تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 46
بعد ازاں پاکستانی معاشرے میں شدت اختیار کرتی ہوئی عدم رواداری کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے نصاب تعلم پر مکمل نظر ثانی کرے۔ ضیاء الحق کے دور میں اقلیتی عقائد کے خلاف غلط تصورات پیدا کرنے اور منافرت کی ثقافت کو ہوا دینے کے لئے انسانی حقوق کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا۔‘‘
خاکسار نے ہر دو رائٹرز کے مضامین سے کچھ اقتباسات لکھے اور پھربتایا کہ جو باتیں انہوں نے لکھی ہیں ان میں صداقت موجود ہے اور انہی میں مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ لیکن یہ مسائل تبھی حل ہوں گے جب حکومت ان پر کان دھرے گی۔ دونوں خواتین نے جن اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے ان میں جو بات بہت اہم ہے وہ اقلیتوں کے خلاف آئینی اور قانونی جواز ہے۔ اس نے مذہبی تنظیموں کے ہاتھ میں اور انتہاء پسندوں کے ہاتھ میں ایسا قانون تھما دیا ہے کہ جس سے وہ جب چاہیں اور جس کو چاہیں اور جس کے گلے پر چاہیں تلوار رکھ کر چلا سکتے ہیں۔
خاص طور پر جماعت احمدیہ کے ساتھ تو یہ واقعات شروع ہی سے چلے آرہے ہیں۔ بانی جماعت احمدیہ کے دعویٰ مہدویت کے ساتھ ہی 200 علماء نے آپ پر یہ کفر کا فتویٰ جاری کیا یہ تو کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن 1974ء میں نئی بات ضرور ہوئی اور وہ یہ کہ جس طرح دارالندوہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اور ساتھیوں کو عبادت سے روکا گیا، نماز سے روکا گیا، حج سے روکا گیا، صلح حدیبیہ کے موقع پر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھنے سے روکا گیا، بعینہٖ یہی سلوک آج جماعت احمدیہ کے ساتھ ہور ہا ہے۔ کیونکہ پاکستانی حکومت نے یہ قدغن لگائی اور آئینی اور قانونی طور پر انہیں مسلمان کہلانے سے منع کیا جارہا ہے۔
ہم قائد اعظم کے نظریات سے بہت دو رہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے تمام قوانین ختم کریں جن سے عوام میں امتیاز پیدا ہوتا ہے، ہر شخص کو بلا امتیاز پاکستانی شہری کے آزادی ہونی چاہئے اور وہ آزادی کے ساتھ اپنے عقیدہ کا اظہار اور اس پر عمل کر سکتا ہو۔ خاکسار نے اس مضمون کے آخر پر یہ بھی افسوسناک بات لکھی کہ ’’گزشتہ دنوں ہم نے ایک ای میل پر ایسا بینر دیکھا جو خاص طور پر پاکستان کی گلیوں کوچوں میں دیواروں پر چسپاں تھا اور جس میں احمدیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی تھی کہ ’’مرزائی واجب القتل ہیں‘‘۔
یہ ختم نبوت والوں کی طرف سے تھا اور نیچے محکمہ اوقاف لکھا ہوا تھا۔ گویا خود حکومتی ادارے ایسے لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ جس سمت میں آج پاکستان جارہا ہے کسی شہر میں بھی امن نہیں اس کا سب سے بڑا سبب یہی قانون ہے۔ ملاازم، ضرورت سے زیادہ سر پر چڑھ گیا ہے۔ جس دن مُلّا آپ کی گردن سے نیچے اتر آیا ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ امن کا صرف اور صرف یہی ایک واحد راستہ ہے کہ ریاستی قوانین میں کوئی امتیازی سلوک نہ ہو ہر پاکستانی کو برابر کا شہری سمجھا جائے۔
مذہب کا معاملہ خدا کے ساتھ ’’فیصلہ خود کیجئے‘‘
ہفت روزہ نیویارک پاکستان پوسٹ نے اپنی اشاعت 15تا21 جولائی 2010ء میں خاکسار کا وہی مضمون بعنوان ’’فیصلہ خود کیجئے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔
ہفت روزوہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 9تا15 جولائی 2010ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’فیصلہ خود کیجئے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون ہی ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 15جولائی 2010ء صفحہ 15 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں ایڈیٹر نے ایک اور مسجد کی تصویر بھی شائع کی۔
مضمون جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد پر ہے اور یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔ نفس مضمون بھی وہی ہے۔
