پاکستان کا شمال، حسن سے مالامال
قسط اول
امسال پاکستان میں مارچ کا مہینہ آیا تویوں لگا کہ گویا مارچ سے قبل غلطی سے ماہ جون آگیا ہے۔مارچ میں پڑنے والی اس گرمی نے انسانوں کے ساتھ ساتھ شمال کے کوہساروں پر پڑی برفوں پر بھی گہرے اثرات چھوڑےاوران برفوں نے وقت سے پہلے پگھلنا شروع کر دیا۔چنانچہ شمالی علاقہ جات کی وہ گزرگاہیں جو اپریل کے آخر اور مئی میں کھلتی تھیں، رواں برس ان راستوں نے اپریل کے آغاز میں ہی سیاحوں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیاہے۔اور قدرتی حسن کے دیوانوں نے ماہ اپریل میں ہی دل ونظر کو موہ لینے والے دلفریب مناظر سے محظوظ ہونے کی خاطر ان وادیوں کا رخ کر لیا ہے۔نیز امسال سوائے گلیات کے،دیگر بالائی علاقوں میں برفباری بھی پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے۔
اگر آپ بھی رواں برس شمالی علاقہ جات کےسرسبزمیدانوں،ہرے بھرےسرو قامت درختوں سےڈھکے پہاڑوں،دورفلک سے سرگوشیاں کرتے برف کی سفید چادر اوڑھے کہساروں اور بہتے ہوئے فیروزی پانیوں کے دلربا نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو آئیے آپ کو ان علاقہ جات کا مختصر تعارف کرواتے ہیں تاکہ دورانِ سیاحت آپ کو جملہ بنیادی معلومات میسر ہوں او ر آپ باآسانی اپنے وقت اور جیب کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنا پروگرام ترتیب دے سکیں۔زیرِ نظر مضمون میں پاکستان کے ان شمالی علاقہ جات کا تعارف دیا جارہا ہے جو راولپنڈی سے نسبتاً قریب ہیں اور باآسانی دو سے تین دن کا پروگرام ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
لیکن سفر سے قبل چند بنیادی امور ضرور ذہن میں رکھے جائیں۔
1۔شمالی علاقوں کا سفر کرتے ہوئے یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان علاقوں میں week end یعنی جمعہ،ہفتہ اور اتوار کے روز باقی چار دنوں کی نسبت سیاحوں کا رش زیادہ ہوتا ہے۔اس وجہ سے مقامی ٹرانسپورٹرز اور ہوٹل مالکان منہ مانگے کرایے وصول کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ممکن ہو تو week end کے علاوہ دیگرایام میں سیاحت کا پروگرام بنایا جائے۔
2۔چونکہ پاکستان میں مون سون کے موسم کی ابتداءجولائی میں ہو جاتی ہے اور بارشوں کا اسپیل شروع ہو جاتاہے۔برساتوں کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا بھی ہو سکتا ہے اس لیے ماہ جون سیاحت کے لیے سب سے مناسب مہینہ ہے۔
3۔کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت نے ایک ٹول فری نمبر 1422 کا آغاز کیا ہے جس پر کال کرکے سیاح اپنی منتخب کردہ منزل کے حوالے سے مختلف معلومات لے سکتے ہیں۔ اس ٹول فری نمبر کے ذریعے کسی بھی سیاح کو اپنے منتخب کردہ سیاحتی مقام کے ہوٹلوں میں جگہ کی گنجائش، راستوں کی صورت حال، موسم، سیلاب، ٹریفک، خوراک، بازار، ہسپتال اور دیگر معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح محکمہ سیاحت وثقافت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی مختلف علاقوں کی تفصیل ہر کچھ گھنٹے بعد اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔
4۔ان علاقوں کے سفر پر جانے سے قبل اپنا شناختی کارڈ ضرور ہمراہ رکھا جائے کیونکہ مختلف مقامات پر قومی شناخت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
