• 15 جون, 2025

اسلامی سال کا پہلا مہینہ، محرم الحرام

نوٹ ازایڈیٹر: اسلامی سال 1444ہجری آج غروب آفتاب کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ نیا اسلامی سال تمام عالم انسانیت کےلیے بالعموم اور جماعت احمدیہ عالمگیر کےلیے بالخصوص برکتوں، رحمتوں اور ترقیات کا موجب اورپُرامن ہو اور ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی پُربصیرت رہنمائی میں جماعت احمدیہ میں ہونیوالی غیر معمولی ترقیات کا سلسلہ غلبہ اسلام کا موجب بنے۔ آمین اَللّٰھم آمین۔ اس نئے اسلامی سال کے امائدہ ہمارے قارئین کے لئے مکرم ابو فاضل بشارت ہر ماہ پیش کیا کریں گے ان شاء اللہ۔ اس سیریز کا پہلا مضمون ’’محرم الحرام‘‘ قارئین کی خدمت میں مضمون نگار کے لیے دعا کی درخواست کے ساتھ پیش ہے۔

دنیا میں پیش آمدہ واقعات و معاملات کے اوقات کا تعین کرنا ایک ناگزیر امر تھا۔اس لیے مختلف زمانوں اور علاقوں میں مختلف علاقائی کیلنڈر ترتیب دےکر رائج کیے گئے۔ان کی بنیاد عام طور پر کسی عظیم شخصیت کا یوم ولادت، یوم وفات، کسی بادشاہ کی تخت نشینی یا کسی میلے، جشن، کسی بڑے زلزلے، سیلاب یا طوفان یا کسی اہم واقعہ کی نسبت رکھی جاتی تھی۔

چنانچہ معروف مورخ علامہ ابن جوزی اپنی تصنیف مرآة الزمان في تواريخ الأعيان میں تحریر کرتے ہیں کہ
’’میرے دادا نے عامر شعبی کی سند سے ہم سے روایت بیان کی کہ جب بنی آدم کی زمین میں کثرت ہوگئی اور وہ زمین میں پھیل گئے تو انہوں نے ہبوط آدمؑ یعنی حضرت آدمؑ کے جنت سے نکالے جانے کے واقعہ سے تاریخ شمارکو کیااور یہ تاریخ طوفان نوحؑ تک رہی۔ پھر طوفان نوحؑ کے واقعہ سے حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے آگ میں ڈالے جانے کے واقعہ تک تاریخ شمار کی گئی۔ پھر یہ تاریخ نار ابراہیمؑ کے واقعہ سے حضرت یوسفؑ کی زمانہ بعثت تک اور پھر وہاں سے حضرت موسیٰؑ کے بنی اسرائیلؑ کے ساتھ مصر سے خروج تک شمار کی جاتی رہی۔ پھر اس تاریخ کا شمار خروج مصر سے حضرت داؤدؑ کے زمانہ تک رہا۔ اور وہاں سے حضرت سلیمانؑ کے زمانہ تک اور پھر زمانۂ حضرت سلیمانؑ سے حضرت عیسیٰؑ کی بعثت تک تاریخ کا سلسلہ جاری رہا۔

دوسراقول یہ ہے کہ تاریخ کا شمار حضرت آدمؑ سے طوفان نوحؑ تک پھر وہاں سے نارحضرت ابراہیمؑ تک اور پھر وہاں سے حضرت اسماعیلؑ کے بیت اللہ کی تعمیر تک اور وہاں سے معد بن عدنان اور پھر کعب بن لؤی تک اورپھر کعب سے عام الفیل تک کیا گیا۔

ا س بارہ میں تیسرا قول یہ ہے کہ حمیر نے تاریخ کو تبابعہ سے شمار کیا کرتے تھے اوراہل غسان ’’سد‘‘ سے اور اہل صنعاء یمن پر حبشہ کے غلبہ سے اور پھر غلبہ اہل فارس سے تاریخ بیان کیا کرتے تھے۔ پھر اہل عرب نے مشہور ایام سے تاریخ شمار کرنا شروع کردی مثلاً جنگ بسوس اور داحس اور غبراء اور یوم ذی قار اور فجارین اور جنگ بسوس اور رسول اللہﷺ کی بعثت میں ساٹھ سال کا عرصہ ہے۔

