• 9 مئی, 2025

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

حضور انور کا مقامی رسم و رواج کو
عزت کی نگاہ سے دیکھنا

دوران ہفتہ حضور انور نے بے شمار جاپانی مہمانوں اور سرکردہ شخصیات سے ملاقات فرمائی اور وہ سب بھی حضور انور کے سامنے اپنے سر جھکاتے تھے۔ جواباً حضور انور بھی اپنا سر ان کی طرف دیکھ کر جھکاتے۔ جس طرح Maori بادشاہ سے نیوزی لینڈ میں حضور انور ان کے رسم و رواج کے مطابق ناک کے ساتھ ناک ملا کر ملے تھے ایسے ہی جاپان کے لوکل لوگوں سے ان کے رسم و رواج کے مطابق ملاقات فرمائی۔ اس حوالہ سے حضور انور کا نمونہ سب کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے جہاں آپ ہمیشہ مقامی رسم و رواج کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی رواج اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔

یوں دوران ہفتہ قافلہ کے جملہ ممبران بھی مستقل طور پر مہمانان سے ملاقات کے دوران اپنے سر جھکاتے رہے اور یہ کہنا پڑے گا کہ پورا ہفتہ یوں ملنے کی وجہ سے مجھے ایسے طریق سے ملنا بہت اچھا لگنے لگا۔

ہیرو شیما جانے کا پلان

جب حضور انور نے 2006ء میں جاپان کا دورہ فرمایا تو آپ Hiroshima کے شہر بھی تشریف لے گئے اور اس کا تاریخی میوزیم بھی دیکھا۔اس موقع کی مناسبت سےحضور انور نے مہمانان کے تاثرات والی کتاب میں ایک نہایت جذباتی پیغام لکھا جو آپ کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تباہی کو دیکھنے کے بعد جو جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر امریکہ کے جاپان میں نیوکلیئر بم گرانے سے ہوئی۔

چند ہفتے قبل مکرم مبارک ظفر صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ہم میں سے جو حضور انور کے ساتھ گزشتہ دورہ پر نہ تھے ان کے لئے حضور انور سے ہیروشیما کی سیر کی اجازت مرمت فرمانے کی درخواست کرنی چاہیے۔ ایک دن فون پر بات کرتے ہوئے اپنی فیملی کے ایک ممبر کو میں نے بتایا کہ مکرم مبارک ظفر صاحب Hiroshima جانا چاہتے ہیں۔ جس پر انہوں نے نہایت خوشی سے ایک تبصرہ کیا جو میرے لیے بہت حیرانی کا باعث تھا کہ ’’ہیروشیما‘‘ کیا یہ کوئی شاپنگ مال ہے۔

بعد ازاں میں نے یہ تبصرہ حضور انور کو بھی بتایا تو آپ خوب محظوظ ہوئے۔حضور انور کی شخصیت نہایت مشفقانہ ہے اور آپ کی حس مزاح کمال کی ہے اور حضور انور کو مسکراتا ہوا دیکھنا ہمیشہ باعث خوشی و فرحت ہوتا ہے۔ بہرحال ایک دن مکرم مبارک ظفر صاحب نے حضور انور سے Hiroshima جانے کی اجازت مرمت فرمانے کی درخواست کر ہی دی۔ از راہ شفقت حضور انور نے آپ کی درخواست کو قبول فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ وہ ممبران قافلہ جو 2006ء میں حضور انور کے ساتھ موجود نہ تھے وہ Hiroshima کی زیارت کر لیں۔

ہماری Hiroshima کی زیارت میں حضورانور کی دلچسپی

میرا خیال ہے کہ حضور انور جانتے تھے کہ ہم اس دورہ سے ضرور کچھ سیکھیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اس لئے حضور انور کو ہمارے تجربات اور تاثرات کا انتظار تھا۔

دراصل اگلے روز حضور انور نے Hiroshima کی زیارت کے بارے میں مجھ سے تفصیلی گفتگو فرمائی اور ایک ایک کرکے سب تصاویر ملاحظہ فرمائیں جو میں نے بنائی تھیں۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ میں نے کیا سیکھا ہے اور میں کیسا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ قبل ازیں مجھے ایٹمی جنگ کے بارے میں حقیقی آگاہی نہ تھی اور اب مجھے احساس ہوا ہے کہ حضور انور نیو کلیئر جنگ کی صورت میں ہونے والی تباہی کے بارے میں اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں۔

وقف کی برکات

جمعہ کی ادائیگی کے کچھ دیر بعد حضور انور نے کسی کام کی غرض سے مجھے اپنے دفتر میں طلب فرمایا۔ جب میں حضور انور کی صحبت میں تھا تو آپ نے گزشتہ چند دنوں اور خاص طور پر Hiroshima کی سیر کے بارے میں استفسار فرمایا۔