آئیے اب ان علاقوں کا کچھ تعارف حاصل کیا جائے۔
گلیات
پہاڑی علاقوں میں گلی پہاڑ کے ایک طرف سے دوسری جانب جانے والے راستے کو کہا جاتا ہے جسے اردو میں درّہ بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں موسمِ گرما میں سب سے زیادہ سیاح مری اور اس سے ملحقہ گلیات کا رخ کرتے ہیں۔کیونکہ یہ راولپنڈی سے قریب ترین پر فضا مقام ہے۔بعض سیاح ایبٹ آباد کی جانب سے بھی ان گلیات کی طرف آتے ہیں۔راولپنڈی سے قریباً 33کلومیٹر کی مسافت پرایک سےڈیڑھ گھنٹہ کا سفر کر کے آپ باآسانی گلیات کے حسین مقامات میں داخل ہو جاتے ہیں۔اسلام آباد سے مری جانے کے لیےموٹر وے بھی بن چکی ہےجبکہ عام روڈ سے بھی جایا جاسکتا ہے۔یہ روڈ مظفرآباد جانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔بالعموم سیاح پہلا پڑاؤ مری میں کرتے ہیں لیکن مری پہنچنے سے قبل راستہ میں بعض خوبصورت تفریحی مقامات بھی موجود ہیں جن سے راستہ میں لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔اگر آپ موٹر وے کی بجائے پرانی روڈ پر سے جائیں تو راستہ میں چھتر پارک(ویسے اب یہاں پارک موجود نہیں ہے محض ایک خوبصورت مقام ہے)، سرگراں (پکنک پوائنٹ)، کمپنی باغ، گھوڑا گلی اور بانسرہ گلی (مری سے قریباً 4 کلومیٹر قبل ہے اور یہاں مری چیئر لفٹ تک جانے کے لیے راستہ موجود ہے) وغیرہ جیسے خوبصورت مقامات بھی آتے ہیں۔ گلیات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر سیاحوں کے سستانے کے لیے ریسٹ ایریا موجود ہے۔جہاں کھلے آسمان تلے cooking بھی کی جا سکتی ہے۔
مری
مری ملکہ کوہسار بھی کہلاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کا نام حضرت مریمؑ (Marry) کےنام پر موسوم ہے۔محققین کے مطابق حضرت مریمؑ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ فلسطین سے ہجرت کرکے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی جب یہاں پہنچیں تو آپ کی وفات ہو گئی اور یہیں آپ کی تدفین ہوئی۔پنڈی پوائنٹ پرآج بھی ایک قبر یہاں موجود ہے جو بعض محققین کے مطابق حضرت مریمؑ کی ہے۔1968ء میں اس قبر کے قریب پی ٹی وی کے بوسٹر کی تنصیب ہو گئی۔ یوں یہ ایریا پی ٹی وی کے کنٹرول میں آگیا اور نوے کی دہائی سے بوسٹر کے حفاظتی نقطہ نظرکےتحت عوام کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔
اس کی موجودہ بنیاد 1851 میں رکھی گئی۔ یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدر مقام بھی رہا۔اس دور میں فوجی اور سول برطانوی حکام اور متمول مقامی باشندوں نے یہاں آباد ہونا شروع کر دیاسطح سمندر سے اس کی بلندی 7500 فٹ ہے۔ ایک عظیم الشان چرچ شہرکے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ 1857 میں تعمیر ہوا۔ چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے «مال روڈ» کہا جاتا ہے۔ یہاں شہر کے مشہور تجارتی مراکز اور کثیر تعداد میں ہوٹل قائم ہیں۔ مال روڈ سے نیچے مری کے رہائشی علاقے اور بازار قائم ہیں۔ خشک میوہ جات اور سامان آرائش 1(ڈیکوریشن پیس)کی دکانیں پائی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ8801ء کے عشرے میں ’پارک لاج‘ اور’نیٹ وڈ ہاؤس‘ نامی دو عمارتیں فری میسنز کی سرگرمیوں کا مرکز تھیںمری میں پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے 1891 میں مشک پوری کی پہاڑیوں کے دامن سے مری کے لیے پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی۔