کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے مسلمانوں نے ایک غیر مسلم سری لنکن منیجر کو توہین مذہب کے الزام پر بہیمانہ تشدد کرکے مار دیا اور پھر اس کی لاش کو جلا دیا۔اور بڑی اچھل کود اور نعرہ بازی کی کہ عاشقان رسول نے خوب عشق رسول کی مشق ناز کی۔ لیکن ’’راگ وہ گاتے ہیں جو کہ آسماں گاتا نہیں‘‘ کے مصداق یہ لوگ اسلام کے ساتھ پاکستان کو بھی بدنام کر گئے۔ مقتول کے ورثاء کو انصاف ملتا ہے یا نہیں لیکن اسلام پر ایک دفعہ پھرانگلیاں اٹھنے کا موقع دیدیا ان اسلام کے ٹھیکیداروں نے۔
توہین مذہب کا مسئلہ اس زمانہ میں کئی طرح سے ہمارے دیکھتے دیکھتے بار بار اٹھا۔ کبھی مغرب سے کوئی لہراٹھی آزادئ اظہار کے نام ہر اور کبھی مشرق سے رد عمل آیا عشق رسولﷺ کے نام پر۔ دو انتہاؤں کے بیچ اسلام اور بانئ اسلامﷺ کی حرمت و مقام پس کر رہ گیا۔ غیر تو غیر اپنوں نے بھی کوئی کمی نہ کی۔حالیہ زمانہ میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے حوالہ سے چند واقعات کا جائزہ لیتے ہوتے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس موضوع کو کیسے بیان کیا ہے اور کیا اسکی کوئی سزا بیان کی ہے؟
کچھ سال پہلے سلمان رشدی نے Versets Sataniques کے عنوان سے ایک کتاب لکھی گئی۔ جس سے پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین اور مسلمانوں کی دل آزاری مقصود تھی۔ پھر چند سال بعد ایک کارٹون کی خبر کافی گرم تھی جسے ڈنمارک کے ایک اخبار نے شائع کیا۔ اس کے بعد کسی نے قرآن کریم کو جلانے کی سازش کی، ایک ملعون نے اپنے اندرونے گند کے اظہار کو دنیا کے معصوم ترین ہستی کی طرف منسوب کیا۔اور پھر فرانس کے ایک رسالہ کو پھر ابال آیا اور دوبارہ کارٹون شائع کیا تا جلتی پر تیل انڈھیلا جائے۔
اِس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور شائع کیا گیا اور مظاہروں کے ذریعہ سے بہت سے جذبات کا اظہار کیاگیا۔ بعض لوگوں نے اِس کارٹون کو فن کا شہ پارہ قرار دیا اور بعض نے آزادی کے نام پر سب کچھ کر گزرنے کا حق کہا۔ جبکہ کچھ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنے غیض و غضب کا اظہار ڈنمارک، امریکہ اور دیگر ممالک کے پرچم جلا کر،امریکہ کے صدر کا پتلا جلا کر،اپنے ہی ملک کی املاک کو جلا کر اور توڑ پھوڑ کر کے بلکہ کئی معصوموں کی جان لے کر اور نفرت بھرے نعرے لگا کرکیا۔ اور یہ سب کچھ عشق رسولﷺ کے مقدس جذبہ کے نام پر کیا گیا۔
مگر بعض لوگوں نے خواہ وہ کم ہی تھے بڑی شرافت،تحمل اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا۔کیونکہ ان کے نزدیک مادرپدر آزاد آزادی کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ کوئی خوبصورتی اور نہ ہی دلیل۔ لیکن چونکہ اِس طرح کی بات پہلی دفعہ نہیں ہوئی بلکہ گاہے بگاہے غیر مسلموں کی طرف سے مختلف صورتوں میں آنحضرتﷺ اور مسلمانوں کی مقدس اور قابلِ صد احترام ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز تحریرات،بیانات منظرِ عام پرآتے رہتے ہیںلہٰذا مناسب ہے کہ متعلقہ موضوع کی حقیقت جاننے کے خواہشمند لوگوںکی خدمت میں اِس طرح کے مسئلہ کے بارہ میں اسلام کی صحیح تعلیم کو پیش کیا جائے۔
