کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 39
کتاب تعلیم کی تیاری کی قسط 39 بوجوہ شائع ہونے سے رہ گئی تھی جو اب یہاں شائع کی جا رہی ہے۔
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
ہم اپنے خدا تعالیٰ پر یہ قوی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے صادق بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اگر وہ آگ میں ڈالا جاوے تو وہ آگ اس کو جلا نہیں سکتی۔ ہمارا مذہب یہی ہے کہ ایک آگ نہیں اگر ہزار آگ بھی ہو تو وہ جلا نہیں سکتی۔ صادق اُس میں ڈالا جاوے تو ضرور بچ جاوے گا۔ ہم کو اگر اس کام کے مقابلہ میں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے آگ میں ڈالا جاوے تو ہمارا یقین ہے کہ آگ جلا نہیں سکے گی اور اگر شیروں کے پنجرہ میں ڈالا جاوے تو وہ کھا نہ سکیں گے۔ میں یقیناً کہتا ہوں کہ ہمارا خدا وہ خدا نہیں جو اپنے صادق کی مدد نہ کر سکے بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے جو اپنے بندوں اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعا بھی ایک فضول شے ہو۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ میں خدا تعالیٰ کی نسبت بیان کرتا ہوں اس کی قوتیں اور طاقتیں اس سے بھی کروڑ در کروڑ درجے بڑھ کر ہیں۔ جن کو ہم بیان نہیں کر سکتے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اگر قریش مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر آگ میں ڈال دیتے تو وہ آگ ہرگز ہرگز آپ کو جلا نہیں سکتی تھی۔ اگر کوئی محض اس بنا پر کہ آگ اپنی تاثیر نہیں چھوڑتی انکار کرے تو وہ خبیث اور کافر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے جب ان سب دشمنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ دیا فَکِیۡدُوۡنِیۡ جَمِیۡعًا (ھود: 56) تم سب مکر کر کے دیکھ لو میں اس کو ضرور بچا لوں گا۔ پھر اگر کوئی یہ وہم بھی کرے کہ آگ میں ڈالتے تو مَعَاذَ اللّٰہِ جل جاتے یہ کفر ہے۔ قرآن شریف سچا ہے اور خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں وہ کوئی بھی حیلہ اور فریب آپ کی جان لینے کے لیے کرتے۔ اللہ تعالیٰ ضرور اُن کے گزند سے محفوظ رکھتا جیسا کہ محفوظ رکھ کر دکھا دیا۔ خواہ وہ صلیب کا مکر کرتے خواہ آگ میں ڈالنے کا۔ غرض کوئی بھی کرتے آخر محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے وعدے کے موافق صادق ثابت ہوتے جیسا کہ ہوئے۔ جس طرف ہم اپنی جماعت کو کھینچنا چاہتے ہیں وہ یہی عظیم الشّان مرحلہ خدا شناسی کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ آہستہ آہستہ سب کچھ ہو جاوے گا۔
ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بگھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ89-90 ایڈیشن 2016ء)
عبادت کے دو حصے تھے۔ ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی روح گداز ہو کر الوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اس میں پیدا ہو جاتا ہے۔
دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے اسی لیے فرمایا ہے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ: 166) اور دنیا کی ساری محبتوں کو غیر فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جاوے۔
یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کے لیے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے۔ مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہیں۔
خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے۔ جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا۔ اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی۔ اور جس قدر محبتِ الٰہی میں وہ ترقی کرے گا۔ اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور بُرائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا۔
پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لیے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا اور محبت کی حالت کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے۔ خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلّل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدّت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے۔ کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا۔ سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی۔ اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے۔ وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی۔ غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے۔ وہ حج میں موجود ہے۔ سر منڈایا جاتا ہے۔ دوڑتے ہیں۔ محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے۔ اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے۔ نادان ہے وہ شخص جو اپنی نابینائی سے اعتراض کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ96-97 ایڈیشن 2016ء)