1907ء تک پنڈی سے مری تانگوں پر جایا کرتے تھے۔ 1947ء تک غیر یورپی افراد کا مال روڈ پر آنا ممنوع تھا۔برطانوی باشندوں کے علاوہ مری مہاراجوں اور نوابوں، جاگیرداروں اور متمول کاروباری افراد کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ کسی دور میں مہاراجہ کشمیر اور کپورتھلہ کے مہاراجہ کے بنگلے اس کی رونق میں اضافے کا باعث ہوتے تھے۔مری میں اکثر سورج اور بادلوں کی آپس میں آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔یہاں ڈائیوو،بلال ٹریولز اور نیازی ایکسپریس کی سروسز موجود ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں آتی ہیں۔یہاں پنڈی پوائنٹ پر چیئر لفٹ لگی ہوئی ہے۔مری صوبہ پنجاب میں واقع ہے جبکہ مری سے تھوڑا آگے نتھیا گلی کی جانب جائیں تو پہاڑیاں نامی مضافاتی علاقہ سے پاکستان کے صوبہ خٰیبر پختون خواہ کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہی گلیات کا گیٹ وے بھی کہلاتا ہے۔اگر آپ مری کے اصل حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو صبح صبح کشمیر پوائنٹ یا پنڈی پوائنٹ کی طرف morning walkضرور کریں کیونکہ اس وقت یہ علاقہ انتہائی پرسکون ہوتا ہے اور آپ سر سبزپہاڑوں، بلند و بالادرختوں،آسمان پراڑتے بادلوں اورگھومتے بل کھاتے راستوں کی خوبصورتی کا حقیقی حظ اٹھا سکتے ہیں۔
مری سے نتھیا گلی جانے کے لیے باہر نکلیں تو قریباً دو کلومیٹر پر جھیکا گلی آتا ہے یہاں سےتین راستے نکل رہے ہیں۔بائیں جانب کلڈنہ کی طرف راستہ جاتا ہے جو آگے نتھیا گلی جا رہا ہے۔دائیں جانب پتریاٹہ جبکہ سیدھا بھوربن کو راستہ جاتا ہے۔اگر آپ لوکل ٹرانسپورٹ پر مری آئے ہیں تو یہاں سے ان تینوں جگہوں پر جانے کے لیے مناسب کرایہ پر ہر طرح کی ٹرانسپورٹ مل جاتی ہے۔
کلڈنہ
مری سے قریباً 7 کلو میٹر دوری پر کلڈنہ ہے۔خلافتِ ثالثہ تک یہاں جماعتِ احمدیہ کی مسجد بھی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ مختلف اوقات میں یہاں قیام پذیر بھی رہے ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہاں خطباتِ جمعہ بھی ارشاد فرمائے ہیں۔
پتریاٹہ
مری سے جھیکا گلی دو کلومیٹر جبکہ جھیکا گلی سے پتریاٹہ پتریاٹہ اپنی کیبل کار کے حوالہ سے سیاحوں میں بے حد مقبول ہے۔اس کا آغاز1990ء میں ہوا۔پتریاٹہ نیومری چئیر لفٹ کا کُل سفر سات کلومیٹر پر محیط ہے۔یہاں ایک خوبصورت پارک بھی موجود ہے۔
بھوربن
بھوربن مری سے تقریبا 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔بھوربن کوایک قریبی جنگل کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔۔ کچھ عرصہ قبل اسے اسلام آباد مری ڈبل ایکسپریس وے سے بھی قابل رسائی بنا دیا گیا ہے۔یہاں دیگر ہوٹلوں کے علاوہ P.Cہوٹل بھی موجود ہے۔یہاں گالف کلب کے اردگرد ایک طویل walking track بھی ہے۔
خیرہ گلی
یہ کلڈنہ والے راستے پر ایبٹ آباد کی جانب جانے والی روڈ پرمری سے قریباً14کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک خوبصورت مقام ہے۔یہاں بہت زیادہ ہوٹلز یا ریستوران موجود نہیں۔سیاح یہاں کےپر کیف نظاروں لطف اندوز ہونے اور سستانے کی خاطر کچھ دیر رکتے ہیں۔گلیات کا یہ مقام 2347 میٹر بلندی پر واقع ہے اور یہ بھی ایوبیہ نیشنل پارک میں ہی شامل سمجھا جاتا ہے، یہاں کی بلند چوٹی پر تعمیر شدہ شش پہلو مکان بھی بہت شہرت رکھتا ہے۔
