• 10 نومبر, 2024

جب صحیفے نشر کئے جائیں گے

اطفال کارنر
تقریر
جب صحیفے نشر کئے جائیں گے

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار

آج مجھے جس عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے وہ ہے اس دور میں مسیح ومہدی کی آمد کی علامات میں سے ایک علامت ’’جب صحیفے نشر کئے جائیں گے‘‘

یہ علامت قرآن مجید میں وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ کے الفاظ میں موجود ہے۔ جو قرآن کریم کے تیسویں پارے کی سورہ التکویر کی آیت 11 ہے اور اپنے اردگرد بے شمار پیشگوئیوں میں گھری پڑی ہے۔

ایک وقت تھا جب دنیا میں نہ تو مطبع خانے تھے اور نہ ہی کتب خانے۔ لائبریریاں اگر تھیں تو خال خال۔ لوگ درختوں کے پتوں، چھالوں، ہڈیوں اور پتھروں پر لکھا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ قرآن حکیم کو بھی صحابہ نے اپنے سینوں میں محفوظ کر نے کے علاوہ پتھروں، پتوں اور ہڈیوں پر بھی محفوظ کر رکھا تھا۔ پھر احادیث بھی انہی طریق پر لکھی گئیں۔ محرر اور کاتب بھی بہت کم ملتے تھے۔ پورے صحابہ رضوان اللہ علیہم میں چند ایک صحابہؓ لکھنا جانتے تھے۔ الغرض لکھنے، طبع کر کے نشر کرنے کے ذرائع بہت محدود تھے۔

آج آثار قدیمہ نے زمین کو کھود کھود کر جو پرانے اور قدیم زمانہ کے عجائبات و نوادرات تلاش کئے ہیں۔ ان میں یہ تختیاں بھی شامل ہیں جو مرورِ زمانہ کے ساتھ بوسیدہ ہوتی گئیں اور ماہرین نے ان کے کچھ حصوں کو پڑھا اور محفوظ کر لیا۔ دو تین دہائیاں قبل مکرم شیخ عبدالقادر محققِ احمدیت نے عیسائی دنیا میں آثار قدیمہ سے ملنے والی برنباس انجیل دنیا میں پیش کر کے ایک تہلکہ مچا دیا جس کے کچھ حصے جو پڑھے جا سکے جماعت احمدیہ کے عقائد کی تائید ہوئی اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات یافتہ ثابت ہوئے۔ پیشگوئیوں کے مطابق جوں جوں مسیح و مہدی کی آمد کا زمانہ قریب آنے لگا تو نشر و اشاعت کے سامان بڑھنے شروع ہوئے۔کاغذ کی ایجاد ہوئی۔ اس پر چھاپنے کے لیے پریس، مطبع خانے نہ صرف ایجاد ہوئے بلکہ مطبع خانوں میں طباعت کی آسانی کے لیے مختلف gadgets آئے جو نشر و اشاعت میں حیران کن ممد و معاون ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اب تو طباعت میں اس حد تک آسانی ہو گئی ہے کہ آپ پرنٹنگ مشین کے کمپیوٹر میں طباعت کا میڑیل feed کر دیں اور کتابوں کی تعداد کی کمانڈ دے کر سیاہی اور کاغذوں کا انتظام کر دیں تو کمانڈ دی گئی تعداد کے مطابق کتاب اشاعت کے بعد جلد کی صورت میں آپ کو میسر ہوں گی۔

کتب کے بعد اخبارات،رسائل و جرائد کا نمبر آتا ہے۔ جو دنیا بھر میں لاکھوں ناموں سے روزانہ منظر عام پر آتے ہیں اور اشاعت میں ان کی تعداد ہزاروں و سینکڑوں میں نہیں بلکہ راتوں رات کروڑوں و اربوں کی تعداد میں دنیا میں پھیلتے ہیں۔ جو ہمیں اسٹیشنوں، لاری اڈوں،ائیر پورٹس،دکانوں اور مارکیٹوں میں کثرت سے نظر آتے ہیں۔

