آج تک جب بھی کسی بھی ملک کے ویزا کے لئے درخواست دی تو منظور ہی ہوئی ہے۔

2008ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست بھجوائی کہ اگر حضور اجازت مرحمت فرمائیں تو 27 مئی کا دن اپنے آقا کے قدموں میں گزاروں۔ اجازت ملنے پر جب لندن پہنچے تو یہ حضور انور کی خاص شفقت تھی کہ وہاں پر خاکسار کے رہنے کے لئے خصوصی ہدایات موجود تھیں۔ حضور انور سے ملاقات اور حضور کے سنگ گزارے ہوئےیہ تین دن میری زندگی کے یادگار دن بن چکے ہیں۔

2010ء میں 28 مئی والے دن خاکسار بیت النور میں تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اس کی تفصیل خاکسار نے29مئی کو بغرض دعا تحریر کی۔ حضور انور نے عاجز کی اس تفصیل کو قبول فرمایا اور 26 ستمبر 2010ء کو خدام الاحمدیہ برطانیہ کے موقع پر اپنے اختتامی خطاب میں خاکسار کی طرف سے بھجوائی گئی یہ تفصیل پڑھ کر سنائی۔ فرمایا کہ پاکستان سے اگر وفاؤں کے خط آ رہے ہیں تو یہ جذ باتی باتیں نہیں ہیں یا عارضی چیزیں نہیں ہیں۔ان کے خطوں سے ہی پتہ لگ رہا ہوتا ہے اور ان کے عمل سے بھی پتہ لگ رہا ہے کہ یہ ان کے دلوں کی آواز ہے۔ وہ لوگ مستقل مزاجی سے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں اس تفصیل کے آخر پر فرمایا تو یہ نظارے ہیں۔ کیا یہ ایمان میں کمزوری والوں میں نظر آسکتے ہیں؟

(الفضل انٹر نیشنل 22 اکتوبر 2010ء صفحہ11)

شہداء کی فیملیز کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی محبتوں اور شفقتوں کے نظارے تو آپ نے بھی محسوس کئےہوں گے۔ لیکن اس عاجز کو محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور کی معاونت میں شہداء لاہور کی فیملیز کے مسائل سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ اس دوران حضور انور کی شہداء فیملیز کے ساتھ محبت اور شفقت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ سب سے پہلے توگھر گھر ٹیلیفون کر کے شہداء کی بیوگان، بچوں اور والدین کو تسلی دلانا۔ اور پھر بچوں کی تربیت کی فکر، بچوں خصوصاً بچیوں کی شادی کی فکر، بیماروں کے علاج اور بچوں کی تعلیم پر خطیر اخراجات الغرض شہداء فیملیز کو یہ احساس دلانا کہ ان کے سروں پر باپ کا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سایہ موجود ہے۔

