• 29 اپریل, 2024

محرم اور حضرت امام حسنؓ، امام حسینؓ کی فضیلت

محرم، حضرت امام حسنؓ، امام حسینؓ کی فضیلت،
اہل بیت پر درود وغیرہ سے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشادات

(تسلسل ارشادات خلفائے کرام بابت محرم و مقام حضرت حسینؓ از الفضل آن لائن 29؍جولائی 2022ء)

(1) سائل: حضور یہ دس محرم کی تاریخ ابھی چند دن پہلے گزری ہے اس حوالے سے انگلستان سے ایک احمدی خاتون کی شیعہ سہیلی نے سوال بھجوایا ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا مقام اور مرتبہ کیا ہے؟ اور احمدی لوگ عاشورہ اس طریق پر کیوں نہیں مناتے جس طرح شیعہ لوگ مناتے ہیں؟

حضورؒ: جہاں تک حضرت امام حسینؓ کے مقام اور مرتبہ کا تعلق ہے ابھی چند دن پہلے جو عربوں کے ساتھ سوال و جواب کی مجلس تھی۔ لقاء مع العرب اس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حوالے میں نے پڑھ کے سنائے تھے تفصیلی تو وہی کافی ہیں جواب میں حضرت امام حسینؓ کامقام کیا ہے اور اس مسئلے کی الجھنوں کا کیا حل ہے ہمارے نزدیک۔ وہ آسان نہیں بڑا الجھا ہوا مسئلہ ہے سارا۔ تو اس لیے اس کو دھرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جو عاشورہ منانے والا ہے قصہ وہ ایک ایسا نیا غیر اسلامی رواج ہے۔ جس کی کوئی سند کوئی بنیاد نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے نہ آنحضرتﷺ کے اسوہ میں ہے نہ آپ کے صحابہ کے اسوہ میں ہے۔ حضرت علیؓ کی اولاد نے خود تو عاشورہ نہیں منایا۔ جن پر یہ گزری ان کو نہیں پتہ چلا کس طرح منانا چاہیے۔ یہ بعد میں آنے والے شیعوں کو کس طرح پتہ چل گیا کہ اصل طریق کیا ہے اور حادثہ ایک تو نہیں بے شمار حادثے ہوئے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑکے ساتھ بھی بہت دردناک واقعہ گزرا ہے اور اس سے پہلے مظالم ہوئے ہیں بڑے بڑے سخت رسول اللہ کے زمانہ میں خود آنحضرتﷺ کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تو جن سے آپ کی اولاد کی عظمت حاصل کی جاتی ہے۔ان کو چھوڑ کر ان کی تکلیف کو اٹھا کے زیادہ کردینا۔ حضرت حمزہؓ جس طرح شہید ہوئے اور صحابہ کرام شہید ہوئے۔ بڑے دردناک طریقے سے مارے گئے۔ گلیوں میں گھسیٹے گئے۔ یہ سارا کربلا ہی کا تو مضمون تھا جو جاری ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اسی کا ایک شاہ خانہ ہے کہ اندرونی ظلم کی صورت میں ظاہر ہوا ہے وہاں کس نے ان کی کسی باتوں کے عاشورے منائے ہیں۔ کس نے ان باتوں پر کسی قسم کا واویلا کیا ہے۔ رسول اللہﷺ کے دانت شہید ہوئے آپ اس حالت میں پہنچ گئے کہ لوگوں نے اعلان کردیا کہ وفات پا گئے ہیں نعوذ باللّٰہ من ذالک قتل ہوگئے ہیں۔ اور اس کے بعد کسی صحابہ نے کوئی سوگ کا کپڑا نہیں پہنا کوئی رونا پیٹنا نہیں شروع کیا تو اس سے بڑی کربلا کیا گزر سکتی ہے دنیا میں کہ رحمۃ للعالمین کے ساتھ ایسا ظلم ہوا ہو۔ وہاں جب طائف پر تشریف لے گئے ہیں تو جو ظلم ہوئے ہیں یعنی اس کے بیان سے ہی انسان لرز جاتا ہے۔ ان لوگوں کو کوئی ہوش نہیں تعجب کی بات ہے۔ یہ جو اصل ہے اس کے اوپر تو سخت دردناک مظالم کا دور لمبے عرصہ تک مسلسل جاری ساری رہا اور اس کے اوپر ان کا مسل بھی نہ پھڑکے ایک۔ کوئی روی درد کی ابھرے نہ اور پھڑکے نہیں۔ اور حضرت امام حسینؓ پر جو مظالم ہوئے یا آپ کی آل پر یا آپ کی اولاد وغیرہ پر وہ مظالم اپنی ذات میں دردناک ہیں۔ لیکن یہ رد عمل اگر جائز ہوتا تو سب سے اول رسول اللہﷺ کے حوالے سے ہونا چاہیے تھا۔ اور پھر ان تمام صحابہ کے حوالے سے ہونا چاہیے تھا جنہوں نے قربانیاں کی ہیں۔ ایک فرضی بات بنائی ہے جس کی کوئی سند نہیں۔ اور جیسا کہ میں نے شروع میں ہی ساکت جواب مثبت جواب میں نے دے دیا تھا۔ کہ خود وہ آنحضرتﷺ کی آل جو ان دکھوں سے گزری جن کے نام پر اب یہ پیٹتے ہیں وہ تو نہیں پیٹے انہوں نے تو بڑا صبر کیا تھا یہ سارے فرضی قصوں پر تو ہم یقین ہی نہیں کرتے۔ حقیقت پر جاتے ہیں اس لیے ان دنوں میں کثرت سے درود اور آل پر درود بھیجنا یہ جماعت کا طریقہ ہے اور یاد رکھنا اور دعائیں کرنا ان بزرگوں کے لیے اب یہی اصل سنت انبیاء ہے۔ وہ اس کے مطابق ہے باقی سب قصے ہیں۔