واضح ہو کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جسے عموماً غلط سمجھا گیا اور منفی طریق سے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور بدقسمتی سے بعض مسلمانوں نے اپنے غلط عمل کو اسلام ہی کی حقیقی روح اور مغز کے برخلاف پیش کیا ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسلام تحمّل اور برداشت کا مذہب نہیں اور بعض مواقع پر اپنے پیرو کاروں کو غیر مسلموں کے خلاف طاقت کے استعمال کی نہ صرف تعلیم بلکہ ترغیب و تحریص دیتا ہے۔جبکہ درحقیقت اسلام واضح طور پر اور بغیر کسی ابہام کے تحمّل و برداشت اور امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں آزادئ مذہب اور آزادئ فکر و اِظہار کا سنہری اصول بیان کرتے ہوئے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ: 257) کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ۔۔۔ (الکہف: 30) کہ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے کہا گیا ہے۔ لہٰذا کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسلام کو جبر و اِکراہ اور عدمِ برداشت کا الزام دے۔ہاں قابلِ مؤاخذا وہ ہے جو اِسلام کو غلط رنگ میں پیش کرتا ہے۔
جہانتک توہین اور اس پر ردّ عمل کا سوال ہے، یاد رہے کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے اِس مسئلہ کو خوب وضاحت سے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم توہین کے مختلف درجے بیان کرتا ہے جو مومنین کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں، ان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں اورغم و غصہ کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ توحیدِ خدا کی توہین، انبیاء کی توہین، دین کی توہین، مذہبی عبادگاہوں کی توہین، کلام الٰہی کی توہین، حضرت مریم ؑ کی توہین، عیسیٰؑ کی توہین، قرآن کریم کی توہین اور توہینِ رسالتﷺ۔ پھر قرآن کریم مختلف حالات کو بیان کرتا ہے جہاں مسلمان توہین آمیز سلوک اورگالیوں کا سامنا کریں گے۔ لیکن بغیر کسی اِستثناء کے کبھی بھی منفی ردّ عمل اور تشدّد کی اجازت نہیں دی۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس موضوع کے حوالے سے یہاں قرآن کریم کی بعض آیات کو بیان کردیا جائے۔
سورت النساء آیت 141میں فرمایا: ’’اور یقیناً اس نے تم پر کتاب میں یہ حکم اتارا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہے یا ان سے تمسخر کیا جارہا ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں۔ضرور ہے کہ اس صورت میں تم معاً اُن جیسے ہی ہوجاؤ۔یقیناً اللہ سب منافقوں اور کافروں کوجہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے‘‘
سورت الانعام آیت 69میں فرمایا: ’’اور جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے تمسخر کرتے ہیں تو پھر ان سے الگ ہو جا، یہانتک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تجھ سے اس معاملہ میں بھول چوک کروا دے تویہ یاد آجانے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھ‘‘
دیکھیں ان آیات میں توہین جیسے بھیانک عمل کا کتنا خوبصورت جواب دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ توہین کے مرتکب کو سزا دے۔ بلکہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اپنی بیزاری کا اظہار اس جگہ کو چھوڑ دینے سے کیا جائے۔ قرآنِ کریم نے اِس کے علاوہ اور کوئی طریقِ کار وضع نہیں کیا۔ بلکہ توہین کے مرتکب کے خلاف مستقل بائیکاٹ کی تعلیم بھی نہیں دی گئی۔
اِس کے علاوہ خدا کی توہین کے مسئلہ کا ذکر ایک فرضی سوال اُٹھا کے سورت الانعام آیت 109 میں یوں کیا گیا ہے: ’’اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔ اِسی طرح ہم نے ہر قوم کو ان کے کام خوبصورت بنا کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کے رب کی طرف ان کو لوٹ کر جانا ہے۔ تب وہ انہیں اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کیا کرتے تھے‘‘
