• 11 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 47)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 47

ایشیا ٹریبون نے اپنی اشاعت 30 جولائی 2010ء صفحہ 15 پر پورے صفحہ کی ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر 9 تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ تصاویر میں دو تصاویر سامعین جلسہ کی۔ ایک میں مکرم مولانا اظہر حنیف صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ایک میں مولانا نسیم مہدی صاحب اور ایک میں خاکسار سید شمشاد ناصر تقریر کر رہا ہے۔ ایک تصویر میں مکرم امیر صاحب ایک مہمان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (امیر جماعت امریکہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب) ایک تصویر Blood Drive کی ہے۔ ایک میں چند جماعت کے سرکردہ احباب بیٹھے نظر آرہے ہیں۔

اخبار کی شہ سرخی اس طرح ہے۔

جماعت احمدیہ امن اور محبت کی داعی

امریکی ریاست ورجینیا میں جماعت احمدیہ کا 62 واں سالانہ اجتماع ملک بھر سےچھ ہزار سے زائد احباب و مہمانوں کی شرکت۔

اخبار نے لکھا کہ احمدیہ مسلم جماعت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنی والی متحرک اور اصلاحی اسلامی تحریک ہے جس کی بنیاد 1889ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے انڈیا میں رکھی تھی۔ اب جماعت احمدیہ دنیا کے 190 ممالک میں قائم ہو چکی ہے۔ اور دنیا بھر میں اس کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ امریکہ میں جماعت احمدیہ کا قیام 1921ء میں ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے ہاتھوں ہوا۔ یہ پہلی مسلمان تنظیم ہے جس نے اسلام کو امریکہ میں متعارف کرایا۔

جماعت احمدیہ اس عقیدہ پر یقین رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذہبی جنگوں کے خاتمے، انسانیت کے قتل عام کی مذمت کرنے اور دنیا میں امن اور انصاف کو قائم کرنے کے لئے حضرت احمدؑ کو بھیجا۔ حضرت غلام احمد قادیانیؑ نے اسلامی تعلیمات کو دوبارہ اصل حالت میں زندہ کیا اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔

اجتماع میں امریکہ کے علاوہ کینیڈا، انگلینڈ، جرمنی، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی احمدی احباب شریک ہوئے۔ اجتماع میں امریکی حکومت اور ضلعی انتظایہ اور بیرونی ممالک کی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔

امام شمشاد ناصر احمدیہ مسلم کمیونٹی جنوب مغربی امریکہ کے ریجن کے مشنری ہیں انہوں نے خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی 1973ء سے وقف کر رکھی ہے۔ وہ جامعہ احمدیہ ربوہ پاکستان کے فارغ التحصیل ہیں۔ آپ اسلامی تعلیمات کے سکالر ہیں اور وہ احمدیہ اسلام اور دیگر مذہبی فرقوں کو قریب لانے میں پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ امام شمشاد کے مضامین باقاعدگی سے اردو، انگلش اور عربی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

ہفت روزہ پاکستان ایکپریس نے اپنی اشاعت 30 جولائی 2010ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’گندم کے کھیت میں انار کی فصل‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون دوسرے اخبار کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 20تا26 اگست 2010ء صفحہ 17 پر پورے صفحہ پر ہمارے امریکہ کے 62 ویں جلسہ سالانہ کی خبر تفصیل کے ساتھ 7 بڑی تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ تصاویر میں مکرم مولانا اظہر حنیف صاحب تقریر کرتے ہوئے، مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب تقریر کرتے ہوئے، خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کرتے ہوئے، مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب امیر جماعت امریکہ ایک سیاستدان سے ہاتھ ملاتے ہوئے، خون کے عطیہ جات کے بوتھ کی تصویر، نیز جلسہ کے سامعین کی اور مہمانوں کی 2 بڑی تصاویر شامل اشاعت ہیں۔