(ملاقات پروگرام مؤرخہ 16جون 1995ء)

(2) سائل: نذر اور نیاز میں کیا فرق ہے؟

حضورؒ: نذر اور چیز ہے اور نیاز اور چیز ہے۔ نذر مولیٰ نیاز حسین یہی کہتے ہیں نا؟ اور فرق یہ کرتے ہیں ان کو بیچ میں سے دل میں کھٹکتی ہوگی نا بات کہ اللہ کے سوا کسی اور نام پہ تقسیم کرنا یہ جائز نہیں ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ نذر نہیں ہے یہ نیاز ہے یعنی ہم تحفہ پیش کر رہے ہیں حضرت امام حسینؓ کو اور وہ تو چونکہ ہیں نہیں اس لئے تم لوگ یہ تحفہ کھا لو۔ اگر یہ تحفہ ہی ہے تو پھر مالک کی اجازت کے بغیر تحفہ کھانا جائز نہیں۔ جب تک جس کو تحفہ دیا گیا ہے اس کی اجازت حاصل نہ ہو وہ کھانا جائز ہی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے حضور جب ہم تحفہ پیش کرتے ہیں نذر کی صورت میں تو قرآن کریم اجازت دیتا ہے کہ غرباء کو دو اور اس طرح مجھے پہنچ جائے گا۔ ان کے لئے کھانے کی سند مل گئی۔ حضرت امام حسینؓ کی سند دکھائیں پہلے کہ میری وفات کے بعد جو تحفے مجھے پیش کئے جائیں گے وہ تم کھا لیا کرنا۔

(مجلس عرفان مورخہ 25اکتوبر 1982ء)

