• 29 اپریل, 2024

چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن

سینے پہ غم کا پہاڑ ایسا کہ سمجھ نہیں آتی کیا لکھوں۔

مگر کچھ لکھنا چاہتا ہوں، اپنے چھوٹے بھائی عمران احمد کیلئے جو چالیس برس کی عمر میں ہمیں چھوڑ کر خدا کے پاس چلا گیا۔

اِک نہ اِک دن پیش ہوگا تُو فنا کے سامن
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامن
چھوڑنی ہوگی تجھے دنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکمِ خدا کے سامن

عزیزم عمران جمعرات کو سویا اور 4 جُون 2021 بروزِ جمعہ صبح اُٹھا ہی نہیں۔

بعد میں سمجھ آئی کہ جمعہ تو خدا کے حضور جمع ہونے اور خدا کے حضور اُٹھنے کا دن ہے۔ یہ دِلخراش واقعہ جب پیش آیا تو دل کے زخم پھر تازہ ہوگئے جب بہت سال پہلے والد محترم سلطان احمد صاحب مرحوم اسی طرح رات کو سوئے اور صبح اُٹھے ہی نہیں۔ اور ہم چاروں بھائی یتیم ہوگئے۔۔۔

اسی طرح میرے اس بھائی کے بعد اسکی دو بیٹیاں بعمر اڑھائی سال اور بعمر سات سال یتیم ہوگئیں۔ ہم نے اپنا بھی یتیمی کا غم دیکھا تھا، پھر بھائی کی بچیاں یتیم ہوتے دیکھیں تو دل اگرچہ کسی طور قرار نہیں پاتا مگر ایک بزرگ ہستی کی مثالِ یتیمی سامنے آتی ہے تو تسلّی ہوجاتی ہے کہ ہمارے آقا و مُطاع آنحضورﷺ نے بھی تو یتیمی کی زندگی بسر کی۔ میں سمجھتا ہوں اگر آپﷺ کی مثالیں ہمارے سامنے نہ ہوں تو ہم جیتے جی مَر جائیں۔ لاکھوں کروڑوں دُرود و سلام ہوں آپﷺ کی رُوحِ مبارکہ پر (آمین)۔

چالیس سالہ عمران احمد کی وفات پر ہمیں قرار نہیں آ رہا کہ خدا کی طرف سے اتنی جلدی بلاوا آگیا مگر کیا کریں راضی رہنا پڑتا ہے۔

ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلاء ہو
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو

جمعرات کی شام سویا اور جمعہ کی صبح اُٹھا ہی نہیں۔ بعد میں خیال آیا کہ سونے کی تو دعا ہی یہی ہے کہ اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَأَحْيَا۔

اے اللہ میں تیرا نام لے کر مرتا اور جیتا ہوں۔

اگرچہ نیند بھی موت کی ایک قسم ہے جس کے بعد انسان صبح زندہ ہوجاتا ہے۔ مگر اصل موت تو وہ ہے جب انسان مرے اور صرف خدا کے حضور زندہ ہو۔ روزانہ کی عارضی موت یعنی نیند یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں ہر وقت موت کو یاد رکھنا چاہیئے اور جب انسان ہر وقت موت کو یاد رکھتا ہے تو وہ خدا کی رضا کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کرتا ہے۔

جمعرات کی شام سویا اور جمعہ کی صبح اُٹھا ہی نہیں۔ بعد میں خیال آیا کہ آنحضورﷺ جمعرات کے سفر کی تلقین کرتے اور جمعرات کے سفر کو پسند فرماتے۔ لیکن اگر جمعرات کا سفر ہی سفرِ آخرت ہو تو دل سے بےاختیار سبحان اللّٰہ نکلتا ہے۔

جمعہ کی فضلیت کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’بہترین دن جس میں سورج طلوع ہو، جمعہ کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے۔ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ابنِ آدم (انسان) کے سوا زمین پر جو بھی حرکت کرنے والا جانور ہے، وہ جمعہ کے دن صبح سے لے کر سورج طلوع ہونے تک قیامت کے ڈر سے چپ چاپ کان لگائے رکھتا ہے (کہ کہیں صور نہ پھونک دیا جائے، مگر انسان بے خوف رہتا ہے)۔ اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جسے کوئی مومن نماز کی حالت میں پا لے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس وقت کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور دے دیتا ہے۔

(سنن نسائی)

مضمون میں جو عرض کر رہا ہوں یہ میرے ذوقی نکات ہیں، ہوسکتا ہے کہ قارئین ان نکات اور امور سے اختلاف کریں جو ہم اپنے غمزدہ دل کی ڈھارس کیلئے خدا اور اسکے رسول کی باتوں کو سامنے رکھ کر نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ کیونکہ اصل ڈھارس اور تسلّی انہی باتوں نے دینی ہے ورنہ تو انسان جیتے جی مر جائے۔