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 15 جولائی 2010ء صفحہ19 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ کا عنوان اخبار نے ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی‘‘ رکھا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ الامام مرزا مسرور احمد جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمگیر امام نے خطبہ جمعہ میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی والی آیات کی تلاوت فرمائی اور مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ رسول کریم ﷺ کی اتباع کریں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو تما م دنیا میں بلند کریں اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کی طرف توجہ دلائیں نیز خداتعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کریں۔ اس ضمن میں آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی تلاوت فرمائی۔
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ
(الأحزاب: 22)
آپؐ کے اسوہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپ نماز تہجد بہت لمبی ادا فرماتے تھے۔ آپ سجدات اتنے لمبے فرماتے کہ صحابہؓ بعض اوقات اس سے خوف زدہ ہو جاتے تھے۔ امام مرزا مسرور احمد نے مزید بتایا کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ خداتعالیٰ کی حمد بیان کرتے تھے اور نعماء پر خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔ آپ روکھی روٹی بھی کھاتے۔ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور آپ عبد شکور تھے۔ آپ اپنی ازواج مطہرات اور اہل و عیال کو عبادات، حمد باری تعالیٰ، خداتعالیٰ کے قدوس ہونے کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے۔
فتح مکہ کے موقع پر جہاں آپ خداتعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے وہاں ہی آپ کی ایک اور صفت عجز و انکسار بھی پوری طرح واضح ہو رہی تھی۔ آپ کا سر مبارک اور جبین مبارکہ عاجزی کے ساتھ کجاوے کے ساتھ لگ رہی تھی۔
اس لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم بھی خداتعالیٰ کا شکر اسی رنگ میں کریں اور عاجزی و انکساری اپنائیں۔
امام مرزا مسرور احمد نے قرآن کریم کی یہ آیات بھی پڑھیں یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۶﴾ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۷﴾ (الاحزاب: 46-47) آپ نے یہ آیت بھی پڑھی یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ … (المائدہ: 68) یہ آیات بیان کرنے سے آپ نے تبلیغ کی اہمیت بھی واضح فرمائی۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 16 جولائی تا 22 جولائی 2010ء صفحہ 14 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’یہ ظلم کب تک چلے گا؟‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا:
28 مئی کو لاہور پاکستان میں جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر جو حملہ ہوا اور اس میں دہشت گردوں نے بموں، گرنیڈوں، رائفلوں اور دیگر ہتھیاروں سے حملے کر کے نہتے نمازیوں اور عبادت کرنے والوں پر جو قیامت ڈھائی اس کا ذکر اکثر اخباروں میں پڑھنے کو ملتا ہے اور اخبارات پاکستان کے آئین اور اس میں ترمیم کو ان ظلموں کی وجہ بیان کر رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ ظلم اور امتیازی ظلم احمدیوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس بات میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ پاکستان کے آئین اور قانونی ترمیم کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے کیونکہ اس قانون کی وجہ سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایسا سرٹیفیکیٹ اور لائسنس آگیا ہے کہ وہ جب چاہے جس وقت چاہے صرف ایک جھوٹ بول کر کسی بھی احمدی کو جیل بھیج سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ یہ اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہا تھا۔ یا اس نے مجھے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے یا یہ کہ یہ کلمہ پڑھتے سنا گیا ہے یا اپنے ہاتھ میں قرآن لئے ہوئے تھا، کوئی بھی ایسی بات کر کے وہ کسی بھی احمدی کو کسی بھی وقت پولیس اور حوالات کے سپرد کر سکتا ہے اور اس وقت کئی درجن احمدی حوالات میں ہیں۔