(3) سوال: میرا ایک شیعہ دوست ہے وہ محرم کے مہینے میں اپنے آپ کو کیوں مارتے ہیں؟

جواب: پاگل پن ہے۔ محرم کے مہینے میں اپنے آپ کو مارنا حد سے زیادہ بیوقوفی ہے وہ کہتے یہ ہیں کہ رسول اللہﷺ کی اولاد میں بہت سے وہاں شہید ہوئے اس لئے ان کی یاد میں ہم ماتم کر تے ہیں۔ اس واقعہ کو بہت پرانی بات ہوچکی ہے رسول اللہﷺ اس ماتم کو بھی پسند نہیں کرتے تھے جو تازہ تازہ شہید ہوا ہو یا فوت ہوا ہو۔ کتنے شہید ہوئے ہیں رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک کا بھی ماتم نہیں کیا گیا۔ تو اس لئے آنحضرتﷺ کی تعلیم کے یہ خلاف کرتے ہیں اور ناجائز حرکت کرتے ہیں۔ان کے مارنے سے اب کیا فرق پڑے گا۔ تازہ تازہ خبر ہو تو پھر بھی کوئی پیٹ لے جو اتنی پرانی خبر ہو تو اس پہ کون پیٹے گا۔ایک قصّہ مشہور ہے کہ افغانستان کے ایک علاقہ سے ایک آدمی پشاورآیا۔ اس علاقہ میں کوئی شیعہ نہیں تھا۔ کبھی اس نےپیٹنا نہیں دیکھا۔ محرم کا دن تھا۔شیعہ لوگوں کو اس نے دیکھا جو پیٹ رہے تھے۔ زنجیریں مار رہے تھے۔ اس نے تعجب سے کہا اتنا بڑا آدمی کو ن فوت ہوا ہے کہ یہاں یہ اس قدر ماتم ہو رہا ہے تو کسی نے کہا یہ تو جب امام حسینؓ شہید ہوئے تھے ان کے اوپر یہ ہے ماتم اس نے کہا اچھا چودہ سو سال پہلے ہوا یہاں اب خبر پہنچی ہے۔ وہ سمجھا کہ ابھی تازہ تازہ باہر سے خبر آئی ہے۔ اس لئے یہ بات لطیفے کے طور پر بات ہے مگر ایسا لطیفہ ہے جس سے ان کی بیوقوفی کھل جاتی ہے۔ سمجھے ہو؟

(اطفال سے ملاقات مؤرخہ 8 مارچ 2000ء)

(4) سوال: اسلامی نیا سال شروع ہوا ہے حضور کیا ہم کو اسلامی نئے سال کی خوشی منانی چاہئے یا محرم کا احترام کرتے ہوئے خوشی نہیں منانی چاہئے؟

جواب: اسلامی نیا سال تو ہمیشہ شروع ہوتا ہے۔ خوشی مناتے ہیں آپ؟

سائل: نہیں حضور پھر بس تاریخ میں تو آجاتا ہے نا۔

جواب: تاریخ میں بے شک نہ آئے کبھی آپ نے خوشی منائی ہے ہر مہینے کی۔۔۔ نہیں۔ پھر محرم کی کیوں منانی ہے۔ محرم ایک دردناک واقعہ کی یاد دلاتا ہے سمجھے ہیں تو اس موقع پر خوشی منانا اچھی بات نہیں۔ سمجھ گئے ہیں یہ دس دن جو ہیں استغفار اور دُعا اور دُرود میں گزارنے چاہئیں۔ کثرت سے آنحضورﷺ اور آپ کی اولاد پر جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسل سے تھی۔ کثرت سے درور پڑھیں۔ ٹھیک ہے؟

(مجلس عرفان تاریخ 14 اپریل 2000ء)

(5) سوال: شیعہ فرقہ کے لوگوں نے پیٹنا کیوں شروع کیا؟

جواب: بیوقوفی، پرلے درجے کی بیوقوفی ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کربلا کے میدان میں ہوئی تھی۔ اس شہادت کے نتیجے میں تو نہ ان کو چاہنے والے پیٹے، نہ دوسرے سنی پیٹے، پیٹنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ یہ پیٹنے کا رواج بعد میں پیدا ہوا ہے اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؓ کے غم میں پیٹ رہے ہیں۔ بالکل لغو بات ہے۔ ان کے پیٹنے سے حضرت امام حسینؓ شہید کو امام حسن کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ ایک بے ہودہ رسم ہے جو دنیا میں اسلام کا مضحکہ اڑانے والی بات ہے۔ یہاں جب بھی پیٹتے ہیں لوگ دیکھتے ہیں کہ کیسی پاگلوں والی حرکتیں کررہے ہیں۔ شیعوں کو سمجھانا چاہئے اگر غم ہے تو دعا کرو۔ درود پڑھو اس دن رسول اللہﷺ پر آپﷺ کی اولاد پر۔ یہ توایک اچھی بات ہے یہ جس دن شہادت ہوئی تھی۔ اس بہت کثرت سے درود پڑھا جائے مگر پیٹنا جائزنہیں۔

(اطفال سے ملاقات مؤرخہ 10 مئی 2000ء)

(6) سوال: حضور میرا سوال ہے کہ دس محرم کو کچھ لوگ کیوں روزہ رکھتے ہیں؟

جواب: حضور فرماتے ہیں کہ دس محرم کو یونہی۔۔۔ دس محرم کا روزہ کوئی ضروری نہیں ہے مگر محرم کی یاد میں لوگ رکھ لیتے ہیں عاشورہ کو روزہ۔