اخبار نے جلسہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جماعت احمدیہ امریکہ کا 62 واں جلسہ سالانہ 16تا18 جولائی منعقد ہوا۔ جس میں 6 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی اور محبت سب سے اور نفرت کسی سے نہیں کا مظاہرہ کیا۔

اس جلسہ میں کینیڈا، گوئٹے مالا، جرمنی، انگلینڈ، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی جماعت احمدیہ کے افراد شامل ہوئے۔ جلسے میں شرکت کے لئے مقامی اور مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جنہوں نے تقریبات کو اپنے انداز میں سراہا اور جماعت احمدیہ کی کوششوں کی تعریف کی۔ تینوں دن مقررین نے مختلف ایمان افروز موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ امیر آف امریکہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر نے افراد جماعت کے جذبہ حب الوطنی اور امریکہ کی ترقی میں ان کی محنت، لگن اور مثبت کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اعلیٰ اخلاق سے دنیا کو اسلام کے پر امن چہرے سے روشناس کروانا چاہئے اور ہر احمدی کو جماعت کے نعرے ‘‘محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں’’ کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ
امریکہ میں جماعت احمدیہ کے مشنری انچارج اور نائب امیر محترم نسیم مہدی صاحب نے ’’سانحہ لاہور، ہمارا انداز فکر اور جوابی طرز عمل‘‘ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے اس دردناک سانحہ پر جماعت احمدیہ کے جوابی طرز عمل پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ ایک طرز جدید خود کار رائفلوں، ہینڈ گرنیڈز اور خودکش جیکٹس پہنے بمبار حملہ آور خطبہ جمعہ کے دوران دو مساجد میں نہتے نمازیوں پر حملہ آور تھے۔ اور دوسری طرف جماعت احمدیہ درود شریف اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ورد کر رہے تھے۔ ظالم خودکش بمبار حملہ آورروں نے 86 افرد کو شہید کیا اور ایک سو سے زائد افراد کو زخمی کیا۔

امام شمشاد ناصر مسجد بیت الحمید چینو جو کیلی فورنیا سے آئے تھے، نے آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ پر کفار مکہ کے ظلموں کا تقابلی جائزہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ہونے والے ظلموں میں کیا۔ انہوں نے کہا حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت احمدیہ کی بنیاد 1889ء میں رکھی۔ آپ کے دعویٰ ماموریت کے پہلے دن ہی سے آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی تھی، پاکستان، بنگلہ دیش، اور سعودی عرب جیسے ممالک میں جہادی اسلام اور بنیاد پرست مسلمان کہلانے والوں نے جماعت پر ظلم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا، پاکستان جہاں چار ملین سے زائد احمدی آباد ہیں ان پر بہانے بنا بنا کر ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو قانونی طور پر غیرمسلم قرار دیا تو اس کے فوراً بعد حکومت کی سرپرستی میں ظلم و استبداد کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا اور 1984ء میں ایسے کالے قوانین بنائے گئے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ان غیراسلامی بلکہ غیرانسانی قوانین کے ذریعہ جماعت احمدیہ سے ہر طرح کی آزادی چھین لی گئی۔ ان قوانین کے مطابق اپنے آپ کو مسلمان کہنے بلکہ مسلمان ہونے کا اظہار کرنے پر بھی افراد جماعت احمدیہ کے لئے قید، جرمانے اور جیل کی سزا ہے۔ اللہ کا نام لینے پر بلکہ کسی پر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے ذریعہ سلامتی بھیجنے پر بھی سزا مقرر کی گئی ہے، آذان دینے، کسی کے سامنے نماز پڑھنے، مسجد کو مسجد کہنے، قرآن کریم پڑھنے یا سنانے بلکہ سننے پر بھی پاکستان کی عدالتوں سے احمدیوں کو سزائیں دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قابل اور ماہر احمدی ڈاکٹرز اور انجینئرز کے قتل کی خبریں آئے دن سننے کو ملتی ہیں۔‘‘