چھانگلہ گلی
یہ گلی مری سے 16 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔یہاں ہوٹلز، ریستورانزاور ایک چھوٹا بازار بھی موجود ہے۔یہاں سے آگے نتھیا گلی تک جگہ جگہ بندر بیٹھے اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔سیاح انہیں اپنے ہاتھ سے کھلانے کے لیے کیلے یا بھٹے(مکئی کی چھلی)ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
ایوبیہ
ایوبیہ جانے کے لیے چھانگلہ گلی سے تھوڑا آگے کوزا گلی سےراستہ جاتا ہے۔اگر آپ پیدل ٹریکنگ کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو کوزہ گلی سے ایک پیدل ٹریک بھی ایوبیہ کی جانب جاتا ہے جس کی لمبائی قریباً دس کلومیٹر ہے۔سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ اس کا پرانا نام گھوڑا ڈھاکہ ہے جہاں انگریزوں نے مقامی قبا ئل عباسیوں، اعوان، چوہدری، مغل اور گکھڑوں کو کنٹرول کرنے اور ان پر حکومت کرنے کے لیےیہاں ایک چھاؤنی بھی تعمیر کی تھی۔ پکنک مقامات، سیرگاہوں اور سرسبز علاقوں کے علاوہ یہاں ایک چیئر لفٹ بھی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے ایوبیہ کے زیریں علاقوں میں خوب صورت جھرنے اور اور بل کھاتے راستے سیاحوں کی تفریح کا سامان ہیں۔یہاں ایک وسیع علاقہ پر مشتمل پارک بنایا گیا ہے۔جسے ایوبیہ نیشنل پارک کانام دیا گیا ہے۔ اس پارک میں کئی اقسام کے پرندے جن میں سنہری عقاب، جنگلی کبوتر، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں جبکہ جانوروں میں کالا ریچھ، جنگلی لومڑی اور لگڑبگھڑ پائے جاتے ہیں۔ایوبیہ کےاونچے نیچےراستوں سے ہوتے ہوئے ایک آبشار پر بھی جایا جا سکتا ہے جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے۔ کالابن واٹر فال ایوبیہ سے تقریباً 13 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی اور محکمہ جنگلی حیات نے ایوبیہ نیشنل پارک میں چند سال پہلے ایک دبی ہوئی سرنگ دریافت کی جس میں قدیم دور کی نقش و نگاری آج بھی موجود ہے۔ یہ سرنگ قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے جسے اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے مرمت کا کام کیا گیااورکچھ عرصہ قبل اکتوبر 2020ء میں اس 129 برس پرانی کچرے اور مٹی میں دبی سرنگ کو اصل حالت میں بحال کرکے سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے۔ اس زیر زمین سرنگ کی تعمیر 1891 میں ایوبیہ اور ڈونگاگلی کے درمیان کی گئی تھی جو طویل عرصہ سے بند پڑی تھی۔ بنیادی طور پر یہ سرنگ اور ٹریک برطانوی فوج کی آمدو رفت کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس سرنگ کا مقصد انگریز حکومت کی فوج کو یہ سہولت فراہم کرنا تھی کہ انھیں بازار سے نہیں گزرنا پڑتا تھا اور گھوڑا ڈھاکہ موجودہ ایوبیہ اور ڈونگہ گلی یعنی مری کے درمیان سفر کم ہو گیا تھا۔ مٹی اور پتھروں سے بنی 250 فٹ لمبی موٹو ٹنل کی چوڑائی 4 فٹ اور اونچائی 6 فٹ ہے۔ بعض مقامات پر اس سرنگ سے گزرنے والے فوجیوں کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ سرنگ کے اندر خوبصورت روشنیاں،راستے میں بیٹھنے کے مقامات اور کافی شاپ بھی موجود ہے۔