(لجنہ سے ملاقات مورخہ 20 جنوری 2002ء)

(7) سائل: حضور دس تاریخ بہت المناک حادثہ شہادت حسینؓ کی یاد تازہ کرتا ہے حضور کیا یہ واقعہ ٹالا جا سکتا تھا یا قسمت میں لکھا تھا؟

جواب: حضور فرماتے ہیں ٹالا جا سکتا تھا۔ سوال یہ ہے جو مقدر تھا وہ پورا ہو کے رہنا تھا۔ یہ تو ٹالا جا نہیں سکتا تھا آنحضرتﷺ کی پیشگوئی بھی تھی اس کے متعلق تو یہ تو ایک دردناک واقعہ ہے جو بہرحال ٹالا نہیں جا سکتا تھا اب دس دن جو محرم کے ہیں احمدیوں کو چاہئے اس ماہ وہ ہر قسم کی بیاہ شادی وغیرہ کی تقریبیں اور منگنیاں بند کریں۔ دس دن جو پہلے دس دن ہیں ان میں ہر قسم کی شادی بیاہ و منگنیوں کی تقریبوں سےتوبہ کرنی چاہئے احمدیوں کو کیونکہ واقعہ بہت درد ناک ہے۔

سائل: حضور اس سلسلے میں آگے سوال ہے کہ شیعہ حضرت کے نزدیک کربلا کے میدان جانا حج کے فریضہ سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے؟

جواب: حضور فرماتے ہیں غلط ہے۔

(مجلس عرفان مؤرخہ:15 مارچ 2002ء)

(8) سوال: حضور۔۔۔ واقعہ کربلا سے متعلق آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ حضور اس پیشگوئی کے بارہ میں کچھ فرمائیں گے؟

جواب: واقعہ کربلا کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ بہت ہی دردناک واقعہ پیش آئے گا میری اولاد سے اور یہی آپ کی پیشگوئی تھی جو کربلا میں واقعہ گزرا ہے۔

(ملاقات ینگ لجنہ وناصرات مؤرخہ 17 مارچ 2002ء)

(9) سوال: حضور۔۔۔ حضرت امیر معاویہؓ کا بیٹا جس کا نام یزید تھا جب اس نے آنحضرتﷺ کے خاندان کے افراد کو شہید کیا تو اس کو کیا سزا ملی؟

جواب: وہ جنہوں نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے والا تھا اس کے متعلق آتا ہے کہ معاویہ کی بیٹی نے حضرت حمزہؓ کے جگر کو نکال کے چبایا تھا تو آنحضرتﷺ کو اس پر اتنا غصہ تھا کہ آپ نے جب فتح مکہ کے دن اعلان کیا کہ معاف کردیں گے سب کو تو اس میں سے استثناء رکھا تھا کہ معاویہ کی بیٹی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ وہ بہت چالاک عورت تھی۔ وہ خفیہ طور پر بیعت میں شامل ہو گئی۔ جب بیعت کرلی تو اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہﷺ اب میں ایمان لے آئی ہوں۔ اب کیا حکم ہے؟ تو آپﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔

(ملاقات ینگ لجنہ وناصرات مورخہ 24 مارچ 2002ء)

(10) سوال: محرم کو عبادت کے لحاظ سے کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟

جواب: محرم کو، محرم کو عبادت کے لحاظ سے کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے مجھے تمہارے سوال کی سمجھ نہیں آ رہی۔ تفصیل سے بات کرو محرم کو عبادت کے لحاظ سے بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ جس طرح عام دنوں میں عبادت کرتے ہو اس طرح محرم میں کیا کرتے ہیں۔ مگر خاص طور پر رسول اللہﷺ پر اور آج کل آل پر درود بھیجنا چاہئے۔

(ملاقات ینگ لجنہ وناصرات مورخہ 24 مارچ 2002ء)

(11) سوال: حضور میرا سوال محرم الحرام کے متعلق ہے اور نئی نسل کوپتا نہیں ہے کہ کیا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس پر روشنی ڈالیں۔ اگر ایم۔ ٹی۔ اے پر پروگرام پیش کریں کہ واقعہ کربلا کے بارے میں کیا ہوا تھا؟