حضور انور سے اپنے تجربات کا تذکرہ کرنے پر میں اپنی قسمت پر نازاں تھا۔ جب میں دفتر سے باہر جانے کے لئے اٹھا تو حضور انور نے فرمایا ’’اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم نے دنیا دیکھ لی ہے۔ تم میرے ساتھ افریقہ، نارتھ امریکہ اور اب مشرقی بعید کا سفر کیا ہے‘‘۔ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو حضور انور کے لئے میرے دل میں شکرانے کے جذبات پیدا ہوئے۔ میں نے اپنی سوچ سے بھی زیادہ دنیا دیکھ لی ہے۔ اس لئے میں نے جواباً عرض کیا کہ مجھے جو بھی مواقع سیر کے میسر آئے ہیں وہ محض حضور انور کی سخاوت اور شفقت کی بدولت ہیں۔ نہایت شفقت اور محبت سے حضور انور نے فرمایا ’’یہ سب تمہارے وقف کی برکات ہیں۔ اگر تم وکیل ہی رہتے تو تم کم از کم اگلے بیس سال تک ان ممالک کو نہ دیکھ سکتے‘‘۔

میں نے عرض کی کہ محض بیس سال ہی نہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے وقف نہ کیا ہوتا تو میں ان میں سے چند ممالک میں کبھی بھی نہ جا سکتا۔ میں نے حضور انور سے عرض کی کہ اس دورہ کے آغاز سے ایک دن پہلے میں نے اپنے بڑے بھائی (مکرم فرید احمد صاحب) کو بتایا کہ میں حضور انور کے ساتھ سفر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکرم فرید صاحب ایک کامیاب ڈینٹسٹ ہیں اور اپنی فیلڈ میں سپیشلسٹ ہیں۔ تاہم جب میں نے انہیں بتایا کہ میں حضور انور کے ساتھ سفر کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اور ان ممالک کا بھی بتایا جہاں کا دورہ تھا تو وہ کہنے لگے ’’تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایسی نوکری ملی ہے‘‘

جب میں حضور انور کے دفتر سے نکلا تو باقی دن میں حضور انور کے تبصرے پر غور کرتا رہا اور اب بھی کئی ہفتے گزرنے کے با وجود میں کبھی کبھار اس پر غور کرتا رہتا ہوں۔ یقیناً خلافت اور وقف کی برکات کا کوئی ثانی نہیں اور تمام احمدی احباب اس کے گواہ ہیں۔

اپنے ایک خادم کے لئے
حضور انور کی محبت کی ایک مثال

جاپان میں دن گزر رہے تھے حضور انور کے دورہ کے جذباتی اور روحانی اثرات local جماعت پر نہایت عیاں تھے۔ ایک دوست جن سے میری دوستی ہوئی وہ خدام کےلوکل صدر تھے جن کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ اور ان کا نام مکرم Achmad Fathurehman صاحب تھا۔ ایک شام صدر صاحب نے مجھے بتایا کہ گزشتہ چند روز جو انہوں نے حضور انور کی قربت میں گزارے ہیں وہ ان کی زندگی کے کسی بھی دوسرے وقت سے مختلف ہیں اور اب جب بھی وہ حضور انور کو دیکھتے ہیں تو انہیں بے حد خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ ایک خاص موقع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ جب حضور انور کی پہلے روز آمد ہوئی تھی تو مکرم احمد صاحب (جو حضور انور کے سیکیورٹی کے نگران ہیں) نے مجھے کہا کہ میں لفٹ میں حضور انور کے ساتھ آپ کے کمرے تک جاؤں۔ جب ہم لفٹ میں تھے تو مکرم احمد صاحب نے حضور انور کو بتایا کہ میں صدر خدام ہوں۔ جس پر حضور انور نے شفقت سے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ خلیفہ نے میرے بازو کو چھوا ہے۔ اور وہ چند لمحات میری زندگی کے سب سے قیمتی لمحات ہیں۔میں انہیں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ حضور انور کے دورہ کے دوران اکثر احمدیوں سے بات ہوئی۔ جنہوں نے بتایا کہ حضور انور سے ملاقات کے لمحات نے ان کی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے۔

Nagoya اسٹیشن پر انتظار

ہم Nagoya اسٹیشن پر وقت سے کچھ پہلے پہنچ گئے اورٹرین کے چلنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے۔ نہایت اطمینان اور کسی بھی تکلیف کے بغیر حضور انور اور خالہ سبوحی نے پلیٹ فارم پر دیگر مسافروں کی طرح انتظار کی۔ اس دوران حضور انور نے کئی احمدیوں سے ملاقات فرمائی۔ اور ایک موقع پر حضور انور نے مجھے بھی طلب فرمایا اور مجھے گزشتہ شاموں کی تقریبات کی بابت تاثرات بیان کرنے کا موقع ملا۔

