• 11 جولائی, 2025

خلفائے احمدیت کا کارواں۔۔ ۔ پیار و محبت کا بحرِ بیکراں

نظامِ خلافت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک نہایت ہی پیاری نعمت خلیفہٴ وقت کا پیارا وجود ہے۔ جو ساری جماعت کے لئے ہر وقت دعاگو رہتا ہے۔ جو ہر دکھ درد میں ان کا سہارا بنتا ہے اور ہر خوشی میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوتا ہے۔ خلیفہ کا وجود احبابِ جماعت کے لئے ایک روؤف و رحیم اور شفیق باپ کی طرح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بارہا فرما چکے ہیں۔
’’خلیفہ اور جماعت در اصل ایک ہی چیز کے دونام ہیں‘‘

اس لئے ہر احمدی یہی سمجھتا ہے کہ حضور پرنور سب سے زیادہ پیار مجھ سے ہی کرتے ہیں۔ خلیفہ ایک پاک اور مطہر وجود ہوتا ہے جو بھی اس سے تعلق جوڑ لیتا ہے وہ تقویٰ کے رنگ میں رنگین ہوتا چلاجاتا ہے۔ آج خلافت کے سائباں کی چھاؤں سے اک جہاں فیضیاب ہو رہا ہے۔ آپ کی صحبت و مجلس میں بیٹھنے سے اور آپ کی زیارت اور درشن کرنے سے انسان کے اندر ایسی غیر معمولی تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے اس کا شمار خدا کے برگزیدہ بندوں میں ہونے لگتا ہے۔ الغرض جسے ایک دفعہ خلیفہٗ وقت کے پیارو محبت کا چسکا پڑ جائے وہ کبھی خواب میں بھی جدائی کا نہیں سوچ سکتا۔ اس کا لطیف احساس ایک حسیں یاد اور پیاری دعا کا روپ دھار لیتا ہے

؎ نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے
پاس اک عجب چھاؤں
میں بیٹھے رہے ہم یار کے پاس
یونہی دیدار سے بھرتا رہے کاسئہ دل
یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس
کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانے کا واقعہ ہے کہ چوہدری حاکم دین صاحب بورڈنگ کے ملازم تھے ان کی بیوی پہلے بچّہ کی ولادت کے وقت تکلیف میں تھی۔ چوہدری صاحب نے حضرت صاحب سے زچگی کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی۔ حضور فوراً اُٹھے اندر سے جا کر کھجور لائے اور اس پر دعا کر کے دے دی نیز فرمایا اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچّہ ہو جائے تو مجھے بھی اطّلاع کر دیں۔

چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ کھجور کھلانے کے تھوڑی دیر بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچّی کی ولادت ہوئی۔ رات بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس لئے حضور کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ نمازِ فجر میں حاضر ہو کر حضور کو ولادت کی اطلاع دی تو اس پر حضرت صاحب نے فرمایا۔
’’میاں حاکم دین! بچّی کی ولادت کے بعد تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے۔ اگر مجھے بھی اطلاع کر دیتے تو میں بھی سو رہتا۔ میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا۔‘‘

چوہدری حاکم دین صاحب یہ واقعہ بیان کر کے بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے۔ ’’کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نور الدین اعظم‘‘

(نظامِ خلافت کی برکات اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ28-29)

جماعتِ احمدیّہ کے دوسرے پیارے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعودؓ رضی اللہ عنہ کا اپنی جماعت سے دلی لگاؤ اور تعلق کا اظہار انہی کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔

تمہارے لئے ایک شخص محبت رکھنے والا ہے مگر اُن کے لئے ایسا کوئی نہیں آپ اپنی پیاری جماعت کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔
’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا مگر اُن کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اُسے فکر اور درد ہے۔ وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے۔ لیکن اُن کے لئے ایسا کوئی نہیں۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اُس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں؟‘‘

(انوارالعلوم جلد2 صفحہ156)

لو فاطمہ! یہ آپ کا تکیہ ہے

حضرت مصلح موعودؓ کی خادمہ محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں۔
’’ایک دفعہ میں نے غلطی سےرات کے وقت حضور کا تکیہ سرہانے رکھ کر سو گئی۔ بچوں نے حضور کے پاس شکایت کر دی۔ اب میں ڈری کہ نہ معلوم حضور مجھے کیا سزا دیں گے؟ حضور نے اسی وقت اپنے دفتر کو آرڈر دیا کہ آج شام سے پہلے ایک نیا تکیہ پیش کیا جائے۔ شام کو حضور نے مجھے اپنی بیگمات کے سامنے بلایا اور کہا لو فا طمہ یہ آپ کا تکیہ ہے۔ میں حضور کی شفقت اور ہمدردی سے بہت خوش ہوئی اور خُدا کا شکر ادا کیا۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیّدنا مصلح موعودؓ نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ252)