چوتھا قول یہ ہے کہ اہل فارس اپنے بادشاہوں کے دور حکومت سے اپنی تاریخ شمار کرتے تھے جو کہ ان کے نزدیک چار ہیں۔ پہلا بادشاہ بکیومرت ہے جسے طھمورت بھی کہا جاتا ہے اور وہ ’’کل شاہ‘‘ کہلاتا تھا جس کا مطلب ہے مٹی کا بادشاہ اور اہل فارس اسے آدم سمجھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ بیزدجرد اور تیسرا اردشیر بن بابک اور چوتھا نوشیروان عادل ہے۔

جہاں تک رومیوں کا تعلق ہے تو انہوں نے دار ابن دارا کے قتل سے فارسیوں کے ان پرغلبہ تک اپنی تاریخ شمار کی۔ اور قبطیوں نے بخت نصر سے قلوپطرا ملکہ مصر تک اپنی تاریخ رکھی اوریہودیوں نے اپنی تاریخ کا آغاز بیت المقدس کی تباہی سے کیا اور عیسائیوں نے حضرت مسیحؑ کے وفات سے اپنی تاریخ کی بنیاد رکھی۔‘‘

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان جزء1صفحہ10-11)

یہ روایت ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، علامہ عینی نے عمدة القاری میں اور علامہ سخاوی نے الاعلان بالتوبیخ میں بھی بیان کی ہے۔

پس ازمنہ ماضیہ میں مختلف کیلنڈر رائج رہےجیساکہ بابلی، سامری، مصری، بربری، ایتھوپین، مایا، جولین، بکرمی سمت، اوما، میسوپوٹیمیا کا Gezer اور چینیوں کا Four season and Eight Nodes کیلنڈرز وغیرہ۔

کیلنڈروں میں فرق

لیکن قبل از اسلام جتنے بھی کیلنڈر انسانی تخلیق کے نتیجہ میں وجود میں آئے سب میں کوئی نہ کوئی سقم یا فرق ضرور رہا۔ شمسی تقویم میں تو ابھی تک چاردنوں کافرق ہے۔عیسوی یعنی رومن کیلنڈرمیں سال دس ماہ کا ہوتا تھا جس کے 304 دن ہوتے تھے اور سال کاپہلا مہینہ مارچ ہوتا تھا اورعلی الترتیب ستمبر ساتواں، اکتوبر آٹھواں، نومبر نواں، دسمبر دسواں، بعد میں جنوری فروری کا اضافہ کرکے بارہ مہینے پورے کیےگئے۔اسی طرح عیسوی کیلنڈر میں بھی سال کا آغازکبھی مارچ سے ہوتا کبھی ستمبر سے، کبھی ایسٹر سے توکبھی کرسمس سے۔ بالآخر 1752ء میں انگلستان نے جنوری کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا تو یورپ و امریکہ نے بھی اسی کو تسلیم کرلیا۔

اسلامی تقویم

اسلام دین فطرت ہے لہذااللہ تعالیٰ نےاپنے عبد کامل خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو فطری طریقہ حساب کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۶﴾

(يونس: 6)

