• 7 جولائی, 2025

امتِ مسلمہ اور ماہِ محرم- ایک احمدی کا کردار

امتِ مسلمہ اور ماہِ محرم- ایک احمدی کا کردار
از افاضات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

ماہِ محرم کا آغاز جہاں ایک نئے سال کی نوید لاتا ہے وہیں مسلم دنیا میں کئی لوگوں کے چہروں پر خوف کے سائے بھی منڈلانے لگتے ہیں۔ اسلام کے فرقوں میں پائی جانے والی باہمی نفرت ایسے طور پر کھل کے سامنے آتی ہے کہ کشت و خون کی کئی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ فلسطین، کشمیر، میانمار اور کئی جگہ پر سارا سال مسلمانوں پر غیر زمین تنگ کئے رہتے ہیں۔ اسی طرح محرم شروع ہوتے ہی اسلام کے دو بڑے فرقوں میں فسادات کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ دونوں گروہ اپنے عقائد میں غلو اور معزز تاریخی ہستیوں پر حملوں میں ایک دوسروں پر سبقت لے جاتی ہیں۔

جماعت احمدیہ جو زمانے کے حکم وعدل کی میانہ روی کی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔ ایسے میں جماعت احمدیہ نے کیانمونہ پیش کرنا ہے۔ اس زمانہ میں خلیفۂ وقت ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا جماعت کی مکمل رہنمائی فرمائی اور احمدیوں کو اپنا بہترین نمونہ پیش کرنے اور درود شریف کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ ذیل میں چند اقتباسات پیش ہیں۔

نیا اسلامی سال

حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’آج کل ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں اس مہینہ کا نام محرم الحرام ہے۔ یہ ماہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ عام طور پر جب سال کا پہلا مہینہ آتا ہے، نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ محرم بعض جگہوں پر جمعہ کو شروع ہوا ہے یا پھر جمعرات کو شروع ہوا ہے۔ بہرحال جب مَیں گزشتہ جمعہ پر آنے لگا تو ایک صاحب باہر کھڑے تھے، انہوں نے مبارکباد دی۔ لیکن مبارکباد کس چیز کی؟کیونکہ اُسی دن عراق میں دھماکے ہوئے، شیعوں پر حملے کئے گئے اور درجنوں شہید کر دئیے گئے۔ سو ہم نئے سال کے شروع میں عموماً ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں لیکن جب قمری سال کا یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمان شرفاء کی اکثریت جن کو اُمّت کا درد ہے، اس مہینہ کے آنے پر فکر اور خوف کا اظہار شروع کر دیتی ہے۔ یہ کیوں ہے؟ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ دھماکے ہوتے ہیں، قتل و غارت ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ ان دنوں میں باوجود حکومتوں کے اعلانوں کے، باوجود مختلف فرقوں کے علماء کے مشترکہ بیانات کے، اعلانات کے یا تو شیعہ سُنّی فساد شروع ہو جاتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کسی تعزیہ پر یا امام باڑے پر دوسرے فرقوں کی طرف سے یا شرارتی عنصر کی طرف سے حملہ ہو جاتا ہے اور اب تو مفاد پرست اور دہشتگرد دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر شیعوں کی مجالس یا مجمع پر حملہ کر کے درجنوں معصوموں کی جان لے لیتے ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے مذہبی مقاصدنہیں ہیں یا مذہبی اختلاف نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں، حکومتوں کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔

