• 30 اپریل, 2024

فرانس میں تبلیغ اسلام احمدیت

فرانس میں تبلیغ اسلام احمدیت
چینی سفیر اور دیگر اہم شخصیات کو اسلام احمدیت کا پیغام امن

قبل اس کے کہ خاکسار ایک پروگرام کی روئیداد پیش کرے، قارئین کی خدمت میں ایک عام اور اہم بات رکھنا چاہتا ہے۔عام اس لئے کہ جو خاکسار بیان کرنا چاہتا ہے وہ دنیا کے مختلف شہروں میں عموماً ہوتا ہے۔ اور اہم اس لئے کہ گو کہ ہمیں عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ اسلام احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلائیں۔اور خلفائے احمدیت کی طرف سے مختلف پیرائیوں میں یہ نصیحت ہمارے گوش گزار کی جاتی ہے۔لیکن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ عید الفطر کے خطبہ میں ’’حقیق عید‘‘ کے حوالے سے تمام احمدیوں کو تبلیغ اور دعوت الی اللہ کی طرف ایک اچھوتے انداز میں ترغیب دلائی ہے۔اس حقیقی عید کو منانے کے جو سامان درکار ہیں ان میں سے ایک اہل دنیا سے روابط قائم کرنا اور ان کو مضبوط کرنا ہے تا کہ ان کے مزاج کے مطابق ان تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا جا سکے اور مادیت پسند اہل مغرب اپنی دنیا کو الوداع کرکے چشمہٴ توحید کی طرف مائل کرسکیں۔وہ طریق درج ذیل ہے۔ (ہر بڑے شہر میں کم و بیش یہ جھلک نظر آتی ہے):۔

پیرس فرانس کا دارالحکومت ہے۔ دنیا کے دیگر مصروف شہروں کی طرح رات دن زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرمی رہتی ہے۔ جہاں دنیاداری کے لحاظ سے مادی رجحانات کے حوالے سے انسان کیلئے کشش کے تمام سامان موجود ہیں وہاں علم و آگہی کے ہر شعبہ میں علمی تشنگی کی تشفی کیلئے بھی گہما گہمی رہتی ہے۔ایک طرف باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں تو دوسری طرف ایسی سوسائٹیز، ادارے، اکیڈمیز، مراکز، فورمز اور ایسوسی ایشنز ہیں جو علم و ادب کے خوگر کو اسکی دلچسپی کے سامان مہیا کرتی ہیں۔ تقریبا ہر روز ہی مختلف جگہوں پر یک روزہ دو روزہ بلکہ سہ روزہ کانفرنسز، سیمینارز، پریس کانفرنسز، جلسے، میٹنگز اور مکالمے یا مباحثے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ پروگرامز تاریخ، فلاسفی، سیاست، سائنس، ادب، مذہب اور معاشرہ کے دیگر مسائل کے اوپر منعقد کئے جاتے ہیں۔

جب ایک بار آپ کا ای میل ایڈریس انکی لسٹ میں شامل ہو جائے۔ تودلچسپی رکھنے والوں کو ان پروگرامز سے متعلق باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے جس میں صرف پروگرام کا موضوع، وقت، جگہ کی ہی نشاندہی نہیں کی جاتی بلکہ وہاں تک پہنچنے کا راستہ اور طریق بھی بتایا جاتا ہے۔ تاکہ خوگرِ علم و آگہی ٹرین، بس، میٹرو اور ٹرام پکڑتے بدلتے آسانی سے اپنی تشنگی بجھانے وقت پر کانفرنس ہال پہنچ جائیں۔ ان پروگرامز میں شمولیت کیلئے ایڈوانس رجسٹریشن کروانی ہوتی ہے تاکہ حفاظتی نقطہ نگاہ سےکانفرنس ہال میں داخلہ سے قبل چیکنگ کی جا سکے اور حاضری لگائی جا سکے۔ یاد رہے کہ ان کانفرنسز میں شمولیت عموماً مفت ہوتی ہے لیکن بعض کیلئے رجسٹریشن کے ساتھ کچھ ادائیگی بھی کرنی پڑتی ہے۔

بفضل اللہ خاکسار کو یہ طریق بروئے کار لانے کی توفیق ملی۔ اور سالہا سال کے بعد بعض اوقات اتنے پروگرامز میں شمولیت کی دعوت ملتی ہے کہ سب میں شامل ہونا ممکن ہی نہیں ہوتا۔اور اب تو پروگرامز کا انعقاد کرنے والے کئی اداروں کے ذمہ داران، ان پروگرامز میں شامل ہونے والے اور اپنی تحقیق پیش کرنے والے مختلف علوم کے سکالرز سے شناسائی بھی ہوگئی ہے۔ ان سے اسلام احمدیت سے متعلق گفتگو ہوتی ہے، واٹس اَپ پر جماعت سے متعلق باتیں انکے علم میں لائی جاتی ہیں۔ ای میلز کے ذریعہ اسلام سے متعلق مختصر مضامین بھیجے جاتی ہیں۔