ڈونگا گلی
کوزہ گلی سے10کلومیٹر آگے جائیں تو مری روڈ پر ہی ایک بارونق مقام ڈونگا گلی کے نام سے آتا ہے۔ یہ بھی ایک تفریحی مقام ہے۔یہ مکش پوری پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔اس کی بلندی 8،200 فٹ ہے۔ یہاں بازار، ہوٹلز اور ریستوران موجود ہیں۔بعض سیاح نتھیا گلی کی بجائے یہاں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ گرمیوں کے بھرپور سیزن میں بعض اوقات نتھیا گلی میں ہوٹلز پُر ہوجانے کے باعث سیاحوں کو مجبوراً یہاں رات گزارنی پڑتی ہے۔ یہاں ایوبیہ سے ایک خوبصورت اور پر سکون پیدل ٹریک بھی آرہا ہے۔یہ چار کلومیٹر لمبا ٹریک ہے۔ بعض سیاح گاڑی سے اتر کر اس صحت مند تفریح کے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ واکنگ ٹریک مختلف ناموں سے مشہور ہے۔ جن میں ڈونگا گلی ٹریک، ایوبیہ نیشنل پارک ٹریک، پائن لائن ٹریک اورواٹر پائپ لائن ٹریک شامل ہیں۔ یہاں کی فضا اس قدر صاف اور پُر سکون ہے کہ میدانی علاقوں میں پیدل چل کر تھک جانے والے لوگ باآسانی اس چار کلومیٹر لمبے پیدل ٹریک کا سفر طے کر لیتے ہیں اور ان کو تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا۔ڈونگا گلی میں ایک وائلڈ لائف میوزیم بھی قائم ہے۔جہاں مختلف حنوط شدہ جنگلی جانوررکھے گئے ہیں۔
مکش پوری
ڈونگا گلی سے دائیں جانب اوپر کی طرف ایک راستہ اس ٹریک کے لیے نکلتا ہے۔ اس مقام کا اصل نام مکش پوری ہے۔ یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’نجات کی جگہ‘۔ لیکن یہ جگہ مشہور مشک پوری کے نام سے ہے۔
دیگر پہاڑوں اور وادیوں کی دیومالائی داستانوں کی طرح مکش پوری کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوؤں کے لیے مقدس ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ جگہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت کے مرکزی کردار پانڈوؤں سے منسلک ہے، جو یہاں آرام و سکون کی غرض سے آتے تھے۔ مہابھارت کے کُل پانچ ہیروز یعنی پانڈوز ہیں، جنہیں ’پنج پیر‘ بھی کہا جاتا ہے، لہذا بعض روایتوں میں اسے ’پانڈو دا ستھان‘ یعنی ’پانڈو کی جگہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکش پوری پہاڑ کے دامن سے پھوٹنے والے چشموں سے جاری ہونے والا پانی محفوظ کرنے کے لیے ٹاپ پر ٹینک بنائے گئے تھے جس سے 1894 میں ایک پائپ لائن کے ذریعے مری کی پہاڑیوں کے آس پاس کی آبادیوں کو پانی فراہم کیا جاتاتھا۔
مکش پوری ایک سرسبز علاقہ ہے۔ یوں لگتاہے گویا حدِ نظر تک سبز قالین بچھا ہوا ہے۔یہ شوگراں کے پائے ٹاپ اور شڑاں کے مانشی ڈانہ سے ملتا جلتا سرسبز پہاڑ ہے۔ ابتداء میں تقریباً ایک ڈیڑھ کلومیٹر پکا راستہ اور اس کے بعد اڑھائی کلومیٹر کچا راستہ طے کرکے منزل مقصود یعنی مشک پوری ٹاپ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ابتداء میں کافی چڑھائی ہے۔بعض لوگ اس ابتدائی چڑھائی سے گھبرا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔مکش پوری ٹاپ کی بلندی 9243 فٹ ہے۔ سردیوں میں یہ ٹریک برف باری کے باعث کھلا ہوا نہیں ہوتا۔ یہ ایک میڈیم لیول ٹریک ہے۔ بعض فیملیز بھی یہ ٹریک کرتی ہیں۔ لیکن چھوٹے بچوں کے ساتھ اس ٹریک پر پیدل نہ جانا مناسب ہے۔راستے میں کچھ کافی ہٹس بھی ملتے ہیں۔ اگر آپ قدرت کے رنگوں سے دوستی کا تعلق رکھتے ہٰیں تو یہ ٹریک آپ کے لیے بے حد خوبصورت ہے۔ ڈونگا گلی سے مکش پوری کے لیے ڈیڑھ سے دو ہزار روپے میں گھوڑا بھی مل جاتا ہے۔اس ٹریک کا راستہ مکمل جنگل سے گھرا ہوا ہے۔راستے میں مقامی لوگ پانی فروخت کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں ٹاپ پر باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں رات کو کیمپنگ بھی کی جاسکتی ہے۔