ان آیات میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں بتوں اور خیالی خداؤں کی توہین سے بھی منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر مسلمان دوسروں کے جھوٹے اور خیالی معبودوں کی توہین کریں گے تو جواباً وہ بھی ان کے خدا کو برا کہیں گے۔اور پھر یہاں کسی قسم کی کوئی سزا بھی تجویز نہیں کی گئی۔ غور کریں تو اِس تعلیم میں ایک بہت بڑی حکمت پنہاں ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک فریق دوسرے کے روحانی جذبات اور احساسات مجروح کرنے کا جرم کرے تو قطعہ نظر فریقِ اوّل کے عقائد و نظریات کے،فریقِ ثانی کو بھی، زیادتی کئے بغیر، اُسی طرح کے ردّ عمل کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
پھر قرآن کریم میں حضرت مریم ؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی توہین کے حوالے سے بھی یوں مذکور ہے: ’’اُن کے کفر کی وجہ سے اور اُن کے مریم کے خلاف ایک بہت بڑے بہتان کی بات کہنے کی وجہ سے۔۔۔‘‘ اِس آیت میں یہودیوں کے اُس رویہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے عیسیٰؑ کے زمانہ میں اختیار کیا تھا۔ اور حضرت مریمؑ کی عصمت و پاکیزگی اور حضرت عیسیٰؑ کی پاک ولادت کے بارہ میں انتہائی نازیبا اِتہامات لگائے تھے۔ لیکن اِس کے باوجود کسی جسمانی سزاکا ذکر نہیں کیا گیا۔
ایک اور بات کا ذکر خالی اَز دلچسپی نہ ہو گا۔وہ یہ ہے کہ ایک طرف توعیسیٰؑ اور آپ کی والدہ کے خلاف یہودیوں کے انتہائی نامناسب رویہ کی بنا پر اُنہیں مجرم ٹھہرایا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کو اِس بنا پر متہم کیا کہ انہوں نے عیسیٰ کو جو ایک فانی عورت سے پیدا ہوئے خدا کا بیٹا قراردیا۔ عیسائیوں کے اِس عقیدہ کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے: ’’اور وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ ان کو اس کا کچھ بھی علم نہیں،نہ ہی ان کے آباءو اَجداد کو۔ بہت بری بات ہے جو اُن کے مونہوں سے نکلتی ہے۔ وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے‘‘ (الکہف: 5-6)
آخر پر اِس موضوع میں سب سے زیادہ نازک حصہ کا ذکر کرنا ہے۔ انتہائی نازک اِس لئے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ توہینِ رسالت کا معاملہ خدا کی توہین سے بھی زیادہ اہمیت اور توجہ کا حامل ہے۔ عرض ہے کہ قرآن کریم میں توہینِ رسالت کا ایک تاریخی واقعہ درج ہے جو رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبَی بن سلول سے متعلق ہے۔ ایک غزوہ سے واپسی پر اُس نے علی الاعلان کہا کہ مدینہ پہنچ کر سب سے معزز انسان سب سے ذلیل انسان کو مدینہ سے نکال دے گا۔ قرآن کریم اِس خبیث انسان کے الفاظ کو کوٹ کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’وہ کہتے ہیں اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اُسے، جو سب سے زیادہ ذلیل ہے، اس میں سے نکال باہر کرے گا‘‘ (المنافقون: 9) تمام لوگوں نے خوب سمجھ لیا کہ یہ اپنے آپ کو سب سے معزز قرار دے رہا ہے اور رسول کریمﷺ کی شان میں انتہائی گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اِس بنا پر صحابہ کرام ؓ غم وغصہ سے بھرے ہوئے تھے۔اگر آنحضرتﷺ نے سزا کا اشارہ بھی کیا ہوتا تواس کی گردن مار دی جاتی۔ روایات میں آتا ہے کہ اِسی رئیس المنافقین کا اپنابیٹا عبداللہؓ جو بہت مخلص صحابی تھا، حضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اَور عرض کیا کہ مجھے اپنے باپ کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنے کا اجازت دی جائے۔ مگر سرورِ دوعالمﷺ نے اِس کی اجازت نہ دی۔اِس واقعہ کے بعد یہ شخص مدینہ میں آزادی سے زندگی گزارتا رہا۔ جب یہ فوت ہوا تو تمام لوگوں کو اس بات سے حیرانی ہوئی کہ نبی کریمﷺ نے اس کے بیٹے کو اپنی قمیض اس کے کفن کے لئے دی۔ حالانکہ یہ ایسی خوش قسمتی کی بات تھی کہ ہر صحابیٴ رسول اس کی تمنا رکھتا تھا۔ مزید برآں حضورﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا فیصلہ بھی فرما لیا۔ اس پر تو سب کے سب صحابہؓ تڑپ اُٹھے۔ وہ تو اس کی گستاخیوں کی وجہ سے اسے کبھی بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان میں وہ وجود بھی شامل تھا جو بعد میں آپ کا خلیفہ ہوا یعنی حضرت عمر ؓ۔ آپؓ نے مسلمانوں کے مجروح جذبات کی ترجمانی کی۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آنحضورﷺ اس کی نمازِ جنازہ کے لئے چلے تو حضرت عمرؓ نے آپ کا رستہ روک لیا اور قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ بدلنے کی درخواست کی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کو خدا کبھی معاف نہیں فرمائے گا خواہ آپ ان کے لئے 70 مرتبہ بھی بخشش طلب کریں۔ یاد رہے کہ عربی میں ستر مرتبہ کا مطلب ہے بے شمار مرتبہ۔ لیکن اس رحمتِ مجسمﷺ نے فرمایا: اے عمر میرا رستہ چھوڑ دو میں بہتر سمجھتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔ میں اس کے لئے خدا سے ستر مرتبہ سے زائد بخشش مانگ لوں گا۔ اِس کے بعد آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑہائی۔ (بخاری)
میں سمجھتا ہوں یہ واقعہ ان لوگوں کے لئے کافی ہونا چاہئے جو سنت رسولﷺ سے ہٹ کر اور اس کے برخلاف توہینِ رسالت کے مرتکب کے لئے سزائے موت کا اعلان بڑی شدّو مدّ سے کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں قرآن کریم بعض مخالفینِ اسلام کا تکلیف دِہ رویہ بطور پیشین گوئی کے یوں بیان کرتا ہے: ’’اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا، بہت تکلیف دِہ باتیں سنو گے‘‘ (آل عمران: 187)
پھر اسلام کے مخفی دشمنوں اور منافقین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم بیان کرتا ہے: ’’وہ تم سے برائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ تم مشکل میں پڑو۔ یقیناً بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکا ہے اور جو کچھ ان کے دل چھپاتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یقیناً ہم تمہارے لئے آیات کھول کھول کر بیان کر چکے ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔ تم ایسے عجیب ہو کہ ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے اور تم ساری کتاب پر ایمان لاتے ہو۔ اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف غیظ سے اپنی انگلیوں کے پورے کاٹتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ اپنے ہی غصہ سے مر جاؤ۔ یقیناً اللہ سینہ کی باتوں کاخوب علم رکھتا ہے‘‘ (آل عمران: 119-120)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورت النساء آیت 47 میں بعض شاطر دشمنانِ اسلام کا آنحضرتﷺ کے بارے میں پیچدار، تکلیف دِہ اورطنز یہ اندازِ تکلم کا ذکر کرتا ہے مگر وہاں بھی کسی قسم کی سزا کا کوئی ذکر تک نہیں۔