ایک خوبصورت رنگ کی اچکن

اس دن میں نے دیکھا کہ حضور انور کی اچکن کا رنگ گہرا اور خوبصورت ہے۔ اور وہ گہرے سبز اور brown رنگ کا ملا جلا تاثر دے رہی تھی۔ حضور انور ہمیشہ ہی پُر کشش اورخوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس دن جب حضور انور (حفاظتی) ریل کے ساتھ اپنی سبز اچکن میں ملبوس سہارا لیے کھڑے تھےتو آپ پہلے سے زیادہ پیارے لگ رہے تھے۔ ماشاءاللہ۔

Bullet ٹرین کا سفر

ہم نے Tokyo واپس جانے کے لیے بلٹ ٹرین لی اور یہ ایک خاص اہمیت کا حامل اور یادگار سفر بن گیا۔ Local جماعت نے ہمارے لیے دو الگ الگ بوگیوں میں ٹکٹس بک کروائی تھی۔ اللہ تعالی کے فضل سے مجھے حضور انور اور خالہ سبوحی والی بوگی میں مکرم احمد بھائی، مکرم بشیر صاحب اور صدر صاحب جاپان کے ساتھ جگہ ملی۔ باقی قافلہ کے ممبران دوسری بوگی میں تھے۔ دوران سفر حضور انور ہماری بوگی میں کچھ مرتبہ چہل قدمی فرماتے رہے اور بہت مطمئن اور relax محسوس کر رہے تھے۔ حضور انور دوسری بوگی میں بھی تشریف لے گئے تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ وہ سب کیسے ہیں۔ جس پر قافلہ کے ممبران کو بے حد خوشی ہوئی۔

حضور انور کو wifi کی سہولت میسر آنا

حضور انور ہماری بوگی میں واپس تشریف لائےتو میں نے عرض کی کہ میرے پاس ایک موبائل انٹرنیٹ ڈیوائس ہے۔ اگر حضور انور کو آئی فون یا آئی پیڈ انٹرنیٹ سے connect کرنا مقصود ہو۔ حضور انور اپنی سیٹ پر واپس تشریف لے گئے۔ لیکن چند لمحوں کے بعد اپنے آئی پیڈ کے ساتھ میری سیٹ پر تشریف لائے۔ حضور انور نے مجھ سے wifi کوڈ دریافت فرمایا اور میرے بتانے پر حضور انور نے اس کو اپنے آئی پیڈ پر فیڈ کر دیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ موبائل ڈوائس جو میرے پاس تھی وہ فائدہ مند ثابت ہوئی اور حضور انور کو انٹرنیٹ میسر آ گیا۔ انٹرنیٹ میسر آنے پر حضور انور نے ایم ٹی اے کی سٹریمنگ شروع کر دی جو آپ کے IPad کی app کے ذریعہ تھی۔ پھر ہمیں حضور انور کے ساتھ چند لمحے کھڑے ہو کر حضور انور کے IPad پر خطبہ جمعہ دیکھنے کا موقع ملا۔جب ہم دیکھ رہے تھے تو میں نے حضور انور سے عرض کی کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ جاپان کہ میں جاپان میں ٹرین پر حضور انور کے ساتھ کھڑا ہو کر حضور انور کا خطبہ دیکھ رہا ہوں۔ اس تبصرہ پر حضور انور نے تبسم فرمایا۔

حضور انور کی باریک بینی

چند منٹوں کے بعد حضور نے اپنی سیٹ پر تشریف لے گئے اور مجھے اپنے پاس بلایا۔ میں حضور انور کے پاس بیٹھ گیا اور حضور انور نے مجھے اپنے آئی پیڈ کے چند features جو آپ نے store کیے ہوئے تھے دکھائے۔ حضور انور نے مجھے بتایا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ ایک مخصوص لفظ کو میں بالعموم غلط spellings کے ساتھ لکھتا ہوں اور پھر حضور انور نے ایک online dictionary کھولی اور مجھے بتایا کہ یہ درست spelling ہیں۔ مجھے حیرت تھی کہ اس قدر مصروفیت کے باوجود حضور انور کی اس قدر باریک تفصیلات پر بھی نگاہ ہوتی ہے اور آپ ان کی تصحیح کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔

(دورہ حضور انور جاپان 2013 اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان صاحب)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2022

اگلا پڑھیں

فہم و ادراک