حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنی اولاد کے لئے رزق کی دعا کی تو ساتھ ہی یہ عرض کی کہ وہ تیرے شکر گزار رہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے وَارۡزُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (ابراہیم: 38) یعنی انہیں پھلوں میں سے رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بنیں۔ پس کاروبار میں برکت، تجارتوں میں برکت، زراعت میں برکت، یہ سب پھل ہیں جو رزق میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور جب مومن ان فضلوں کو دیکھتا ہے تو شکر گزاری میں بڑھتا ہے اور یہ بات اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے تقویٰ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور بننی چاہئے۔ جب ایک مومن ایمان اور تقویٰ اور شکر گزاری میں بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔ اس کے پھلوں میں مزید برکت پڑتی ہے۔ اس کے رزق کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید بڑھاتا ہے۔ یہ سلوک اللہ تعالیٰ انہی سے فرماتا ہے جو ایمان میں بڑھے ہوئے ہیں یا بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ رزق کا اضافہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے کہ کسی نے لکھا کہ میرے رزق میں غیر معمولی طورپر اضافہ ہو گیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8) یعنی اگر تم شکر گزار بنو گے تو مَیں تمہیں اَور بھی زیادہ دوں گا۔ ایک غیر مومن کے لئے تو کہا جا سکتا ہے کہ قانون قدرت کے تحت اس کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا لیکن ایک مومن کے لئے اس سے زائد چیز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور ایمان اور تقویٰ میں بڑھنے کے ساتھ جب محنت ہو تو کئی گنا زیادہ پھل لگتا ہے اور پھر صرف محنت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پھر مومن کو اگر اس کی محنت میں کوئی کمی رہ بھی گئی ہو تو اپنے فضل سے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے زائد بھی عطا فرماتا ہے یا اس کمی کو پور افرماتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 13جون 2008ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)