وہى ہے جس نے سورج کو روشنى کا ذرىعہ بناىا اور چاند کو نور، اور اس کے لئے منزلىں مقرر کىں تاکہ تم سالوں کى گنتى اور حساب سىکھ لو اللہ نے ىہ (سب کچھ) پىدا نہىں کىا مگر حق کے ساتھ وہ آىات کو اىک اىسى قوم کے لئے کھول کھول کر بىان کرتا ہے جو علم رکھتے ہىں۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
’’لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالۡحِسَابَ کہ ہم نے سورج اور چاند کی منازل اس لی مقرر کی ہیں تاکہ تم عدد سنین اور حساب کو جان سکو۔یعنی ان خارجی وجودوں کی حرکت کو دیکھ کر معلوم کرسکو کہ تم پر ایک زمانہ گذر گیا ہے اور تم اس جگہ پر نہیں رہے جہاں پہلے تھے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا یعنی زمین سے باہر کوئی اور کرہ نہ ہوتا جو حرکت کرتا اور کبھی کہیں اور کبھی کہیں نظر آتا تو کبھی بھی ہم میں زمانہ کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا تھا اور اگر وہ کرہ خود ایک خاص قانون کے ماتحت حرکت نہ کرتا یا اس کے گرد دوسرے کرہ جات ایک خاص قانون کے ماتحت حرکت نہ کرتے تو وقت کے احساس کو خاص اندازوں میں تقسیم کرنا ناممکن ہوجاتا۔ پس تمام تاریخ اور حساب کا معاملہ سورج اور چاند سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک کی اپنی گردش سے۔اور دوسرے کے گرد دوسرے سیاروں کی گردش سے۔چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور اس سے مہینوں اور ہفتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتی ہیں اور اسی طرح اس کے سامنے گھومتی ہے اس سے دنوں اور سالوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ حساب کا تعلق بھی سیاروں کی گردش سے نہایت گہرا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد3 صفحہ28-29)

پھر سورة یٰس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَالشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۹﴾ وَالۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۴۰﴾

(يس 39-40)

اور سورج (ہمىشہ) اپنى مقررہ منزل کى طرف رواں دواں ہے ىہ کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ علم کى (جارى کردہ) تقدىر ہے۔ اور چاند کے لئے بھى ہم نے منازل مقرر کر دى ہىں ىہاں تک کہ وہ کھجور کى پرانى شاخ کى طرح ہو جاتا ہے۔

اسی طرح چاند کو تعیین اوقات کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَالۡحَجِّ

(البقرہ: 190)

وہ تجھ سے پہلى تىن رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہىں تُو کہہ دے کہ ىہ لوگوں کے لئے اوقات کى تعىىن کا ذرىعہ ہىں اور حج (کى تعىىن) کا بھى۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی بھی ظاہر نہیں ہوسکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ ہی نہ ہوسکتا۔ اس لیے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کےلیے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔۔۔ چونکہ کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلہ معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لیے اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو سالوں اور دنوں کا اندازہ بھی نہ ہوسکتا۔۔۔بہرحال قمری اور شمسی دونوں نظام حساب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ چاند کے مہینوں سے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ شمنی نظام سے تعلق رکھنے والے حسابات ان کی علمی استعداد سے بالا ہوتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ417-418)

سال کے بارہ مہینوں کی صراحت

اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل شریعت میں حساب اور تعیین اوقات کا فطری ذریعہ ہی صرف بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ بڑا واضح فرمادیا کہ ابتدائے آفرینش سے ایک سال میں بارہ مہینےہی ہیں۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ

(التوبہ: 36)

ىقىناً اللہ کے نزدىک، جب سے اس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا ہے، اللہ کى کتاب مىں مہىنوں کى گنتى بارہ مہىنے ہى ہے اُن مىں سے چار حرمت والے ہىں۔

پس اسلام میں سال کے بارہ مہینے مقرر کیے گئے ہیں۔جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔حرمت والے چار مہینے ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔

اسلامی سال یا ہجری سال کی ابتداء

قبل از اسلام عرب میں مشہور ایام کی نسبت سے تاریخ شمار کی جاتی تھی اور قریش مکہ عام الفیل سے تاریخ شمار کیا کرتے تھے۔ اسلامی یا ہجری تاریخ کے آغاز کے بارہ میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ایک روایت کے مطابق جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے تاریخ لکھنے کا حکم فرمایا تو ربیع الاول سے اسے شروع کیا گیا۔ لیکن علمائے فن حدیث نے اس روایت کو معضل قرار دیا ہے کہ یہ اس قول مشہورکے خلاف ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں شروع ہوئی۔

(فتح الباری جزء7 صفحہ268)

علامہ جلال الدین سیوطی علامہ ابن صلاح کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے استاد ابوطاہر بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اسلامی تاریخ کا ہجرت مدینہ سے آغاز کیا جب آپؑ نے نجران کے عیسائیوں کو مکتوب ارسال فرمایا اور حضرت علیؓ کو اس پر تاریخ لکھنے کا حکم فرمایا۔پس اسلامی تاریخ کا آغاز کرنیوالے تو رسول اللہﷺ ہیں حضرت عمرؓ نے آپؐ کی پیروی کی۔