الفضل سالانہ نمبر 2001ء میں ایک دفعہ ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ برطانیہ کے ایک 58سالہ مخلص احمدی نےجو کہ دل کے مریض تھے اور ان کا بائی پاس ہو چکا تھا اپنے بیٹے کے ساتھ ملکر مسلسل آٹھ گھنٹے پسینے سے شرابور گھر گھر جا کر پمفلٹ تقسیم کئے جس کے نتیجے میں ان کو اسی رات خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی زیارت نصیب ہوئی۔ 2011ء میں اپنے بیٹے کے پاس یو کے گیا تو سوچا یہ نسخہ آزمانا چاہئے۔ چنانچہ ایک دن پروگرام بنایا اور تقریباً 300 گھروں میں جماعتی تعارف پر مبنی پمفلٹ تقسیم کئے۔ شیفیلڈ کی مسجد کے اندر عربی میں آیات بھی لکھیں۔ خدا تعالیٰ نے اس طرح اپنی محبت اور رضا کا اظہار فرمایا کہ رات کواس گنہگار کو پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زیارت نصیب ہوگئی۔ بیٹے کو کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ کسر رہ گئی۔ اس لئے شاید بات آگے نہیں بڑھی۔ دن بھی تھوڑے تھے۔ بہرحال ایک اتوار کو پھر پمفلٹ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔ پاکستان روانگی سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہو گئی۔ دونوں بیٹے اور ان کی والدہ بھی ساتھ تھیں۔ دوران ملاقات پیارے آقا نے میز کی داہنی دراز کھولی اور انتہائی پیار سے فرمایا کہ کیوں نہ آج آپ کوکچھ تبرکات کی زیارت کرائی جائے۔ حضور انور نے ایک پاؤچ خاکسار کو اپنے دست مبارک سے تھمایا۔ اور فرمایا کھولو۔ اس کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کنگھی مبارک تھی۔ قربان جاؤں میں اس سوہنے آقا کے۔ تمام بچوں نے اس کنگھی کو اپنے ہاتھوں میں تھاما، چوما اور لا تعداد برکتوں کو سمیٹا۔
2014ء میں امریکہ سے واپسی پر چند گھنٹے لندن میں اس مقصد سے سٹاپ لیا کہ حضور انور سے ملاقات کر کے روحانی پیاس بجھا نے کی کوشش کریں گے۔ بیت الفضل لندن پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس دن حضور انور کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات نہیں ہو سکے گی۔ حضور انور نے مسجد کے افتتاح کے لئے جانا تھا۔ خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے ایک نوٹ لکھ کر پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کو دے دیا جس میں لکھا کہ حضور انور سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہے لیکن حضور انور کا وقت قیمتی ہے۔ اللہ روح القدس سے حضور انور کی تائید و نصرت فرمائے۔ اور دعا کی درخواست کی۔ صدقے جاؤں میں پیارے آقا کے کہ اس غلام کو شرف ملاقات اس طرح بخشا کہ گاڑی میں تشریف فرما ہونے سے قبل شرف مصافحہ بخشا۔ ہم دونوں سے باری باری خیریت دریافت فرمائی۔ بچوں کے بارہ میں پوچھا۔ نواسے کی ولادت پر مبارک باد دی۔ اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ سفر میں حافظ و ناصر ہو۔ ایک دفعہ کینیڈا سے واپسی پر عید یو کے اپنے بڑے بیٹے کے پاس کی۔ عید کے تیسرے دن حضور انور سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔عید کا تیسرا روز تھا شرف مصافحہ بھی بخشا اور شرف معانقہ بھی۔اور یہ غلام اپنی قسمت پر نازاں اپنے آقا کی شفقتوں کو سمیٹے پاکستان واپس آیا۔

حضور انور کی کس کس شفقت کو پیش کروں۔ یہ سعادت حاصل رہی کہ بچی کے نکاح اور رخصتی کی تقریب پر محترم امیر صاحب جماعت لاہور کو بطور نمائندہ مقرر فرمایا۔ 2013ء میں خاکسار نے بڑے بیٹے عزیزم سعید احمد نذیر کا نکاح حضور سے پڑھوانے کی خواہش کا اظہار کیا تو فرمایا پڑھا دوں گا۔ کب پڑھانا ہے۔کاغذات مکمل کر کے بھجوا دیں۔ چنانچہ حضور انور نے از راہ شفقت اس نکاح کا اعلان بیت الفضل لندن میں خود فرمایا۔ اور شادی کے موقع پر ولیمہ کی تقریب میں محترم ملک طاہر احمد صاحب کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔ چھوٹے بیٹے عزیزم نوید احمد ظفر صاحب، مربی سلسلہ ریسرچ سیل ربوہ کے لئے بھی درخواست کی کہ حضور انور اگر مناسب خیال فرماویں تو اس بیٹے کا بھی نکاح کا اعلان فرماویں۔ جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ چونکہ دونوں فریقین پاکستان میں ہیں اس لئے مناسب ہو گا کہ نکاح پاکستان میں ہی پڑھوا لیا جائے۔ لیکن دوران ملاقات بچے کی والدہ نے حضور انور کی خدمت میں دوبارہ درخواست کی۔حضور انور کی خداداد یاد داشت ملاحظہ ہوکہ فوراً فرمایا کہ کیا میں نے نہیں لکھا تھا کہ دونوں فریقین پاکستان میں ہیں۔ وہیں پڑھوا لیں۔ لیکن قربان جاؤں میں پیارے آقا کے کہ تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کل پڑھا دوں گا۔ اور اگلے دن بیت الفضل لندن میں عزیزم کے نکاح کا اعلان فرمایا۔

شفقتیں تو اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ نا ممکن ہے۔ اس عاجز نے کوشش کر کے چند کا ذکر یہاں پر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیشہ خلافت سے وفا اور محبت میں بڑھاتا رہے اور اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ آمین

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