کیا یہ حب رسول ہے کہ جھوٹ بول کر احمدیوں پر یہ ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ یہ مذہب کے نام پر ظلم، یہ رسول کے نام پر ظلم اور احمدیوں کو محض اسی بناء پر قتل کیا جارہا ہے۔ خاکسار نے لکھا کہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر ایک کے ساتھ مساویانہ اور انصاف کا سلوک اور برتاؤ رکھے۔ اگر حکومت ہی امتیازی سلوک کرنے لگے جائے تو پھر اور کون ہو گا جو انصاف کرے گا؟
بی بی سی نے لکھا کہ پاکستان کفر سازی کی فیکٹری ہے یہاں مسلمان بنانا تو بہت مشکل ہے البتہ مسلمانوں کو کافر بنانا بڑا آسان ہے۔
مذہبی کتب کا مطالعہ کرنے سے بڑا آسانی سے یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ ہر ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ پر گند اچھالا ہوا ہے اور اسے کافر بنایا ہوا ہے۔
خاکسار نے بتایا کہ 28 مئی کو جب لاہور کی دو احمدی مساجد پر حملہ ہوا اس وقت احمدی کیا کر رہے تھے۔
1۔ ایک مسجد میں مربی محمود صاحب (شہید) خطبہ دے رہے تھے۔ جب حملہ ہوا تو وہ سب احباب کو صبر کی اور دعاؤں کی تحریک کر رہے تھے اور بار بار درود شریف پڑھنے کی تلقین کر رہے تھے اور احباب نے وہ مشکل وقت دعاؤں، ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزارا۔
2۔ اسی طرح ایک لڑکے نے بتایا کہ میرے 19 سالہ بھائی کو 4-5 گولیاں لگیں وہ گھنٹوں اپنی جگہ پڑا رہا اور دعائیں کرتا رہا۔
3۔ ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نوجوان اور بچوں کو بچا لیا۔ وہ حملہ آوروں کی طرف دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینہ پر لے لیں۔
4۔ ایک اور دل ہلا دینے والی داستان ایک نوجوان نے سنائی کہ وہ ربوہ سے لاہور گیا تھا اور ایک اور نوجوان کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھا رہا تھا سب سے آخرمیں میرے ساتھ مل کر اس نے ایک لاش دکھائی اور ایمبولینس تک پہنچائی اور اس کے بعد کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب اور پھر یہ نہیں کہ وہ ایمبولینس کے ساتھ چلا گیا ہو بلکہ مسجد میں جس ڈیوٹی پر تھا وہ ادا کی۔
اس مضمون میں خاکسا رنے پروفیسر اسرار بخاری کے ایک کالم ’’نیرنگ خیال‘‘ جو انہوں نے روزنامہ نوائے وقت 30 مئی 2010ء میں لکھا، بیان کیا:
’’اسلام نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے تاریخ اسلام میں ایسا ایک بھی واقعہ موجود نہیں کہ غیرمسلم کہیں اکٹھے ہوئے ہوں اور مسلمانوں نے اچانک ان پر دھاوا بول دیا ہو یا ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا ہو۔ اگر کسی نے قادیانیت کو اسلام میں تبدیل کرنا ہو تو اس کے لئے تبلیغ، استدلال علم ا ور اخلاقیات کے دروازے کھلے ہیں۔‘‘
خاکسار نے یہ حوالہ لکھ کر بتایا کہ اس خیال کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور یہی بات میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ اسلام کہیں بھی جبر و اکراہ کی تعلیم نہیں دیتا۔ نہ ہی ایمان میں اختلاف کی بنیاد پر کسی پر حملے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر یہ بھی تو بتایا کہ جائے کہ کیا کسی احمدی نے کبھی کسی کو عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر پتھر مارا ہے؟
احمدیہ جماعت امن سے رہنے والی جماعت ہے اور اسلام کے حقیقی معنوں کے لحاظ سے اپنی زندگی بسر کرنے والی جماعت ہے۔
رسول پاک ﷺ نے مسلمان کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔
کسی نے اس موقعہ پر خوب کہا تھا کہ غیرمسلم تو نماز جمعہ پڑھ رہے تھے اور مسلمان ان کو تہِ تیغ کر رہے تھے۔
خاکسار نے مضمون کے آخر میں حکومت پاکستان کے احمدیوں کے خلاف امتیازی رویہ اور پاکستانی آئین کے بارے میں توجہ دلائی اور ریاست کو مذہب سے الگ رکھنے کا بتایا اور بتایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان ایسا نہیں جیسا اب بنا دیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام پر ایسا وقت آئے گا کہ بس نام کا رہ جائے گا۔ قرآن صرف کتابی صورت میں ہو گا مساجد میں ہدایت نہ ہو گی اور مولوی آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث اپنی صداقت خود بیان کر رہی ہے اگر نہیں تو انٹرنیٹ پر مولوی کا لفظ گوگل پر جا کر دیھ لیں۔ آپ پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔
ہفت روزہ دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 23 جولائی 2010ء صفحہ اول پر ہماری یہ خبر شائع کی ’’جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں ملک بھر سے ہزاروں کی شرکت ’’جس ملک میں رہتے ہیں اس سے محبت کرنا اسلام کے امن کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانا ہمارا مقصد ہے‘‘
جلسہ سالانہ میں مقررین کا اظہار خیال
شینٹلی ورجینیا زاہد حسین رپورٹ لکھتے ہیں جماعت احمدیہ امریکہ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسہ سالانہ میں امریکہ بھر سے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسہ سالانہ میں دنیا کے دیگر ممالک بشمول لندن، کینیڈا، گوئٹے مالا کے علاوہ امریکی حکومتی اہل کاروں اور مقامی کانگریس کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ یہ جماعت احمدیہ امریکہ کا62 واں جلسہ ہے جبکہ دنیا میں جہاں جہاں احمدی ہیں ہر ملک میں وہ اپنے سالانہ جلسے منعقد کرتے ہیں۔ اس جلسہ کا مرکزی خیال Muslims for Peace تھا۔ جلسہ سالانہ نہایت منظم اور کامیاب پروگرام تھا جس کے انتظامات کا سہرا صدر جلسہ گاہ شاہد ملک، امیر جلسہ سالانہ وسیم حیدر اور امیر خدمت خلق ڈاکٹر فہیم یونس قریشی کے سر پر بندھتا ہے۔ (امیر سے ان کی مراد افسر جلسہ گا، افسر جلسہ سالانہ اور افسر خدمت خلق ہے) تین دن مفت لنگر تقسیم کیا گیا لنگر کا انتظام ڈاکٹر صلاح الدین Immunologist (امیونالوجسٹ) کرتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر (پی ایچ ڈی) جبکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک باورچی کی وردی میں موجود ہوتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں ’’دنیا انٹرنیشنل‘‘ کو دیتے ہوئے نسیم مہدی نے بتایا کہ جماعت کے پیروکار مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتے ہیں اور وہ امتی نبی ہیں اور جماعت کے پیروکار آپ کو آنحضرت ﷺ کا امتی نبی ہی مانتے ہیں۔
اخبار نے لکھا کہ یاد رہے کہ مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے اور پاکستان میں قانونی طور پر مرزاغلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جاچکا ہے۔
اخبار نے خاکسار کے حوالہ سے اسی خبر میں مزید ایک شہ سرخی لگا کر لکھا کہ کیلی فورنیا سے امام شمشاد محبت کا پیغام لائے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ قرآن، حدیث، فقہ اور علم الکلام کی خوبیوں سے مالا مال جماعت احمدیہ کیلی فورنیا میں مربی امام شمشاد ناصر اسلام کے بھائی چارے کے پیغام کو عام کرنے کے لئے اس جلسہ میں شرکت کے لئے موجود تھے۔ امام شمشاد نے انٹرنیشنل دنیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک بھائی چارے کا مذہب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اور جماعت احمدیہ پوری دنیا کو امن کا پیغام دینے کے لئے واشنگٹن میں مصروف عمل ہے۔
امام شمشاد جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہیں اور آج کل کیلی فورنیا میں مسجد بیت الحمید کے امام ہیں۔
’’انٹرنیشنل دنیا‘‘ کی اشاعت 23 جولائی 2010ء سیکشن B کے صفحہ اول پر ہمارے جلسہ کی ایک اور خبر اس طرح شائع کی۔ جس کے اوپر سامعین جلسہ کی تصویر بھی ہے ’’میڈیکل ڈاکٹر کا باورچی خانے تک کا سفر‘‘ اس خبر میں اخبار نے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کا انٹرویو شائع کیا ہے کہ ڈاکٹر ہیں اور جلسہ کے موقع پر یہ باورچی کی صورت میں نظر آتے ہیں اور 5 سے 10 ہزار تک کے لوگوں کا کھانا پکاتے ہیں اس مقناطیسی شخصیت کھانا پکانے کی تربیت پاکستان سے حاصل کی ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے نامور باورچیوں مثلاً محمد رفیع، محمد دین سے خصوصیت سے تربیت حاصل کی۔ نیز پی آئی اے کراچی اور ایئر انڈیا کے کچن نئی دہلی کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے کھانا پکانے کے بارے میں اخبار کو مزید معلومات بھی دیں۔ وہ ڈاکٹر کم لیکن غذائیت کے ماہر زیادہ لگتے ہیں۔