عام طور پر دس محرم کو زیادہ خطرے کا دن ہوتا ہے جو مغربی ممالک میں تو کل ہے۔ یہاں تو کوئی ایسا خطرہ نہیں لیکن مشرقی ممالک میں آج ہے شاید پاکستان میں اور کچھ اَور ملکوں میں بھی ہو۔ اس دن ظلموں کی بعض دفعہ انتہا کر دی جاتی ہے بلکہ اس دفعہ تو شیعوں کے مختلف اکٹھ پر یہ حملے شروع ہو چکے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ پہلی تاریخ کو ہی عراق میں شیعوں پر حملہ کیا گیا۔ پاکستان میں راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ، سوات میں یہ حملے کئے گئے۔ کل اخبار میں تھا کہ دھماکے ہوئے اور کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ بلکہ راولپنڈی میں تو پرسوں بھی حملے ہوئے اور کل بھی ہوئے۔ کل بھی ان حملوں کی وجہ سے جو شیعوں پر کئے گئے تیئس لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ شیعوں کو موقع ملتا ہے تو وہ اس طرح بدلہ لیتے ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ کی اب عجیب قابل رحم حالت ہے۔ یہی مذہبی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلافات ہیں جو مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں میں بھی ایک دوسرے میں خلیج پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یا بعض ملک ایسے ہیں جن میں ملک کے اندر ہی اقلیتی فرقے کی حکومت ہے تو اکثریتی فرقہ شدید ردّعمل دکھا رہا ہے جو گولہ بارود کے استعمال پر منتج ہے۔ اقلیتی فرقے کو موقع ملتا ہے تو وہ اکثریت پر حملہ کر دیتا ہے اور اسی بنیاد پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر یا باغیوں کو کچلنے کے نام پر حکومت بھی معصوم جانیں ضائع کر رہی ہے۔ بلا سوچے سمجھے بمباری ہورہی ہے، فائرنگ ہو رہی ہے، گھروں کو تباہ و برباد کیا جا رہاہے۔ اپنے ہی ملک کے ہزاروں مردوں عورتوں کو موت کے منہ میں اتار دیا جاتا ہے۔ شام میں آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا حملہ مسلمانوں کے اس اختلاف اور ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جا رہا ہو۔ یا جہاں ایک دوسرے کے خلاف ظلم کی بھیانک داستانیں رقم نہ کی جا رہی ہوں۔ نتیجۃً کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی طرف سے ظلم ہوتا ہوا تو ہمیں نظر آہی رہا ہے، بیرونی اسلامی قوتیں بھی اس کے نتیجہ میں اپنے دائرے اسلامی ممالک پر تنگ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ کاش کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور یہ ایک ہو جائیں۔ اپنے اسلاف سے کچھ سبق سیکھیں، تاریخ ہمیں ان کے متعلق کیا کہتی ہے۔ جب ایک اسلام مخالف بڑی طاقت نے، روم کی حکومت نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلاف کی وجہ سے اسلامی طاقت کو کمزور سمجھتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ کے علم میں جب بات آئی تو اُس بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہمارے آپس کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر حملہ کیا تو مَیں حضرت علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل ہوں گا جو تمہارے خلاف لڑے گا۔

(البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد8 صفحہ126 سنۃ 60 وھذہ ترجمۃ معاویۃ رضی اللہ عنہ وذکر شیء من ایامہ و دولتہ و ما ورد فی مناقبہ و فضائلہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

تو یہ ردّ عمل تھا اُن صحابہ کا جن کی طرف ہم اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اور آج یہ لوگ مخالفین کے ساتھ مل کر اسلامی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر مسلمان بھی ہیں۔ ہاں ایک بات پر ان علماء کا یا نام نہاد علماء کا یا اُس طبقہ کا جو شر پھیلانے والا ہے، اتفاق ہوتا ہے اور وہ مسیح محمدی کی قائم کردہ جماعت کے خلاف منصوبہ بندی یا احمدیوں کو جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر دل و جان سے ایمان اور یقین رکھتے ہیں، زبردستی دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہے۔ ان لوگوں کو ذرا بھی یہ خوف نہیں کہ جس نبی کا کلمہ یہ پڑھتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں، جس کے لئے جان و آبرو قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس کے اس ارشاد پر بھی ذرا غور کریں۔ اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا۔ یہ ایک اصولی حکم ہے اور صرف ایک صحابی کے لئے نہیں تھا کہ کیا تم نے لوگوں کے دل چیر کے دیکھے ہیں کہ یہ دل سے کلمہ پڑھتے ہیں یا اوپر سے اور کسی خوف کی وجہ سے؟ کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں۔ علماء کہلانے والے اپنے نام نہاد علم کے دعویٰ کے خول سے باہر آئیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرنے کے بجائے اُنہیں انصاف اور حق بتانے کی کوشش کریں اور اُس جری اللہ کے ساتھ منسلک ہو کر تمام فرقہ بندیوں کا خاتمہ کر کے ظلم و تعدّی کو ختم کریں۔ اور مذہبی جنگوں کے تصور کو ختم کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مسیح الزمان کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پھیلا کر دشمن کی طاقت کو ختم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے بن جائیں۔

ہر احمدی بزرگانِ اسلام کی عزت کرے!

پس ہر احمدی، ہر مسلمان اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے، آپ کے نور سے فیضیاب ہونے والا ہے، آپ کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے و الا ہے تو آلِ محمدؐ میں اُس کا شمار ہو جائے گا۔

پس یہ وہ حقیقی طریق ہے جس پر ہر مسلمان کے لئے چلنا ضروری ہے کہ ہر بزرگ کے مقام کو پہچان کر اُس کی عزت کریں، اُس کا احترام کریں۔ آپس کے جھگڑوں اور فسادوں اور قتل و غارت گری کو ختم کریں۔ بعید نہیں کہ یہ سب قتل و غارت گری اور فساد جو ہو رہے ہیں، مسلمان مسلمان کو جو قتل کر رہا ہے اس میں اسلام مخالف طاقتوں کا ہاتھ ہو جو مسلمانوں میں گروہ بندیاں کر کے، پیسہ دے کر، رقم خرچ کر کے فساد کروا رہے ہیں یا خود بیچ میں شامل ہو کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اب جو شیعوں پر حملے ہو رہے ہیں یا مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں، ان میں اُن تنظیموں کا ہاتھ ہے جنہیں حکومت دہشتگرد کہتی ہے اور دہشتگردوں کے بارے میں یہ بھی حکومتوں کی رپورٹیں ہیں اور پاکستان میں بھی ہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بعض مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ فساد پیدا کرنے کے لئے باہر سے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُمّت پر رحم کرے اور ان کو ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

