• 6 جون, 2025

عید الاضحی کا آغاز، حقیقی عید اور قربانیوں کا فلسفہ

دنیا بھر میں جماعت احمدیہ ہی سچی عید منانے کی مستحق ہے
عید الاضحی کا آغاز، حقیقی عید اور قربانیوں کا فلسفہ

عید یا خوشی منانے کا تصور ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔ اکثر اقوام میں خوشی کا تصور کھیل تماشا، لہوو لعب اور رنگ و سرود کی محافل جمانےسے عبارت ہے لیکن اسلام نے عید کے حوالے سے حقیقی خوشی کا تصور پیش کیا جس کا تعلق عبادات اور قربانیوں کے ساتھ خوشی منانا ہے۔

قبل از اسلام عربوں میں صرف ایک عید کا تصور تھا جو کہ حج کی خوشی میں حج کے اختتام پر منائی جاتی تھی گویا عید الاضحی کسی رنگ میں عربوں میں رائج تھی اور اسی کو اسلام نے قربانیوں کی عید کے ساتھ جاری کیا ہے۔ جبکہ عید الفطر خالصۃًاسلامی عید ہے جس کو حضرت محمد مصطفیؐ نے جاری فرمایاجو کہ ماہ رمضان کے روزوں اور عبادات کے بعد منائی جاتی ہے۔

اسلام میں عیدوں کا ا ٓغاز

حدیث کی مستند کتاب سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ العیدین میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ مدینہ منورہ(یثرب) میں جلوہ گر ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے کھیل کود اور تماشے کے لئے دو دن مقرر کئے ہوئے تھے (یعنی عید نوروز اور عید مھرجان)۔ اس پر آنحضرتؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ دو دن کیسے ہیں تو مدینہ کے انصار نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں ان دونوں عیدوں کے مواقع پر کھیلا کودا کرتے تھے۔ تب رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو مواقع کےبہتر بدلے میں آپ کو عیدالاضحی اور عید الفطر کے دن مرحمت فرما دئیےہیں۔

عیدین کا آغاز مدینہ منورہ میں ہوا۔ ابن حبان کی روایت کے مطابق مسلمانوں نے نماز عید ہجرت کے دوسرے سال ادا کرنی شروع کی۔ ان کی روایت میں عید الفطر کی تو صراحت موجود ہےلیکن عید الاضحی کی صراحت نہیں تاہم بعض دیگر روایات جن میں حضرت انسؓ کی روایت اوپر بیان ہوئی ہے سے معلوم ہوتا ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحی ایک ہی سال شروع ہوئی تھیں۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح کتاب الصلوٰۃ باب صلاۃ العیدین)

عید الاضحی یا قربانیوں کی عید

عید الاضحی یا قربانیوں کی عید جسے برصغیر میں عید البقر اور بڑی عید کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یہ عید سنت ابراہیمی کی یاد میں منائی جاتی ہے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ عربوں میں اسلام سے پہلے حج کے بعد خوشی منانے کا تصور موجود تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کی قربانی کا تذکرہ قرآن کریم نے سورۃ صافات میں کیا ہے۔عید الاضحی کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ دس ذی الحجہ کو منائی جاتی ہےاور اسے یوم النحر بھی کہتے ہیں یعنی قربانی کا دن۔ یہ دن حج کا نقطئہ معراج ہوتا ہے جو کہ پانچواں رکن اسلام ہے۔

یوم النحر کی فضیلت

آنحضرتؐ نے یوم النحر کی غیر معمولی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ جتنے آدمی یوم عرفہ کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے اتنے کسی اور دن نہیں کرتا۔ وہ اس دن بندوں کے بہت قریب ہو جاتا ہے اور فرشتوں کو فخریہ کہتا ہے کہ میرے بندے کیا چاہتے ہیں! (سنن ابن ماجہ ابواب المناسک باب الدعا بعرفۃ)

حجۃ الوداع کے موقع پر یوم النحر (عید الاضحی کے دن) کو آنحضرتؐ نے جمروں کے بیچ قیام فرمایا اور فرمایا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں پھر قربانی کا جانور ذبح کیا اور پھر حجام سے سر کے بال منڈوائے اور وہاں موجود صحابہ کو اپنے بالوں کا تبرک بھی عطا فرمایاتھا۔

(بخاری کتاب المناسک باب الخطبۃ فی ایام منی،سنن ابی داؤد کتاب الحج باب الحلق والتقصیر)