’’انٹرنیشنل دنیا‘‘ نے اپنی اشاعت 23 جولائی 2010ء صفحہ7 پر اپنے اداریہ میں خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا‘‘۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ:
’’1974ء میں قومی اسمبلی آف پاکستان نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور کہا کہ چونکہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے بعد ہر شکل میں کوئی نبی، پیغمبر، مصلح، ریفارمر ماننے والوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔ احمدی اس لئے غیرمسلم بنے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی ہیں۔ آئیے اس تناظر میں کچھ باتیں پیش کرتے ہیں۔
اس قانون کی رو سے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر، نبی مصلح، ریفارمر نہیں آسکتا تو پھر اب مسلمانوں کےعقیدہ کے مطابق نہ ہی حضرت عیسیٰ آسکتے ہیں اور نہ ہی امام مہدی آسکتے ہیں۔ اگر آئیں تو کس حیثیت سے آئیں گے؟
اس قانون کی رو سے وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ کی آمد کے قائل ہیں غیرمسلم قرار پاتے ہیں۔
اسی طرح حضرت امام مہدی کے بارے میں عقیدہ رکھنے والے بھی غیرمسلم
اگر حضرت عیسیٰ بالفرض کہیں اور آجائیں تو اس قانون کی رو سے وہ پاکستان میں نہیں آسکتے۔ نہ ہی سعودی عرب جا سکیں گے۔ اس کی وجوہات بھی درج ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ قادیانیوں کو جو غیرمسلم قرار دیا گیا ہے وہ مذہب کی رو سے، قرآن و حدیث کی رو سے غیر مسلم قرار نہیں دیا۔ قومی اسمبلی تو ایک سیاسی اسمبلی ہے، سب لوگ سیاستدان تھے۔ سیاسی حضرات کا علم قرآن و حدیث آپ سب کو معلوم ہے کہ کتنا پختہ ہوتا ہے اور وہ خود کس قدر قرآن و سنت و حدیث پر عامل تھے۔ جنہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی کریں۔
دوسرے اس اسمبلی کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ کیا کسی اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی کرے۔
تیسرے اب اس قانون کی رو سے حضرت عیسیٰ پاکستان میں تو کم از کم نہیں آسکتے نہ وہ پاکستان کے علماء کو یا مسلمانوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں۔
چوتھے اگر وہ تبلیغ کریں گے تو 1984ء کے آئین کے تحت انہیں سزا ملے گی۔
آپ اسے مذاق نہ سمجھیں یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے آئین کی رو سے سب کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس آئین کی رو سے صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ سب مسلمانوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اور امام مہدی آئیں گے۔
اس کے بعد خاکسار نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں لکھا ہے کہ قرآن نے انہیں بنی اسرائیل کا رسول کہا ہے۔ وہ کیسے مسلمانوں کی طرف آئیں گے اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ بتایا کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں اور جب انہیں سولی یعنی صلیب پر لٹکایا گیا خدا نے ان کی دعائیں سنیں اور وہ بے ہوشی کی حالت میں اتار لئے گئے تھے۔ پھر ہجرت کر کے کشمیر کی طرف گئے اور وہاں انہوں نے طبعی وفات پائی۔ اب جس نے آنا ہے وہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ہی آئے گا اور امتی بنے گا۔
ان سب باتوں کے بعد خاکسار نے لکھا کہ حیرت ہے کہ جو کام آپ کریں (یعنی جو عقیدہ آپ رکھیں) وہ ٹھیک ہے اور جو کام (یعنی عقیدہ) ہم کریں وہ غلط ہے۔ عجیب پیمانہ ہے۔ ہاں آپ کو یہ تو اختیار ہے کہ آپ یہ کہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعویٰ میں سچے نہیں لیکن یہ بات کسی رنگ میں بھی درست نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی رنگ میں بھی کوئی نہیں آسکتا۔
پس آنے والا آچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ شعر لکھا:
؎غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پر