احمدیوں کو بھی مَیں کہنا چاہوں گا کہ دوسرے مسلمان فرقے تو ایک دوسرے سے بدلے لیتے ہیں کہ اگر ایک نے حملہ کیا تو دوسرے نے بھی کر دیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر باوجود تمام تر ظلموں کے جو یہ تمام فرقے اکٹھے ہو کر ہم پر کر رہے ہیں، ہمارے ذہنوں میں کبھی بھی بدلے کا خیال نہیں آنا چاہئے۔ ہاں کسی بات کی اگر ضرورت ہے تو یہ کہ ہم میں سے ہر ایک ہر ظلم کے بعد نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرے اور پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے دعاؤں میں لگ جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قربانی کا جو عملی نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایا ہے وہ ہمارے لئے رہنما ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ایک شعر میں جماعت کو اس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ

وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو

(کلام محمود۔ مجموعہ منظوم کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نظم94 صفحہ218)

دشمنوں کے ظلم سے حفاظت کی دعا

پس حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہیں، ہمیں صبر و استقامت کا سبق دے کر ہمیں جنت کے راستے دکھا دئیے۔ ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں یہ دعا محفوظ رہنے کے لئے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ درود شریف پڑھنے کے لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی کہا تھا پہلے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ دشمن جو ہمارے خلاف منصوبہ بندیاں کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصرت فرمائے اور ہم پر رحم کرتے ہوئے دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے ہر فردِ جماعت کو اور جماعت کو محفوظ رکھے۔ ان کا ہر شر اور منصوبہ جو جماعت کے خلاف یہ بناتے رہتے ہیں یا بنا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہی پر الٹائے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی آل میں شامل فرمائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل مقام روحانی آل کا ہے۔ اگر جسمانی رشتہ بھی قائم رہے تو یہ تو ایک انعام ہے۔ لیکن اگر جسمانی آل تو ہو لیکن روحانی آل کا مقام حاصل کرنے کی یہ جسمانی آل اولاد کوشش نہ کرے تو کبھی اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسلک ہونے سے اللہ تعالیٰ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی درود شریف پڑھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس درود سے فیضیاب ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ کس حد تک زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر قرآنِ کریم کی حکومت اپنے سر پر قبول کرنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ بزرگوں کے مقام کے یہ ذکر اور مخالفینِ احمدیت کی ہم پر سختیاں اور ظلم اور بعض حکومتوں کا ہم پر ان ظلموں کا حصہ بننا ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو۔ ہماری قربانیاں سعید فطرت لوگوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے والی ہوں اور ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے اس کا مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا، اس کے لئے بھی بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ معصوم جانوں کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔ اسرائیل کے بارے میں اُن کے یہ بیان آ رہے ہیں کہ ہم خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتے اس لئے ہم نے فلسطینیوں پر حملہ کیا۔ خود ہی پہلے حملہ کیا، خود ہی اُن کے لوگ مارے، جب انہوں نے جواب دیا تو کہہ دیا یہ ہمارے لئے خوف پیدا کر رہے ہیں۔ یہ عجیب دھونس ہے اور یہ عجیب طریق ہے جو دنیا والے اپنا رہے ہیں، صرف اس لئے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، کہ مسلمانوں کی کوئی اِکائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان معصوم فلسطینیوں پر بھی رحم کرے اور ان کو ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔

(خطبہ جمعہ 23؍نومبر 2012ء)

محرم میں درود شریف پڑھنے کی اہمیت

فرمایا:
دعاؤں کی قبولیت اور محرم کے حوالے سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں، اس مہینے میں درود شریف پر بہت زیادہ زور دیں کہ قبولیت دعا کے لئے یہ نسخہ آنحضرتﷺ نے ہمیں بتایا ہے اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق نے اپنے عملی نمونہ سے درُود شریف کی برکات ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ درُود پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو اس معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی جس سے درُود فائدہ دیتا ہے۔ اگر آنحضرتﷺ پر درود بھیج رہے ہیں تو آپؐ کے مقام کی پہچان بھی ہمیں ہونی چاہئے۔

احادیث میں درود شریف پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے، ان میں سے چند ایک یہاں پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرتﷺ جب صبح کو تشریف لائے تو حضور کے چہرے پر خاص طور پر بشاشت تھی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج حضورؐ کے چہرۂ انور پر خاص طور پر خوشی کے آثار ہیں۔ فرمایا ہاں۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتے نے آ کر مجھے کہا ہے کہ تمہاری اُمّت میں سے جو شخص تم پر ایک بارعمدگی سے درود بھیجے گا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا (اور یہاں آپ نے فرمایا کہ عمدگی سے درُود بھیجے گا) اور اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا۔ اور اُسے دس درجے بلند کرے گا۔ اور ویسی ہی رحمت اس پر نازل کرے گا جیسی اس نے تمہارے لئے مانگی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 مسند ابی طلحہ انصاری حدیث 16466 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)

