تعلیم الاسلام کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی کے زیر اہتمام 30 مئی 2022ء کو بیت السبوح فرینکفرٹ جرمنی میں ایک سادہ لیکن باوقار تقریب منعقد ہوئی جس میں تعلیم الاسلام کالج کے پرانے طلباء، صاحب علم احباب اور شعراء کرام نے شرکت کی۔ پروگرام کی صدارت چوہدری عبد الغفور ڈوگر صاحب صدر ٹی آئی کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی نے کی جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی حیدر علی ظفر صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی تھے۔ منعقدہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ تقریب کےپہلےحصےمیں رانا عبد الزاق خان صاحب یوکے کی کتاب ’’سپوت ایشیا‘‘ کی رونمائی تھی جب کہ دوسرے حصے میں محفل سخن منعقد ہوئی۔
’’سپوت ایشیا‘‘ کتاب کی تقریب رونمائی
تقریب کاآغاز قرآن پاک کی تلاوت سے جو محمد افضل خان صاحب نے کی۔اس کے بعد صدر مجلس نے کتاب ہذا کے مصنف اور لندن سے تشریف لائے ہوئے رانا عبد الرزاق خان صاحب (جنرل سیکرٹری یوکے ایسوسی ایشن) کا تعارف کرایا۔ بعد ازاں دیگر احباب نے کتاب اور مصنف کے بارے میں اظہار خیا ل کیا اور کتاب کی اہمیت اور خصوصیات کے علاوہ مصنف کی ادبی قلمی خدمات کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔
کتاب کے مصنف رانا عبد الرزاق خان صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ رانا عبد الرزاق خان صاحب صحافت، ادب و شاعری کی دنیا کی ایک معروف علمی، قلمی اور ادبی شخصیت ہیں اور بہت سالوں سے اپنے قلم، علم اور شاعری سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ کتاب ان کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے جس کے پس پردہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ سے والہانہ عشق کی طاقت پوشیدہ تھی۔انہوں نے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کی شخصیت اور خدمات کے بارے اخبارات میں لکھے گئے ان کالموں، مضامین اور آراء کو انتہائی محنت اور استقلال کے ساتھ پہلے اکھٹا کیا، پھر ان کی ترتیب بنائی اور بعد ازاں کتابی شکل میں شائع کیا،جو بلاشبہ ایک بڑا علمی کارنامہ ہے۔سلسلہ کی کتب میں یہ ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ حسب پروگرام کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پرجن جن احباب گرامی نےکتاب پر اظہار خیال کیا۔انتہائی اختصار کے ساتھ چیدہ چیدہ باتوں کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
عبد الغفور ڈوگر صاحب صدر مجلس نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موصوف ایک منجھے ہوئے قلمکار، مبصر، کالم نگار، شاعر اور ادیب ہیں۔ عرصہ بارہ سال سے دیار مغرب کی ادبی دنیا کی خدمت میں مصروف ہیں۔سپوت ایشیا دراصل چوہدری سر محمد ظفراللہ خان کے متعلق لکھی گئی یا بولی گئی آراء کا مجموعہ ہے۔ جو محترم رانا عبد الرزاق خان نے بڑی محنت شاقہ کے ساتھ مختلف اخبارات و رسائل سے اکھٹے کئے ہیں۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔ایسی منفرد کتاب چوہدری محمد ظفراللہ خان کی وفات کے بعد میری نظروں سے نہیں گزری۔
اس کتاب کا پیش لفظ مکرم عطاء المجیب راشد امام مسجد لندن نے اور ڈاکٹر سر افتخار ایاز صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔یہ کتاب 610 صفحات پر مشتمل ہے۔چوہدری سر محمد ظفراللہ خان کی کافی بیش قیمت تصاویر بھی دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر عبد الکریم خالد کا تبصرہ
لکھتے ہیں کہ چوہدری سر محمد ظفراللہ خان سپوت ایشیا ہی نہیں، سپوت عالم کہلانے کے حقدار ہیں کہ انہوں نے محض ایشائی اقوام کے حق میں ہی آواز بلند نہیں کی بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں ظلم، نا انصافی اور انسانوں پر جبرو و تشدد کے آثار پیدا ہوئے وہاں سر محمد ظفراللہ خان مجبور و مقہور لوگوں کی آواز بن کر سلامتی کونسل کے ایوانوں میں آواز حق بلند کرتے نظر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو، تو اس حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر سے چوہدری سر محمد ظفراللہ خان کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کا مجموعہ ہے۔یہ وہ گواہی ہے جو بلا تمیز مذہب و نسل اہل عالم نے آپ کے حق میں ثبت کی۔یہ وہ نقارہ خدا ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر آج بھی بج رہا ہے اور رہتی دنیا تک بجتا رہے گا (ڈاکٹر صاحب نے یہ تبصرہ لاہور سے بھیجا تھا جسے تقریب میں عثمان خان صاحب نے پڑھا)