(الشماریخ فی علم التاریخ از جلال الدین سیوطی جزء اصفحہ12)

لیکن جب رسول اللہﷺ کے مکتوبات کے نسخہ جات کا جائزہ لیا جائے تو ان پر تاریخ لکھی ہوئی نہیں ملتی۔ رسول اللہﷺ کے تمام مکتوبات کے نسخہ جات اور متن کو ڈاکٹر محمد حمیداللہ تنولی صاحب کی کتاب ’’مجموعة الوثائق السياسية للعهد النبوي والخلافة الراشدة‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

عہد فاروقی میں اسلامی کیلنڈر کا آغاز

علامہ طبری نے ایک روایت شعبی سے نقل کی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں لکھا کہ آپ کی طرف سے جو احکامات اور خطوط موصول ہوتے ہیں ان پر تاریخ موجود نہیں ہوتی (جس سے مشکل پیش آتی ہے) اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں کو مشورہ کےلیے جمع کیا۔ بعض نے مشورہ دیا کہ رسول اللہﷺ کی بعثت سے تاریخ کا آغاز کیا جائے۔ بعض نے کہا کہ ہجرت مدینہ سے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرمایا کہ رسول اللہﷺ کی ہجرت مدینہ سےاسلامی تاریخ کا آغاز کیا جانا چاہیے کیونکہ اس ہجرت نے حق و باطل کے درمیان فرق واضح کیا۔

(تاریخ طبری جزء2 صفحہ388)

علامہ طبری نے ایک اور روایت میمون بن مہران سے نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک دستاویز لائی گئی جس پر صرف شعبان لکھا ہوا تھا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ کونساشعبان مراد ہے؟ کیا آئندہ والا شعبان مراد ہے یا جس میں ہم موجود ہیں وہ شعبان مراد ہے؟ پھر آپؓ نے صحابہ رسولﷺ کو فرمایا کہ لوگوں کے لیے ایک ایسی چیز تیار کی جائے جس سے وہ یہ بات معلوم کرلیا کریں۔ بعض نے مشورہ دیا کہ رومی تاریخ کے مطابق شمار کرلی جائے۔ بعض نے کہا کہ اہل فارس کی تاریخ کے مطابق تاریخ لکھ لی جائے۔ سب کی رائے لی گئی تاکہ کوئی مناسب فیصلہ ہوسکے۔ پھر یہ معلوم کیا گیا کہ رسول اللہﷺ کتنا عرصہ مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے؟ پتہ چلا کہ دس سال۔ اس پر اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرت رسولﷺ سے کیا گیا۔

(تاریخ طبری جزء2 صفحہ388)

ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے یہ مشورہ دیا کہ ’’اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہجرت نبویؑ کے دن سے کرلیا جائے کیونکہ اس روز آپ نے ارض شرک کو چھوڑا تھا۔‘‘ اس تجویز کو حضرت عمرؓ نے پسند فرمایا اور ایسا ہی کیا۔

(مستدرک حاکم جزء3 صفحہ15)

ان روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت مدینہ سے حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں 17ھ کو ہوا اور یہی مشہور قول ہے۔