آنحضرتﷺ کی خوشی اُمّت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اظہار کی وجہ سے تھی۔ پس ہمارا کام ہے کہ اس رحمت کو لینے کے لئے آگے بڑھیں۔ خالص ہو کر آنحضرتﷺ پر درود بھیجیں۔ اپنے گناہوں کی معافیوں کے بھی سامان کریں اور آئندہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملنے کی بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے سامان کریں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا قیامت کے روز مَیں اس کی شفاعت کروں گا۔

(جلاء الافہام۔ صفحہ70 ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ 1375ھ)

پس یہ مقام درود بھیجنے والے کو ملتا ہے۔ درجے بلند ہو رہے ہیں۔ گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ پھر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مَیں اس کی شفاعت کروں گا۔ لیکن کیا آنحضرتﷺ پر درُود بھیجنے والے، جس کے لئے آنحضرتﷺ شفاعت کریں گے، اس کے دل میں دوسرے مسلمان کے لئے کوئی بغض اور کینہ ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کی شفاعت ہو گی؟ اور پھر کیا جب ہم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کہتے ہیں تو آنحضرتﷺ کی آل کے خلاف کوئی کینہ اور بغض دل میں ہو سکتا ہے؟ اور کیا آپؐ کے صحابہؓ کے خلاف کوئی کینہ اور بغض کسی کے دل میں ہو سکتا ہے؟

اگر اس بات کو ہر مسلمان سمجھ لے تو آپس کی لڑائیاں، رنجشیں اور فساد خود بخود ختم ہو جائیں کہ آنحضرتﷺ کی شفاعت کے لئے اور درجات بلند کروانے کے لئے درُودکا حق ادا کرنا ہو گا اور حق ادا کرنے کے لئے ہمیں آپس کے کینے اور بغض بھی ختم کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہم اُمّت کے فرد ہیں۔ کیا آنحضرتﷺ کی شفاعت ان لوگوں کے لئے ہو گی جو منہ سے تو درُود پڑھ رہے ہوں گے اور دل ان کے کٹے پھٹے ہوں گے۔ آنحضرتﷺ تو دلوں کو جوڑنے کے لئے آئے تھے۔ آپؐ کے ماننے والوں کے بارے میں تو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (فتح: 30) یعنی آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم اور ملاطفت کے جذبات رکھتے ہیں۔ لیکن کیا آج مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ رحم کے جذبات ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہوں۔ یہ محرم کا مہینہ ہے۔ ہر سال ہم خبریں سنتے ہیں کہ فلاں جگہ شیعوں کے تعزیہ پر حملہ کیا گیا۔ فلاں جگہ امام باڑے پر حملہ کیا گیا۔ پاکستان میں بعض مولوی، وہ لوگ جو دینی علم رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ مسجد کے منبر سے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت کو پورا کرتے ہوئے اس جگہ کا خو ف دل میں رکھتے ہوئے محبت و پیار کا پیغام دیں لیکن یہ ہواوہوس میں ڈوبے ہوئے لوگ منبر رسولﷺ سے نفرتوں کا پیغام دیتے ہیں۔ محبتوں کے سفیر بننے کی بجائے نفرتوں کے پیغامبر بنتے ہیں۔ اور پھر اسی وجہ سے حکومت یہ اعلان کرتی ہے اور یہ اعلان اخباروں میں چھپتے ہیں کہ فلاں مولوی پر فلاں فلاں جگہ جانے پر پابندی ہے۔ اتنے عرصے کے لئے پابندی لگائی گئی ہے تاکہ وہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کے بیج نہ بو سکیں۔ پس یہ تو حال ہے آج ان لوگوں کا جو ایک طرف تو قرآن اور سنّت کی تعلیم دیتے اور دوسری طرف نفرتوں کے بیج بوتے ہیں اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہر سال یہ پابندیوں کا مستقل عمل ہے جو حکومتوں کو دُہرانا پڑتا ہے۔ پھر کربلا میں بھی خود کش حملے ہوتے ہیں۔ شیعہ سنیوں پر حملے کرتے ہیں۔ سنی شیعوں پر حملے کرتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لئے حکومتوں کو علماء کی کمیٹیاں بنانی پڑتی ہیں تاکہ ملک میں فسادنہ پھیلے۔ اور اگر محرم کے دن امن سے گزر بھی جائیں تو یہ نفرتوں کی جو باتیں ہیں، جو نفرتوں کے نعرے ہیں، جو نفرتوں کے لاوے دلوں میں پک رہے ہوتے ہیں، یہ بعد میں پک کے نکلتے ہیں اور سارا سال مختلف جگہوں پرکچھ نہ کچھ فساد ہوتا رہتا ہے اور دونوں بظاہر مسلمان بھی ہیں اور درُود پڑھنے والے بھی ہیں تو کیا ایسے لوگوں کے لئے آنحضرتﷺ نے سفارشی بننے کا اعلان فرمایا ہے؟ سوچنے کا مقام ہے۔

