• 11 جولائی, 2025

28؍ مئی کے شہداء کو نذرانہ عقیدت

ایک اور کربلا تیار ہے۔۔ ۔
28؍ مئی کے شہداء کو نذرانہ عقیدت

جمعہ کا بابرکت دن تھا، تپتی دوپہر میں سخت دھوپ و گرمی کی پروا کئے بغیر جماعت مومنین کا ایک گروہ ہفتہ وار اجتماعی عبادت یعنی نمازِ جمعہ کے لئے خانۂ خدا میں داخل ہو رہے تھے، کوئی اپنے بوڑھے باپ کے ہمراہ کوئی بھائی تو کوئی چھوٹے بچوں کے ہمراہ۔ بڑے اِس آس میں کہ باقی ماندہ زندگی بھی خیر و خوبی گزرے اور وہ اپنی نسل کی بقا کے لئے بارگاہِ ایزدی میں گریہ کناہ ہوں۔ نوجوان اس آس میں کہ وہ اپنے مستقبل کی تابندگی کی دعا کریں۔ اور بچے خاموش تربیت کے ماحول سے گزرتے ہوئے معصومانہ خواہشات کا سمندر لئے باوضو نوافل اور سنن کی ادائیگی میں مصروف تھے۔

محرم کا مہینہ نہیں تھا لیکن کچھ دیر میں یہاں کرب و بلا کا میدان سجنے والا تھا، آہ و فغاں کی سسکیوں سے لبریز دعائیں بارگاہ الٰہی میں پیش ہونے والی تھیں۔ درود و سلام کی آوازیں دلوں کو گرمانے اور عرش الٰہی کو لرزانے والی تھیں۔ دوسری جانب حق کے دشمن ایک بار پھر اپنے ہی دین پر قائم دوسری معصوم جانوں کا ناحق خون بہانے والے تھے۔

جس وقت یہ معصوم اس انہونی سے انجان خدائے واحد و یگانہ سے تعلق میں دنیا و ما فیہا سے بے نیاز تھے، اسی وقت دشمن زمانہ بھی گھات لگائے بیٹھا تھا۔ کربلا کا میدان قائم کرنے کے لئے دشمن کا بڑا ہتھیار ہی پیٹھ میں وار کرنا ہے۔ زمانہ کی جدت کے ساتھ بھی دشمن کے یہ اطوار نہیں بدلے ہیں، اب بھی وہ گھات لگاکر معصوم جانوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ تاریخ ہمیں کئی واقعات کی دہائی دیتی ہے۔

یہ 28؍مئی 2010ء کا دن تھا جب لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں احمدیہ بیت الذکر (الموسوم دار الذکر) اور بیت النور ماڈل ٹاؤن میں خدا کے سامنے سجدہ ریز بزرگوں، جوانوں اور بچوں کی معصوم جانوں پر جھاگ کی مانند جھوٹی دینی حمایت کا جوش لئے مسلح افراد نے فردوس بریں کے جھوٹے وعدوں کے مغالطہ میں حملہ کردیا اور جہنم کی راہ ہموار کرلی۔

یزیدی لشکر کے بچے کچے ان نام نہاد مسلمانوں کی جھوٹی غیرت پر معصوم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قربان ہو گئے کیونکہ جب کربلا قائم ہوتی ہے تو نہتے معصوم لوگوں کے پاس اپنے عقیدہ کی خاطر جان دینے کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا۔ کربلا صرف وہ نہیں جو 1400 سال پہلے ایک واقعہ ہوا۔ کربلا ہر زمانہ میں ہر اس شخص نے قائم کی جو جھوٹی انا اور خواہش لئے ناحق کو جبرا حق بنانا چاہتا تھا۔

ہر زمانہ میں ایسے ناہنجار ظالم حکمرانوں نے صرف معصوم افراد کو زیرِ دست رکھنے کے لئے یا اپنے غلط عقائد زور بازو سے رائج کرنے لئے ایسا ماحول پیدا کیا کہ سعید اور مومن روحوں کے پاس اصحاب کہف بننے کے سوا چارہ نہ تھا اور جس کے عقیدہ کا انہیں معلوم ہو جاتا اس کے پاس اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا۔