جرائد، رسائل، کتب اور مطبع خانوں کے حوالے سے جماعت احمدیہ کی روشن اور تابناک تاریخ کا اس غرض سے مطالعہ کریں کہ یہ پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر اور آپ کے مبارک دور پر دو اور دو، چار کی طرح پوری ہوئی ہے اور آپؑ کے مبارک وجود پر بے شمار دیگر علامات کی طرح یہ علامت بھی من وعن پوری ہوئی۔ اس وقت دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے مطبع خانوں کی تعداد دسیوں میں ہے۔ جماعت تو 212 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جہاں جماعت احمدیہ کی کتب موجود ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں کتب شائع ہو کر ہر سال دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہیں۔ قریباًہر ملک میں لائبریری موجود ہے۔ پھر جہاں تک جرائد، اخبارات کا تعلق ہے تو قریباً ہر ملک اپنی اپنی زبان میں خواہ ایک ورقہ ہی کیوں نہ ہو لیف لیٹ کے طور پر نکال رہا ہے۔ مرکزی سطح پر الفضل آن لائن کے علاوہ پانچ چھ اخبارات طبع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ ذیلی تنظمیوں کے اخبارات و رسائل و میگزین اس کے علاوہ ہیں۔ جیسے لجنہ یوکے کے ماہانہ میگزین کا نام ’’النصرت‘‘ ہے۔

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ کا ایک رنگ دنیا بھر میں بڑی بڑی لائبریریوں کے قیام کی صورت میں عمل میں لایا گیا۔ جہاں سے لاکھوں لوگ روزانہ استفادہ کرتے ہیں یہ بھی نشر و اشاعت کی ایک علامت ہے۔ ابھی میں اوپر gadget کا ذکر کر آیا ہوں۔ جس میں کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ، آئی پیڈز، فونز وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ذریعہ اشاعت میں جتنی سرعت آئی ہے۔ اس کا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا۔ چند لمحوں میں ایک میسج دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ ایک وقت میں خط کو منزل پر جاتے جاتے کئی کئی دن لگ جاتے تھے مگر آج خط و کتابت منٹوں میں ساری دنیا میں نشر ہو جاتی ہے۔ روزنامہ الفضل آن لائن جب لندن وقت کے مطابق رات 12 بجے لینڈ کرتا ہے تو آناً فاناً وہ دنیا بھر میں احمدیوں اوربعض غیر احمدیوں کے موبائل فونز و دیگر gadgets پر موجود ہوتا ہے تو یہ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے تحت تین امور بیان فرمائے ہیں۔

  1. مطبع خانے اور پریس عام ہوں گے اور لاکھوں میں اخبار شائع ہوں گے۔
  2. صحیفے کھولے جائیں گے۔ یعنی کتابیں کھلیں گی لائبریریوں میں۔
  3. مُردہ صحیفوں کو زندہ کیا جائے گا یعنی آثار قدیمہ پرانی لائبریریوں کو تلاش کریں گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ویسے تو قدیم زمانہ سے درختوں کے پتوں، ان کی چھالوں اور ہڈیوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھنے کا رواج تھا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رائج تھا۔ تاہم باقاعدہ فن کتابت کا آغاز چین سے ہوا۔ پہلا مطبوعہ نمونہ 770ءکا ہے جو برٹش میوزیم میں موجود ہے وہ چین کا ہے۔ بہرحال اب یہ فن روز بروز ترقی پر ہے۔ اس کی نئی شکلیں مثلاً کمپیوٹر اور کمپیوٹرائزڈ چھاپہ خانے پھر آج کل ای میل وغیرہ۔ مختلف چیزیں ہیں جو جاری ہیں جو اس الٰہی خبر کی کہ

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ63۔64)

صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2022

اگلا پڑھیں

فہم و ادراک