• 10 مئی, 2025

؎ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

یہ مکمل شعر یوں ہے۔

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

خاکسار کے بہت سے اداریے باغ، باغیچہ، شجر، درخت، پیڑ، ڈالی، شاخ اور ٹہنی کی مناسبت سے مختلف انداز ِ فکر لئے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ لیکن یوم خلافت کے موقع پر علامہ اقبال کے اس شعر کے حوالہ سے یہ میرا پہلا اداریہ ہے۔ اس میں شاعر یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ملت کے ساتھ رہ کر ہی زندگی اور بقا ہے۔ جو شاخیں یا ڈالیاں درخت کے ساتھ جڑی رہتی ہیں وہی باثمر رہتی ہیں۔ خوبصورت بھی لگتی ہیں اور اپنے پھل اور ثمر سے دوسروں کو فائدہ بھی دیتی ہیں۔ اس لئے (ہرے بھرے) شجر سے اپنے آپ کو پیوستہ رکھ کر بہار کی امید رکھا کر۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ233)

اس مضمون کو سمجھنے سے پہلے آغاز میں دیئے گئے الفاظ پر غور کرنا ضروری ہے۔ باغ و باغیچہ کا نام ذہن میں آتے ہی سرسبزی اور ہریالی ذہن میں آتی ہے جہاں پیڑ، درخت اور شجر ہوتے ہیں۔ جن کے گھنے سائے اور پھلوں سے طبیعتیں خوشگوار ہوتی ہیں۔ شجر، درخت اور پیڑ بھی صرف ان رُکھوں کے لئے بولا جاتا ہے جو سرسبز ہوتے ہیں۔ ورنہ خشک اور سڑے ہوئے درخت نما کو درخت نہیں کہہ سکتے۔ شجر کے معنوں میں بھی ہریالی دلالت کرتی ہے۔ یہی کیفیت شاخ اور ڈالی کے الفاظ میں ہے۔ جو شاخ کہلائے گی وہی درخت سے جڑی اس سے غذا حاصل کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جابجا اس مضمون میں شاخ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ٹہنی کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ جو محض سوکھی ہونے کی وجہ سے نہ خود سبز ہوتی ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس لئے حضور علیہ السلام نے میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! کہہ کر اپنے حواریوں اور ماننے والوں کو پکارا ہے۔

تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ درخت بھی وہی سرسبز رہتا ہے جس کی جڑیں زمین سے پیوستہ ہوں وہ وہاں سے غذا لے رہا ہو اور پانی بطور غذا مل رہی ہو اور گوڈی وغیرہ سے اس کی حفاظت ہو تو نہ صرف خود سرسبز رہتا ہے بلکہ اپنی شاخوں کو بھی غذا پہنچاتا ہے جو آگے پھول پھل دیتے ہیں۔

اب اس مضمون کو اسلامی نکتہ نگاہ سے مذہب اسلام اوراحمدیت پر اپلائی کریں تو نہایت دلچسپ اور ایمان افروز مضمون اُجاگر ہوتا ہے۔ اسلام بطور باغ کی طرح ہے۔ احمدیت اس کا ایک باغیچہ ہے۔ جس کے اندر بے شمار رنگا رنگ کے پودے اور درخت لگے ہیں۔ جن میں سے ایک بنیادی درخت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ اور پھر خلافت بھی ایک سایہ دار درخت ہے۔ جس کے پانچویں مظہر ساری دنیا میں پھیلے کروڑہا وجودوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق، طاقت، قوت اور روحانی غذا کے ذریعہ سرسبز و شاداب رکھے ہوئے ہیں۔ اور اس درختِ وجود کی شاخیں آج آسمان سے باتیں کرتی اور جڑیں اتنی مضبوطی سے زمین کے اندر پیوست ہوتی جا رہی ہیں کہ دنیا بھر میں احمدیت کے مخالفین نے انفرادی طور پر بھی اور حکومتوں و جماعتوں کی طرف سے اس کی بیخ کنی کی کوشش کی مگر جوں جوں اس کو جڑ سے اکھیڑ باہر پھینکنے کی کوشش کی گئی توں توں اس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی گئیں اور کروڑوں احمدیوں کی مقبول دعائیں اور نیک اعمال و افعال نے پانی کا کام کیا اور مسلسل اپنے اعمال اور آنکھوں کے پانی سے اس درخت کو سیراب کر رہے ہیں اور یہ درخت خلافت خود بھی اللہ سےتعلق کو مضبوط کر کے اور اس سے طاقت لے کر اپنی شب و روز دعاؤں، آنکھوں کے پانی اور خطبات، خطابات اور تقاریر کے ذریعہ ان شاخوں کو غذا بہم پہنچا رہے ہیں۔ جس سے ان شاخوں کو تازگی ملتی ہے۔ یہ زیادہ سبزی مائل ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور پھل پھول لاتی ہیں۔ جس کا اب غیر بھی اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اپنے اندر خلافت نہ ہونے کی وجہ سے پریشان نظر ہیں۔ واویلا بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وحدت کا نام تک نہیں۔ انتشار ہی انتشار ہے۔ افتراق عام نظر آتا ہے۔ قتل و غارت، لڑائی جھگڑا، غیر اسلامی حرکات کا بازار گرم ہے اور خلافت کو قائم کرنے کی آوازیں ہر طرف سنائی دیتی نظر آتی ہیں۔