جماعت کے تیسرے پیارے امام حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی قلبی کیفیّات اور دلگداز دعاؤں کا تذکرہ بھی ہدیہٴ قارئین ہے۔

اے خُدا !جو مجھے خط نہیں لکھ سکے اُن کی مرادیں بھی پوری کر دے

آپ فرماتے ہیں:
’’آپ میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اُس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ بعض دفعہ میں جماعت کے افراد کے لئے یُوں دعا کرتا ہوں۔ اے خُدا! جو مجھے خط لکھنا چاہتے تھے لیکن سستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے اُن کی مرادیں پوری کر دے۔ اے خُدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ اُنہیں خط لکھنے کا خیال آیا اگر اُنہیں کوئی تکلیف یا کوئی ضرورت ہے تُو اُن کی تکلیف کو بھی دور کر دے اور حاجتیں بھی پوری کر دے۔‘‘

(نظامِ خلافت کی برکات اور ہماری ذمّہ داریاں صفحہ28)

ایسی محبت تو میں نے جسمانی باپوں میں بھی نہیں دیکھی

محترم ثاقب زیروی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دورِ خلافت کا دلگداز واقعہ تحریر کرتے ہیں۔
مجلس تحفظ ختمِ نبوّت سرگودھا نے رسالہ لاہور کے پرنٹر میاں محمد شفیع صاحب عرف م ش اور میرے خلاف ہتکِ عزّت کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ ہم پیشی کے دن سےپہلے کی رات کا کھانا حضرت صاحب کے ساتھ ربوہ میں کھایا۔ کھانے کے بعد حضور نے فرمایا: ’’آپ بہت جلد بری ہو جائیں گے۔‘‘

اس پر میاں محمد شفیع صاحب نے مجھے کہا بری تو ہو جائیں گے مگر تین سال بعد۔ کیونکہ میرے خیال میں حضرت صاحب کو ہمارے عدالتی طریقِ کار کا علم نہیں ہے۔ میں نے کہا مجھے لگتا ہے حضور نے ایسا القاء کی بناء پر فرمایا ہے۔

چنانچہ جب ہم سرگودھا کی عدالت میں پہنچے تو سرگودھا بار کے چیئرمین ملک محمد اقبال صاحب نے بار کے سب وکلاء کو مخاطب کر کے کہا:
’’کتنی بد قسمتی ہے تحریکِ پاکستان کے دو جیّد کارکنوں کے خلاف جھوٹا مقدمہ سرگودھا کی عدالت میں ہو۔ اگر ایسا ہوا تو ہم عدالت کو مستغیث کی حیثیت و شخصیت کے بارہ میں بھی بتائیں گے۔‘‘

اس بیان پر مستغیث نے مقدمہ واپس لے لیا اور مجسٹریٹ نے ہم دونوں کوبا عزّت بری کر دیا۔ جب ہم سہ پہرکو واپس ربوہ پہنچے تو حضور ننگے سر ٹہل رہے تھے۔ دیکھ کر فرمایا لگتا ہے آپ کھانا کھا آئے ہیں۔ میں نے اور بیگم صاحبہ نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ جب حضور کو بتایا کہ ہم با عزت بری ہو گئے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا آپ بیٹھیں میں شکرانے کے نفل پڑھ کر آتا ہوں۔

تب میاں محمد شفیع صاحب دھاڑیں مار کر رونے لگے پوچھنے پر بولے۔

’’مجھ پر تو آج یہ راز کھلا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے اس قدر فدائی کیوں ہو؟ وہ تو تم سے بھی زیادہ بیقرار ہے۔ ایسی محبت تو میں نے جسمانی باپوں میں بھی نہیں دیکھی۔‘‘

(ماخوذ از تجربات جو ہیں امانت حیات کی صفحہ222-223)

خلیفہ تو جماعت کے افراد سے اُن سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے

مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب امام بیت الفضل لندن اپنی ایک تقریر میں خلافتِ رابعہ کے دور کا ایک دلنشین واقعہ بیان کرتے ہیں
کینیڈا کے ایک پروفیسر ڈاکٹر (Gualtier) صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے پہلی بار ملنے آئے تو ملاقات کے بعد انہوں نےاپنے تاثرات کا اظہار یُوں کیا۔

