•مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں۔
روزنامہ الفضل کے 109 سال مکمل ہونے پر خصوصی نمبر بہت دلچسپ مضامین لئے ہوئے تھا۔ عثمان مسعود صاحب کی تحریر میں درج جملہ ’’وہ قلمی جہاد جو ہم الفضل میں کریں گے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اور ہمیں بھی کسی نہ کسی بہانے لوگ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے‘‘ یقیناً تحریک دلانے والا تھا۔
’’خدا ہو مہربان تم پر کہ میرے مہربان تم ہو‘‘ مکرمہ صفیہ بشیر سامی کی تصنع سے پاک دل کو چھو لینے والی تحریر جس میں عجز و انکسار کا غالب پہلو اس کو مزید خوبصورت بنا گیا۔ اس تحریر نے بہت سے درس دیے۔
مکرمہ درثمین احمد کا نہایت عمدہ مضمون ’’روزنامہ الفضل سے میری وابستگی‘‘ خوبصورت الفاظ سے مرصّع، احساسات کا ترجمان، الفضل کی خوبیوں اور اس سے وابستگی کی صورت میں ملنے والے افضال و فوائد کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ مصنفہ نے پروف ریڈنگ کی مشکلات کا ذکر کیا تو خاکسار کو اخباراحمدیہ میں شائع ایک خط یاد آگیا۔ ہدیہ قارئین کرتی ہوں کہ یقینا آپ بھی میری طرح اس سے حَظ اٹھائیں گے۔
’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘
اخبار احمدیہ جرمنی کے ایک قاری ایڈیٹر کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اس دنیا کی عظیم الشان ہستیاں جنہیں عرف عام میں ’’مدیر‘‘ کہا جاتا ہے کی دلی کیفیت کا اندازہ مذکورہ بالا مصرعہ سے ہوتا ہے۔ مضمون نگاروں سے منت سماجت کرکے مضمون لکھواتے ہیں۔ وہ بھی بعد میں خود از سر نو لکھنا پڑتا ہے۔ رسالے کے پروف دس دس بار پڑھتے ہیں پھر بھی اغلاط رہ جاتی ہیں۔ الغرض جس کرب وعذاب سے یہ ایڈیٹر نامی مخلوق گزرتی ہے اس کا اندازہ سابق ایڈیٹران ہی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے احباب تمام ایڈیٹر صاحبان کی بلندی درجات کے لئے دعاگو رہیں۔ جس کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ جس قسم کی عبارتیں ایڈیٹر صاحب کو درست کرنی پڑتی ہیں یہ اذیت ان کے لیے بروز محشر بخشش کے لیے کافی ہے۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو (نوید حمید) (از: اخبار احمدیہ فروری2020ء)
•مکرمہ نصرت قدسیہ۔ فرانس سے لکھتی ہیں۔
مورخہ 20جون 2022ء کے اداریہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نایاب دعا آپ نے تحریر کی ہے وہ ہر قاری کے لئے اک تحفہ ہے۔