جواب:یہ تو اتنا مشہور ہے کہ ہر ایک کو خبر پہنچی ہوئی ہے پتا نہیں آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ آپ نے نہیں سنا تھا کربلا کا واقعہ۔ (سائل: حضور نہیں سنا) نہیں سنا۔ آپ کا تو پھر وہی پٹھان والا حال ہے پھر۔ایک پٹھان آیا تھا کسی سنی علاقے سے افغانستان سے تو اس نے بھی دیکھا نہیں تھا کربلا کا رونا پیٹنا۔ شیعہ کرتے ہیں۔ تو اس نے دیکھا پشاور شہر میں کہ بہت لوگ پیٹ رہے ہیں تو اس نے سمجھا کہ اس زمانے کا کوئی بڑا آدمی فوت ہو گیا ہے۔اس نے کہا کون فوت ہوا ہے اس نے کہا کہ امام حسینؓ کے اوپر جو کربلا ہوئی تھی تو کہتا ہے کہ خوچے یہ خبر یہاں اب پہنچا ہے۔ یہ تو تیرہ سو سال پہلے کی بات ہےتو تم تو ایسی جگہ رہتے ہو جہاں ابھی بھی نہیں پہنچی۔سب دنیا کو پتا ہے کربلا کا واقعہ۔اس لئے یوں بچوں والی باتیں نہ کرو۔ دوبارہ بتانے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(مجلس عرفان سوال و جواب مورخہ 29 مارچ 2002ء)

(12) سوال: حضور حضرت امیر معاویہؓ ایک مخلص صحابی رسولﷺ اور زیرک انسان تھے۔ جب کہ ان کا بیٹا یزید ان کے بالکل برعکس تھا اور نیک فطرت انسان نہیں تھا پھر انہوں نے اسے خلافت کے لئے نامزد کیوں کیا؟

جواب: امیر معاویہ کو اپنے بیٹے پر اعتماد ہوگا۔ یزید تو ہماری نگاہ میں برا لگتا ہے کیونکہ اس نے آنحضرت ﷺ کے نواسے پر ظلم کیا تھاورنہ جس آنکھ سے باپ دیکھتا تھا اس کو اس کے تو عیب کوئی نظر نہیں آتے ہوں گے اس نے اپنی طرف سے تو فرمانبرداری کی۔ جوباپ نے حکم دیا تھا وہ بجا لایا اور اس پہلو سے وہ زیادہ عزیز ہو گیا ہو اس کو۔ تو یزید اپنے باپ کی نظر میں بہت ہی فرمانبردار بیٹا تھا۔

(مجلس عرفان سوال وجواب مورخہ 12 اپریل 2002ء)

(13) سوال: حضور ازالہ اوہام صفحہ:72 میں یزید کے بارہ میں لکھا ہوا ہے۔ حضور یزید کون تھا؟

جواب: یزید وہ تھا جس نے حضرت امام حسینؓ کو قتل کیا تھا اس لئے وہ یزید بہت ہی گندی چیز تھی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آنے والا تھا۔

(مجلس عرفان مورخہ 8 ستمبر 2002ء)


(14) سوال: میرا سوال ہے کہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ میں کو ن بڑا تھا اور کیا وہ دونوں شہید ہوئے تھے؟

جواب: امام حسنؓ بڑے تھے اور حسینؓ چھوٹے تھے اور حضرت حسینؓ شہید ہوئے تھے۔ حضرت حسنؓ شہید نہیں ہوئے تھے۔

(ملاقات لجنہ و ناصرات مورخہ 12 جنوری 2003ء)

(15) سائل: حضور خلافت راشدہ اولیٰ میں بعد میں حضرت حسنؓ کو خلافت ملی تھی۔ خلافت کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ حضرت امام حسنؓ نے Voluntarily خلافت چھوڑ دی جب کہ خلیفۃ المسیح اولؓ کا نظریہ تو یہ تھا۔

حضور: اس لئے خلافت راشدہ گنتے گنتے حضرت علی پر ختم کر دیتے ہیں کہ نہیں؟

سائل: جی

حضورؒ: کیونکہ اگر امام حسن اپنی قمیص رکھتے اپنے اوپر تو پھر بات تھی کہ خلافت راشدہ ہے جب اتار دی تو خود ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اس میں بحث میں نہیں پڑنا چاہیے

(تاریخ نہیں مل سکی)