جلسہ سالانہ کے ایام میں روزانہ نماز تہجد اور قرآن کریم کا درس بھی دیا جاتا رہا جو بالترتیب مولانا انعام الحق کوثر صاحب آف شکاگو اور مکرم مولانا ارشاد احمد ملہی صاحب نے دیا۔

اخبار نے مزید لکھا کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کا آغاز 1891ء میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کے دور میں شروع ہوا اور پہلے جلسہ میں صرف75 احباب شامل ہوئے تھے۔ اب یہ جلسے تمام دنیا کے ممالک میں ہوتے ہیں۔ جن میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں، انسانی اخوت اور بھائی چارے کا وہ نظارہ ان جلسوں میں نظر آتا ہے جو اس وقت دنیا سے ناپید ہو چکا ہے۔‘‘

الانتشار العربی اخبار نے اپنے عربی سیکشن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ 9 اپریل 2010ء کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

اخبار لکھتا ہے کہ امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد نے اپنے خطبہ جمعہ میں تبلیغ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ہمیں چاہئے ہم دنیا میں اسلام کی دعوت کو پھیلائیں اور اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ تب ہو سکتا ہے کہ ہم خود اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں، تقویٰ اختیار کرنے والے ہوں اور رسول کریم ﷺ کی کامل اتباع کرنے والے ہوں۔ اس وقت اسلام تمام دنیا میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے اور یہ تبھی ممکن رہے گا کہ ہم اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے مستقل جدوجہد کرتے رہیں اور ہمارا کام ہے کہ تمام دنیا کو خداتعالیٰ کی وحدانیت کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی دعوت دیتے چلے جائیں۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ میرے آنے کا مقصد توحید کا قیام ہے اور دنیا کو دین واحد پر جمع کرنے کے لئے تم میری پیروی کرو تبھی تم اس مقصد کو حاصل کرنے والے کہلا سکتے ہو جو میری بعثت کا مقصد ہے۔ لیکن نرمی سے اور نرمی اس وقت آتی ہے جب دلائل پاس ہوں۔ ہمارے مخالفین ہمارے خلاف اسی لئے سخت زبان استعمال کرتے ہیں گالیاں نکالتے ہیں یا سختیاں کرتے ہیں کہ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے قرآنی دلائل سے تمہیں اس قدر بھر دیا ہے کہ غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی بحثوں میں، اپنی باتوں میں نرمی پیدا کرو، دنیا پر ثابت کرو کہ اسلام کی تعلیم وہ خوبصور ت تعلیم ہے جس کو پھیلنے کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں۔

الامام مرزا مسرور احمد نے خطبہ میں قرآن کریم کی آیت وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (حٰمٓ السجدہ: 34) فرمایا بہترین بات جو تم کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ باقی تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ فعال ہو کر تبلیغ کرے اور اس کے لئے عبادت بھی بہت ضروری ہے۔ پس احمدیوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم اس رسول ﷺ پر ایمان لاتے ہیں جنہوں نے ہمیں عبادت کے طریق سکھائے ہیں۔ آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ (الشوریٰ: 49) کہ تجھ پر پیغام پہنچا دینے کے علاوہ کچھ فرض نہیں ہے۔

پس ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ مسلسل جدوجہد کرے اور اسلام کے پیغام کو اپنے اپنے ملک کے ہر باشندے تک پہنچائے اور جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے دعا کرے اور اپنا عملی نمونہ پیش کرے، عبادت کرے اور نرمی سے کام لے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ

(القصص: 57)

