• 7 جولائی, 2025

نئے اسلامی سال کا آغاز

اس نئے سال کو خوشیوں کی نوید بنا دے، اے ربِّ ذوالجلال!
اس وباء کو دنیا سے مِٹا دے، اے ربِّ ذوالجلال!
تا دیررہے سلامت خلافت کا سایہ ہمارے سروں پر
ہم بے کسوں کی سن لے پُکار، اے ربِّ ذوالجلال

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہم نئے اسلامی سال میں داخل ہورہے ہیں۔ خدا کرے کہ آنے والا یہ نیا سال ہم سب کے لئےخیرو برکت کا موجب ہو اور دنیا جو ایک مسلسل وبائی مرض میں گھری ہوئی ہے وہ اس دنیا سے ختم ہو جائے اور دنیا اپنے خالق وواحد کو پہچاننے والی بن جائے۔ آج کل کی تیز رفتار دنیا میں جہاں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا نئی نئی ایجادات اور لغویات نے اس طرح سے لوگوں کو اپنے شکنجے میں کیا ہوا ہے کہ لوگ اپنے رحمی رشتوں، عزیز رشتہ داروں اور حتٰی کہ اپنے خالقِ حقیقی سے بھی دور جا رہے ہیں اور اپنے مقصدِ حیات کو بھُلا بیٹھے ہیں۔ ہر آنے والا سال انسان کی موت کو قریب تر کر آجانے کی خبر دیتا ہے،مگر یہ غافل انسان ہے کہ دنیاکو اپنے لئے ہمیشہ کی قرارگاہ سمجھے بیٹھا ہے حالانکہ اسکے سامنے ہر سال بڑے بڑے لوگ سپردِ خاک ہوئے اور ایک دن ہم سب کو اپنے مالِک حقیقی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے۔

اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے

(درثمین)

ایک سال کے ختم ہو جانے اور دوسرے سال کے آغاز سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر شخص کی عمر میں ایک سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یعنی وہ اگر 40 سال کا تھا تو ایک سال گزرنے کے بعد وہ اکتالیس(41) کا ہو گیا ہے۔ لیکن اگر سوچا جائے تو اسے معلوم ہوگا کہ گزرنے والے سال نے بجائے اضافہ کے اس کی مقررہ عمرسے ایک سال اور کم کر دیا ہے۔

اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا اور ایک دن اسے بھی اس دارِ فانی سے کوچ کرنا پڑے گا اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضرہونا پڑے گاچنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہےکہ ’’وَالۡعَصۡرِ ۙ﴿۲﴾ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ﴿۳﴾‘‘ یعنی قسم ہے زمانے کی یقیناً انسان خسارے میں ہے۔ اور ایسا خسارہ جس سے کسی انسان کو بھی انکار کی مجال نہیں۔ انسان اس زمانے کی چکا چوند میں اتنا ڈوب گیا ہے کہ وہ اس بات کو بھلا بیٹھا ہے کہ ایک دن اسے اس جہان سے رخصت بھی ہونا ہےاور اُس جہان میں جانا ہے جو لافانی ہے جہاں ہر چیز کا فیصلہ اس کے نامہ اعمال کے نتیجے پر ہی منحصر ہو گا۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خسران عظیم سے بچنے کے طریق بھی بتا دئے ہیں کہ اگرانسان اپنا ہر قدم پھونک پھو نک کررکھے گا تو وہ خسارے سے بچ سکتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ﴿۴﴾ (العصر: 4) ترجمہ: سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور حق پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور صبر پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (از خلیفۃالمسیح الرابعؒ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن چار اوصاف کا ذِکر فرمایا ہے جس کو اپنا کر انسان خسارے عظیم سے بچ سکتا ہے۔

اوّل۔ جن کے دلوں میں حقیقی ایمان کی شمع روشن ہوتی ہے اور وہ خدا اور اُس کے بھیجے ہوئے پرکامِل ایمان رکھتے ہوں۔

