احکام خداوندی
اللہ کے احکام کی حفاظت کرو۔(الحدیث)
قسط 49
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے۔‘‘
(کشتی نوح)
اصلاح و ارشاد (حصہ1)
’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ)
اللہ سے رحمت آنے پر خوشی کا اظہار کرنا
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَہُدًی وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۸﴾ قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَبِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۵۹﴾
(یونس: 58-59)
اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اِسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔ اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت بھی۔
تُو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔ وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
علماء اور مربیان کے فرائض میں سے ایک فرض اصلاح و ارشاد
لَوۡلَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَالۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَاَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۶۴﴾
(المائدہ: 64)
کیوں نہ ربّانیوں نے اور (کلامُ اللہ کی حفاظت پر مقرر) علماءنے انہیں گناہ کی بات کہنے اور ان کے حرام کھانے سے روکا۔ یقیناً بہت ہی برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔
ہدایت اور نیکی کی طرف بُلانا اور ترغیب دینا
وَجَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَکَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ﴿۷۴﴾
(الانبیاء: 74)
اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے اور ہم انہیں اچھی باتیں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کرتے تھے۔ اور وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے۔
مومنوں کو بار بار نصیحت کرنے کا حکم
وَّذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾
(الذّٰریٰت: 56)
اور تُو نصیحت کرتا چلا جا۔ پس یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۲﴾ لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۳﴾
(الغاشیہ: 22-23)
پس بکثرت نصیحت کر۔ تُو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے۔ تُو ان پر داروغہ نہیں۔
لوگوں کو نیک باتیں سنانا
طَاعَۃٌ وَّقَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ
(محمد: 22)
(ان کا اصل طریق تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ کہتے) ہمارا کام تو اطاعت کرنا اور (لوگوں) کو نیک باتیں سنانا ہے۔
(نوٹ: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے ’’اطاعت اور معروف بات چاہئے‘‘)
عملی نمونہ
قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَرَزَقَنِیۡ مِنۡہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَمَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ
(ھود: 89)
اس نے کہا اے میری قوم! مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشن حجت پر قائم ہوں اور وہ مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ رزق عطا کرتا ہے (پھر بھی کیا میں وہی کروں جو تم چاہتے ہو)۔ جبکہ میں کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ جن باتوں سے تمہیں منع کرتا ہوں خود میں وہی کرنے لگ جاؤں۔
کثرت سوال سے ممانعت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَاِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۰۲﴾
(المائدہ: 102)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو وہ تمہیں تکلیف میں ڈال دیں۔ اور اگر تم ان کے متعلق سوال کروگے جب قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے صرفِ نظر کیا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بردبار ہے۔
کام کا آغاز بسم اللہ سے کرنا
قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۰﴾ قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ ﴿۳۰﴾
(النمل: 30-31)
(یہ خط دیکھ کر) اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو! میری طرف یقیناً ایک معزز خط بھیجا گیا ہے۔ یقیناً وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
فرقہ بندی کی ممانعت
وَلَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾ مِنَ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَکَانُوۡا شِیَعًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ ﴿۳۳﴾
(الروم: 32-33)
اور مشرکوں میں سے نہ ہو۔(یعنی) اُن میں سے (نہ ہو) جنہوں نے اپنے دین کو تقسیم کر دیا اور وہ فرقہ فرقہ (ہوچکے) تھے۔ ہر گروہ (والے) جو اُن کے پاس تھا اُس پر اِترا رہے تھے۔
بھائی بھائی بن کر رہو اور افتراق پیدا نہ کرو
اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا
(اٰل عمران: 104)
جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔
وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ
(اٰل عمران: 106)
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جو الگ الگ ہوگئے اور انہوں نے اختلاف کیا۔ بعد اس کے کہ اُن کے پاس کھلے کھلے نشانات آچکے تھے۔
دین کی مضبوطی اور فرقہ بندی سے اجتناب
شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَمَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَمُوۡسٰی وَعِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ
(اٰلشوری: 14)
اُس نے تمہارے لئے دین میں سے وہی احکام جاری کئے ہیں جن کا اس نے نوح کو بھی تاکیدی حکم دیا تھا۔ اور جو ہم نے تیری طرف وحی کیا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی تاکیدی حکم دیا تھا، وہ یہی تھا کہ تم دین کو مضبوطی سے قائم کرو اور اس بارہ میں کوئی اختلاف نہ کرو۔
دین میں تجاوز نہ کرنا
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ
(اٰلنساء: 172)
اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو۔
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا ارشاد
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪
(اٰل عمران: 104)
اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔
خلافت جیسی عظیم نعمت کو دائمی بنانے کے احکامات
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۷﴾
(النور: 56-57)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
(نوٹ: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت جیسی نعمت عظمیٰ کو جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے اور اُس کو جاری رکھنے اور اُس کے استحکام کے لئے مومنوں کو درج ذیل احکام دئیے ہیں)
حقیقی مومن بننا
-1 اعمال صالحہ سے اپنے آپ کو مزین کرنا۔
-2 اللہ کی عبادت کرنا اور اس کا کسی کو شریک نہ بنانا۔
-3 نماز قائم کرنا۔
-4 زکوٰۃ دیتے رہنا۔
-5 رسول کی کامل اطاعت کرنا تا اللہ کا رحم ہو۔
(700احکام خداوندی از حنیف احمد محمود صفحہ376-384)
(صبیحہ محمود۔جرمنی)