اسلامی سال کے پہلے اسلامی مہینہ کا تعین

نئے ہجری سال کا آغاز تو صحابہ کرامؓ کے مشورہ خصوصاً حضرت علیؓ کی تجویز سے ہجرت نبویؐ سے طے پاگیا۔ اب یہ بحث سامنے آئی کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ کونسا ہونا چاہیے؟ اس بارہ میں ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اسلامی تاریخ مقرر کی جائے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کس طرز پر ہونی چاہیے؟اس شخص نے کہا ایسے ہی جیسے عجمی کرتے ہیں وہ فلاں سال کا فلاں مہینہ لکھتے ہیں۔ حضرت عمربن خطابؓ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ تم لوگ بھی تاریخ کا آغاز کرو۔ تو آپؓ سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم کس سال سے اپنی تاریخ کا آغاز کریں۔ کیا رسول اللہﷺ کی بعثت سے یا آپؐ کی وفات سے؟ اس بحث کے بعد بالآخرسب نے ہجرت نبویؐ پر اتفاق کیا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ہم اپنے اسلامی سال کا آغاز کس مہینے سے کریں؟ رجب سے جس کی زمانہ جاہلیت میں تعظیم کی جاتی تھی یا پھر رمضان سے یاحج کے مہینہ ذوالحجة سے؟ بعض نے رائے دی کہ جس مہینہ میں رسول اللہﷺ نے مکہ سے ہجرت کی اسےاسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دے دیا جائے؟ دوسرے گروہ نے کہا کہ جس مہینہ میں آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے اس کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ مان لیا جائے۔اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ محرم کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دینا چاہیے کیونکہ یہ حرمت والا مہینہ ہےاور گنتی کے مہینوں میں پہلے نمبر پر ہے اور اسی مہینہ میں لوگ حج سے واپس لوٹتے ہیں۔ پس سب نے اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم ہونے پر اتفاق کرلیا۔

(الشماریخ فی علم التاریخ جزء اصفحہ15، تاریخ طبری جزء2 صفحہ389)

پہلا اسلامی مہینہ محرم الحرام

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَذَکِّرۡہُمۡ بِاَیّٰٮمِ اللّٰہِ

(إِبراهيم: 6)

اور انہىں اللہ کے دن ىاد کرا۔

مفسر قرآن حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے نزدیک ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوا ہو۔

(تفسیر الدرالمنثور للسیوطی جزء5 صفحہ6)

ایسے منعم فیہ دنوں کی شناخت کےلیے اسلامی سال کے اسلامی مہینوں کا تعارف حاصل ہونا بہت ضروری ہے۔ جیساکہ ذکر ہوچکا ہے کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ محرم قرار پایا۔ یہ وہ بابرکت مہینہ ہے جو دوسرے مذاہب میں بھی مقدس اور قابل تعظیم سمجھا جاتا تھا۔ اسلام میں اس کی عظمت و احترام پہلے سے بڑھ کرہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ قرآنی آیت ’’وَالۡفَجۡرِ ۙ﴿۲﴾ وَلَیَالٍ عَشۡرٍ ﴿۳﴾ (الفجر: 2-3) میں فجر سے مراد ماہ محرم ہے جو سال کی فجر ہے۔حضرت عبید بن عمیرؓ بیان کرتے ہیں کہ محرم اللہ عزوجل کا مہینہ ہے اور سال کا سر ہے یعنی سال کا اسی سے آغاز ہوتا ہے اس میں خانہ کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا ہے اور اسی سے تاریخ کا حساب رکھا جاتا ہے اور اس مہینہ میں ایک دن ہے جس میں ایک قوم نے توبہ کی توفیق پائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔

(تاریخ طبری جزء2 صفحہ390)

محرم کی وجہ تسمیہ اور دوسرے نام

محرم الحرام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں لوگ قتل و غارت اور لڑائیوں کو حرام سمجھتے تھے۔ علامہ اصفہانی اور علامہ مسعودی نے بھی یہی وجہ تسمیہ اس کی بیان کی ہے۔ علامہ سخاوی لکھتے ہیں کہ ’’محرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حرمت (تعظیم و تقدیس) والا مہینہ ہے لیکن میرے نزدیک اس کا نام محرم رکھنے میں اس کی حرمت کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ (زمانہ جاہلیت میں) اہل عرب اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے کبھی اسے (لڑائی اور جنگ) کےلیے حلال کرلیتے تھے اور کبھی حرام قرار دے دیتے تھے۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر جزء3 صفحہ358)

محرم کو زمانہ جاہلیت میں ’’مؤتمر‘‘ اور ’’موجب‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’صفر الاول‘‘، ’’شہر اللّٰہ‘‘، ’’شہر اللّٰہ الاصم‘‘ بھی محرم کے نام کے طور پر روایات میں استعمال ہوئے ہیں۔