’’احبابِ جماعت کی اپنے خلیفہ سے محبت اپنی جگہ لیکن میں اس یقین کے ساتھ واپس لوٹا ہوں کہ جماعت کا خلیفہ اپنی جماعت کے افراد سے اُن سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔‘‘

کیا سچّی بات اس پروفیسر نے کہی۔ ماں سے زیادہ محبت کرنے والا وجود کسی نے دیکھنا ہو تو خلیفہٴ وقت کے وجود میں نظر آتا ہے۔ عالمِ احمدیت سے باہریہ نعمت آج کسی اور کو نصیب نہیں ہے۔

(نظامِ خلافت کی برکات اور ہماری ذمّہ داریاں صفحہ26-27)

چلو! آج میں آپ سے تبرک لے لیتا ہوں

حضورؒ کے پیار کرنے کے انداز بھی انوکھے اور منفردہوتے ہیں۔ خود راقم الحروف نے ایم ٹی اے پہ اردو کلاس میں یہ روح پرور نظارہ دیکھا۔ اردو کلاس کے اختتام پر بچے آئس کریم کھا رہے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بچوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک بچی کی آئس کریم کے کپ سے ایک چمچ لیتے ہوئے پیار سے فرمایا ’’چلو آج میں آپ سے تبرک لے لیتا ہوں۔‘‘

اِس پر اُس بچی کے چہرہ پر جو خوشی کے تاثرات تھے وہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ قلم کو بیاں کا یارا نہیں ہے۔

میں پوری چیز لینے کا عادی ہوں

پیارے حضور کے پیار میں ایسی زبردست مقناطیسی کشش ہوتی ہے جو ناممکن کو نہ صرف ممکن میں بدل دیتی ہےبلکہ عملی جامہ پہنا کر حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ایک غیر از جماعت عرب خاندان حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کے لئے آیا۔ دورانِ ملاقات حضور نے اُن کے ایک بچہ کو پیار اس انداز سے کیا کہ اس عرب خاندان نے کہا حضور ہم یہ بچہ آپ کی نذر کرتے ہیں۔ جواباً حضور نے ازراہِ تفنن فرمایا ’’میں تو پوری چیز لینے کا عادی ہوں‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کےاس فقرہ کو یُوں شرفِ قبولیت عطا کیا کہ اگلے روز وہ عرب خاندان آیا اور جماعت میں شمولیت کا اعلان کر دیا

؎پھر اُسے سایہ دیوار نے اُٹھنے نہ دیا
آ کے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس
تجھ میں کچھ ایسی کشش ہےکہ بقول غالب
گُل خودبخود پہنچے ہے گوشہ دستار کے پاس

آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات کی صورت میں ایسا مہربان آقا عطا فرمایا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اس محبت سے گلے لگاتا ہے کہ ہر غم بھول جاتا ہے اور دل کی پاتال تک خوشی و مسرت کا بسیرا ہو جاتا ہے۔

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

مکرم شیخ مظہر احمد صاحب ایڈووکیٹ آف اوکاڑہ اپنا چشم دیدواقعہ یوں بیان کرتے ہیں
جلسہ سالانہ یو کے اسلام آباد ٹلفورڈ کے موقع پر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے روضہٴ مبارک پر دعا کے لئے تشریف لائے تو واپسی پر ایک معصوم بچہ حضور انور کی طرف بڑھا اور حضور پرنور سے پیار لینے کے ساتھ ہی چاکلیٹ کی فرمائش کر دی۔ حضرت صاحب وہاں کھڑے ہو گئے اور ایک خادم کو اپنی رہائش گاہ پہ بھیجا اور بتایا کہ میری فلاں میز کی فلاں دراز میں چاکلیٹس پڑی ہیں وہ لے آوٴ۔ جب وہ خادم چاکلیٹس لے آیا تو حضور انور نے بچہ کو چاکلیٹ دی اور پھر پیار کر کے وہاں سے روانہ ہوئے۔ گو حضرت صاحب کو وہاں کئی منٹ ٹھہرنا پڑا تاہم بچہ کی دلجوئی اور پزیرائی کے بعد ہی وہاں سے آگے بڑھے۔ تب سب ناظرین اس بچہ کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔

؎ یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

(مبشر احمد ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022

اگلا پڑھیں

تم ضرور امر بالمعروف کرو