عیدین کے دن خوشیوں کے مواقع ہیں اس لئے آنحضورؐ نے عید الاضحی اور عید الفطر کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ عید الفطر روزوں سے افطار کا دن ہے اور مسلمانوں کے لئے عید ہے اور عید الاضحی میں اس لئے کہ تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ۔

(ترمذی ابواب الصوم،باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم یوم الفطر و یوم النحر)

عید الاضحی یعنی قربانیوں کی عید سنت ابراہیمی کی یاد میں منائی جاتی ہے اور یہ حج کے موقع پر رکھی گئی ہے جو کہ تمام عبادات اور عشق و محبت اور وارفتگی کی معراج ہے۔ یہ دن ہمیں مال جان وقت اور عزت کی قربانی اور اپنے مولیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنے کا سبق دیتا ہے۔ نیز قربانی اور جذبہ ایثار کی روح پیدا کرتا ہے اس لحاظ سے عیدالاضحی ٰ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی معراج ہے۔عید الاضحی کا حقیقی تصور کیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں جو عید الاضحی کے حقیقی تصور کے مختلف پہلوؤں کو ہم پر آشکار کرتے ہیں نیز عید الاضحی کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی خصوصی تعلق ہے۔

عید الاضحی کا تصور اور پس منظر

حضرت مصلح موعودؓ عیدالاضحی کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:۔ ’’آج کی عید جو عید الاضحیہ کہلاتی ہے یعنی وہ عید جو قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ حج کے دوسرے دن اور اس کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہو کر آتی ہے۔ اس تقریب کی وجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ قربانی بیان کی جاتی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی خدا کے حضور پیش کی پس یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کی یادگار ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا۔

بیٹوں کی ظاہری رنگ میں قربانی تو اسلام نے ناجائز بتائی ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کا حکم دینے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اس اصل کو قائم کرنا چاہتا تھا کہ آئندہ کے لئے بیٹوں کی ظاہری قربانی ممنوع قرار دی جاتی ہے۔‘‘

پھر فرمایا:۔ ’’پس خدا تعالیٰ نے یہ خواب دکھا کر دو اہم امر بیان فرما دئیے۔ یہ بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا بیٹا خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہو گا۔ اور یہ بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ظاہری رنگ میں بیٹے کی قربانی کرنا چاہیں گے تو میں انہیں منع کر دوں گا اور کہوں گا کہ انسان کی اس رنگ میں قربانی میں نہیں چاہتا۔ اسی حکمت کے ماتحت خداتعالیٰ نے تصویری زبان میں انہیں یہ تمام نظارہ دکھایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان بھی ہو گیا اور وہ شرح صدر سے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا بھی امتحان ہو گیا اور وہ بھی خوشی سے ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ244-245)

عید الاضحی کا فلسفہ

عید الاضحی کے تصور اور اس کے حقیقی فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’در حقیقت اس دن میں بڑا سر یہ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے جس قربانی کا بیج بویا تھا اور مخفی طور پر بویا تھا آنحضرتﷺ نے اس کے لہلہاتے کھیت دکھائے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دریغ نہ کیا۔ اس میں مخفی طور پر یہی اشارہ تھا کہ انسان ہمہ تن خدا کا ہو جائے اور خدا کے حکم کے سامنے اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے اقربا و اعزا کا خون بھی خفیف نظر آوے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ327)

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ رؤیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔اسی رنگ میں پوری ہوئی کہ آپ حضرت اسمٰعیلؑ کو ایک جنگل میں چھوڑ گئے۔ یہی حقیقی تعبیر تھی اس رؤیا کی۔ وہ دراصل ایک پیشگوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جبکہ تم خدا کے حکم کے ماتحت اپنے لڑکے کو ایسے جنگل میں جہاں بظاہر زیست کا کوئی سامان نہ ہو گا چھوڑ آؤ گے اور اس کی بجائے قربانیاں ہوا کریں گی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ کو یہی دکھایا گیا کہ دنبہ ذبح کرو جس کو انہوں نے کردیا۔ اب اسی کی یاد میں قربانیاں ہوتی ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ14)