ہمیں اس لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے اور درُود پڑھنا چاہئے کہ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے والے، آنحضرتﷺ کے حقیقی پیغام کو سمجھنے والے بھی بنیں۔ درُود کی حقیقت کو سمجھیں اور آج جبکہ عالمِ اسلام خطرے میں ہے تو ایک اکائی کا ثبوت دیں تاکہ دشمن کی میلی آنکھ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ درُود شریف میں جب ہم آلِ رسول پر درُود بھیجتے ہیں تو ان روحانی اور جسمانی رشتوں کا بھی خیال آتا ہے جو آنحضرتﷺ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ آنحضرتﷺ کے وہ خونی رشتے جنہوں نے روحانی رشتہ دار ہونے کا بھی حق ادا کیا ہے اور ایسا حق ادا کیا ہے کہ جس کے معیار بلندیوں کو چھُو رہے ہیں، ان کے بارے میں کسی حقیقی مسلمان کے دل میں خیال آ ہی نہیں سکتا کہ کوئی نازیبا کلمات ان کے بارے میں کہیں۔ بلکہ درودپڑھتے وقت بھی جب آل رسول پہ درود بھیجتے ہیں تو وہ لوگ فوراً سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے صحابہ ہیں۔ وہ صحابہ جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کے جسم مبارک کو نقصان سے بچانے کے لئے، ہر تکلیف سے بچانے کے لئے اپنے سینے آگے کر دئیے۔ ان صحابہ میں ایک آنحضرتﷺ کے غار کے وہ ساتھی بھی ہیں جن کو آنحضرتﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ: 40)۔ غم نہ کر یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن کریم میں درج کرکے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہمیشہ کے لئے آنحضرتﷺ کا بہترین ساتھی قرار دے دیا اور ان فضلوں کا بھی ساتھی بنا دیا جو اس ہجرت کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر فرمائے تھے۔ پس ایسے بزرگوں کی شان میں کسی قسم کے ایسے الفاظ کہنا جن سے ان کے مقام میں کسی بھی قسم کی کمی نظر آتی ہو ایک مسلمان کا، ایسے مسلمان کا کام نہیں ہے جو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والا ہے۔

آپؐ کی آل میں وہ خونی رشتے دار، جنہوں نے روحانی رشتے کو بھی نبھایا جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے اور اس کے بلند معیار قائم کئے، ان کے علاوہ وہ رشتے بھی شامل ہیں جنہوں نے روحانیت کا تعلق جوڑا۔

پس آج ہمارا کام ہے کہ جب دنیا میں ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیواریں بلند ہو رہی ہیں۔ مسلمان کہلا کر پھر ایک دو سرے سے نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں تو یہ درُود پڑھیں، دعائیں کریں۔ ایک ہمدردی کے جذبے سے اُمّت محمدیہ کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی حقیقی رنگ میں درُود شریف کی پہچان کرنے والا بنائے تاکہ مسلمان رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (فتح: 30) کا حقیقی نظارہ دیکھیں۔ ان کے لئے دعائیں کرنا ہمارا فرض بھی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درُود کی برکات اور اہل بیت سے تعلق کا جو ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے وہ مَیں آپؑ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’ایک مرتبہ الہام ہوا، جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندگی دینا چاہتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ جوش میں ہے ’’لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پرشخص مُحْیِیْ کے تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے‘‘۔ لیکن یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ کس کے ذریعہ سے یہ زندگی دوبارہ پیدا کی جانی ہے تو ’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِیْ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارے سے اس نے کہا ہٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘۔ یعنی اس عہدے کے لئے جو زندہ کرنے والا ہے سب سے بڑی شرط محبت کی ہے۔ جس نے مُحْیِیْ بننا ہے وہ رسول اللہﷺ سے محبت میں سب سے زیادہ ہونا چاہئے۔ ’’سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ وہ اس شخص میں پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ کرکے فرشتوں نے کہا۔ فرماتے ہیں کہ ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جوآل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے‘‘۔ یہ جس الہام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جوپہلے ہوا تھا، یہاں نہیں پڑھا گیا کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔ فرمایا کہ ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبّین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حسّ سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے‘‘۔ یہ کشفی حالت طاری ہوئی اور چند لوگوں کے چلنے کی وہ آواز آئی جو جوتی پہننے سے آتی ہے۔ ’’پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ598-599 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کشف تھا۔ اسے بھی بعض غیر تو ڑ مروڑ کرپیش کرتے ہوئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نعوذ باللہ حضرت فاطمہ کی ہتک کی ہے تو یہ اصل میں ان اعتراض کرنے والوں کی بدفطرت ہے جو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ فقرہ کہہ کے ہتک کی گئی ہے۔ فتنہ پیدا کرنے والے جو مولوی ہیں یہ عام لوگوں کو پورا فقرہ نہیں بتاتے، (اور عوام جہالت کی وجہ سے یا ان لوگوں نے پڑھا پڑھا کے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ سننا اور دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ اصل چیز کیا ہے۔) یہ صرف اتنا فقرہ بتاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے یہ لکھ دیا کہ حضرت فاطمہ نے میرا سراپنی ران پر رکھ لیا۔ کیونکہ گند خوداُن کے ذہنوں میں بھرا ہو اہے اس لئے اس گند سے یہ باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ نہایت محبت و شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ اب مادر مہربان کا کیا مطلب ہے؟ مہربان ماں، اس مہربان ماں کے لفظ کے ساتھ کوئی گندہ خیال ابھر سکتا ہے؟ یہ صرف اور صرف اگر ابھر سکتا ہے تو ان گندے اور بدفطرت مولویوں کے ذہنوں میں۔ یہ ضمناً ذکر آ گیا اس لئے مَیں نے وضاحت کر دی۔

