تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 56
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 7 جنوری 2011ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’سال نو کا تحفہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔اس مضمون پر گزشتہ ایک اخبار کے حوالہ سے لکھا جاچکا ہے۔ کہ مسلمانوں کی حالت اس وقت کیا ہے۔ خصوصاً پاکستان میں۔ وہاں نہ عدل ہے نہ انصاف۔ خاکسار نے مزید لکھا کہ:تعجب اس بات پر ہے کہ پاکستان میں اس قدر ظلم ہوا ہے، حقوق غصب کئے جارہے ہیں قتل و غارت ہے کہ انسانی قدروں اور جانوں کا کوئی احترام ہی نہیں۔ دراصل ایسے لوگوں کا اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ہی توہین رسالت ہے۔ ایسے ہی اشخاص جو ان جرائم میں ملوث ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں یہ توہین رسالت ہے ایسے لوگوں کو موت اور سنگساری کی سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ حیرانی ہے کہ توہین رسالت کی تعریف بھی کرتے ہیں اور پھر ظلم بھی بے انتہاء کرتے ہیں اور پھر بھی مسلمان کے مسلمان، خود ہی غازی اور خود ہی شہید۔ خود ہی دہشت گرد اور خود ہی منصف۔
اس مضمون کے آخر میں خاکسار نے حضرت مسیح موعودؑ کا حوالہ کشتیٔ نوح سے درج کیا ہے۔ ’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو ……غریب اور حلیم اورنیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ……تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 14 جنوری 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اسلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نا م پر خون‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون کو خاکسار نے اس حقیقت کے ساتھ شروع کیا ہے کہ ایک ایسی بیل ہوتی ہے جو درخت پر چڑھ جاتی ہے تو اس کو گھیر لیتی ہے۔ جسے آکاس بیل کہتے ہیں اور جب وہ درخت پر چڑھ کر اسے چاروں طرف سے گھیر لے تو پھر درخت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حالت اس وقت پاکستان کی ہے۔ جو وطن اور ملک ہمیں لاکھوں قربانیوں کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا تھا۔ اس پر بھٹو کے دور میں آکاس بیل چڑھنی شروع ہوئی۔ مولویوں نے بھٹو سے کہا تھا کہ اگر وہ ملک میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں تو ہم ساری عمر تمہیں اپنا صدر یا وزیر اعظم بنالیں گے۔ اور یہاں تک انہوں نے التجا کی کہ اگر تم ایسا کر دو تو ہم اپنی داڑھیوں سے تمہارے جوتے صاف کریں گے۔ یہ تھی ابتداء اس آکاس بیل کی جس کو پھر ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے پروان چڑھایا۔ وہ لوگ جو پاکستان کی پ بننے کے حق میں نہ تھے۔ قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے اور پاکستان کو پلیدستان کہتے تھے اس باغ کے مالی بن گئے۔ نہ صرف مالی بنے بلکہ ملکیت بھی لے لی۔ ملائیت اور مذہبی جنونیت نے اس قدر پاکستان پر اپنا سایہ ڈالا کہ اس درخت (پاکستان) کی ٹہنیوں، شاخوں اور پتوں اور پھلوں کو سکھا کر رکھ دیا۔ وطن عزیز کی پامالی کے لئے ایسے ایسے قوانین وضع کئے کہ جس کی آڑ میں پاکستان کے سپوتوں کا بے گناہ خون بہایا گیا۔ ایک شخص بھی پاکستان میں ایسا نہیں جو اپنے آپ کو محفوظ خیال رکھتا ہو کیونکہ بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والے ہی بھیڑوں کا خون کئے جارہے ہیں۔ اور یہ خون ناحق مذہب اسلام کے پاک نام اور ناموس رسالتؐ کے نام پر کئے جارہے ہیں۔ ملائیت کی یہ آکاس بیل ایسی بڑھی ہے اور چڑھی ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔
پاکستان کے ایک روزنامہ ایکسپریس میں ایک کالم نویس رؤوف کلاسرا کا کالم پڑھا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’آخر کیوں؟‘‘۔ اس میں وہ رقمطراز ہیں کہ سعودی عرب کے ایک اخبار نے سلمان تاثیر (گورنر پاکستان) کے قتل کے اگلےروز ہی اپنے اداریہ میں لکھا کہ بلاشبہ وہ ایک شہید تھا جو ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں گولیوں کا شکار ہوا۔ اس اخبار کے بقول سلمان تاثیر کو ایک انتہائی ظالم قاتل نے شیطانی قوتوں کے زیر اثر مار ڈالا۔ اخبار لکھتا ہے کہ سلمان تاثیر ایک سچا مسلمان تھا۔ جن لوگوں نے اسے شہید کیا اور اس کی موت پر خوشیاں منائیں انہوں نے ایک ناپسندیدہ فعل کیا۔ عرب نیوز کے بقول سلمان تاثیر ایک بہادر مسلمان تھا جو سچ اور انصاف کے لئے لڑ رہا تھا۔‘‘
خاکسار نے ایک اور کالم نویس سید انجم گوہر کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے مضمون ’’دریچہ‘‘ میں لکھا۔ ’’گونر پنجاب کا قتل ایک افسوسناک واقعہ ہے یہ قتل مذہب کے نام پر ایک انتہا پسند نے کیا اس کا خیال ہے کہ اس نے ایک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا۔ کیوں کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کے خلاف اپنے خیالات کااظہار کھل کر کیا تھا کیوں کہ یہ قانون امتیازی ہے اور اس کا استعمال ذاتی دشمنی کی بنیاد بنتا ہے۔ اس قانون کو انہوں نے ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا تھا۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’مذہبی انتہاء پسندی جو اس وقت پاکستان میں ہے اس میں ضیاء الحق کے 11 سالہ دور کا بڑا ہاتھ ہے اس دور میں جہاد، کلاشنکوف، ہیروئن اور مذہبی انتہاء پسندی نے ہمارے معاشرہ میں جگہ بنائی اور پھر اسے خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک اور کالم نگار سلیم سید نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’سلمان تاثیر! شہید قانون رسالت اختلاف رائے کا انجام قتل!‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان میں جس جس طرح سے توہین رسالت کا قانون دشمنیوں اور جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سلمان تاثیر نے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی اس سے اختلاف رائے کیا تھا جس کی سزا موت ٹھہری۔‘‘ یہ ایک بہت لمبا کالم تھا اور کالم نگار نے حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ اور انہوں نے خدا لگتی بات کہی۔ مگر یہ شرافت آج تک گونگی ہے۔ جماعت احمدیہ کی لاہور میں 28 مئی کو 2 مساجد پر حملہ کر کے 86 افراد کو موقعہ پر ہی شہید کر دیا گیا اور اس سانحہ میں سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ یہ سب کچھ اس کالے قانون کی وجہ سے ہی ہوا۔
خاکسار نے اس کے بعد انڈونیشیاء، ملائیشیاء، بنگلہ دیش، سعودی عرب، اردن، مصر، نائیجیریا وغیرہ ممالک کی فہرست دی اور ان کی آبادی اور وہاں کے سسٹم کا ذکر کیا ہے اور سزا ؤں کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان میں ضیاء الحق کے بعد آنے والی جس حکومت نے بھی اس قانون کے انتقامی استعمال کو روکنے کے لئے آواز اٹھائی اسے شریعت کا دشمن قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ عدالتیں بھی ہجوم کے دباؤ میں آتی چلی گئیں اور مقدمے کے دوران باعزت بری ہونے پر بھی ملزمان کو قتل کر دیا گیا۔ یا انہیں چھپنا پڑا۔ یا ملک چھوڑنا پڑا۔ خاکسار نے مضمون کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین تھے۔ آپ نے کسی کو توہین رسالت پر قتل کی سزا نہیں دی۔ بلکہ گستاخی کرنے والوں پر یہ الفاظ ہیں وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ کہ ایسے لوگوں کی باتوں پر صبر کرو۔پس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنائیں۔ آپؐ کے نام کو بدنام نہ کریں۔ اور نہ ہی مذہب کے نام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرکسی کا خون کریں۔
انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 14جنوری 2011ء میں صفحہ 43 پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ’’Without Justice, There is never true peace‘‘