نتھیا گلی
کوہ مکشپوری اور کوہ میرانجانی کے دامن میں واقع نتھیا گلی مری سے 30 کلومیٹرجبکہ ڈونگا گلی سے قریباً 5 کلومیٹر دور ہے۔ اسے پیراڈائز آف پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔یہاں گرمیوں میں موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے اور اس موسم میں یہ سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا نظر آتا ہے، جولائی اور اگست کے مہینوں میں یہاں تقریباً روزانہ بارش ہوتی ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی جبکہ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ نتھیا گلی اپنے خوب صورت مناظراور ہائکنگ ٹریکس کے لیے مشہور ہے۔قیام کے لیے معیاری ہوٹلز موجود ہیں۔یہاں ایک چار منزلہ فائیو اسٹار ہوٹل کی بھی تعمیر جاری ہے۔خریداری کے لیے ایک بڑا بازار بھی ہے۔گلیات کی سیر کے دوران سیاح مری اور نتھیا گلی میں قیام کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔نتھیا گلی میں ایک چھوٹا سا پیدل ٹریک اوپر کی جانب جارہا ہے۔جہاں سیاح مختصرہائیکنگ کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔یہ ٹریک ڈونگا گلی میں اترتا ہے۔راستہ میں ایک مقام پر شیر،چیتا اور بعض دیگر جنگلی جانور ایک بہت بڑے پنجرے میں مقید کیے گئے ہیں۔ جن سے بچے اور بڑے محظوظ ہوتے ہیں۔ مری سے آنے والا روڈ آگے ایبٹ آباد جاتا ہے،جو نتھیا گلی سے قریباً40 کلومیٹر ہے۔
ٹھنڈیانی
نتھیا گلی سے 40 کلومیٹر اور ایبٹ آباد سے 20کلومیٹر کی مسافت پرپائن کے درختوں کے جھنڈ میں واقع یہ انتہائی پر فضا مقام ہے۔ایبٹ آباد سے مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ چڑھائی کے بعد یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ راستہ انتہائی خوبصورت اور سڑک بہت اچھی ہے۔کسی بھی طرح کی گاڑی اوپر جا سکتی ہے۔گرمیوں میں بھی رات کے وقت یہاں کافی ٹھنڈ ہو جاتی ہے۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9000 فٹ بلند ہے۔اس کے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔یہاں بہت زیادہ ہوٹلز موجود نہیں ہیں۔کیمپنگ کے لیے ٹھنڈیانی بے حد موزوں مقام ہے۔کچھ عرصہ سے یہاں کیمپنگ پاڈز لگائے گئے ہیں جن میں سولر بجلی، پانی، واش روم کچن وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔ یہاںجانے سے پہلے محکمہ سیاحت کی ویب سائٹ کے ذریعے آن لائن بکنگ کروا ئی جا سکتی ہے۔یہاں پی ٹی وی کا بوسٹر بھی نصب ہے۔بعض سیاح یہاں سے واپسی پر نیچے ہائیکنگ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ جوکہ قریباًتین گھنٹے کی ہائیکنگ ہے۔ٹھنڈیانی سے ایک ہائیکنگ ٹریک براستہ میرن جانی نتھیا گلی کو بھی جاتا ہے۔اگر آپ ہائیکنگ کا شغف رکھتے ہیں تو دو دن کی ہائیکنگ کرتے ہوئے نتھیا گلی پہنچ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
(م م محمود)