• 28 مئی, 2025

ماں کی تربیت

اطفال کارنر
تقریر
قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا

اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو

اسلام ایک ایسا جامع نظام ہے جس نے ہر گوشہ زندگی کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ اولاد جو ایک انسان کا قیمتی اثاثہ ہے کی تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی اسلام نے نہایت اعلیٰ ہدایات دی ہیں۔ اور خاندان کے ہر فرد کو بچوں یعنی اولاد کی تربیت کی ذمہ داری سونپی ہے

آنحضور ﷺ فرماتے ہیں۔

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِم

کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے ماحول میں بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کا ذمہ دار ہے اور اس بارہ میں اس سے پوچھا جائے گا۔

اس تمام تربیتی نظام میں عورت کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جو اپنے بچوں کی تربیت کی اولین ذمہ دار ہے۔ کیونکہ بچہ ماں کے پاس زیادہ رہتا ہے۔ اس سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔، جو باتیں وہ سیکھتا ہے وہ ماں کے توسط سے ہی سیکھتا ہے اور وہی اس کے ذہن میں جم جاتی ہیں۔ اسی بنیادی فلسفہ کا آنحضور ﷺ نے ایک مومن کو نصیحت کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا کہ اگر تو شادی کرنا چاہتا ہے تو دیندار عورت سے کر کیونکہ دیندار عورت تیری اولاد کو دیندار بنائے گی۔

گو اس فلسفہ کو سب سے پہلے ہمارے پیارے رسول ہادی حضرت محمد ﷺ نے بیان فرمایا۔ مگر بعد میں اس مضمون کو مختلف فلاسفروں، رہنماؤں نے مختلف الفاظ میں اپنی اپنی قوم کے سامنے رکھا مثلاً کسی نے کہا
’’کہ معمار پہلی اینٹ عمارت کی ٹیڑھی رکھ دے تو اس کے اوپر کھڑی ہونے والی عمارت ٹیڑھی ہی رہے گی۔‘‘

نپولین بونا پاڈ نے کہا

If you give me good mothers, I will give you a good nation.

پس معاشرہ میں تعلیم و تربیت کا انحصار زیادہ تر ماں پر ہے۔ ماں کی تربیت سے بچہ ایک اچھا شہری اور دیندار انسان بن سکتا ہے۔ ورنہ مدرسہ کی تعلیم و تربیت بھی کسی کام نہیں آ سکتی۔ کیونکہ اسکول میں داخلہ سے قبل وہ بہت کچھ وہ ماں کی گود سے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ اس لئے عربی میں ماں کو ’’اُم‘‘ یعنی جڑھ کہا جاتا ہے۔ جس طرح درخت، اس کا تنا، اس کی شاخیں اور اس کے پھول اور پھل تمام اس کی جڑھ سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح خاندان کے تمام افراد ماں سے بنیادی تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا ماں کی گود اس کی پہلی درسگاہ اور سر چشمہ ہوتی ہے، جہاں سے تربیت حاصل کر کے بچہ جنت کا رستہ تکتا ہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّہَاتِ کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے

پس ہمیں اس اہم تقاضا کی طرف بھر پور توجہ کرنی چاہیے اور اپنے بچوں کی دنیوی دیکھ بھال کی طرف پوری توجہ دینی ہے اور دینی تربیت کا بھی حق ادا کرنا ہے کیونکہ ہماری اسی تربیت، دیکھ بھال اور نگہداشت سے کوئی سر ظفر اللہ خان بننے والا ہے، کوئی ڈاکٹر عبد السلام اور کوئی ڈاکٹر قانتہ۔

ورنہ کسی شاعر کا یہ شعر ہمارے لئے ایک تعزینہ بنا رہے گا

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غیچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