دوئم۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لاتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے ہیں کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دیتے ہوں اور ہروقت اللہ کی خاطر ہر مشکل کے لئے تیار رہتے ہیں۔

سوئم۔ وہ لوگ جو نہ صرف خود حق بات پر قائم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی صاف اور سچی بات پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔عبادات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔

چہارم۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں وہ لوگ اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اُس کی راہ میں چلتے ہوئے جو مشکلات اوردشواریاں آتی ہیں اُن پر صبرو شکر سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ صبرمومن کا ہتھیار ہے جو ایک سچے مسلمان کو حقیقی جنت کا وارِث بناتا ہے۔

اس مختصر تشریح سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم اس نئے سال میں ان چاروں باتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزاریں تو ہم بہت بڑا نقصان اٹھانے سے بچ سکتے ہیں۔خدا کے فضل سے ہماری جماعت کو ماموروقت کی شناخت کے ساتھ وہ تازہ ایمان نصیب ہوا، اب اس کو قائم رکھنا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر احمدی کا کام ہے۔ کہ ہم سب اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے گزاریں اور قرآنِ کریم کی تعلیمات پر کما حقّہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنے ایک خطاب میں تمام احباب جماعت کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا ’’دعا کریں کہ یہ سال جماعت کے لیے، دنیا کے لیے، انسانیت کے لیے بابرکت ہو، ہم بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پہلے سےبڑھ کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والے اور اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے والے بن جائیں اور دنیاوالے بھی اپنی پیدائیش کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ کہیں یہ وباء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اپنے حقوق و فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے نہ ہو، یہ تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہلانا چاہتا ہے، بتانا چاہتا، توجہ دلانا چاہتا ہے۔ اس طرف کسی کی سوچ نہیں ہے، پس یہ سال مبارک بادوں کا سال اس وقت بنے گا جب ہم اپنے فرائض کو ادا کرنے والے ہوں گے۔ہم جو زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہیں۔کیا ہماری اپنی حالتیں ایسی ہو چکی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ خالصۃً اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہیں یا ابھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے اور ایک دوسرے سے پیار ومحبت کے جذبات کو غیرمعمولی معیاروں تک لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اورہر احمدی، مرد، عورت جوان، بچہ بوڑھا اس بات کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اس سال میں نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا ہے۔ جو کوتاہیاں اور کمیاں گذشتہ سالوں میں ہم سے ہو گئیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنیں یا ہمیں بعض انعاموں سے محروم رکھنے کا باعث بنیں ان سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور اپنے انعاموں کا اور فضلوں کا وارث بنائے اور ہم حقیقی مومن بن جائیں‘‘

(خطبہ جمعہ یکم جنوری 2021ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک احمدی کو کیسا ہونا چاہئے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے‘‘ فرمایا کہ ’’کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو، متقی بنو، ہر ایک بدی سے بچو۔ رات اور دن تضرع میں لگے رہو۔ زبانوں کو نرم رکھو۔استغفار کو اپنا معمول بناؤ، نمازوں میں دعائیں کرو نماز میں دعائیں تب ہی ہوں گی جب نمازوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے انہیں سنوار کر پڑھنے والے ہوں گے۔ فرمایا کہ ’’نرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا۔۔۔ خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے فرمایا عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فساد نہ ہو۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ274-275)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے اور حضرت مسیح موعوؑد علیہ السلام اور خلیفہءِ وقت کے تمام حکموں اور ارشادات پر عمل کرتے ہوئے اس نئے سال کو گزارنے والا بنائے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے اور ہماری اولاد در اولاد کو احمدیت سے وابستہ رکھے تاکہ وہ ہمیشہ کے خسرانِ عظیم سے بچنے والے ہوں اللہ کرے ایسا ہی ہو۔آمین ثم آمین۔

(ڈاکٹر نجم السحر صدیقی۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