مدفوں ہو زمین میں شاہ جہاں ہمارا
ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 26 جولائی 2010ء صفحہ 5 پر ہماری یہ خبر شائع کی ہے۔
چینو کی مسجد میں پانچواں بلڈ ڈرائیو
اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ نے اپنی مسجد بیت الحمید میں خون کے عطیہ دینے کے لئے تحریک کی اور لائیو سٹریم کے ذریعہ اس کا انتظام کیا گیا۔ اخبار نے لکھا کہ تھوڑا خون کا عطیہ اگر کسی کی جان بچالے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 23جولائی 2010ء صفحہ 15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’یہ ظلم کب تک چلے گا‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون تفصیل کےساتھ پہلے دوسرے اخبار کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔ اس کی تفصیل اور نفس مضمون ایک ہی ہے۔
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 30جولائی 2010ء صفحہ7 پر ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر 3 تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر کی شہ سرخی اس طرح ہے ’’جماعت احمدیہ کا 62 واں سالانہ جلسہ ختم ہو گیا۔‘‘
تصاویر میں دو تصاویر سامعین کی ہیں۔ تین تصاویر مقررین کی۔ مکرم اظہر حنیف صاحب، مکرم نسیم مہدی صاحب اور خاکسار سید شمشاد ناصر تقاریر کرتے ہوئے۔
اخبار نے لکھا ’’چھ ہزار سے زائد افراد کی شرکت امام شمشاد کی طرف پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایت۔‘‘
اس خبر کی تفصیل بھی وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔ خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ امام شمشاد نے کہا کہ جنرل ضیاء کے بنائے گئے قوانین کے تحت جماعت کے افراد اللہ کا نام نہیں لے سکتے، ایک دوسرے کو السلام علیکم نہیں کہہ سکتے، اذان دینے، کسی کے سامنے نماز پڑھنے، مسجد کو مسجد کہنے، قرآن مجید پڑھنے اور سنانے پر بھی سزاد دی جا سکتی ہے اور دی گئی ہے۔ جلسے کے دوران تہجد اور قرآن کریم کا درس بھی ہوا جو مولانا انعام الحق کوثر اور مولانا ارشاد ملہی نے دیا۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 30 جولائی تا 5 اگست میں خاکسار کاایک مضمون بعنوان ’’گندم بوکر انار کا پھل حاصل کریں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔
خاکسار نے مضمون کے شروع میں لکھا کہ آپ کہیں گے کہ یہ کیا مضحکہ خیز عنوان ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ لیکن جب پاکستان کی ساری عوام، سیاستدان، مذہبی لیڈر اور ہر خاص و عام یہی سوچ رکھتی ہے کہ ہم جو بوئیں گے وہ کاٹیں گے نہیں بلکہ ناقص اور نقصان دہ چیز بوئیں گے اور بہترین چیز حاصل کریں گے۔ تو اس کا کیا علاج ہے؟
اس وقت (2010ء کی بات ہے) جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان دن بدن ابتری کی طرف جارہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے، پھر لوگوں کی ڈگریاں بھی جعلی اور پھر یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہے۔ پتہ نہیں کس کو بے وقوف بنایا جارہا ہے؟
پاکستان قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا ہے۔ سیلاب، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، تجارتی نقصانات، رشوت، بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ اور پھر سب سے بڑھ کر انسانی خون کی یہاں کچھ قیمت نہیں ہے۔ شاید ہٹلر کی روح بھی خوش ہو کہ جو ظلم اس نے روارکھا تھا اب ہماری قوم خود کش حملوں سے وہ سب کچھ روا رکھ رہی ہے اور یہ سب کچھ عیسائی نہیں کر رہے بلکہ مسلمان کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں ہم فصل تو منافرت کی، حسد کی، بے ایمانی کی، غارتگری کی، تباہی کی، ایک دوسرے کو مارنے کی، قتل کرنے کی، ڈاکہ ڈالنے کی، گالیاں دینے کی، بداخلاقی کی بو رہے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اس کے بدلے جنت میں ہمیں 72 حوریں ملیں گی، باغات ملیں گے دودھ اور شہد کی نہریں ملیں گی۔ یہ جنت الحمقاء تو ہوسکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں!