وقف حبیب ہی گو ہے سرمایہ حیات
عہد وفا کے پھر بھی تقاضے بڑھے ہوئے
رنگین کر دے نازؔ تو پھر داستان عشق
مدت ہوئی منصور کو سولی چڑھے ہوئے

(محمد الدین نازؔ)

ایسا ہی کچھ ایک دہائی قبل اسلام کے نام پر حاصل شدہ مملکت میں سرکاری مسلمان کا ٹیگ لگائے ہوئے ان یزیدی فوج کے اہلکاروں نے کیا۔ نماز پڑھنے آئے غیر مسلح نمازیوں پر آتشیں اسلحہ کے زور پر حملہ کر دیا۔ ہر عمر کے قریبا ًیک صد افراد کا اس میدان کرب و بلا میں اسی طرح خون بہایا گیا جیسے کربلا کے میدان میں جماعت مومنین کا ناحق خون بہایا گیا تھا۔

اس میدانِ کارزار کا آسمان بھی گواہ ہے اور زمین نے بھی گواہی دی کہ نہ اُس وقت کسی نے شہداء کی زندہ روحوں پر کوئی آنسو بہایا اور گریبان چاک کیا اور نہ پندرہ صدیوں بعد اس خون و کشت کے بازار میں کسی نے کوئی پرسہ بلند کیا ہو۔ یہ ہے شان غازیانِ کربلا کی کہ دشمن کو سینہ تان کے دکھا دیا کہ ایک ہم ہیں جو دین محمد ؐ کی حفاظت میں جان دینے والے ہیں اور ایک تم ہو جو دین محمدی ؐکو بالائے طاق رکھ کر کی اپنی انا اور ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہے ہو۔

فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَمَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ

(البقرہ: 17)

پس ان کی تجارت نے ان کو نفع نہ دیا اور وہ ہدایت پانے والوں میں سے نہ ہوئے۔

دشمن کی بھول ہوتی ہے کہ اس کا مکر بہتر ہے مگر مقابل پر خیر الماکرین کا دم بھرنے والے سینہ سپر ہوتے ہیں۔ کربلا کا ہر میدان اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ جیسے یزیدی طاقتیں پہلے ناکام و نامراد ہوئیں اسی طرح اس زمانہ میں بھی حق کا بول بالا ہوگا۔ مولانا محمد جوہر کہتے ہیں۔

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ بلکہ کھاد کی مانند احمدیت کی روز افزوں ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ دشمن میدان کربلا میں حق کو شکست کھاتا دیکھ کر اپنے زعم میں بانیلِ مرام لوٹتا ہے۔ لیکن وہ خود اس عشق و وفا کے ان کھیتوں کی مٹی کو خون سے سینچے جانے کے لئے چھوڑ آتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں جانتا کہ اب ہی تو اسلام کو کھاد فراہم کی گئی ہے۔ اب جو پھل اور پھول پنپیں گے وہ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ کا مصداق ہوں گے۔

پس آج ہمارا فرض ہے کہ آئندہ یزیدیت کی روح کو ختم کرنے کے لئے اور حق کے قیام کی خاطر نکلیں۔ گو جہاں یزیدیت وہاں کربلا ہوگا۔ لیکن اپنا عقیدہ اور عزم دونوں کو مضبوط دکھانا ہوگا۔ پھر بے شک حق کے پرچار کو روکنے کے لئے جتنے میدانِ کربلا سجائے جائیں، جیت ہمیشہ حق کی ہوگی۔ تو عزم کریں اور توحید کے قیام اور خدا کے حقیقی پیغام کو دنیا کو بتانے کے لئے نکلیں کیونکہ یہ میدان خالی ہے اور ایک اور کربلا تیار ہے۔۔ ۔

وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022

اگلا پڑھیں

تم ضرور امر بالمعروف کرو