• 29 اپریل, 2024

غزل

جانے کیا بات ہے وابستہ رُخِ یار کے ساتھ
شوقِ نظّارہ بڑھے اور بھی دیدار کے ساتھ

غیر تو غیر ہیں، غیروں سے شکایت کیسی
گھر مرا لُوٹا ہے اپنوں نے بھی اغیار کے ساتھ

دلربا دلنشیں دلبر بھی کہے جاتے ہو جس کو
مکر و عیّاری بھی کی ہے اُسی دلدار کے ساتھ

اگلے وقتوں میں تھے انمول وفا کے گوہر
اب تو بکتے ہیں سرِ رہ زر و دینار کے ساتھ

آج بھی حق کے علمداروں کو حاصل ہے وہی
نصرتِ حق، تھی جو کل حیدرِ کرّار کے ساتھ

بادۂ اصل دکانوں سے منگانے والو!
ایسی صہبا کا تعلق نہیں بازار کے ساتھ

زہر کا جام پیا ہم نے، ہمی اہلِ صلیب
فخرِ نسبت ہے ہمیں اِس رسن و دار کے ساتھ

مت کرو عزمِ جفا، ہم ہیں وہ سودائیِ عشق
پھوڑ خود لیتے ہیں سر تیشہ و دیوار کے ساتھ

کوئی سولی پہ چڑھا اور کوئی خاک ہوا
ہوتی آئی ہے یہ ہر پیکرِ پندار کے ساتھ

(م م محؔمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