’’خطبہ الہامیہ‘‘- قربانیوں کے اغراض و مقاصد

11؍اپریل 1900ء کو جو عیدالاضحی قادیان میں منائی گئی۔ اس دن عید کی نماز ادا کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو ‘‘خطبہ الہامیہ’’ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ اس خداداد خطبہ میں آپ نے عید اور قربانیوں کی حقیقت کو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ عربی میں بیان فرمایا اور پھر اس کا اردو ترجمہ بھی شائع فرمایا ہے۔ قربانیوں کی حقیقت کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو اقتباس (اردو ترجمہ سے) پیش ہیں۔ آپ ؑ فرماتے ہیں۔
’’مسلمان وہ ہے جس نے اپنا منہ ذبح ہونے کے لئے خداتعالیٰ کے آگے رکھ دیا ہو۔ اور اپنے نفس کی اونٹنی کو اس کے لئے قربان کردیا ہو اور ذبح کے لئے پیشانی کے بل اس کو گرا دیا ہو اور موت سے ایک دم غافل نہ ہو۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ ذبیحہ اور قربانیاں جو اسلام میں مروّج ہیں وہ سب اسی مقصود کے لئے جو بذل نفس ہے بطور یاددہانی ہیں اور اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے ایک ترغیب ہے اور اُس حقیقت کے لئے جو سلوک تام کے بعد حاصل ہوتی ہے ایک ارہاص ہے۔ پس ہر ایک مرد مومن اور عورت مومنہ پر جو خدائے ودود کی رضا کی طالب ہے واجب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھے اور اس کو اپنے مقصود کا عین قرار دے اور اس حقیقت کو اپنے نفس کے اندر داخل کرے یہاں تک کہ وہ حقیقت ہرذرّہ وجود میں داخل ہوجائے۔ اور راحت اور آرام اختیار نہ کرے جب تک کہ اس قربانی کو اپنے رب معبود کے لئے ادا نہ کرلے۔‘‘

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ35-36)

پھر فرمایا۔
’’بہ تحقیق قربانیاں وہی سواریاں ہیں کہ جو خداتعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں۔ ان پر خداتعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں اور آ نجناب نے ان کلمات میں قربانیوں کی حکمتوں کی طرف فصیح کلموں کے ساتھ جو موتیوں کی مانند ہیں اشارہ فرمایا ہے۔ پس افسوس اور کمال افسوس ہے کہ اکثر لوگ ان پوشیدہ نکتوں کو نہیں سمجھتے اور اس وصیت کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے نزدیک عید کے معنے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ غسل کریں اور نئے کپڑے پہنیں اور طعام کو سارے مونہہ کے ساتھ اور دانتوں کے کناروں سے چباویں۔ خود اور ان کے اہل وعیال اور نوکر اور غلام۔ اور پھر آرائش کے ساتھ نماز عید کیلئے باہر نکلیں جیسے بڑے رئیس ہوتے ہیں۔ اورتو دیکھے گا کہ اچھے کھانوں میں اس دن ان کی سب سے بڑھ کر خوشی ہے اورایسا ہی اچھی اور نفیس پوشاکوں میں انتہائی مرتبہ ان کی حاجتوں کا ہے تاقوم کو دکھلائیں اور نہیں جانتے کہ قربانی کیا چیز ہے۔‘‘

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ46-47)

ہم عید الاضحی کیوں مناتے ہیں

حضرت مصلح موعودؓ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’آج ایک مسلمان اگر عید الاضحیہ مناتا ہے تو اس لئے نہیں کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بچا لیا یا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بے ایمانی کا نمونہ نہیں دکھایا اور الہٰی حکم کے مطابق وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے بلکہ مسلمان جب جب عید کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی کہ ستارے گنے جا سکیں گے لیکن تیری اولاد نہیں گنی جاسکے گی پوری ہو گئی ہے۔ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ پیشگوئی دراصل محمدی پیشگوئی تھی اور ابراہیمی نسل کے پھیلنے کا وقت محمد رسول اللہؐ کی بعثت کا زمانہ تھا۔ پس یہ عید بے شک حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے لیکن یہ اس بات کی شہادت ہے کہ چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خدا تعالیٰ کا جو کلام نازل ہوا تھا وہ محمد رسول اللہؐ کی بعثت کے متعلق تھا اور آپ ہی کے ذریعہ پورا ہوا۔ اس عید کے ذریعہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اب ابراہیمی نسل وہ نہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کے نطفہ سے پیدا ہوئی بلکہ ابراہیمی نسل وہ لوگ ہیں جو محمد رسول اللہؐ پر ایمان لائے۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ322)

قربانی کے بعد عید کا تصور

ہر قربانی کے بعد عید کا تصور پایا جاتا ہے۔ ابراہیمی قربانی نے جو عید کا عظیم الشان تصور دیا اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒبیان فرماتے ہیں:۔ ’’ہر قربانی کے بعد ایک عید کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قربانی کے مضمون کو انتہا تک پہنچا دیا تو ان کی عید کا تصور بھی بہت ہی عظیم الشان تصور ہو گا۔ ان قربانیوں کی جو جزا اپنے رب سے مانگی ہو گی وہ بھی بہت عظیم الشان ہو گی۔ چنانچہ جو جزا مانگتے ہیں وہ یہ ہے:

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۳۰﴾

(البقرہ: 130)

اے خدا !میں ان ساری قربانیوں کی جو میں نے دیں یا میرے بیٹے نے دیں یا میری اولاد در اولاد ہمیشہ دیتی چلی جائے گی ان سب قربانیوں کی ایک ہی جزا چاہتا ہوں کہ ہم ہی میں سے وہ عظیم الشان رسول پیدا فرما دے جس کا وعدہ تو نبیوں کو دیتا چلا آیا ہے یعنی محمد مصطفیٰﷺ کی بعثت کا انعام ہمیں عطا فرما۔ محمد مصطفیﷺ کی عید ہماری قربانیوں کی عید ہو گی۔ نہ اتنی بڑی قربانیوں کا، اتنی وسیع قربانیوں کا، اتنی گہری قربانیوں کا کوئی تصور کہیں آپ کو دکھائی دے گا نہ اتنا عظیم قربانیوں کا اتنا عظیم الشان بدلہ مانگا گیا، نہ ایسی عظیم الشان عید کا کہیں مطالبہ کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بھی ایک عید مانگی تھی عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا (المائدہ: 115) وہ کیا تھی؟ ایک مائدہ ہی تو تھا، دنیا کی نعمتیں تھیں جو انہوں نے مانگیں اور وہ نعمتیں ان کو مل رہی ہیں اور اس طرح مل رہی ہیں کہ کبھی دنیا کی کسی قوم کو وہ دنیاوی نعمتیں نہیں ملیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو جزا مانگی، جو عید طلب کی وہ ایسی حیرت انگیز ہے کہ انسان کا تصور عرش کے انتہائی کنارے پر جہاں پہنچ سکتا ہے وہاں وہ تصور پہنچا اور وہ وجود مانگا جو اپنی ترقی اور اپنے ارتقاءمیں تخلیق کے آخری کنارے تک واقعۃً پہنچ گیا۔ اس وجود نے ان حدود کو چھوا جس کے بعد خدا کی حدیں شروع ہو جاتی ہیں۔‘‘

(خطبات طاہر عیدین صفحہ429)

ذبح عظیم سے مراد

اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے اس کا بدلہ ذبح عظیم دیا۔ذبح عظیم کیا ہے اس کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:۔ ’’یقیناً ذبح عظیم سے مراد حضرت اقدس محمد رسول اللہؐ اور ان لوگوں کی قربانیاں ہیں جو آپؐ کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے واقعۃً خدا کی راہ میں بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی گردنیں کٹا دیں اپنی ہر ذاتی تمنا اور خواہش کو قربان کر دیا اپنی ہر بدنی آسائش کو قربان کر دیا۔ جو کچھ ان کے پاس تھا خدا کے راستہ میں لاڈالا اور اف تک نہیں کی۔ یہ جو قربانیاں تھیں حضرت محمد رسول اللہؐ اور آپ کے غلاموں کی، یہ ذبح عظیم ہیں۔ تو وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (صافات: 108) سے مراد یہ ہے کہ ایک بہت ہی عظیم الشان ذبح ہونے والا تھا جسے ذبح عظیم کا نام دیا گیاہے۔ مکے کے میدانوں نے ایک عجیب قربانی کا عالم دیکھنا تھا،وہ ذبح عظیم ہےجس کے بدلے ہم نے اس کی جان کو معاف کر دیاہے،اس کو فدیہ دے دیا ہے اور ایک قربانی ایک عظیم تر قربانی پر منتج ہونے والی ہے۔‘‘

(خطبات طاہر عیدین صفحہ533)

بشاشت کے ساتھ قربانیاں کریں

یہ قربانیوں کی عید ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہو اور مسکراتے چہروں کے ساتھ قربانی کی جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔ ’’عید الاضحیہ کے معنے ہیں قربانیوں کی عید جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مفہوم ہے کہ قربانیوں پر لوگ رویا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمہارا اس طرح امتحان لوں گا کہ تم قربانی کرو اور ہنسو۔اور اگر ہمارا خدا چاہتا ہے کہ ہم ہنستے ہوئے اس کے حضور قربانی پیش کریں تو ایک مومن کی حیثیت سے، ایک عاشق کی حیثیت سے ایک محب کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کریں اورہنستے ہوئے کریں۔

پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں آج کی عید کی حکمت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ یہ عید بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو قربانیاں کرنی پڑیں گی اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ ہنستے ہوئے چہروں کے ساتھ قربانیاں کریں۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ303-304)

عید الاضحی پر کثرت سے تکبیرات پڑھنے کا حکم

عید الاضحی کے موقع پر کثرت کے ساتھ تکبیرات پڑھنے کا حکم آنحضرتؐ نے فرمایا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:۔ ’’اس عید کے موقع پر رسول کریمؐ کا ارشاد ہے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ کا کثرت سے ذکر کیا جائے۔آپ اس موقع پر صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ٹیلے پر چڑھو تو یہ ذکر کرو اور ٹیلے سے اترو تو بھی لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر پڑ ھا کرو۔ جب ایک دوسرے کے سامنے آؤ تو بھی ذکر بلند آواز سے پڑھا کرو۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ292)

عیدالاضحی اولاد کی قربانی کا سبق دیتی ہے

اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ’’یہ عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی اور اپنی اولادوں کی قربانی ضروری ہے۔ جب بھی انبیاء دنیا میں آئے ہیں ان کو معنوی طور پر یہ قربانی پیش کرنی پڑی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے انسان کی جسمانی قربانی تو بند ہوگئی مگر نفوس کی قربانی کی بنیاد ڈال دی گئی۔اور حق یہ ہے کہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول نا ممکن ہے۔ ظاہری قربانی جو جا نوروں کی باقی ہے اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظاہری رنگ میں جانور وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔ ان کو اس امر پر خوش نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ خدا تعالیٰ کو پہنچتی ہے۔ فرمایا لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (الحج: 38) تمہارے ان قربانی کے جانوروں کا گوشت یا خون اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو صرف وہ نیکی اور پاکیزگی پہنچتی ہے جو تمہارے دلوں میں ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ257-258)

عید الاضحی کا جماعت احمدیہ سے خصوصی تعلق

عید الاضحی کا جماعت احمدیہ کے ساتھ خصوصی تعلق ہےحضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں فرمایا: ’’یہ عید ہمارے سلسلہ سے خاص تعلق اور مناسبت رکھتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس عید کو ہمارے سلسلہ میں ایک خاص خصوصیت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی کسی جمعہ یا عید کا خطبہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ مگر ایک مرتبہ اسی عید کے موقعہ پر الہام کے ذریعہ آپ کو حکم ہوا کہ خطبہ پڑھیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھا اور اب وہ خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر موجود ہے۔ تو یہ عید ہمارے سلسلہ سے ایک خاص مناسبت اور تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مناسبت بیان فرمائی ہے جو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کو عید الاضحی سے مشابہت بتائی ہے اور وہ مشابہت اللہ تعالیٰ نے سورۂ کوثر میں بیان کی ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد2 صفحہ25)

جماعت احمدیہ سچی عید منانے کی مستحق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بیان فرماتے ہیں کہ:۔ ’’اگر آپ اس تعبیر کو سمجھ لیں اور حقیقت کو زندہ رکھیں تو پھر دنیا میں صرف ایک ہی جماعت ہو گی جو سچی عید منانے کی مستحق ہو گی اور وہ جماعت احمدیہ ہو گی۔ باقی سارے تو بکرے ذبح کر کر کے گوشت کھا رہے ہوں گے اور آپ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے۔ خدا کے پیار کی نگاہیں آپ پر پڑ رہی ہوں گی۔ آپ اس عید کے مستحق بنائے جائیں گے جو ابراہیمؑ کی عید تھی،جس کا انجام خدا تعالیٰ نے یوں بتایا سَلٰمٌ عَلَىٰٓ إِبْرٰهِيمَ (صافات: 110) کہ اے میرے بندے! آج تیری عید ہے کیونکہ عرش کا خدا تجھ پر سلام بھیج رہا ہے اور قیامت تک جب تک انسان باقی رہیں گے تجھ پر سلام بھیجتے رہیں گے۔

پس اس پہلو سے اس عید کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا جماعت احمدیہ کے سپرد ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمیشہ ایک نسل پر نہیں بلکہ ایک نسل کے بعد اگلی نسل پر، پھر اس سے اگلی نسل پر بھی ہم قربانیوں کو کامل کرتے چلے جائیں اور قربانیاں دینے کے باوجود بھی اس ابراہیمی روح کا مظاہرہ کریں۔‘‘

(خطبات طاہر عیدین صفحہ388)

(ایم۔ایم۔طاہر)

پچھلا پڑھیں

خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2022