خاکسار نے لکھا کہ ملک کو دیکھیں کہاں سے کہاں چلا گیا اور ان قوموں کی طرف بھی نظر دوڑائیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ ہی آزادی حاصل کی تھی وہ کس قدر ترقی کر چکے ہیں ہر لحاظ سے۔
؎اک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
اک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
بقول آپ کے کافر لوگ کہاں سے کہاں چلے گئے اور مسلمان لوگ قعر مذلت میں؟؟
پھر مذہبی استحکام کی طرف آئیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ سب فرقے متحد ہوں۔ لیکن سب فرقے ایک بات پر ضرور متحد ہیں کہ ’’احمدی لوگ کافر ہیں‘‘ خاکسار 1974ء میں پاکستان میں تھا خاکسار نے اس وقت کی اخباریں پڑھی ہیں۔ جن میں یہ شہ سرخیاں تھیں کہ ایک بار تم (بھٹو صاحب) احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دو ہم ساری عمر تمہاری غلامی کریں گے۔ تم تاحیات ملک کے صدر اور وزیراعظم رہنا ’’اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو خود اس وقت کے اخبارات پڑھ کر دیکھ لیں۔ یہ تو تاریخ کا حصہ ہے۔
پھر جب بھٹو صاحب نے 90 سالہ مسئلہ حل کر دیا تو پھر تو ایسے لوگوں پر خدا کی رحمت ہونی چاہئے تھی۔ لیکن حالات کیا ہیں۔ جن کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔
پس سیاسی لیڈروں نے، مذہبی لیڈروں نے، عوام نے کیا بویا تھا؟ اور اب وہ کون سی فصل کاٹ رہے ہیں۔ خدا کی خوشنودی کی یا خدا کی ناراضگی کی۔
جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جب یہ لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں تو ہمیں یہ کفر پیارا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
1۔ ہم خدا کی نگاہ میں مسلمان ہیں۔ ہم نے کسی دوسرے سے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ نہیں لینا اور جیسا کہ بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے
؎بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
کہ میں اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق میں مخمور ہوں۔ اگریہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں۔
2۔ دوسری وجہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہود 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو گی۔ ان میں صرف ایک فرقہ ناجی ہو گا باقی سب ناری ہوں گے۔ (ترمذی)
حضرت نبی کریم ﷺ نے ’’ناجی‘‘ صرف ایک فرقہ کو قرار دیا ہے۔ 72 کو نہیں۔ (72 تو ایک طرف ہیں اور یہ ناجی فرقہ ایک طرف)
خاکسار نے لکھا کہ 1974ء کے فیصلے میں سب نے مل کر اس ایک گروہ کی نشاندہی کر دی ہے۔ دوسرے وہ حالات جو ہمارے پیارے رسول ﷺ پر گزرے ہیں وہ سب جماعت احمدیہ پر گزر رہے ہیں۔ ہر وہ تکلیف جو جماعت احمدیہ کو دی جارہی ہے صحابہ رسول اللہ ﷺ کو دی گئی۔
مثلاً آپ ﷺ کو عبادت کرنے سے روکا گیا۔ آپ کا نام محمد(ﷺ) تھا آپ کو مذمم کہا جانے لگا۔ مسلمان کی بجائے صابی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اور اسلامی اصطلاحات سے منع کیا گیا (صلح حدیبیہ) حج اور عمرہ بند کیا گیا۔ آپؐ کو اور صحابہؓ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کا بائیکاٹ کیا گیا (شعب ابی طالب)۔
1974ء سے اب تک اور خصوصاً آرڈیننس 1984ء جب سےجاری کیا گیا یہ سب کچھ جو اوپر لکھا گیا ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
خاکسار نے آخر میں لکھا کہ نتیجہ ثابت کر رہا ہے کہ آپ کانٹے بو کر کبھی عمدہ فصل حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی گندم بو کر انار حاصل کر سکتے ہیں۔ جو قوم نے بویا ہے وہ وہی فصل کاٹ رہے ہیں۔ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
؎ ہمیں کچھ کِیں نہیں بھائیو
نصیحت ہے غریبانہ
(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)