جناب فضل محمد یوسف زئی استاد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے اس امر کاا ظہار کیا کہ مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش! ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش! ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش! ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس میں وزن ہوتا، جس میں عظمت ہوتی، جس میں شجاعت ہوتی۔

(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک مارچ 2000ء)

حزب التحریر نے اپنی آواز یوں قلمبند کی کہ
اے مسلمانو! خلافت کو قائم کرو تم عزت پاؤ گے۔ اس کو زندہ کرو گے تو کامیاب رہو گے، ورنہ تم تہہ در تہہ ظلمت میں گرتے چلے جاؤ گے۔

(پمفلٹ از حزب التحریر 2003ء)

خلافت تو خدا کی عنایت ہوتی ہے نہ کہ کسی کو فرمائش پر ملتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دشمنان احمدیت کو صد سالہ خلافت جوبلی کے تاریخی خطاب میں مخاطب ہو کر فرمایا تھا۔

’’اے دشمنان احمدیت! میں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیت ہو تو آؤ! اور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤ ورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے۔ تمہاری نسلیں بھی اگر اسی ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔ قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب تک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔‘‘

(خطاب 27؍مئی 2008ء)

اس کے بالمقابل جماعت احمدیہ کی خلافت دائمی ہے اور اس کے پھل بھی دائمی۔ ہر زمانہ کے وہ لوگ اس سے مستفیض ہوتے رہیں گے جو اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوطی سے باندھ لیں گے۔ کیونکہ وہ عروہ وثقی ہے جس کو پہننے کی مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تلقین فرمائی ہے۔

شجر اور شاخ کی بات ہو رہی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن شاخوں کو پھل لگتے ہیں وہ شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی ہیں۔ آج اسی مثال کو سامنے رکھ کر احمدیوں پر جو انگنت فضل خدا کے بحیثیت مجموعی و انفرادی نازل ہو رہے ہیں۔ ان کے پیش نظر ہم اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ یہ پھل نمازوں کے نتیجہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ یہ پھل نوافل کے نتیجہ میں نظر آتے ہیں۔ یہ پھل آج تلاوت قرآن کریم کے نتیجہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ہاں ہاں! یہ پھل ایم ٹی اے کے ذریعہ، خلافت کے ذریعہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ آج یہ پھل روزنامہ الفضل آن لائن کی صورت میں بھی دنیا کے کونے کونے میں نظر آتا ہے۔ جسے معاندین احمدیت نے پاکستان میں 9 ہزار کی تعداد میں طبع ہونے پر بند کروا دیا تھا۔ آج یہ اخبار آن لائن کا روپ دھار کر اور عالمی بن کر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے دلوں پر راج کر رہا ہے۔ یہی وہ پھل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اجتماعی طور پر جماعت احمدیہ کو اور انفرادی طور پر احمدیوں کو عطا کر رکھے ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس بات کی عکاسی ہو رہی ہے کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد بطور شاخ، خلافت کے درخت سے پیوستہ ہے اور درخت اپنے اللہ سے براہ راست فیض پا کر شاخوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ اللّٰھم زد فزد۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’(جو) اللہ تعالی کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو! میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالی کی طرف سے ہےاور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے۔ یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔

مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لئے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالی کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ148 ایڈیشن 1984ء)

خلافت کا شجر پھولے پھلے گا، وعدہ ربانی
وہ خود مٹ جائے گا جس نے مٹانے کی اسے ٹھانی

(م ج مرزا)

پھر ایک شاعر جناب م م محمود لکھتے ہیں۔

جدا ہوا اِس شجر سے جو بھی، شجر بھی وہ کہ گھنا ہے سایہ
نہ پائی چھاؤں کہیں بھی اُس نے، ہمیشہ زیرِ عتاب جانا

پھر مکرمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم اسی مضمون کو اپنے منظوم کلام میں یوں بیان کرتی ہیں۔

نبوّت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے
خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے
یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ایک سبق آموز بات