صحابیات رسولؐ کی وفا کی داستانیں
ناصرات الاحمدیہ کے لئے ایک تحریر
تاریخ اسلام میں ہمیں صحابہ اور صحابیات رسولﷺ کی بےشمار قربانیوں کا ذکر ملتا ہے جو تا قیامت ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ذیل میں صرف چند صحابیات (7 سے 15 سال عمر) کی قربانیوں کی ہلکی سی جھلک دکھائی گئی ہے۔
حضرت عائشہؓ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ خوش قسمت خاتون ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے دنیا کے سب سے بڑے معلم کی زوجہ محترمہ بننے کا اعزاز عطاء فرمایا۔ آپؓ نے دین سیکھا اور پھر صحابہ کو سکھایا اور اس طرح ہم تک وہ علوم پہنچ گئے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:
’’آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔‘‘
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے سب سے پیارے دوست حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت عائشہؓ کی عمر چھوٹی تھی۔ اس چھوٹی سی بچی کو ہجرت کے تمام واقعات بڑوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ یاد تھے۔ پس یہ آپؓ کا بہت بڑا احسان ہے ورنہ ہمیں ان کی تفصیل پتہ نہیں لگتی۔
آپؓ حضورﷺ کے تمام مہمانوں کی خاطر مدارت کرتیں۔ آپﷺ کے تمام حکموں کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتیں۔ جنگوں میں نہایت شوق سے شریک ہوتیں اور بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں زخمیوں کی خدمت اور مرہم پٹی فرماتیں۔ آپؓ کی سب سے نمایاں صفت سخاوت تھی۔ جو کچھ آپؓ کے پاس ہوتا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتیں۔ آپؓ غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کر دیتیں۔ ان کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔
حضرت زینبؓ
حضرت زینبؓ آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ آپؓ آنحضرتﷺ کی نبوت سے 10 سال قبل پیدا ہوئیں اس وقت آنحضرتﷺ کی عمر مبارک 30 سال تھی۔ آپؓ کی شادی بعثت نبوی سے پہلے عربوں کے رواج کے مطابق کم سنی ہی میں ان کے خالہ زاد حضرت ابو العاص بن ربیعؓ سے ہوئی۔ حضرت ابو العاصؓ حضرت خدیجہؓ کی حقیقی بہن ہالہ بن خویلد کے بیٹے تھے۔
جب رسول کریمﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت زینبؓ فوراً ایمان لے آئیں۔ اس وقت ان کے شوہر حضرت ابو العاصؓ تجارت کی غرض سے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دوران سفر ہی رسول اللہﷺ کی بعثت کے بارے میں خبریں سُن لی تھیں۔ مکہ آ کر تصدیق بھی ہو گئی۔ حضرت زینبؓ نے کہا کہ میں نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے، تو وہ شش و پنچ میں پڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ، اے زینبؓ کیا تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر میں آپﷺ پر ایمان نہ لایا تو پھر کیا ہوگا؟ حضرت زینبؓ نے جواب دیا، میں اپنے صادق اور امین باپ کو کیسے جھٹلا سکتی ہوں۔ خدا کی قسم! وہ سچے ہیں اور پھر میری ماں اور بہنیں اور حضرت علیؓ بن ابو طالب اور ابوبکرؓ اور تمہاری قوم میں عثمان بن عفانؓ اور تمہارے ماموں زاد زبیر بن العوامؓ بھی ایمان لے آئے ہیں اور میرا خیال نہیں ہے کہ تم میرے باپ کو جھٹلاوٴ گے اور ان کی نبوت پر ایمان نہیں لاوٴ گے۔
(ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ245-246)
حضرت رقیہؓ
حضرت رقیہؓ رسول خداﷺ کی دوسری صاحبزادی تھیں۔
(سیرت الصحابیات صفحہ98)
آپؓ بعثت نبوی سے سات سال پہلے پیدا ہوئیں- اس وقت رسول خداﷺ کی عمر تینتیس برس تھی۔ حضرت رقیہؓ حضرت زینبؓ سے تین برس چھوٹی تھیں۔ (ازواج مطہرات وصحابیات صفحہ257) آپؓ کا پہلا نکاح عتبہ بن ابو لہب سے ہوا تھا جو حضورﷺ کے چچا کا بیٹا تھا۔ جب ابو لہب کی مذمت میں سورة لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ جب تک تم حضرت محمدﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق نہ دو گے میرا سر تمہارے سر سے جدا رہے گا۔ چنانچہ دونوں لڑکوں عتبہ اور عتیبہ نے رسول اللہﷺ کی صاحبزادیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کو رُخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی۔ (اردو دائرہ معارف جلد10 صفحہ324) یہ پہلی بڑی تکلیف تھی جو حضرت رقیہؓ کو اسلام کی راہ میں اُٹھانی پڑی۔ حضرت خدیجہؓ اور آپؓ کی دوسری بہنوں نے اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔
جب حضرت رقیہؓ کا پہلا نکاح ختم ہو گیا تو رسول پاکﷺ نے آپؓ کے لیے حضرت عثمان غنیؓ کا رشتہ تجویز کیا۔ جب قریش کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضورﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت رقیہؓ بنت محمدﷺ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے مکہ سے حبشہ ہجرت کی۔ یہ ہجرت 5 نبوی میں ہوئی۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کی حبشہ ہجرت پر فرمایا ’’ابراہیم اور لوط کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔‘‘
آپؓ کے حبشہ ہجرت کر جانے کے بعد کئی روز تک جب آپؓ کی کوئی اطلاع نہ ملی اس پر حضرت رسول اکرمﷺ بےحد پریشان ہوئے اور مکہ سے باہر تشریف لے جا کر آنے جانے والے مسافروں سے پوچھتے۔ ایک روز ایک عورت نے کہا کہ میں نے ان کو حبشہ میں دیکھا ہے۔ اس کا جواب سُن کر حضور اقدسﷺ نے فرمایا ’’اللہ ان کا ساتھی ہے۔‘‘ (ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ260) حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ نے تقریباً 7 یا 8 سال کا عرصہ حبشہ میں گزارا۔ حضرت رقیہؓ حضورﷺ کی اکلوتی صاحبزادی تھیں جنہوں نے اسلام کی اس پہلی ہجرت کی توفیق پائی۔ آپؓ اپنی مہربان اور شفیق والدہ نیز دوسرے گھر والوں سے جدائی کا زخم لیے، دوبارہ ملنے کی اُمید میں صبر سے وقت گزارتی رہیں مگر افسوس کہ 11 رمضان المبارک، ہجرت مدینہ سے تین سال قبل حضرت رقیہؓ کی والدہ حضرت خدیجة الکبریؓ انتقال کر گئیں- پھر مکہ میں دوبارہ اپنی والدہ کے ساتھ رہنا سیدہ رقیہؓ کو نصیب نہ ہوا۔
حضرت ام کلثومؓ
حضرت ام کلثومؓ ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی تیسری صاحبزادی ہیں جن کی پیدائش مکہ مکرمہ میں دعوی نبوت سے 6 سال قبل ہوئی۔
آپؓ کا نکاح عرب کے عام رواج کے مطابق چھوٹی عمر میں ہوا۔ عتیبہ سے حضرت ام کلثومؓ کا نکاح ہوا۔ اس زمانے میں ابو لہب حضورﷺ کا مخالف نہ تھا۔ لیکن جب حضورﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو وہ اور اس کی بیوی ام جمیل آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ جب بھی آپ گلی سے گزرتے تو ام جمیل آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی جس سے آپﷺ کے پاوٴں زخمی ہو جاتے مگر سرور کائناتﷺ ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے اس پر مخالفین کا غصہ اور بھی بڑھ جاتا۔ اسی اسلام دشمنی کی وجہ سے ابو لہب نے اپنے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو کہا کہ میرا اُٹھنا اور بیٹھنا تمہارے ساتھ حرام ہے اگر تم نے اس (حضرت محمدﷺ) کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی۔ اس طرح حضور اقدسﷺ کی دونوں بیٹیوں کو ایک ہی وقت میں طلاق دی گئی یہ پہلا بڑا صدمہ تھا جو اسلام دشمنی کی وجہ سے آپﷺ کو پہنچا حضورﷺ کے اعلان نبوت پر حضرت ام کلثومؓ اپنی والدہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ اسلام لائیں اور اپنی بہنوں کے ساتھ اس وقت بیعت کی جب دوسری عورتوں نے بھی آنحضرتﷺ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔
(ازواج مطہرات وصحابیات صفحہ247)
اس وقت سے آپؓ کے خاندان پر مشکلات کا دور شروع ہوا۔ دشمن آپؓ کے خاندان کا گھیراوٴ کر چکے تھے۔ ان دنوں آپؓ کو ان لوگوں کے شر سے پناہ لینے کے لیے شعب ابی طالب گھاٹی میں رہنا پڑا۔ یہ آپؓ کا خاندانی درہ تھا جو کہ دو پہاڑوں کی اوٹ میں تھا۔ بائیکاٹ کا یہ زمانہ حضورﷺ کےخاندان نے یہاں گزارا۔ اس زمانہ میں حضرت ام کلثومؓ اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہؓ کے ہمراہ اس جگہ پر رہیں- انہوں نے یہ اڑھائی تین سال کاعرصہ بہت صبر کے ساتھ گزارا۔ اس زمانہ میں غذا کی کمی رہی۔ جب مقاطعہ ختم ہوا تو حضرت خدیجة الکبریؓ جو کہ بڑی عمر ہونے کی وجہ سے بہت کمزور ہوچکی تھیں، نے رمضان المبارک 10 نبوی میں وفات پائی۔ اور حجون کے قبرستان میں دفن ہوئیں اور اسی سال آپﷺ کے چچا ابوطالب کی وفات ہوئی۔
حضرت زینبؓ کی شادی ہوچکی تھی اور والدہ کی وفات سے گھر میں حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ اکیلی رہ گئی تھیں۔ شعب ابی طالب کی مشکلات اور طلاق کی تکلیف کے بعد حضرت ام کلثومؓ کو اپنی والدہ کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
(ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ247)
حضرت فاطمة الزہراءؓ