تو یہ سارے کشف اور الہام ہیں ایک تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسیح و مہدی ہونے کے مقام کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسی درُود کی وجہ سے تھا جو آپ آنحضرتﷺ سے بے پناہ عشق کی وجہ سے آپﷺ پر بھیجتے تھے۔ دوسرا آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو الہام ہے۔ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ اس میں ایک راز یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے انوار سے فیض حاصل کرنا ہے تو اہل بیت سے محبت کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بننے کے لئے ان پاک اور مطہر لوگوں کی وراثت پانا بھی ضروری ہے۔ پس یہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بننے والا ان پاک اور مطہر وجودوں کے نقش قدم پہ چلے تو اللہ تعالیٰ اس محبت کی وجہ سے جو آنحضرتﷺ کے پیاروں سے کسی کو ہے ان محبت کرنے والوں کو اپنے قرب سے نوازتا ہے۔ پس یہ حقیقی محبت ہے کہ اپنے محبوب کے پیاروں سے بھی محبت ہو اور اگر اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں تو کبھی ایک دوسرے کے لئے نفرتوں کی دیواریں کھڑی نہ ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے والے جو علماء یا نام نہاد مولوی ہیں، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور اپنی اناؤں کی خاطر یہ دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔ لیکن ان دیواروں کو کھڑا کرنے میں نام ان بزرگوں کا استعمال کرتے ہیں جو اپنی ساری زندگی رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ کی بہترین مثال بنے رہے۔ پس یہ عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی عقل کا استعمال کریں۔ آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہمیں جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ان لوگوں کی محبت بھی مانگی ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت میں بڑھانے کا ذریعہ بنے جیسا کہ ایک دعا میں آپ نے یہ سکھایا کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِیْ حُبَّہٗ عِنْدِکَ۔

(ترمذی۔ کتاب الدعوت باب 74/73 حدیث3491)

کہ اے اللہ! عطا کر مجھے اپنی محبت اور اس شخص کی محبت کہ میرے کام آئے اس کی محبت تیرے حضور۔ اور سب سے زیادہ کام آنے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے۔ نفع دینے والی محبت آنحضرتﷺ سے محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اور یقینا ان لوگوں سے بھی محبت اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے جن سے آنحضرتﷺ نے محبت کی۔ جہاں ہمارا کام یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے ہر حکم کی اور ہر کام کی پیروی کریں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جن سے آپؐ نے محبت کی ان سے ہم بھی محبت کریں۔ اور بے شمار روایات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جہاں اپنی جسمانی اور روحانی آل سے محبت کی یعنی جسمانی آل سے جن کا روحانی تعلق بھی تھا اور ہے ان سے محبت کی وہاں صرف جو روحانی اولاد تھی، آپ کے ماننے والے تھے، صحابہ تھے، ان سے بھی محبت کی۔ اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ اُمّت کے جو لوگ درُود بھجیں گے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے گا اور اس پر آپ بے انتہا خوش ہیں۔ وہی نہیں جو اس وقت کے صحابہ تھے بلکہ تا قیامت آنے والے تمام وہ لوگ جو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ان سے رحمت کا سلوک فرمانا ہے تو اس بات سے آنحضرت کو بے انتہاء خوشی پہنچ رہی ہے اور خوشی تبھی پہنچتی ہے جب حقیقی محبت ہو۔ اگر اس اصل کو مسلمان سمجھ جائیں تو کبھی کسی قسم کا فسادنہ ہو۔ کبھی ایک دوسرے کی مسجدوں پہ خود کش حملے نہ ہوں۔ کبھی علماء پر ایک جگہ سے دوسری جگہ خاص طور پر محرم کے مہینہ میں جانے پر پابندیاں عائدنہ ہوں۔ بہرحال ہمارا کام یہ ہے کہ ان کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ مسلمان بھی سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب آپس میں رحم اور ملاطفت کے نظارے نظر آتے تھے اور آج مختلف گروپوں سے، مختلف گروہوں سے، مختلف طبقوں سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ کس کی نظر کھا گئی اس اُمّت کو؟ کہاں نافرمانی ہو گئی جس کی یہ سزا مل رہی ہے۔ سوچیں اور سوچیں تاکہ اسلام کا اصل حسن دنیا کو دکھا سکیں۔ اپنی کمزوریوں پر نظر کریں۔ پس پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل ہم احمدیوں کو چاہئے کہ اس مہینے میں درود شریف بھی بہت پڑھیں۔ امت مسلمہ کو آپس کے لڑائی جھگڑوں، فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رہنے کے لئے دعائیں بھی بہت کریں اور آنحضرتﷺ کی آل اور اصحاب اور تمام ان لوگوں سے جن سے ہمارے محبوب آقا نے محبت کی، ایسی محبت کا اظہار کریں جو بے مثال ہو۔

