• 11 جولائی, 2025

خلافت سے وفا

ایک احمدی عورت کا نصب العین

جب خدا تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا اور نسلِ انسانی کا آغاز کیا تو ایک ایسے وجود کو بنانا ضروری سمجھا جو بے لوث محبت و شفقت اور خدائی رنگ اپنے اندر رکھتی ہو۔ جس کی کوک میں دنیا کا مستقبل پروان چڑھ سکے۔ وہ صنف، وہ قوموں کی تربیت کی پاسبان ہے صنفِ نسواں۔

عورت: کبھی بیٹی، کبھی بہن اور کبھی ماں کی حیثیت سے تربیت اور معاشرے کو بہتر بنانے میں مصروف رہتی ہے۔ اور تو اور ماں جیسی شخصیت کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے دنیا کی ترقی اور قوموں کی تربیت کا ایسا کلیدی مقام عطا کیا ہے جو کسی اور رشتہ اور جنس کو حاصل نہیں۔ پس یہ کہنا کہ عورتوں کی تربیت کرلی جائے تو آنے والی نسلیں بھی سنبھل جاتی ہیں ہرگز غلط نہ ہوگا۔

پس ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے اس محسنِ انسانیتﷺ کہ ذریعہ سے صنفِ نسواں کو اسکا کھویہ ہوا مقام اور اسکی ذمہ داریوں کو پھر سے اجاگر کیا۔ اور عورت کو یہ احساس دلوایا کہ خدا کے نائب ہونے کی حیثیت سے اپنی اور اپنی اولادوں کی روحانی پرورش اسکے زمہ ہے۔

اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کہ ذریعہ سے انسانیت کی خستہ حالی پر رحم فرماتے ہوئے دنیا میں خلافتِ اسلامی کا نظام اپنے مندرجہ ذیل وعدہ کو پورا کرتے ہوئے پھر سے فرمایا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

آیت استخلاف میں جن اعمال کو خدا تعالیٰ نے مومنین کی نشانی بتادیا ہے۔ ان میں کلی طور پر خدا کے بھیجے گئے کلام اور نبی کی پیروی کرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے چلے جانا ہے۔ اور ناصرف خود بلکہ اپنی اولادوں اور اپنے شوہروں اور اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو بھی اس راہ پر چلنے کی عملی تلقین کرنا ایک احمدی مسلمان عورت کی ذمہ داری ٹھہرتا ہے۔

لیکن بظاہر محض دو حکموں کا مشاہدہ جب ہم دور بینی نگاہ سے کرتے ہیں تو ہمیں اس میں پائے جانے والے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ جن کی طرف ہمارے خلفاء وقتاً فوقتاً ہماری توجہ مرکوز کرواتے رہتے ہیں۔

احمدی عورتوں کو کیسا ہونا چاہیے؟ جلسہ سالانہ کہ موقعہ پر عورتوں کو نصائح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’جب تک تم احمدیت کی تعلیم کو پورا نہیں کروگی احمدی کہلانے کی مستحق نہیں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تم پوری احمدی بنوتاکہ اگر ایسا وقت آئے جب ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے تم سے جدا ہونا پڑے تو تم ہمارے بچوں کی پوری پوری تربیت کرسکو۔ دنیا اِس وقت جہالتوں میں پڑی ہوئی ہے۔ تم قرآن سمجھو اور خدا کے حکموں پر چلو۔‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول صفحہ185)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ احمدی عورتوں کو انکا مقام یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے احمدی خواتین! میں تم سے توقع رکھتاہوں، خدا کا رسول تم سے یہ توقع رکھتا ہے، اس رسول ﷺ کا خدا تم سے توقع رکھتا ہے کہ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ مرد تمہیں کیا کہتے ہیں اور ہر ایک نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ نئی فتوحات حاصل کرو یہاں تک کہ تمہارے مردوں میں بھی غیرت جاگ اٹھے اور وہ بھی دین کی حمیت میں اور دین کے دفاع میں تم سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اگر تم ایسا کرو تو ہندوستان چند صدیوں کی بات نہیں چند دھاکوں میں اسلام کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ اور اس فتح کا سہرا تمہارے سر لکھا جائیگا۔ اے احمدی خواتین! تمہارے سر پر اس کا سہرا ہوگا۔ اے احمدی خواتین! کوئی مرد دلہا اس سہرے کا حقدار نہیں یہ احمدی دولہنیں محمد مصطفٰیﷺ کے دین کی خاطر نیکیوں سے سجی ہوئی دلہنیں ہیں جن کے سر اس فتح کا سہرا باندھا جائیگا۔ خدا کرے کہ آپ کو بھی یہ سہرا نصیب ہو اور مردوں کو بھی یہ سہرا نصیب ہو۔‘‘