’’عدل و انصاف کے بغیر صحیح معنوں میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘‘
خاکسار نے اس مضمون میں لکھا کہ سال شروع ہونے پر ہر جگہ سے، ہر ملک سے، ہر قوم کے لوگ ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے لیکن اس مبارک باد میں صرف خواہش ہوتی ہے جس کے پیچھے کوئی امن کا پختہ لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک صحیح معنوں میں کسی بھی معاشرے اور سوسائٹی میں عدل قائم نہیں ہوگا وہاں امن کا قیام ناممکن ہے۔
خاکسار نے مزید لکھا کہ میں ایک احمدی مسلم ہوں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ مسیح موعود آچکے ہیں اس لئے عدل و انصاف کے بارے میں سب سے پہلے قرآن کریم سے تعلیمات پیش کروں گا۔پھر اس کے بعد بانیٔ اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپؐ کے اسوہ کو بیان کروں گا۔ اس کے بعد آپؐ کے غلام صادق بانیٔ جماعت احمدیہ کی تعلیمات لکھوں گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انصاف قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے (16:91) اسی طرح (49:10 )اور (6:153)، (5:9) کی آیات میں بار بار عدل و انصاف کی تعلیم بیان کی گئی ہے اور مومنوں کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ وہ خود بھی انصاف سے کام لیں۔ اور یہاں تک اسلام کی تعلیم ہے کہ وہ دشمنوں سے بھی انصاف کریں۔
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ارشاد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس شخص پر رحمت کا سایہ ہوگا جو امام عادل ہے۔ خاکسار نے مضمون میں پوری حدیث یہاں لکھی ہے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں عدل و انصاف کی تعلیم کو بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہوجاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔ خدا کی لعنت سے بہت خائف رہوکہ وہ قدوس اور غیور ہے۔ بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔خائن اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا اور ہر ایک جو اس کے نام کےلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا……سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے۔ کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہواور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو۔‘‘
(کشتیٔ نوح)
پس آئیے کہ ہم نئے سال میں داخل ہونے پر ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی تبدیلی پیدا کریں اور ان تعلیمات پر عمل کر کے معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کریں۔
انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 14جنوری 2011ءمیں صفحہ 40 پر ایک سے زائد صفحہ پر ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔ جس میں خبر کے علاوہ 4 بڑی تصاویر بھی ہیں۔ ایک تصویر میں ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ صدارت کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مکرم مرزا نصیر احسان صاحب ہیں۔ اور مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مکرم منعم نعیم صاحب نائب امیر صدارت کر رہے ہیں۔ ایک تصویر سامعین کرام کی ہے اور ایک تصویر میں ایک خادم تقریر کر رہے ہیں۔
خبر کا عنوان یہ ہے کہ ’’جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ۔حقیقی مسلمان امن پسند ہوتا ہے‘‘
چینو کیلی فورنیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ گذشتہ 25 سال سے جماعت احمدیہ کے ممبران اس ویسٹ کوسٹ ریجن میں بڑی خاموشی کے ساتھ اور امن کے ساتھ ہر سال اپنا جلسہ سالانہ منعقد کرتے ہیں اور یہ ایام یہاں پر چھٹیوں کے ہوتے ہیں۔جن میں لوگ کرسمس کی چھٹیاں مناتے ہیں جس کا مقصد آپس میں اخوت و محبت بڑھانا اور اپنی روحانیت کو تیز کرنا ہے۔ اور جس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ تا وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ اور حکومتی اہل کاروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں اور ان کے تعاون پر ان کا شکریہ بھی ادا کریں۔