آنحضرتﷺ کی وہ جسمانی اولاد جس نے آپ سے روحانی رشتہ بھی قائم رکھا ہماری محبت کی یقینا حقدارہے اور بہت زیادہ حقدار ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ … تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ654 اشتہار تبلیغ الحق 8 اکتوبر 1905ء۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ محبت ہے جو حضرت امام حسینؓ سے ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

اسی طرح صحابہؓ کا مقام بھی ہمارے دل میں قائم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت عمرؓ کا مقام بھی ہمارے دلوں میں قائم ہے۔ یہ نہیں کہ ایک طرف محبت ہوئی اور دوسری طرف سے کم ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والوں سے ہمیں محبت کرنی ہے۔…

پس ہمارے لئے تو آنحضرتﷺ کے سب پیارے ہی بہت پیارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی ہر قسم کے تفرقہ کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ آج بیرونی طورپر بھی مخالفت زوروں پر ہے۔ آج ہمیں ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی ضرورت ہے۔ اب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جو لڑائی ہو رہی ہے اس میں بھی صحیح راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم فلسطینی نقصان اٹھا رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کوخود ہی نقصان پہنچوا رہے ہیں اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ راہنمائی فرما دی کہ دین کے نام پر جنگیں نہ کرو۔ کوئی جنگ جو دین کے نام پہ ہو گی وہ کامیاب نہیں ہو گی اور اس جنگ میں تو ویسے بھی توازن نہیں ہے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ ختم کیا جائے تاکہ معصوم جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اسرائیل کا حملہ تو معصوموں پر ہے۔ ٹھیک ہے کہ ان کے کچھ ٹارگٹ بھی مررہے ہیں۔ لیکن بہت سی معصوم جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں۔ یہاں کے اخباروں نے بھی شورمچانا شروع کر دیا ہے کہ ایک کے بدلے میں تم ڈیڑھ سو آدمیوں کو مار دیتے ہو۔ اُن لوگوں کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے سلوک کرنا ہے یا اُن کا جو انجام ہونا ہے وہ کسی جنگ سے نہیں ہونا بلکہ خداتعالیٰ کی تقدیر نے اپنا فیصلہ خود ظاہر کرنا ہے اور کس طرح ہونا ہے وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔ پس فلسطینیوں کواگر اپنا دفاع کرنا ہے اور مسلمانوں نے ان کی کوئی مدد کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کریں۔ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو پکڑتا ہے اور پکڑے گا۔ لیکن مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ زمانے کے امام کی آواز کو پہچانیں۔ مَیں نے تو یہاں غیروں کے سامنے بھی جب کہنے کا موقع ملا تو یہی کہا ہے کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرو گے تو اپنے آپ کو جنگ کی ہولناکیوں میں ڈالتے رہو گے۔ صرف معصوموں اور مظلوموں پہ ظلم کرنے سے بچ نہیں جاؤ گے یا اپنی طاقت کا لوہا نہیں منوا لو گے۔ پس ان کو یہی ہمیشہ کہا گیا کہ اپنی نسلوں کو بھی ان تباہیوں سے بچانے کی کوشش کریں اور انصاف کے تقاضے قائم کریں۔ اللہ کرے کہ یہ بڑی طاقتیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے والی بھی ہوں۔ ورنہ یہ ایک دو ملکوں کی جنگ کا سوال نہیں رہے گا۔ پھر ان جنگوں کی صورت میں جو ہونے والی ہیں اور جو بظاہر نظر آ رہی ہیں بڑی خوفناک عالمگیر تباہی آئے گی۔

اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی دعائیں کرنے کی توفیق دے۔ درُود پڑھنے کی توفیق دے تاکہ دنیا کو اس تباہی سے بچانے والے بن سکیں۔ اللہ کرے کہ دنیا بھی اس حقیقت کو پہچانے اور تباہی سے بچے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نیا چڑھنے والا سال جماعت احمدیہ پر جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہاہزاروں رحمتوں اور برکتوں کا سال بن کر چڑھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں نئی سے نئی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ سال ہر لحاظ سے مبارک کرے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2009ء)