(16) سائل: شیعہ عقیدہ رکھنے والے کو آپ کن روحانی اور عقلی دلائل سے احمدیت کی طرف مائل کر سکتے ہیں؟

حضور: حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی عظمت کس بات میں ہے۔ جب شیعہ سے پوچھیں کسی سے فارسی والوں نے ایک محاورہ بنایا ہوا ہے۔ سرداد دست نداد بہت بڑی عظمت ہے کہ غلط شخص کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ ہاتھ نہ دیا اس کے ہاتھ میں اور اپنا سر دے دیا۔ کٹوا دیا سر بیعت کے لیے ہاتھ نہیں پیش کئے۔ یزید کو کیونکہ سمجھتے تھے کہ تم حقدار ہی نہیں ہو اور سر کٹوا دیا اور تمام آئمہ بعد میں آنے والوں کی یہی شان ہے کہ جو بھی تھے سچے اور متقی ضرور تھے۔ بلکہ عظیم الشان نظام خلافت کو سمجھے یا نہ سمجھے اس بحث میں نہیں پڑتامگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سارے مخلص نیک اور متقی لوگ تھے اور اصول کے پکے تھے انہوں نے اپنے اصول کو قربان نہیں کیا۔ لیکن حضرت علیؓ جو بنیاد تھے سب نیکیوں کی جن سے وصیت شروع ہوئی جن سے امامت کا آغاز ہوا انہوں نے سر بچا لیا اور ہاتھ دے دیا کیونکہ جب شیعوں سے پوچھتے ہیں کہ کیوں بیعت کی تو کہتے ہیں جبراً کروائی گئی۔ پھر کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے آدمی بھیجے کہ وہ گھر جلا دیں ان کے تو ڈر گئے۔ مجبوری تھی اور اس مجبوری کو سچا دکھانے کے لئے ایک اور عقیدہ بنانا پڑا جسے تقیہ کہتے ہیں۔ اگر تقیہ کوئی ایسا بنیادی عقیدہ تھا جو آئمہ کی شان کے مطابق تھا تو حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ نے کیوں نہ اختیار کر لیا۔ پھر تو تقیہ افضل ہونا چاہئے اور سر دینا غلطی اور ناسمجھی شمار ہونا چاہیے۔

(تاریخ نہیں مل سکی)

خطبات میں موجود حوالہ جات

(1) جب آپ تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے دوسرا پہلو یہ آئے گا کہ جس باقاعدگی اور نظام کے ساتھ جس تفصیل کے ساتھ اور جتنی زیادہ پابندیوں کے ساتھ مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے ویسے کبھی کسی قوم پر فرض نہیں ہوئے ۔ بائبل میں روزوں کا ذکر ملتاہے۔ مثلاً دسویں محرم کے متعلق آتا ہے کہ یہ وہ دن تھا جب فرعون کے ظلموں سے بنی اسرائیل کو نجات دی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں آتا ہے کہ اس دن کو یاد رکھو اور روزہ رکھو (احبارباب32،29،12)۔ لیکن روزوں کا پورا ایک مہینہ فرض ہونا پہلے کبھی کسی قوم میں نظر نہیں آتا ۔ علاوہ ازیں روزے کے متعلق جو تفصیلی ہدایات ہیں ان میں بھی بڑا فرق ہے۔ بعض پرانے مذاہب میں روزہ اس شکل میں ملتا ہے کہ آگ پہ پکی ہوئی چیز نہیں کھانی پھل جتنا چاہو کھا لو۔ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں نہیں کھانی۔ پانی پی سکتے ہو یا دودھ پی سکتے ہو۔ تو یہ روزہ اسلامی روزے کے مقابل پر محض برائے نام اور سرسری سا روزہ بن جاتاہے۔ پھر بعض مذاہب میں روزے کے ساتھ یہ بھی تاکید ہے کہ کام نہیں کرنا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کام کا بھی روزہ ہے۔ تو جس کو کام سے چھٹی مل جائے اس کا روزہ تو اور بھی آسان ہو جائے گا۔ یعنی بظاہر یہ ایسی پابندی ہے جو اسلامی روزے میں نہیں ہے۔ لیکن عملاً یہ پابندی نہیں ہے بلکہ رخصت لینے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ تم لوگ کمزور ہو تم میں طاقت نہیں ہے کہ دنیا کے کام کرو اور ساتھ روزہ بھی رکھ سکو اور اس کا حق بھی ادا کر سکو۔ ایسے لوگ بعد میں آئیں گے جو یہ کام کر سکیں گے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جون 1983ء، خطبات طاہر جلد2 صفحہ317)