نفس کے ہم پر حقوق
ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو، لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرّعد: 18) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔ اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں۔ حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت۔ دوسرے بنی نوع سے ہمدردی۔ لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عابد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے۔ اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے اور اس کی صورت یہ ہے اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ (العصر: 4) سے پایا جاتا ہے۔ انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے، لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس لیے اُس کو چاہئے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے۔ ہمدردیٔ خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو۔ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ کے مقابل پر ایک دوسری آیت ہے جو دراصل اس وسوسہ کا جواب ہے کہ عابد کے مقابل نفع رساں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور عابد کی کیوں نہیں ہوتی؟ اگرچہ میں نے بتایا ہے کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان: 78) یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ ربّ کو نہ پکارو تو میرا ربّ تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ عابد زاہد جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بنوں اور جنگلوں میں رہے اور تارک الدُّنیا تھے ہمارے نزدیک وہ بودے اور کمزور تھے کیونکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جاوے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل معرفت ہو جاوے وہ کبھی خاموش رہ سکتا ہی نہیں۔ وہ اس ذوق اور لذّت سے سرشار ہو کر دوسروں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ92-93 ایڈیشن2016ء)
جوں جوں انسان بڈھا ہوتا جاتا ہے دین کی طرف بےپروائی کرتا جاتا ہے۔ یہ نفس کا دھوکہ اور سخت غلطی ہے جو موت کو دور سمجھتا ہے۔ موت ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس سے کسی صورت میں بچ نہیں سکتے اور وہ قریب ہی قریب ہے ہر ایک نیا دن موت کے زیادہ قریب کرتا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض آدمی اوائل عمر میں بڑے نرم دل تھے۔ لیکن آخر عمر میں آ کر سخت ہو گئے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ نفس دھوکہ دیتا ہے کہ موت ابھی دور ہے۔ حالانکہ بہت قریب ہے۔ موت کو قریب سمجھو تا کہ گناہوں سے بچو۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ94 ایڈیشن2016ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
مذہب کا خلاصہ دو ہی باتیں ہیں اور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پر آ کر ٹھہرتا ہے۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد۔ مگر ان دونوں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا اور اُسے وید کی تعلیم کا عِطر بتایا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حق دو ہی ہیں۔ ایک خدا کے حقوق کہ اُسے کس طرح پر ماننا چاہئے۔ اور کس طرح اُس کی عبادت کرنی چاہئے۔ دوم بندوں کے حقوق یعنی اس کی مخلوق کے سا تھ کیسی ہمدردی اور مواسا ت کرنی چاہئے۔
دیانند نے اس کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میں پھر بتاؤں گا۔ پہلے یہ ظاہر کر دُوں۔ کہ عیسائیوں نے بھی ان دونوں اصولوں میں سخت بیہودہ پن ظاہر کیا ہے۔ حق اللہ میں تو دیکھ لیا۔ کہ انہوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا۔ جو موسیٰؑ اور دیگر راستبازوں اور پاکیزہ لوگوں پر ظاہر ہوا تھا اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا اور حقوق العباد کی وہ مٹی پلید کی کہ کسی طرح پر وہ درست ہونے میں نہیں آتے۔
انجیل کی ساری تعلیم ایک ہی طرف جُھکی ہوئی ہے اور انسان کی کل قوتوں کی مربّی نہیں ہو سکتی۔ اوّل تو کفّارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اتلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مِل سکتی ہے۔ کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے۔ کہ مسیح کے خُون نے گناہوں کی نجاست کو دُور کردیا ہے اور دھو دیا ہے۔ حالانکہ عام طور پر خُون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں اور کیونکر یقین کریں۔ چوری کرنے، بیگانہ مال لینے۔ ڈاکہ زنی۔ خُون کرنے۔ جُھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی۔ اگر باوجود کفّارہ پر ایمان لانے کے بھی گُناہ گُناہ ہی ہیں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کفّارہ کے کیا معنی ہیں۔ اور عیسائیوں نے کیا پایا۔