یہ سلور جوبلی 25 واں جلسہ سالانہ ہے جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کا جو اپنی روایات کے ساتھ جمعہ کے دن موٴرخہ 24 دسمبر کو خطبہ جمعہ کے ساتھ شروع ہوا۔ جو امام شمشاد ناصر نے دیا یہ تین دن کا جلسہ مسجد بیت الحمید میں منعقد ہوا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس سال جماعت احمدیہ نے اس جلسہ کے لئے 1300 مہمانوں کی مہمان نوازی کی۔اور یہ 1300 احباب جماعت امریکہ کی 35 جماعتوں سے تشریف لائے تھے اس جلسہ میں نیشنل لیول کے آفس ہولڈرز بھی شامل ہوئے تھے۔ اس سال کے جلسہ سالانہ کا مرکزی موضوع Muslim For Peace اور Muslims For Loyalty تھا۔
مسٹر غفار (مسلم امریکن احمدی) نے اخبار کو بتایا کہ دیکھیں کیا یہ حیران کن بات نہیں ہےآپ کے لئے کہ 1300 مسلمان 3 دن کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اور کوئی لڑائی جھگڑا، فساد نہیں ہوا۔ پولیس کو نہیں بلایا گیا اور کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوا۔ کیا یہ آپ لوگوں کے لئے حیرانی کی بات نہ ہوگی؟ اس کا جواب مسکراہٹ میں دیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مسلمان واقعۃ امن پسند ہوتے ہیں۔
جمعہ کے روز پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے کی جو کہ امریکہ جماعت کے نائب امیر ہیں۔ تلاوت اور نظم کے بعد ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے جلسہ کے شاملین کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے جلسہ سالانہ کا پس منظر اور غرض و غایت بھی بیان کی اور دعا کرائی۔ جلسہ سالانہ کے عناوین اور تقاریر میں ایک یہ بھی تقریر تھی کہ ’’قرآن عظیم متقین کے لئے ہدایت‘‘، ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امن کا شہزادہ‘‘۔ ’’بچوں کی تربیت، کامیاب عائلی زندگی‘‘
خواتین نے بھی جلسہ کے دنوں میں اپنا ایک الگ سیشن کیا جس میں انہوں نے خواتین کے بارے میں اور ان سے متعلقہ مسائل کے بارے میں تقاریر کیں۔ ان کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا کہ ’’خواتین اور عائلی زندگی کی کامیابی‘‘
اخبار مزید لکھتا ہے کہ تین دن کے جلسہ میں مہمانوں کی ضیافت بھی کی گئی اور انہیں تین وقت کھانا مہیا کیا گیا۔ (کھانے کی بھی تفصیل ہے) جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ اس جلسہ کے موقعہ پر نیشنل آفس ہولڈرز بھی شامل ہوئے۔ اخبار نےلکھا کہ امام نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج امریکہ، ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ، ملک مسعود صاحب نیشنل جنرل سیکرٹری امریکہ، خواتین کی نیشنل صدر اور ان کے ساتھی بھی شامل ہوئے۔ مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد ناصر نے بھی اس موقعہ پر تقریر کی۔ انہوں نے جماعت کی 122 سالہ تاریخ سے بتایا کہ کس طرح جماعت کو مظالم کا نشانہ بنایا اور تکالیف پہنچائی گئیں لیکن یہ خدائی جماعت تھی اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کا پودا خود اپنے ہاتھ سے لگایا تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی اور جماعت کو ترقیات پر ترقیات عطا فرمائیں۔