جماعت احمدیہ کا نمونہ

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:
آج کل ہم محرّم کے مہینے سے گزر رہے ہیں جو اسلامی سال کے کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے. انگریزی سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی سال کے شروع ہونے پر کئی مسلمان ملکوں میں اس فرقہ واریت کی وجہ سے قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ وہ دین جو امن اور سلامتی کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے والا دین ہے کیوں اس کے ماننے والے اپنے سال کا آغاز فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری سے کرتے ہیں؟ہمیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح ہم مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنا کر ان فسادوں اور دہشت گردیوں کو ختم کر سکتے ہیں؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اسلام کی ابتدا کی ترقی کے بعد ایک فیج اعوج کے زمانے کی خبر دی تھی تو پھر یہ خوشی کی خبر بھی دی تھی کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ وہی معاملہ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف ہوا تھا وہی معاملہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے بعد مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلمانوں کی ترقی اور اکائی کا ایک روشن نشان بن جائے گا۔ پس جب حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہ نشانیاں جو قرآن و حدیث سے پتہ چلتی ہیں پوری ہو رہی ہیں یا ہو گئی ہیں تو کیوں نہ ہم اس حَکم اور عدل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی تلاش کریں جو شیعہ سنی اور مختلف فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات کو ختم کر کے ہمیں ایک بنانے والا ہے۔ ان اندھے نام نہاد علماء کی تقلیدنہ کریں جو خود بھی ڈوب رہے ہیں اور اپنے ساتھ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھیں جب وہ نشانیاں پوری ہو گئیں جن میں قرآن اور حدیث سے پتہ چلتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہے، اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کون ہے جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا ذریعہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیاہے۔ کسی کو کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم احمدی کہتے ہیں کہ وہ بانیٔ جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا ہے یا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کروا رہا ہے یا کروائے گا جنہوں نے جھگڑوں اور فسادوں کو امن و سلامتی میں بدلنا ہے۔ پس ہم میں اگر عقل ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کو صرف افسوس کرنے یا پھر اپنے بغضوں اور کینوں اور غصوں کو نکالنے کا مہینہ نہ بنائیں، صرف اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا مہینہ بنائیں۔ اس حقیقی تعلیم پر چلیں جو اسلام کی تعلیم ہے۔ اس رہ نما کے پیچھے چلیں جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حَکم اور عدل کا مقام دیا ہے تبھی ہم حقیقی مسلمان کہلاسکتے ہیں۔ تبھی ہم دنیا کو اپنے پیچھے چلا سکتے ہیں۔۔۔۔۔

جیسا کہ میں نے کہا آج کل ہم محرم کے مہینے سے گزر رہے ہیں۔ کل یا پرسوں دس محرم بھی ہے جس میں حضرت حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے شیعہ اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یقیناًً یہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس طرح حضرت حسین کو شہید کیا گیا۔ جب ان جذبات کا اظہار شیعہ حضرات کرتے ہیں یا عام حالات میں بھی شیعہ حضرات کے حضرت حسینؓ کے بارے میں، حضرت علیؓ کے بارے میں جو جذبات ہیں تو عموماً ہمارےبارے میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یا آپؑ کی جماعت نے خاندان نبوت کے مقام کو نہیں پہچانا۔ اس غلط فہمی کو جماعتِ احمدیہ ہمیشہ دور کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کے بارے میں جو فرمایا ہے… اس سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نظر میں کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ باقی تین خلفاء بھی برحق تھے۔۔۔

پس اس کے لیے آج کل، خاص طور پر اس مہینے میں اور ہمیشہ بھی جبکہ دشمنی بھی آج کل خاص طور پر پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی اپنے عروج پر اور زوروں پر ہے ہمیں چاہیے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں۔ درود شریف پڑھنے پر بہت زور دیں اور جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں گے اتنا ہی جلدی اللہ تعالیٰ ہمیں فتح نصیب کرے گا، کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے گا۔ ان دنوں میں خاص طور پہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں۔ وہ مسلمان فرقے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور ان دنوں میں خاص طور پر جب دس محرّم آتی ہے تو تاریخ ابھی تک تو یہی بتا رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں امام بارگاہوں پہ اور تعزیوں پہ یا مختلف جگہوں پہ حملے بھی ہوتے ہیں اور پھر کئی لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے، دین کے نام پر شہید کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عقل دے اور کم از کم اس سال ایسی اطلاع کہیں سے کسی بھی ملک سے نہ ملے کہ جہاں مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا ہو اور یہ مسلمان اس حقیقت کو بھی جلد پہچاننے والے ہوں کہ اسلام کی جو فتح اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہی کی ہے اور ان کو یہ سمجھ آ جائے کہ ہماری کامیابی اب اسی میں ہے کہ زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 28؍اگست 2020ء)

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