غرض حقوق العباد کو پورے طور پر ادا کرنے اور بجا لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قوتوں کا مالک بنا کر بھیجا تھا اور اس سے منشاء یہی تھا کہ اپنے محل پر ہم ان قوتوں سے کام لے کر نوعِ انسان کو فائدہ پہنچائیں۔ مگر انجیل کا سارا زور حلم اور نرمی ہی کی قوت پر ہے حالانکہ یہ قوت بعض موقعوں پر زہر قاتل کی تاثیر رکھتی ہے۔ اس لئے ہماری یہ تمدّنی زندگی جو مختلف طبائع کے اختلاط اور ترکیب سے بنی ہے۔ اپنی ترکیب اور صُورت ہی میں بالطّبع یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قویٰ کو محل اور موقع پر استعمال کریں۔ لیکن انجیل محل اور موقع شناسی کو تو پس پشت ڈالتی ہے اور اندھا دُھند ایک ہی امر کی تعلیم دیتی ہے۔ کیا ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینا عملی صورت میں بھی آ سکتا ہے۔ اور کُرتہ مانگنے والے کو چُغہ دینے والے آپ نے بھی دیکھے ہیں اور کیا کوئی آدمی جو انجیل کی تعلیم کا عاشِق زار ہو کبھی گوارا کر سکتا ہے۔ کہ کوئی شریر اور نابکار انسان اس کی بیوی پر حملہ کرے تو وہ لڑکی بھی پیش کر دے؟ ہرگز نہیں۔
جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صِحت اور صلاحیّت کے لئے ضرور ہے کہ مختلف قسم کی غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف قسم کے لباس پہنیں ویسے ہی رُوح کی صلاحیّت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشو و نما کے واسطے لازم ہے کہ اس قاعدہ کو مدّنظر رکھیں۔ جسمانی تمدّن میں جس طرح پر گرم سرد۔ نرم سخت۔ حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا ہونا ایسی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ رُوح کی بھلائی کے لئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یا نہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس اور غیُور انسان کی نِگاہ میں ایسا معلّم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا۔ کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا نے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں۔ پس اگر انجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے اور دیتی ہے۔ تو میں آپ سے انصافاً پوچھتا ہوں کہ خدا سے ڈر کر بتائیں کہ یہ خدا کے اس فعل کی ہتک نہیں ہے کہ اُس نے مختلف قوتیں اور استعدادیں انسان کی رُوح میں رکھ دی ہیں۔ اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ صرف نرمی اور حِلم ہی کی قوت سے ساری قوتوں کا نشو و نما ہو سکتا ہے۔ تو اس کی دانشمندی میں کوئی شک کرے گا۔ بحالیکہ خود خدا کی صفات بھی مختلف ہیں۔ اور اُن سے مختلف افعال کا صدور ہوتا ہے۔ اور خود کوئی عیسائی پادری ہم نے ایسا نہیں دیکھا کہ مثلاً سردی کے ایام میں بھی گرمی ہی کے لباس سے کام لے۔ اور ویسی غذاؤں پر گزارہ کرے یا ساری عمر ماں ہی کا دُودھ پیتا رہے یا بچپن ہی کے چھوٹے چھوٹے کُرتے پاجامے پہنا کرے۔ غرض اس قسم کی تعلیم پیش کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے۔ اگر ایمان اور خدا کا خوف ہو۔ اگر نرمی اور حِلم ہی کافی تھا۔ تو پھرکیا یہ مصیبت پڑی کہ انجیل کے ماننے والوں کو دیوانی فوجداری جرائم کی سزاؤں کے لئے قانون بنانے پڑے۔ اور سیاست اور مُلک داری کے آئین کی ضرورت ہوئی۔ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیرنے والوں کو فوجوں اور پولیس کی کیا ضرورت!! خدا کے لئے کوئی غور کرے۔ پس اس اصول نے تمام حقوق العباد پر پانی پھیر دیا ہے۔ جبکہ ساری قوتوں ہی کا خون کر دیا۔ اب اس کے مقابل میں دیکھو کہ اسلام نے کیسی تعلیم دی اور کس طرح پر ساری قوتوں اور طاقتوں کا تکفل فرمایا۔ اسلام نے سب سے اوّل یہ بتایا ہے کہ کوئی قوت اور طاقت جو انسان کو دی گئی ہے۔ فی نفسہٖ وہ بُری نہیں ہے بلکہ اس کی افراط یا تفریط اور بُرا استعمال اُسے اخلاق ذمیمہ کی ذیل میں داخل کرتا ہے اور اس کا برمحل اور اعتدال پراستعمال ہی اخلاق ہے۔ یہی وہ اصول ہے جو دوسری قوموں نے نہیں سمجھا۔ اور قرآن نے جس کو بیان کیا ہے۔ اب اس اصول کو مدّنظر رکھ کر وہ کہتا ہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ (الشوریٰ: 41) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے لیکن جس نے عفو کیا اور اس عفو میں اصلاح بھی ہو۔ عفو کو تو ضرور رکھا ہے۔ مگر یہ نہیں کہ اس عفو سے شریر اپنی شرارت میں بڑھے یا تمدّن اور سیاست کے اُصولوں اور انتظام میں کوئی خلل واقع ہو۔ بلکہ ایسے موقع پر سزا ضروری ہے۔ عفو اصلاح ہی کی حالت میں روا رکھا گیا ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ تعلیم انسانی اخلاق کی متمّم اور مکمل ہو سکتی ہے یا نرے طمانچے کھانے۔ قانون قدرت بھی پکار کر اسی کی تائید کرتا ہے۔ اور عملی طور پر بھی اس کی ہی تائید ہوتی ہے۔ انجیل پر عمل کرنا ہے تو پھر آج ساری عدالتیں بند کر دو۔ اور دو دن کے لئے پولیس اور پہرہ اُٹھا دو۔ تو دیکھو کہ انجیل کے ماننے سے کس قدر خون کے دریا بہتے ہیں۔ اور انجیل کی تعلیم اگر ناقص اور ادھوری نہ ہوتی تو سلاطین کو جدید قوانین کیوں بنانے پڑتے۔
غرض یہ حقوق العباد پر انجیل کی تعلیم کا اثر ہے۔ اب میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دیانند نے جو وید کا خلاصہ ان دونوں اصولوں کی رُو سے پیش کیا ہے وہ کیا ہے۔ حق اللہ کے متعلق تو اُس نے یہ ظلم کیا ہے کہ مان لیا ہے کہ خدا کسی چیز کا بھی خالق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ذرّات اور ارواح خود بخود ہی اس کی طرح ہیں۔ وہ صرف اُن کا جوڑنے جاڑنے والا ہے۔ جس کو عربی زبان میں مؤلّف کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر حق اللہ کا اتلاف اور کیا ہوگا کہ اس کی ساری صفات ہی کو اُڑا دیا۔ اور عظیم الشان صفت خالقیت کا زور سے انکار کیا گیا۔ جبکہ وہ جوڑنے جاڑنے والا ہی ہے۔ تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ وہ ایک وقت مَر بھی جاوے گا۔ تو اس سے مخلوق پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ جب اُس نے اُسے پیدا ہی نہیں کیا۔ تو وہ اپنے وجود کے بقا اور قیام میں قائم بالذّات ہیں۔ اُس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جوڑنے جاڑنے سے اس کا کوئی حق اور قدرت ثابت نہیں ہوتی۔ جبکہ اجسام اور روحوں میں مختلف قوتیں اتّصال اور انفصال کی بھی موجود ہیں۔ رُوح میں بڑی بڑی قوتیں ہیں۔ جیسے کشف کی قوت۔ انسانی رُوح جیسی یہ قوت دکھا سکتا ہے اور کسی کا رُوح نہیں دکھا سکتا۔ مثلاً گائے یا بیل کا۔ اور افسوس ہے کہ آریہ ان ارواح کو بھی معہ اُن کی قوتوں اور خواص کے خدا کی مخلوق نہیں سمجھتا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ جب یہ اشیاء اجسام اور ارواح خود بخود قائم بالذّات ہیں اور اُن میں اتّصال اور انفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو وجود باری پر اُن کے وجود سے کیا دلیل لی جا سکتی ہے۔ کیونکہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سوٹا ایک قدم چل سکتا ہے۔ دوسرے قدم پر اس کے نہ چلنے کی کیا وجہ؟
وجود باری پر دو ہی قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں۔ اول تو مصنوع کو دیکھ کر صانع کے وجود کیطرف ہم انتقال ذہن کا کرتے ہیں۔ وہ تو یہاں مفقود ہے۔ کیونکہ اس نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا۔ کچھ پیدا کیا ہو تو اس سے وجود خالق پر دلیل پیدا کریں۔ اور یا دوسری صورت خوارق اور معجزات کی ہوتی ہے اس سے وجود باری پر زبردست دلیل قائم ہوتی ہے مگر اس کے لئے دیانند نے اور سب آریوں نے اعتراف کیا ہے کہ وید میں کسی پیشگوئی یا خارق عادت امر کا ذکر نہیں اور معجزہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اب بتاؤ کہ کونسی صورت خدا کی ہستی پر دلیل قائم کرنے کی اُن کے عقیدہ کے رُو سے رہی۔ اور پھر اُن کا ایسا خدا ہے کہ کوئی ساری عمر کتنی ہی محنت و مشقت سے اُس کی عبادت کرے مگر اس کو ابدی نجات ملیگی ہی نہیں۔ ہمیشہ جُونوں کے چکّر میں اُسے چلنا ہوگا۔ کبھی کیڑا مکوڑا اور کبھی کچھ کبھی کچھ بننا ہوگا۔
حقوق العباد کے متعلق اتنا ہی کافی ہے کہ اُن میں نیوگ کا مسئلہ موجود ہے کہ اگر ایک عورت کے اپنے خاوند سے اَولاد نہ ہوتی ہو تو وہ کسی دوسرے مَرد سے ہمبستر ہو کر اَولاد پیدا کر لے اور کھانے پینے مقویات اور بستر وغیرہ کے سارے اخراجات اُس بیرج داتا کے اس خاوند کے ذمّہ ہوں گے جو اپنی عورت کو اُس سے اَولاد لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر قابلِ شرم اَور کیا بات ہوگی۔ یہ تو مختصر سا نمونہ ہے۔ یہاں قادیان میں پنڈت سومراج ایک مدرّس تھا جو آریہ ہے اُس کو میں نے ایک جماعت کے رُو برو بُلایا جس میں بعض ہندُو بھی تھے۔ اور اُس سے یہ مسئلہ پوچھا تو اُس نے کہا ہاں جی کیا مضائقہ ہے۔ اب ہمیں تو اُس کے مُنہ سے یہ سن کر تعجب ہی ہوا۔ دوسرے ہندو رام رام کرنے لگے۔ میں نے سن کر کہا کہ بس آپ جائیے۔ غرض یہ ہے اُن میں حقوق العباد کا لحاظ۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ119-123 ایڈیشن 1984ء)
(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)