(خطاب 27 دسمبر 1991 از کتاب اوڑھنی والیوں کی لئے پھول صفحہ263)

احمدی مائیں خلافت سے وفا دِلوں میں
کیسے ڈال سکتی ہیں؟

خاکسار نے اپنی والدہ اور بزرگان سے جن چند باتوں کو سیکھا ہے اسکا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ اور اس میں سب سے اہم ایک واقعہ میری اپنی زندگی کا ہے جو مختصر طور پر یہاں لکھتی ہوں:
ہم 4 بہن بھائی ہیں اور ہمارے والد ہمارے بچپن میں بیرونِ ملک ہوا کرتے تھے۔ اور میری والدہ نے اکیلے ہم بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ گھر اور باہر کے تمام کام اور ذمہ داریاں بھی پوری کیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک احمدی عورت ہونے کے ناطے انہوں نے ہماری دینی تعلیم پر بھی خوب زور دیا۔ اس زمانہ میں ہمارے گھر ڈش اینٹینا کی سہولت نہیں ہوا کرتی تھی اور ہر جمعہ کو ہماری والدہ ہم چاروں بچوں کو لے کر ہماری صدر صاحبہ کہ گھر خلیفہ وقت کا لائیو خطبہ جمعہ سنوانے لے کر جایا کرتی تھیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ ہم بچوں کو یہ پتہ تھا کہ کچھ ہوجائے ہم کسی صورت میں بھی خطبہ کو نہیں مِس کرسکتے۔

اس ایک چھوٹی سی عادت نے ہم بچوں کے دل میں خلیفہ وقت کا دیدار پاکر اور انکی باتیں سن سن کر خلافت کا مقام ہمارے دِلوں میں ایسا نقش کردیا۔ کہ میری ہر ہر سانس میں خلافت سے محبت ٹھاٹھیں مارتی ہے۔ اور میری رگ رگ میں میرے پیارے امام کی اطاعت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اور میرے کم سمجھ دماغ میں یہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری ہے۔ کہ وہ خلافت سے ایسی بے لوث محبت اور اطاعت کا عملی ثبوت اپنی اولاد اور ارد گرد پائے جانے والے ہر انسان کے سامنے پیش کرے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی ہماری نسلیں اس حبل اللہ کا دامن چھوڑیں۔ ان شاءاللہ

اختتامیہ

پس آج خلافت کے آسمانی نظام سے پختہ طور سے جڑ جانا ہی ایک احمدی عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اور اس ذمہ داری کو پورا وہ تب ہی کرسکتی ہے جب وہ خلیفہ وقت کے کہے ہوئے ہر ہر لفظ کو اپنی زندگی کا دستورالعمل بنالے۔

آخر پر میں اس مضمون کا مغز جو کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی عورت کو اسکے مقام، ذمہ داری اور خلافت کی اس سے امیدوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا پیش کرتی ہوں آپ فرماتے ہیں:
’’ایک روایت میں ہے کہ غزوہ احد میں حضرت امِّ عمارہ رضی اللہ عنہما کے جسم پر بارہ زخم لگے تھے اور علامہ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ غزوہ احد کے بعد انہوں نے بیعتِ رضوان میں، جنگِ خیبر اور دوسری جنگوں میں شرکت کی اور ایک روایت میں ہے کہ فتح مکّہ کے وقت بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ تھیں۔ حضرت امِّ عمارہ کا جراتمندانہ فعل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا، رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے لئے تھا، اسلام کی خاطر قربانی کرنے کے لیے تھا۔ آج بھی احمدی عورتوں نے اس زمانے کی مناسبت سے اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ اور صبر کے نمونے دکھائے ہیں اور دکھا رہی ہیں۔ اس زمانے میں اگر جنگ کے حالات ہوں تو احمدی عورت کو وہ نمونے دکھانے پڑے تو وہ بھی دکھائے گی ان شاءاللہ اور پیچھے نہیں رہے گی۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 مستورات سے خطاب)

خدا تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے امام کی ہر آواز پر لبیک کہنے والی اس اُمِّ عمارہ کی مانند بن جائیں جس نے جرات و بہادری میں مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اور خلافت کی جانب اٹھنے والے ہر شر کو کچل دیں اور خلافت کے حقیقی بازو بن جائیں تا ہماری نسلیں بھی اس حصارِ عافیت کی پناہ میں آجائے۔ آمین

سیّدی مرشدی تو سلامت رہے، تا قیامت رہے
تیرے دکھ اور غم ہنس کہ جھیلیں گے ہم، تو سلامت رہے

وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمين

(سدرة المنتہیٰ۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2022

اگلا پڑھیں

تم ضرور امر بالمعروف کرو