ماہ محرم کی عظمت وفضیلت

ماہ محرم قرآن کریم میں بیان فرمودہ حرمت و تعظیم والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے اس کی حرمت کوقائم رکھا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’سال بارہ مہینے کام ہوتا ہے اور اس میں چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو جمادی اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔

(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ان عدة الشھور)

ماہ محرم کی فضیلت کے متعلق حضرت ابوہریرةؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ماہ رمضان کے بعد سب مہینوں سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم)

اس حدیث نبویؐ میں ماہ محرم کو اللہ کا مہینہ قرار دیاگیا ہے جو اس کی فضیلت اور اس کے شرف پر دلالت کرتا ہے۔

یوم عاشوراء دس محرم

ماہ محرم کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے جو ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا دوسرا نام ’’یوم الزینة‘‘ بھی بیان ہوا ہے۔ (سنن الکبریٰ للنسائی جزء10 صفحہ172) احادیث میں اس دن کے بارہ میں جو معلومات درج ہیں وہ یہ ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات عطا فرمائی اور اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا۔ (بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء) یوم عاشوراء کا دن یہود عید شمارکیا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

یوم عاشوراء کے دن خیبر کے یہود عید منایا کرتے تھے۔ یہودی عورتیں اس دن زیورات پہنتی تھیں اور بناؤ سنگھار کیا کرتی تھیں۔

(مسلم کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

یہود اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

زمانہ جاہلیت میں قریش بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

اس دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔

(بخاری کتاب الحج باب قول اللّٰہ تعالیٰ:جعل اللّٰہ الکعبة البیت الحرام۔۔)

رسول اللہﷺ نےیوم عاشوراء کو اللہ کے ایام میں سے ایک دن قرار دیا ہے۔

(مسلم کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہم موسیٰ کی نسبت سے تم سے زیادہ حقدار ہیں اور آپؑ نے اس دن خود روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

یوم عاشوراء کے روزوں کی فضیلت

رسول اللہﷺ نے اس خاص دن خود بھی روزہ رکھا اور اپنی امت کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔اس کی تحریض دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’یوم عاشوراء کے روزے رکھنے سے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف فرمادے گا۔‘‘

(ترمذی ابواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِي الحَثِّ عَلَى صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ)

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے کسی دن کو افضل سمجھ کر روزہ رکھا ہوسوائے یوم عاشوراء کے اور نہ ہی آپ نے ماہ رمضان کے سوا کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہیں۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

حضرت علیؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا:
’’یارسول اللہﷺ! اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ (آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے۔‘‘

(ترمذی ابواب الصوم، باب ماجاء فی صوم المحرم)

رسول اللہؐ کی سنت

رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں قیام کے دوران یوم عاشوراء کا روزہ رکھا۔ہجرت مدینہ کے بعد آپﷺ نے مدینہ میں بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ لیکن جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ ﷺ نے صحابہؓ کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

رسول اللہﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری سال میں یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن اور ملا کر روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آئندہ سال ہم ان شاء اللہ نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

لیکن آئندہ سال سے قبل ہی آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

ماہ محرم کے تاریخی اہم واقعات

ماہ محرم میں عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ میں جو اہم تاریخی اسلامی واقعات ہوئے ان میں سے چند کا ذکر یہ ہے:محرم 4 ہجری میں سریہ (ایسی جنگ جس میں آنحضورؐ خود شامل نہ ہوئے ہوں مگر آپ نے اسے کسی معرکہ پر بھجوایا ہو) ابوسلمہؓ اور سریہ عبد اللہ بن انیسؓ ہوئے۔ محرم7 ہجری میں غزوہ ذی قرد اور غزوہ خیبر وقوع میں آئے۔ محرم 9 ہجری میں سریہ عیینہ بن حصین ہوا۔ محرم 14ھ میں جنگ قادسیہ لڑی گئی۔محرم 16 ہجری میں حضرت ماریہؓ کی وفات ہوئی۔ محرم 24 ہجری میں حضرت عثمانؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ محرم 61 ہجری میں سانحہ کربلا ہوا اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا عظیم سانحہ درپیش آیا۔

(ابوفاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2022