• 7 جولائی, 2025

حکایات اولیاء (ارشادات حضرت مسیح موعودؑ)

حکایات اولیاء
از روئے ارشادات حضرت مسیح موعودؑ

اعمال میں اخفاء

حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں۔
’’میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے۔کوئی اس کی مدد کرے۔ایک نے صالح سمجھ کر اس کو ایک ہزار روپیہ دیا۔انہوں نے روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی۔اس بات پر وہ رنجیدہ ہوا کہ جب یہاں ہی تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو۔تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جو دینا نہیں چاہتی چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیاجس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہا کہ جھوٹا ہے۔اصل میں یہ روپیہ دینا نہیں چاہتا۔

جب شام کے وقت وہ بزرگ گھر گیا۔ تو وہ شخص ہزار روپیہ اس کے پاس لایا اور کہا کہ آپ نے سرعام میری تعریف کر کے مجھے محروم ثواب آخرت کیا، اس لیے میں نے یہ بہانہ کیا۔ اب یہ روپیہ آپ کا ہے لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں۔بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک مورد لعن طعن ہوا، کیونکہ کل کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے روپیہ واپس دے دیا ہے۔

ایک متقی تو اپنے نفس امّارہ کے برخلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھپاتا ہے اور خفیہ رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کر دیتا ہےجیسا ایک بدمعاش کسی بدچلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے، اسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اس کو دیکھ نہ لے۔سچا متقی ایک قسم کا سَتر چاہتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 19-20 دید ایڈیشن)

صدق و صبر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ بے صبری کرتے ہیں، وہ شیطان کے قبضہ میں آ جاتے ہیں۔سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔

بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مر دود و مخذول ہے۔ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب تو فیصلہ ہو گیا۔اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا۔وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔اگر ملعون ہوں، تو ملعون ہی سہی۔غنیمت ہےکہ مجھ کو ملعون تو کہا جاتا ہے۔ابھی یہ باتیں مرید سے ہو رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے۔سو یہ سب صدق و صبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 21 ایڈیشن2016ء)

ولی بننے کے لیے ابتلاء ضروری ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ایک مجلس میں بایزید ؒوعظ فرما رہے تھے۔ وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا۔اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا۔اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے۔جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل کو لے لیا۔کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوئے تھے۔ وَتِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) سو اس شیخ زادے کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے کہاں ایسا صاحب خوارق آ گیا۔ لوگ اس طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے۔یہ باتیں خدا تعالیٰ نے حضرت بایزید ؒپر ظاہرکیں۔ انہوں نے قصہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لیمپ میں پانی سے ملا ہوا تیل جل رہا تھا۔ تیل اور پانی میں بحث ہوئی۔ پانی نے تیل کو کہا کہ تو کثیف اور گندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے۔میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں۔ اس کا باعث کیا ہے؟ تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں تو نےکہاں وہ جھیلی ہیں، جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی۔ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا زمین میں مخفی رہا، خاکسار ہوا۔ پھر خدا کے ارادے سے بڑھا۔ بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا۔ پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا۔کولہو میں پیسا گیا۔پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی۔کیا ان مصائب کے بعد بھی بلندی حاصل نہ کرتا؟

یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب، شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں۔لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلا مجاہدہ و تزکیہ ایک دم صدیقین میں داخل ہو گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ22-23 ایڈیشن 2016ء)

(محمد شاہد تبسم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