فجی سن نے اپنی جنوری 2011ء کی اشاعت میں صفحہ 12 اور صفحہ 13 پر جلسہ سالانہ کی بڑی تفصیل کے ساتھ اور 24 رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کے ساتھ جلسہ سالانہ ویسٹ کی خبر شائع کی ہے۔ تصاویر کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(1) انور محمود خان صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب صدارت کر رہے ہیں (2) امام نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج تقریر کر رہے ہیں (3) رشید رینو صاحب امریکن احمدی مسلم تقریر کرتے ہوئے (4) خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کرتے ہوئے (5) امام مبشر احمد صاحب تقریر کرتے ہوئے (6) ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب تقریر کرتے ہوئے (7) مسجد بیت الحمید کی پورے سائز کی تصویر (8) سامعین کی تصویر (9) افسر جلسہ سالانہ اور امام بلال (غیر از جماعت) کے ساتھ فوٹو (10) افسر جلسہ سالانہ اور افسر جلسہ گاہ، آپس میں جلسہ کے انتظامات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے (11) سامعین کی تصویر جس میں مہمانان کرام اور فجی کے احباب نیز ایڈیٹر اخبار فجی سن (12) تین تصاویر سامعین کی (15) ایڈیٹر فجی سن، امام بلال اور دوسرے مہمان (16) سامعین کی ایک تصویر جس میں نیشنل آفس ہولڈرز، ملک مسعود صاحب، فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر، خاکسار سید شمشاد احمد ناصر اور دیگر احباب (17) سٹیج کی ایک تصویر اور پوڈیم پر ایک سکھ مہمان تقریر کرتے ہوئے (18) ایک سٹیج کی تصویر مکرم امام نسیم مہدی صاحب صدارت کرتے ہوئے اور خاکسار تقریر کر رہا ہے (19) مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب کا تقریر کرتے ہوئے (20) امام مبشر صاحب کی تصویر (21) ایک فجی احمدی کی تصویر (22) خاکسار کی ایڈیٹر فجی سن اور دیگر فجین احمدیوں کے ساتھ تصویر (23) ایک تصویر میں خاکسار امام بلال (غیر از جماعت) کے ساتھ مل رہا ہے (24) ایک فجی احمدی دیگر احباب کے ساتھ سامعین میں نمایاں ہیں۔ خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اوپر گذر چکی ہے۔
دی انڈین ایکسپریس نے اپنی اشاعت 14 جنوری 2011ء میں صفحہ 11 اور صفحہ 14 پر ہمارے جلسہ سالانہ کی دو تصاویر کے ساتھ تفصیل کے ساتھ خبر شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا 25 واں جلسہ سالانہ جو امن کے بارے میں ہے پر 1000 لوگوں کو اجتماع۔
ایک تصویر میں خاکسار تقریر کر رہا ہے۔ اور سامعین بھی ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک نوجوان خادم رضوان جٹالہ صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ خبر پوری تفصیل کے ساتھ دی گئی ہے۔ جو اس سے پہلے لکھی جاچکی ہے۔
انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 14 جنوری 2011ء میں صفحہ 13-16 پر دو بڑی تصاویر کے ساتھ ہمارے ویسٹ کوسٹ کے جلسہ سالانہ کی تفصیل کے ساتھ خبر شائع کی ہے۔ جو سٹاف رائٹر کے حوالہ سےاس عنوان پر ہے۔ ’’جماعت احمدیہ مسلمہ کے 25 ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد‘‘ تصاویر میں ایک بڑی تصویر سامعین جلسہ کی ہے اور ایک تصویر میں خاکسار تقریر کر رہا ہے۔
اخبار نے خبر کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا کہ امسال چینو کی مسجد بیت الحمید میں ویسٹ کوسٹ کی جماعتوں کا 25 واں سلور جوبلی جلسہ ہوا جس میں اردگرد کی جماعتوں سے 1300 کے لگ بھگ لوگ شریک ہوئے۔ جلسہ کا مر کزی عنوان امن تھا، جمعہ کے روز یہ جلسہ شروع ہو کر اتوار کے روز ختم ہوا۔ جلسہ میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ خواتین نے بھی الگ اپنا ایک سیشن کیا۔ امسال جلسہ میں نیشنل آفس ہولڈرز بھی میری لینڈ اور دیگر ریاستوں سے شامل ہوئے جن میں مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ، مولانا نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج اور مسعود ملک صاحب نیشنل جنرل سیکرٹری شامل ہیں۔ افتتاحی سیشن میں ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نائب امیر نے احباب کو جلسہ کی غرض و غائت بیان کی۔ امام شمشاد ناصر نے جماعت احمدیہ کی ترقیات پر تقریر کی۔
(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)