بعض کومشن ہاؤس میں مدعو کیا جاتا ہے۔ پھر رابطے دوستیوں میں بدل جاتے ہیں اور توجہ سے بات سنتے ہیں۔جماعتی کتب کے مطالعہ کی طرف انکا رجحان ہوجاتا ہے۔پھر جماعتی تبلیغی پروگرامز اور کانفرنسز میں بھی برضاء و رغبت شامل ہوتے ہیں۔ہر احمدی اس تیر بحدف نسخہ کو استعمال کرسکتا ہے۔

اس اہم جملہء معترضہ کے بعدزیرِ بحث پروگرام کی روئیداد کی طرف آتے ہیں۔

پروگرام کی روئیداد

13 مئی کو پیرس میں ’’جیوپولیٹکل اکیڈمی آف پیرس‘‘ نے ایک کانفرس منعقد کی۔ اسکے مہمان مقرر فرانس میں متعین عوامی جمہوریہ چین کے معزز سفیر Mr.Lu Shaye تھے۔ موصوف کودنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں چین کے فرانس اور یورپ کے تعلقات پر اظہارِ خیال کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ اس موضوع کے ساتھ ساتھ روس اور یوکرین کی جنگ، اسکی وجوہات اورممکنہ نتائج اور عالمی امن کے امور بھی زیرِ بحث آئے۔

خاکسار کو ’’جیوپولیٹکل اکیڈمی آف پیرس‘‘ کی کانفرنسز اور سیمینارز میں کئی سال سے شرکت کا موقعہ مل رہا ہے۔ اس کے صدر محترم علی راست بین جو ایرانی نژاد ہیں، خاکسار کے دوست بن گئے ہیں۔ ہماری ایک بین المذہبی کانفرنس کی صدرات بھی کرچکے ہیں۔ موصوف کی اجازت سےماضی کی طرح اس مرتبہ بھی حضور انور کی کتاب ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ کی متعدد کاپیاں ایک میز پر سجائیں۔ یہ کتاب کانفرنس سے پہلے اور بعد شرکاء کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی۔ مختصر تعارف کے بعد یہ کتاب انکو پیش کی جاتی۔ یوں 25 سے زائد شرکاء کو یہ کتاب پیش کی۔ جن میں سے بعض کے ساتھ شکریہ کے طور پر تعارف مزید مضبوط کرنے کیلئے بعد میں فون پر رابطہ بھی کیا اور کتاب کے ساتھ لی گئی تصاویر بھی شیئر کی۔ بعض نے جماعت سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

اس کانفرنس میں معزز چینی سفیر، چینی سفارکاروں کے علاوہ مختلف ممالک کے سفارتکار، پریس میڈیا کے صحافی، لکھاری، سکیورٹی اور تعلقات عامہ کے اداروں کے نمائندگان کے چنیدہ لوگ مدعو تھے۔ مرکزی چینی ڈسک کےمکرم رشید ارشد صاحب کے شکریہ کے ساتھ عرض ہے کہ انہوں نے خاکسار کی درخواست پر فوراً حضور انور کی مذکورہ کتاب کےچینی ترجمہ کی دو کاپیاں ارسال کر دی تھیں۔ کانفرنس کے بعد دیگر معزز مہمانوں کے علاوہ بطور خاص سفیر محترم سے ملاقات کی۔ جماعت اوراس کتاب کے مختصر تعارف کے بعد انہیں یہ کتاب اور چینی ترجمہ والا قرآن کریم تحفۃ پیش کیا۔ موصوف نےچینی ترجمہ قرآن دیکھ کر حیرت انگیز خوشی کا اظہار کیا اورتصویر بھی بنوائی۔

ایک غیر متوقع بات ہوئی۔ہوا یوں کہ اس کانفرنس کی میڈیا رپورٹنگ کیلئے فرنچ میڈیا کے علاوہ فرانس اور چین کے تعلقات کے حوالے سے ایک چینی ٹی وی ’’ماندارِن ٹی وی‘‘ Mandarin TV بھی موجود تھا۔ کانفرنس سے قبل اس کی صحافی مادام کامی شن Camille Chen سے بھی علیک سلیک ہوئی اور اسےکتاب بھی پیش کی۔ کانفرنس کے بعد موصوفہ نے جہاں مختلف شرکاء کے انٹرویوز کئے خاکسار کا بھی انٹرویو کیا۔ اور پھر کانفرنس کی رپورٹنگ کے ساتھ اسے نشر بھی کیا۔ ذیل میں اسکا لنک دیا جاتا ہے۔

www.mandarintv.fr/video_detail.php?cat=actualites&video=12556&langue=Fr

قارئین کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی داعی الی اللہ کی مساعی کو مقبول فرمائے۔ اور ’’آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج‘‘ کی نوید روز روشن کی طرح ہم سب پوری آب و تاب سے پوری ہوتی اپنی زندگیوں میں دیکھیں۔ آمین

(رپورٹ: نصیر احمد شاہد۔ مبلغ انچارج فرانس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