آنحضرت ؐ کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمة الزہراءؓ تھیں۔ آپؓ کو خاتون جنت کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ کا تعلق قریش کے اعلیٰ ترین خاندان سے تھا۔ آپؓ رسول خداﷺ اور حضرت خدیجہؓ بنت خویلد کی چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کی پیدائش بعثت سے پانچ برس قبل ہوئی۔ بعثت نبوی کے چوتھے سال سے اعلانیہ تبلیغ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اور کفار مکہ جو آپﷺ کی عظمت کردار کے معترف تھے، اب آپﷺ کے جانی دشمن بن چکے تھے۔ وہ مسلمانوں اور خود حضورﷺ کی ذات بابرکات کو ہر طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ کفار کے ایک گروہ نے جس کا سرغنہ عقبہ بن ابی معیط تھا اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں حضورﷺ کی گردن مبارک پر ڈال دی۔ کسی نے حضرت فاطمة الزہراءؓ کو خبر کر دی- وہ دوڑتی ہوئی کعبہ پہنچیں۔ حضورﷺ کی گردن مبارک سے اوجھڑی ہٹائی اور نہایت غصہ کی نظر ان پر ڈال کر بولیں ’’شریرو اللہ تعالیٰ تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا۔‘‘
(تذکارِ صحابیات صفحہ128)
سیدہ فاطمہؓ نے ایسے ہی مشکل حالات میں پرورش پائی۔ وہ اپنے عظیم باپﷺ اور صحابہ کرامؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھتیں تو بہت پریشان ہوتیں لیکن کم سنی کے باوجود ان حالات سے خوفزدہ نہ تھیں بلکہ ہر مشکل کے موقع پر حضوﷺ کی غمگساری فرماتیں اور کبھی فطری تقاضہ کے تحت رونے بھی لگتیں تو آنحضرتؐ انہیں تسلی دیتے اور فرماتے:
’’میری بیٹی گھبراوٴ نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘‘
(سیرت فاطمة الزہراءؓ صفحہ34)
امام جلال الدین سیوطیؒ نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضورﷺ کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابو جہل نے سیدہ فاطمہؓ کو کسی بات پر تھپڑ مار دیا۔ کمسن بچی روتی ہوئی حضورﷺ کے پاس گئیں اور ابو جہل کی شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا بیٹا جاوٴ اور ابو سفیان کو ابو جہل کی اس جرات سے آگاہ کرو۔ سیدہ فاطمہؓ ابوسفیان کے پاس گئیں اور انہیں سارا واقعہ سُنایا۔ ابو سفیان نے حضرت فاطمہؓ کی انگلی پکڑی اور سیدھے وہاں پہنچے جہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا -انہوں نے فاطمہؓ سے کہا بیٹی جس طرح اُس نے تمہارے منہ پر تھپڑ مارا تھا تم بھی اُس کے منہ پر تھپڑ مارو۔ چنانچہ حضرت فاطمہؓ نے ابو جہل کو تھپڑ مارا اور پھر گھر جا کر حضورﷺ کو یہ بات بتائی۔ آپﷺ نے اس پر دعا کی
’’یا الٰہی ابو سفیان کے اس سلوک کو نہ بھولنا‘‘
حضورﷺ کی اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ چند سال بعد ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا
(سیرت فاطمة الزہراءؓ صفحہ35)
7 نبوی کا سال مسلمانوں کے لیے بے پناہ مشکلات لے کر آیا۔ کفار میں سے بے شمار لوگوں کا قبول اسلام کفار کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ وہ غصے سے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ انہوں نے اپنے دوست قبائل سے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم رسول اللہﷺ کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) قتل کرنے کے لیے ہمارے حوالے نہیں کریں گے ہم اُن سے ہر طرح کا لین دین، خرید و فروخت تمام معاملات اور رشتہ داری قائم نہیں کریں گے۔
چنانچہ یہ معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ اس پر ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کی ساری اولاد اور تمام مسلمانوں کے ساتھ مکہ کے نزدیک ایک گھاٹی میں جو بنو ہاشم کی ملکیت تھی اور شعب ابو طالب کے نام سے مشہور تھی، پناہ لی۔ کفار مکہ نے شعب ابی طالب کا محاصرہ کر لیا اور اتنی سختی کی کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی مسلمانوں تک نہ پہنچنے دی۔ یہ محاصرہ تین سال تک جاری رہا اس میں بے کس اور بے بس مسلمانوں نے درختوں کے پتے اور جھاڑیاں کھا کر گزارہ کیا۔ حضرت فاطمہؓ نے بھی مصیبت کا یہ زمانہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ بڑے حوصلے اور صبر سے گزارا۔ آخر تین سال بعد قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کی کوششوں سے معاہدہ ختم ہوا اور مسلمان اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔
(ازواج مطہرات وصحابیات صفحہ277)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان پاک سیرت صحابیات کی نیکیوں اور قربانیوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ آمین
(طیبہ طاہرہ)