پس دنیا کی اصلاح کے لئے آنحضرت ﷺ کی تڑپ اور آپ کی دعاؤں کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا خدا کا کام ہے۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا اور دعائیں کرنا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو، ہمیشہ اس کے آگے جھکنے والے ہوں اور اس سے مدد پانے والے ہوں۔ اس کی رضا کو حاصل کرنےوالے ہوں اور احسن رنگ میں دعوت الی اللہ کرنے والے ہوں۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 6 اگست 2010ء صفحہ21 پر قریباًپورے صفحہ پر ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر 5تصاویر کے ساتھ انگریزی میں شائع کی۔ ایک فوٹو میں مکرم امیر صاحب حکومت کے مرکزی عہدے دار سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ ایک خون کے عطیہ والا بوتھ ہے ایک سامعین کرام اور مہمانوں کی تصویر ہے اور ایک تصویر میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے۔ خبر کا متن اور نفس مضمون وہی ہے جو اس سے پہلے دیگر اخبارات کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 11اگست 2010 صفحہ9 پر عربی میں ایک مضمون بعنوان ’’مولد و نشاۃ میرزا غلام احمد‘‘ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں حضرت مسیح موعود ؑ کی قادیان میں ولادت۔ (1835) اور پھر بچپن کے حالات اور آپ کے خاندان کے بارے میں بارے میں اور حضرت مسیح موعودؑ امام مہدی اور مسیح موعود کے دعاوی کے بارے میں، نیز اس وقت سلطنت برطانیہ اور زمانے کے حالات کے بارے میں اور آپ کے مسیحیت کے مقابلہ کے لئے کتب کا لکھنا اور مناظرے اور اسلام کے دفاع کے لئے آپ کی کوششوں اور کتب لکھنے اور چیلنج اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت عیسیٰ کی وفات کے بارے میں خبر دی کہ وہ اپنی طبعی وفات سے اس جہاں سے گزرے ہیں۔ اور وہ دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔ نیز آپ نے الوہیت مسیح اور کفارے کا رد بھی فرمایا ہے اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تحریر کا اقتباس بھی شائع کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے اور اپنی رحمت سے بھیجا ہے نیز یہ کہ مجھ پر خداتعالیٰ کے بے شمار انعامات بھی ہیں اور مجھے اپنے الہام اور کلام سے بھی نوازا ہے اور مجھے اپنے حضور سے علم بخشا ہے اور خود ہی میری راہنمائی بھی فرمائی ہے اور اپنی رضا کی راہوں کی طرف میری راہنمائی فرمائی ہے اور مجھے اس وقت کا امام مقرر فرمایا ہے اور مجھے خلیفہ بنایا ہے اور اس صدی کے آخر پر مجھے مجدد بنا کر بھیجا ہے…… اور آپ نے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ مجھے بغیر دلیل اور برہان کے قبول کر لو بلکہ میں کہتا ہوں خدا کے واسطے انصاف سے بھی کام لو اور اس بات کو دیکھو جو خداتعالیٰ نے مجھے براہین عطا فرمائے ہیں اور اگر مجھ میں وہ نشانیاں نہ پاؤں جو خدا کے نبیوں اور مرسلین میں ہوتی ہیں تو بے شک مجھے ردّ کر دو۔‘‘

مضمون کے آخر میں جماعت احمدیہ مسجد چینو کا ایڈریس اور فون نمبر اور خاکسار کا نام بھی معلومات کے لئے دیا گیا ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 11اگست 2010ء پہلے صفحہ پر مسلمانوں کے بارے میں خبر شائع کی ہے۔ یہ خبر رمضان المبارک کی آمد کے بارے میں ہے۔ اس خبر میں اخبار کے نمائندہ نے مختلف لوگوں کے انٹرویوز شائع کئے ہیں۔ خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ ’’رمضان کے ذریعہ انسان روحانیت میں ترقی کرتا ہے اور اس کے اندر قربانی کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے یہ بات امام شمشاد ناصر جو مسجد بیت الحمید کے امام ہیں نے کہی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مسلمان جو بالغ ہیں اور صحت مند ہیں وہ رمضان کے آنے کا انتظار کرتے ہیں تا اس مبارک مہینے میں وہ عبادت بجا لا سکیں اور اپنے رب کا قرب حاصل کر سکیں اور اپنے آپ کو بہتر انسان بنا سکیں۔