میرے بھائی کی وفات کا سب سے زیادہ صدمہ میری بوڑھی اور بیمار ماں کو ہے جسے کسی طور قرار نہیں آ رہا کہ پہلے انکے خاوند اسی طرح رات کو سوئے اور صبح اُٹھے نہیں اور اب ان کا جوان بیٹا رات کو سویا اور صبح اُٹھا ہی نہیں۔

ایسی عورت کو قرار کیسے آئے؟ سوائے اسکے کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی باتوں سے نتیجہ اخذ کر کے تسلّی دی جائے. ورنہ تو قرار آنا بہت مشکل ہے۔

مندرجہ بالا حدیث میں فرمایا کہ جمعہ کے دن آدم کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن فوت ہوئے۔

تو ہماری اللہ سے عاجزانہ دعا ہے کہ جمعہ کو فوت ہونے والے ہمارے بھائی کی توبہ قبول کر۔

پھر روایت میں ہے کہ جمعہ کے دن قیامت قائم ہوگی۔ چنانچہ کسی کے مرنے کے بعد لواحقین پر ایک طرح سے قیامت ہی ہے جو جمعہ کے روز برپا ہوئی۔

پھر فرمایا۔
جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جسے کوئی مومن نماز کی حالت میں پا لے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس وقت کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور دے دیتا ہے۔

تو اس لحاظ سے بھی اللہ کے حضور ہماری عاجزانہ دعائیں ہیں کہ اے خدا! جمعہ کے روز جب ہم نے اپنے بھائی کے جنازے اور تدفین کے وقت جو بھی دعائیں کیں ان سب کو جمعہ کے صدقے قبول فرما کہ اگر ہمیں زندہ رکھنا ہے تو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور اگر ہمیں موت دینی ہے تو ہمیں بخش دے۔

جہاں تک میرے بھائی عزیزم عمران احمد کی خوبیوں کا تعلق ہے تو اس میں بےشمار خوبیاں تھیں۔ کچھ ایسی جو اسکے جانے کے بعد معلوم ہوئیں۔ میں اسکی تمام خوبیوں کو ایک جُملے میں ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

مرحوم اپنے ہر قسم کے فرائض اور ذمہ داریاں نہایت فکرمندی سے ادا کرنے والا تھا۔

اور میرے نزدیک یہ کسی بھی انسان کی بہت بڑی خوبی ہوتی ہے کہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو انتھک محنت سے احسن رنگ میں ادا کرے۔ اگر کوئی عزیز عمران احمد سے رُوٹھ جاتا تو وہ یہ نہ کہتا کہ جاؤ بھاڑ میں، بلکہ نہایت فکرمند اور بےچین ہوجاتا کہ یہ مجھ سے ناراض کیوں ہوا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ترلے کرتا۔ اور اسے اسوقت تک چین نہ آتا جب تک اس عزیز سے صلح نہ ہوجاتی بلکہ اپنے کسی اور عزیز سے کہتا کہ فلاں بندہ مجھ سے بِگڑ گیا ہے مجھے سکون نہیں آ رہا اسے کہو میرے ساتھ صلح کرلے. اسے عزیز ترین رشتوں کی فکر ہوتی تھی۔

چھ فٹ دو انچ قد کا نہایت دلیر اور بہادر عمران احمد جماعت کیلئے سیکیورٹی کی ڈیوٹیاں دینے میں حد درجہ دلیر تھا، دس سال اس نے باقاعدگی سے جمعہ کے روز ڈیوٹیاں دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جمعہ کے روز دس سالہ ڈیوٹی کو اللہ نے قبول کیا اور جمعہ کے دن ہی خدا کے حضور اپنی اصل ڈیوٹی کیلئے حاضر ہوگیا۔

عبادتوں کے اوقات میں عبادت گذار بندوں کی اسلحہ لیکر حفاظت کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔

ہر قسم کے دستی اسلحے سے مکمل واقفیت اور چلانے کا ہُنر اسے آتا تھا۔

جس کیلئے اس نے ایلیٹ فورس کے ادارے سے باقاعدہ مُستند ٹریننگ حاصل کی تھی۔

ہم چار بھائی تھے، عمران احمد کے بعد تین رہ گئے۔ اللہ کے فضل سے ہم تینوں بھائی وقف کی رُوح سے کام کی توفیق پا رہے ہیں۔

الحمدللہ ہم سارے بھائی جماعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ میں اور بڑا بھائی بھی دل کے عارضے میں مبتلاء ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کمزور دلوں کو اپنوں کے جنازے نہ اٹھانے دے۔ دل کمزور ہوں تو اپنوں کے جنازے اُٹھانے مشکل ہوتے ہیں۔ جان نکلی جاتی ہے۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیفیت ایسی کہ جسم و جاں میں ہمّت نہیں رہتی اور جان نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مگر آخر میں یہی کہتے ہیں کہ

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دِل تُو جاں فِدا کر

دعا کی درخواست ہے کہ اللہ ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے مرتے دم تک جماعت کی خدمت پر وابستہ رکھے اور انجام بخیر کرے۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

(ابن سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