ہاں خدا کی طرف سے ناراضگی کا ذکر ہے اور انہیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی بات وضاحت سے کہا کریں۔ پھر سورت المائدہ آیت58 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اہلِ کتا ب اور غیر مسلموں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو تمہارے دین کو تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں اور کھیل تماشہ گردانتے ہیں۔ لیکن اِس آیت کے آخر پر بھی مسلمانوں کو خدا کی حفاظت حاصل کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے آنحضرتﷺ نے کچھ قرض لیا۔لیکن مقررہ تاریخ سے پہلے ہی وہ قرض کے تقاضا کے لئے آپ کے پاس آگیا۔ اور اِنتہائی گستاخانہ طریق سے بات کرنے لگا۔ اِس پر صحابہ کرامؓ میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ ان میں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔آپ کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئیں اور اسے کہنے لگے کہ اگر مجھے آنحضرتﷺ کا پاس نہ ہوتا تو میں تجھے اس گستاخی کی سزا دیتا۔ مگر اس نے انتہائی گستاخی سے آنحضرتﷺ کے گریبان سے پکڑ کر گالی گلوچ کرتے ہوئے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اِس پر آنحضرتﷺ نے عمر ؓ کی حالت بھانپتے ہوئے فرمایا کہ غصہ کرنے کی بجائے اِس وقت تمہیں مجھے حسنِ ادا کی نصیحت کرنی چاہئے اور اِسے حسنِ تقاضا کی۔ پھر آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ ہی کو ارشاد فرمایا کہ اسے اس کا قرض ادا کر دو۔نیز یہ بھی فرمایا کہ تم نے اس سے جو سختی کی ہے اس کے بدلہ میں اسے20 زیادہ دینا۔
حضرت عمر نے جب قرض کی ادائیگی کے ساتھ 20 زیادہ دئے تو وہ یہودی عالم پوچھنے لگا کہ یہ زیادہ کیوں؟ اِس پرحضرت عمر ؓ نے بتایا کہ میں نے جو تم سے سخت کلامی کی تھی اس کے بدلہ میں آنحضرتﷺ نے تمہیں زیادہ دینے کا ارشاد فرمایا تھا۔ اِس اسوہ حسنہ کا اس یہودی پر اتنا اثر ہوا کہ وہیں پر کلمہء شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔
تو یہ ہے قرآنی تعلیم اور آنحضرتﷺ کا عمل توہینِ رسالت کے معاملہ میں! لہٰذا مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ ہر صورت میں قرآن اور محمدرسول اللہﷺ کے طرزِ عمل کو اپنائیں۔ صحابہ کرامؓ کو جو محبت اپنے پیارے آقا ﷺ سے تھی اس کی تو کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ مگر آج ہم عالم اسلام میں مسلمانوں کی طرف سے ایسے معاملات میں سنتِ نبویﷺکے مطابق کوئی بھی ردّ عمل نہیں دیکھتے۔ کیونکہ ہم حضورﷺ کے زمانہ میں توہینِ رسالت کے کسی مرتکب کا گھر جلتا ہوا نہیں دیکھتے اور نہ ہی کسی کو سزا ملتی دیکھتے ہیں۔ نہ ہی کسی کو قتل کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری ہوا تھا۔ کسی کے قتل کے بارے میں نہ ہی نعرے لگائے گئے اور نہ ہی پبلک جائیدادیں جلائی گئی تھیں۔
کیا آنحضرتﷺ کے زمانے کا اسلام صحیح تھا یا تشدد پسندملّانوں کا بیان کردہ آج کا اسلام؟ کیا حضور اَکرم ﷺ کے صحابہؓ اِسلام کے ساتھ زیادہ مخلص اور وفادار تھے یا مذہبی ٹھیکیداروں کے اُکسائے ہوئے آج کے جنونی لوگ؟
ماضی کی طرح اِس توہین آمیز حرکت سے بھی ہم بے چین اور مجروح ہیں۔ ہمارے دل زخمی ہیں اور ہمارے سینے چھلنی! ہم خدا کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ ہماری مدد کے لئے آئے اور ہم اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ اِلتجاء کرتے ہیں کہ ہمارے محبوب نبیﷺ پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بارش برسائے!
قرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق ایسے حالات میں ہم اپنے غم والم کا اظہار جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی کے الفاظ میں یوں کرتے ہیں: ’’۔۔۔ کفار نے رسول کریم ﷺ کے خلاف بہتانات گھڑے اور خلقِ کثیر کو اِس اِفتراء کے ذریعہ سے گمراہ کیا۔ کسی چیز نے میرے دل کو اتنی ایذاء نہیں پہنچائی جتنی محمد مصطفی ﷺ ٰ کی شان میں ان کے استھزاء اور خیرالوریٰ کی ہتک عزت نے۔بخدا اگر میرے سارے بچے، میری اولاد اور میری اولاد در اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کردیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال دی جائے اور مجھے میری تمام مرادوں سے محروم دیا جائے، تو مجھ پر یہ صدمہ اس (توہین رسالت) سے زیادہ بھاری نہ ہوتا۔ اے میرے رب ہمارے طرف اور ہماری حالتِ ابتلاء کی طرف نگاہِ کرم کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہماری خطائیں معاف فرما۔
(روحانی خزائن جلد5 صفحہ15)
مگراِس کے باوجود ہم ان مزعومہ فنکاروں اور آزادئ ضمیر کے علمبرداروں کو متنبہ کرتے ہیں کہ کچھ خدا خوفی کرو! لاکھوں امن پسند مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کرو، جو اپنے غم وغصہ کو خدا کے حضور آنسو بہاتے ہوئے دبالیتے ہیں۔ اِسی طرح ہزاروں غیر مسلم شرفاء ایسے بھی ہیں جو اِیسی حرکت کو ناپسند کرتے ہیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ جو قادرو توانا ہے، اگر وہ چاہے تو تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے۔ مگر ہم دوسرے لوگوں کو بھی کہتے ہیں کہ اگر تم خدا پر کوئی ایمان نہیں رکھتے، پھر بھی براہِ مہربانی، دنیا کے امن کیلئے آئندہ ایسی بات سے باز رہیں۔
آج کا یورپ جو کہ باقی دنیا سے زیادہ مہذب ہے اوریورپین لوگ دوسروں کی تکالیف و آلام کے معاملہ میں زیادہ حسّاس ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ ذہنی اورنفسیاتی تکلیف سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتے۔ اور ان مسائل کا سنجیدگی سے حل تلاش کرتے ہیں۔ لیکن انتہائی تکلیف دِہ امر یہ ہے کہ اسی یورپ کے بعض لوگ آزاد اِظہارکو بطور خاص اسلام اور نبئ اسلامﷺ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ یورپ کے یہ لوگ کہیں کسی سے متاثّر نہ ہوتے ہوں۔جو بھی وجہ ہو،یہ حقیقت ہے کہ ایسی باتوں سے یورپ اور یورپین لوگوں کی امن پسند ساکھ ضرور مجروح ہوتی ہے۔ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ماضی میں توہین آمیز تحریرات و کتب لکھنے والوں کی طرح ڈنمارک کے اِس کارٹونسٹ نے کیا پایا؟ اُن لوگوں نے کیا حاصل کیا جنہوں نے اس کی تائید کی؟ اور اُن ملکوں اور لوگوں نے بھی کیا حاصل کر لیا جنہوں نے اِس کے حق میں آزاد اِظہار کے نعرے لگائے؟ کچھ بھی تو حاصل نہیں ہوا! ہاں زیاں بہت ہوا ہے!! افسوس صد افسوس!!!
جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی، اپنی آخری کتاب ’’پیغامِ صلح‘‘ میں اِس مضمون کے حوالہ سے اسلام کے سنہری اصول کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اِسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابلِ تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی۔اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآنِ شریف کو حاصل ہے جس نے دنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَانُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖ وَنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ (آل عمران: 85) یعنی تم اَے مسلمانوں!یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور اُن میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کوردّ کر دیں۔ اگر ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو۔قرآن کریم نے خدا کی عام رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوبؑ اور کیا اسحاقؑ اور کیا موسیٰ ؑاور کیا داؤدؑ اور کیا عیسیٰؑ سب کی نبّوت کو مان لیا۔اور ہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گزرے ہیں اور خواہ فارس میں، کسی کو مکّار اور کذّاب نہیں کہا۔ بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گذرے ہیں۔اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی۔ مگر افسوس کہ اِس صلح کے نبی کو ہر یک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے‘‘