امام شمشاد نے ہمیں مزید بتایا کہ رمضان خداتعالیٰ سےصلح کرانے کے لئے آتا ہے تا ہم دوسروں کے ساتھ بھی امن کے ساتھ رہیں اور سوسائٹی کے غریب اور حاجت مندوں کا خیال رکھیں۔

اسلامک سینٹر میں ہفتہ اور اتوار کے دن افطاری ہو گی جبکہ مسجد بیت الحمید میں امام شمشاد نے کہا ہر روز اس کا انتظام ہو گا۔

اخبار نے خاکسار کے بیان کو کہ ’’رمضان ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم خدا کے ساتھ صلح اور امن اختیار کریں اور غریب اور حاجت مندوں کا خیال رکھیں اور دنیا میں قائم کریں‘‘ جلی حروف میں تحریر کیا ہے اور اس بیان کے نیچے خاکسار کا نام اور مسجد بیت الحمید کا نام بھی لکھا ہے۔

دی پریس انٹرپرائزز نے اپنی اشاعت 2 اگست 2010 ء صفحہ B-12 پر قریباً پورے صفحہ پر دو بڑی تصاویر کے ساتھ اس عنوان سے خبر دی ہے۔

Spiritual Food روحانی غذا۔ یہ خبر رمضان المبارک کے بارے میں ہے۔

اس خبر میں جو دو بڑی تصاویر ہیں وہ ہماری مسجد کی ہیں۔ ایک تصویر میں احباب افطاری کر رہے ہیں۔ دوسری تصویر میں مسجد کا گنبد اور مسجدکی عمارت کا ایک حصہ دکھایا گیا اور کچھ احباب روزہ افطار کرتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ خبر Mr. David Olson نے لکھی ہے۔

اخبار نے مختلف احمدیوں کے انٹرویوز بھی اس میں شامل کئے ہیں۔ رمضان جٹالہ کہتے ہیں کہ رمضان ہمارے لئے روحانی غذا کا سامان کرتا ہے تاکہ ہم رمضان میں دوسروں کا خیال رکھ سکیں اور ان لوگوں کی تکلیف کا احساس بھی کریں جو حقیقی طور پر غربت کا شکار ہیں، جٹالہ نے یہ باتیں اپنے روزہ کو افطار کرتے وقت بتائیں۔

اخبار نے لکھا کہ رات کو نماز عشاء اور تراویح کے بعد (جو ان دنوں میں دیر سے ہوتی ہے) کے باوجود لوگ صبح سحری کے لئے اٹھتے، نماز پڑھتے اور روزہ رکھنے کے لئے کھانا کھاتے ہیں) رمضان کی تاریخ (آمد و اختتام) چاند کی آمد کے حساب کے ساتھ ہوتی ہیں اور آج کل کے حساب سے 15 گھنٹے کا روزہ بنتا ہے۔

امام شمشاد ناصر نے بتایا کہ رمضان میں لوگ زیادہ قربانی کرتے ہیں، خواہ وہ مالی ہو یا وقت کی ہو۔ اپنا زیادہ وقت خدا کو یاد کرنے، دعائیں کرنے میں لوگ گزارتے ہیں۔ امام شمشاد نے کہا کہ جتنی تکلیف انسان برداشت کرتا ہے اتنا ہی خدا کی طرف سے اسے زیادہ انعام بھی ملتا ہے۔

اسامہ مظفر 17 سال نے کہا کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مشکل تھا کیونکہ اس کے سکول میں جو اس کے ساتھی طلباء ہیں وہ تو روزے نہیں رکھتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے دن بھی بڑے اور ادھر گرمی بھی ہے۔ میرے لئے پہلا روزہ گزرنا بھی مشکل تھا لیکن پھر خدا نے فضل کیا باقی روزے رکھنے آسان ہو گئے۔

محمد عبدالغفار (نواحمدی مسلم) نے کہا کہ روزے انسان کی روحانیت بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ صرف کھانے پینے سے ہی رکنا انسان کو خدا کے قریب کر دیتا ہے اگر محض یہ اسی کی خاطر ہو اور رمضان کا مقصد بھی یہی ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