پروفیسر چوہدری حمید احمد صاحب کا تبصرہ کتاب
لکھتے ہیں کہ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو دنیا کے کتنے عظیم عہدوں پر فائز فرما کر دنیا کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص خدمت کرنے کی توفیق دی۔ان دنیاوی عہدوں کے علاوہ خدمت دین میں بھی خلافت احمدیہ کے ماتحت ان کو جو مقام حاصل رہا وہ خلفاء کے علاوہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوا ہو۔ سپوت ایشیا کے مصنف نے ان تمام خدمات کا ذکر،چوہدری صاحب کے زمانے کے سیاستدانوں، دانشوروں،ادیبوں اور اخبار نویسوں کے بےشمار حوالہ جات دےکر تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں کیا ہے۔ برادرم محترم راناعبد الرزاق صاحب کی تصنیف سپوت ایشیا ان کی دیگر متعدد تصانیف کی طرح اپنی طرز تحریر میں نہایت پرکشش اور دلچسپ انداز میں مرتب کی گئی ہے۔ محترم عبد الرزاق صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ کی بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہے۔چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مصنف نے انڈیکس کے مطابق89 مختلف موضوعات اور مضامین پر تقسیم کیا ہے۔ ان میں اپنوں، غیروں اور دوستوں اور دشمنوں کے تاثرات اور بیانات درج کئے ہیں۔ مختلف مواقع کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔کتاب کے آخری 33 صفحات پر حوالوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ تصاویر بھی شامل اشاعت ہیں۔اللہ تعالیٰ محترم رانا عبد الزاق صاحب کی یہ قابل ستائش کاوش قبول فرمائے (تقریب میں یہ تبصرہ چوہدری حمیداللہ ظفر صاحب نے پڑھا تھا)
تبصرہ کتاب از چوہدری کولمبس خان صاحب
لکھتے ہیں کہ سپوت ایشیا اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا اسباق کے طور پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اور جہاں سے جی چاہے پڑھنا شروع کردیں لذت برقرار رہتی ہے اور بار بار بھی پڑھی جاسکتی ہے۔یہ چوہدری صاحب کے بارے میں ایک حد تک ریفرنس بک کا بھی کام دیتی ہے۔محترم چوہدری صاحب کی کم و بیش ستر سالہ عملی زندگی آپ کی صداقت و امانت پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ محترم رانا عبد الرزاق صاحب کے اس کام اور اس کے ساتھ ان کے نام کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔(آپ چونکہ ہمبرگ میں مقیم ہیں لہذا آپکا لکھا تبصرہ محمد افضل صاحب نے پڑھا)
کتاب ہذا اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر اظہار خیال کرنے والوں میں چوہدری حمید اللہ ظفر صاحب بھی شامل تھے، انہوں نے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان کی زندگی بارے اپنے ذاتی مشاہدات کا ذکر کیا اور متعد واقعات سنائے۔
محفل مشاعرہ
جاری تقریب کے دوسرے حصے کا پروگرام محفل مشاعرہ تھا جس میں معروف احمدی شعراء کرام نے اپنا اپنا منظوم کلام پڑھا اور شاملین مشاعرہ سے داد حاصل کی۔مشاعرے کا آغاز درثمین کے کلام سے ہوا جو مرزا منصور احمد صاحب نے پڑھا۔اس کے بعد باری باری شعراء کرام نے اپنا اپنا کلام پڑھا۔ مشاعرے میں جن جن شعراء کرام نے کلام پڑھا ان میں محمد اشرف صاحب، عبد الروف صاحب، چوہدری مبشر احمد کاہلوں صاحب، عبد الحمید رامہ صاحب، چوہدری حمید اللہ ظفر صاحب، صفوان احمد ملک صاحب، ڈاکٹر وسیم احمد صاحب، چوہدری شریف احمد خالد صاحب، اور رانا عبد الرزاق صاحب شامل تھے،مشاعرہ کی نظامت کے فرائض بھی آخر الذکر شاعرنے ہی سر انجام دیئے۔ کئی گھنٹے جاری رہنے والی تقریب کے اختتام پر مہمان خصوصی مولانا حیدر علی ظفر صاحب نے حضرت چوہدری ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ کا جماعت سے تعلق اور خلافت سے وفا کے بارے میں چند اہم ایمان افروز واقعات سنائے جن میں آپ کی نماز باجماعت کی ادائیگی، وقت کی پابندی، احمدی طلباء کی مالی مدد، کفایت شعاری سمیت دیگر اوصاف کا پتہ چلتا تھا۔تقریب کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا بعد ازاں سب کے لئے ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ شعبہ سمعی بصری اور ایم ٹی اے اسٹوڈیو جرمنی نے تقریب کی ریکارڈنگ کی۔
(رپورٹ- منور علی شاہد ۔جرمنی)