ہمیں یقین ہے کہ تمام قوموں کی قابلِ احترام ہستیوں اوربطور خاص سب اَنبیاء کے بارے میں باہمی احترام کایہ سنہری اصول، پوپ بینیڈکٹ کے حالیہ اشتعال انگیز بیان کے باوجود، ان شاءاللہ، دنیا میں امن، برداشت اور تحمل کے عالمگیر ماحول کو پیدا کرنے میں مثبت کردار اَدا کرے گا۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ پہلے بھی عیسائیوں کی طرف سے سوچی سمجھی سکیموں کے تحت متعدد بار اسلام کے خلاف حیلوں بہانوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ زہر افشانی کی گئی اور اپنے گھر کی تاریخ کو تجاہلِ عارفانہ کے طور پر فراموش کرتے ہوئے یورپ کے رہنے والوں کو اسلام سے بدظن کیا تاکہ باوجود اسلام کی بے انتہاء خوبیوں کے اس کی طرف مغربی معاشرہ مائل نہ ہو۔کبھی نبئ اسلام ﷺ کے پاک و مطہر وجود پر گندے الزامات لگا کر تو کبھی آپ ﷺ کی طرف ظلم و جبر منسوب کر کے۔ کبھی آپ ﷺ کے صحابہ کو جنگجو اور خونخوار کہہ کر تو کبھی تعددِ اِزداج کا طعنہ دے کر۔ کبھی قرآن کریم جیسی کامل و مکمل اور لاثانی کتاب میں کیڑے نکالنے کی کوشش کر کے تو کبھی اسلامی تعلیمات کو خلافِ عقل بیان کر کے۔۔۔ ’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘
آپ مزید فرماتے ہیں: ’’اِس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ اب کیا کریں۔ یقیناً سمجھو کہ اِس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے۔۔۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں۔۔۔ دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا اور اسلام فتح پائے گا‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ256 حاشیہ)
نیز آپؑ نے فرمایا: ’’یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے۔ مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا‘‘
(تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ92)
اِس سلسلہ میںآپ فرماتے ہیں: ’’میں کبھی کا اِس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے۔ غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے۔ مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئیگی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا۔۔۔ اب دونوں مریں کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں۔ نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہوگا۔ اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔۔۔ قریب ہے کہ سب ملّتیں ہلاک ہوں گی مگراسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا اور نہ کُند ہو گا جب تک کہ دجّالیت کو پاش پاش نہ کر دے۔۔۔ لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر نور اتارنے سے‘‘
(تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ8)
اسلام کی اِسی پُر امن تعلیم کا عَلم لئے جماعت احمدیہ کا قافلہ ان شاءاللہ تعالیٰ غلبہءِ اسلام کی منزل کی طرف رواں دَواں رہے گا اور کسی حربے کو یہ تاب نہیں کہ اِس مہم میں رخنہ ڈال سکے۔ کیونکہ بالآخر دنیا دیکھ لے گی کہ اسلام ہی امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا وہ عالمگیر مذہب ہے جو دنیا کو اس کے مسائل کا حل پیش کر کے اسے امن کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔
اس مضمون کے اختتامیہ سے پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ توہین مذہب کی سزا کے قانوں سازوں نے، شائد ملائیت کے زیر اثر، قانون میں ایک سقم رکھا تا ملائیت جیسے چاہے ظلم ڈھائے اور اس چور دروازے سے جس کی چاہے جان لے لے اور ہاتھوں پر خون ناحق ہوتے ہوئے سزا سے بچ جائے۔اگر قانون میں یہ شق بھی ہوتی کہ توہین مذہب کا الزام لگانے والے اگرجھوٹے نکلے تو انکو بھی توہین مذہب کی ہی سزا ملے گی۔ اور پھر کئی جھوٹے الزام لگانے والے سزابھی پاتے تو پھر کسی کو اسلام کے نام پر من مانی، ذاتی دشمنیوں اور نفسانی آرزوؤں کو پورا کرنے کا موقعہ نہ ملتا۔ لیکن
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے کچھ پیش کیا جاتا ہے۔
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک اَز خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے
پردے تھے جو ہٹائے اندر کی راہدِ کھائے
دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
وہ یار لا مکانی، وہ دلبرِ نہانی
دکھا ہے ہم نے بس سے بس فیصلہ یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اس نے وہ کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطاء یہی ہے
جو رازِ دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے
(نصیر احمد شاہد۔ فرانس)