(2) اس کے بارہ میں ترجمہ اختیار کرنے کی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ جہاں تک تاریخی حقائق اورگواہیوں کا تعلق ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رمضان شریف کے علاوہ قرآن کریم دوسرے مہینوں میں نازل نہیں ہوا بلکہ پھر اس کے برعکس قطعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر قرآن کریم کا نزول سارا سال میں مجموعی طور پر ان مہینوں میں زیادہ ہے جو رمضان کے علاوہ ہیں اور ان کے مقابل پر رمضان میں جو قرآن کریم کا نزول ہوا ان گیارہ مہینوں کے مقابل پر کم ہے۔ اگرچہ دیگر مہینوں کے مقابل پر ایک کے مقابل پر دوسرے مہینے کو اگر رکھیں تو رمضان میں آیات قرانی کے نزول کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ہر دوسرے مہینے سے زیادہ ہوں گی لیکن اس دقت کو حل کرنے کے لئے جب یہ ترجمہ کیا گیا قرآن اس کے بارہ میں اتارا گیا تو اس سے پھر کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد رمضان کے ذکر کے سوا اور کوئی ذکر نہیں اور رمضان کا ذکر تو ہجرت کے بعد ہے ۔سب سے پہلے رمضان شریف کا ذکر خود اس آیت میں ہجرت کے بعد ہے کیونکہ مدینہ میں شروع میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور قطعی طور پر یہ ثابت ہے بخاری میں بھی یہ حدیث ہے اور دوسری کتب میں بھی کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں یعنی دسویں محرم کا۔ اس پر آنحضور ﷺ نے پوچھا کہ کیوں رکھتے ہیں تو کسی نے بتایا کہ اس لئے کہ ان کی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرعون کے مظالم سے دسویں محرم کو نجات ملی تھی۔

(مسلم کتاب الصیام یوم عاشوراء حدیث 2525)

اس لئے اس دن کو خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا دن مناتے ہیں اور اس لئے روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺنے فرمایا کہ موسیٰ یہود کے مقابل پر ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اس لئے یہ اعلان کر دوغالباً یہ اعلان ہوا ہے اسی دن یعنی جب روزہ تھا اس سے پہلے ایک رات معلوم ہوا ہے کیونکہ روایت میں پتا چلتا ہے کہ آپ نے یہ اعلان کروایا صبح کے وقت کہ جس شخص نے صبح روزے کا وقت شروع ہونے کے بعد اس اعلان کے سننے تک کچھ نہیں کھایا وہ کچھ نہ کھائے اور آج عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو کوئی کھا چکا ہے وہ اس کے بدلہ پھر کسی دن عاشورہ کا روزہ رکھے جس طرح رمضان کے روزے بعد میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔تو یہ پہلی مرتبہ آنحضور ﷺ نے عاشور ہ کا روزہ جو رکھا وہ یہود کی اس روایت پر بنا کرتے ہوئے اور اس کی پہلی مرتبہ تلقین فرمائی لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس سے پہلے خود روزے نہیں رکھتے تھے اس سے انکار نہیں ہوتا۔ اس روایت سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے روزوں کی اپنے متبعین کو جو ہدایت فرمائی ہے وہ پہلی مرتبہ عاشورہ کے روزے کے متعلق فرمائی اور تاکید فرمائی کہ یہ چونکہ موسیٰ کی رہائی کا دن ہے اس لئے ہم سب اس میں روزہ رکھیں گے۔ اب قرآن کریم کا ایک کثیر حصہ نازل ہو چکا تھا اور اس میں رمضان کا کوئی ذکرنہیں تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے رکھنے کا حکم آیا تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اب اس کے بعد آزادی ہے چاہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو چاہو تو نہ رکھو۔ خدا نے ہمیں اپنے ہمارے روزے عطا کر دیئے ہیں۔

(بخاری کتاب الصوم باب الصیام یوم عاشوراء حدیث نمبر: 2001)

(خطبات طاہر جلد7 صفحہ246تا 248، خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اپریل 1988)

(باقی 10؍اگست 2022ء کو ان شاءاللہ)

(طاہر فاوٴنڈیشن)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2022