• 8 جولائی, 2025

مجرمانہ ارضی قیادت

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب بھی نوع انسانی ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہوجاتی ہے، گناہوں کی کثرت، ظلم و ستم اور قسما قسم کی بدیاں اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں تو وہ بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اپنے انبیاء کو مبعوث فرما کر ہدایت یافتہ آسمانی امامت کو قائم فرماتاہے۔ پھر جو لوگ اس ہدایت یافتہ آسمانی امامت کو قبول کرتے ہیں وہ اپنے امام سے وابستگی کے نتیجہ میں اس کی دعائوں اور روحانی توجہات کے فیض سے صلاحیت، نیکی اور تقویٰ کی راہوں میں آگے بڑھتے ہیں۔ ان کا دین بھی سنور نے لگتاہے اور ان کی دنیا بھی اور وہ بتدریج ترقی اور کامیابی کی ارفع منازل کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس کے مقابل پر اس ہدایت یافتہ آسمانی امامت کے منکرین اور انبیاء علیہم السلام کے مکذبین فسق وفجور اور ظلم و ستم میں آگے بڑھتے ہیں اور دین و دنیا ہر لحاظ سے ذلّت اور ادبار کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ ہدایت یافتہ آسمانی امامت کے مقابل پر گروہ مکذبین کی بھی ایک ارضی قیادت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چونکہ ان کی ساری قوم ہی برائیوں میں ملوث اور جرائم پیشہ ہوتی ہے اس لئے ان کے قائدین، ان کے اکابرین بھی وہی قرار پاتے ہیں جو بدیوں اور برائیوں اور جرائم میں اور ہر طرح کے دجل وفریب اور مکاریوں میں ان سب پرفوقیت رکھتے ہوں۔ اور پھر ایسی گمراہ اور فاسق و فاجر اور مجرمانہ قیادت اپنے پیروکاروں سمیت تباہی و بربادی کے گڑھے میںجا گرتی ہے۔

قرآن مجید میں مذکور تاریخ انبیاء میںاس کی متعدد مثالیں محفوظ ہیں۔ جب حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے اپنے لشکر وں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا۔ اب ایک طرف فرعون اپنے لشکروں کے ساتھ ان کے قریب پہنچا، دوسری طرف سامنے سمندر تھا۔ بنی اسرئیل گھبرا گئے اور کہا اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ کہ ہم تو پکڑے گئے۔ اس وقت خدا کے نبی نے کہا قَالَ کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ (الشعراء: 63) ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ مجھے کامیابی کا راستہ دکھائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہدایت یافتہ آسمانی امامت سے وابستگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کو تو بچا لیا اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔

سورۃ ھود کی آیات 97تا 100 میں اللہ تعالیٰ نے مجرمانہ قیادت کی مثال کے طورپر فرعون کا خصوصیت سے ذکر فرمایاہے۔ اور بتایاہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے ہدایت یافتہ آسمانی امامت اور اللہ تعالیٰ کے روشن نشانات کوجھٹلایا اور فرعون کے احکامات کی پیروی کی جو ہرگز رشد اور ہدایت پر مبنی نہیں تھے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یَقۡدُمُ قَوۡمَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَبِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ ﴿۹۹﴾ وَاُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہٖ لَعۡنَۃً وَّیَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ بِئۡسَ الرِّفۡدُ الۡمَرۡفُوۡدُ ﴿۱۰۰﴾ (ہود: 99-100) وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور ان کو (دوزخ کی) آگ میں (جا) اتارے گا اور وہ (ان) کے اترنے کا گھاٹ بہت (ہی) برا ہے۔ اور اس دنیا میں (بھی) لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی ہے اور قیامت کے دن (بھی لگا دی جائے گی) یہ عطا جو (انہیں) دی جانے والی ہے بہت (ہی) بُری ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’عقلمند انسان تو اس چیز کی پیروی کرتاہے جو اسے صحیح راستہ دکھائے اور اس کے لئے مفید ہو لیکن فرعون کی ہدایت اس کے برخلاف ہلاکت کی طرف لے جاتی تھی… یعنی بُرے آدمی کے پیچھے لگ کر انسان اس دنیا میں بھی ذلیل ہوتاہے اور اگلے جہان میں بھی‘‘

(از تفسیر کبیر حضرت مصلح موعودؓ زیر تفسیر آیت سورۃ ھود 99تا 100)

قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے واقعات صرف ماضی میں ہی نہیں ہوئے بلکہ آئندہ بھی ہوں گے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ہدایت یافتہ آسمانی امامت (الامام المہدی) کا انکار کیا اور اس کی تکذیب پر اصرار کیا۔ وہ اور ان کی قیادت ایسی ہی مجرمانہ قیادت ثابت ہوئی جس نے انہیں دن بدن بدسے بدتر حالت کی طرف دھکیلا۔

اہل حدیث کے ہفت روزہ ’’تنظیم‘‘ 5ستمبر 1969ء میں لکھاہے کہ کسی نے مولوی اشرف علی تھانوی صاحب سے پوچھا کہ ’’یا حضرت! مولوی ہو کر لوگ جوتے چُراتے پھرتے ہیں، دھینگا مشتی پر اتر آتے ہیں۔ یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ اس پر تھانوی صاحب نے فرمایا: ’’میاں! مولوی چور نہیں بنتا، چور مولوی بن جاتا ہے‘‘

(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہور 5ستمبر 1969ء)

جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’ارشادات اکابر‘‘ کے صفحہ211 پر تحریرہے کہ :
’’حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے ہو۔میرا حال تو اس پِیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھاکہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پِیروںکے پاس جاتے ہیں، ان کے پاس ہدیے تحفے لے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ چومتے ہیں۔یہ تو اچھا پیشہ ہے۔ میں خواہ مخواہ راتوںکو جاگ کر ڈاکے ڈالتاہوں۔پکڑے جانے اور جیل میں بندہونے کا خطرہ الگ ہوتاہے۔ مشقت اور تکلیف علیحدہ ہوتی ہے۔ اس سے اچھا یہ ہے کہ میں پِیر بن کر بیٹھ جاؤں۔لوگ میرے پاس آئیں گے… میرے ہاتھ چومیں گے …میرے پاس ہدیے تحفے لائیں گے۔ چنانچہ یہ سوچ کر اس نے ڈاکہ ڈالنا چھوڑ دیا اور ایک خانقاہ بنا کر بیٹھ گیا…‘‘

(ارشادات اکابر صفحہ 211)

جس قوم کی مذہبی قیادت ایسے افراد پر مشتمل ہو اس قوم کی اخلاقی، مذہبی اور روحانی ابتری کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔جب کسی قوم کے مولوی چور بن جائیں یا جیسا کہ تھانوی صاحب نے کہا اور رشید گنگوہی صاحب نے اعتراف کیا چور اور ڈاکو مولوی یا پِیر بن جائیں، ہردو صورتوں میں اس قوم کا بد انجام کو پہنچنا ایک اٹل حقیقت ہے۔

سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے منکرین و مکذبین جنہیں ان کے بد اعمال خوبصورت کر کے دکھائے جاتے ہیں جب ان کی پکڑ کا وقت آتاہے تواللہ تعالیٰ اس قوم کے لیڈروں کو، اس کے اکابر کو مجرم بنا دیتاہے۔ان کی لیڈر شپ خواہ وہ مذہبی لیڈرشپ ہو یا سیاسی، سماجی قیادت ہو یا اقتصادی، نیچے سے لے کر اوپر تک ہرسطح کی قیادت کرپٹ اور بدعنوان اور خائن اور راشی ہوجاتی ہے۔ہر قسم کے جرائم پیشہ لوگ اور وہ جو معروف طور پر بدمعاش اور فاسق و فاجر اور پکے مجرم ہوتے ہیںوہ ان کے لیڈر اور ان کے اکابر بنادیئے جاتے ہیں۔جو جتنا بڑا فاسق و فاجر اور ظالم اور غاصب اور بدعنوان ہو وہ ان کے ہاں اتنا ہی معزز ہوتاہے۔ ان کے ہاں عزت و تکریم کا معیار تقویٰ اللہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے ہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنا شاطر، کتنا عیّار اور مکّار ہے۔

قرآن کریم نے سورۃ الانعام آیت126 میں اس کا ذکر ’’اَکَابِرَ مُجْرِمِیْھَا‘‘ کی خوبصورت ترکیب میں نہایت جامعیت سے فرمادیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا لِیَمۡکُرُوۡا فِیۡہَا ؕ وَمَا یَمۡکُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِہِمۡ وَمَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾ (الانعام: 124) یعنی اس طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کو اس کے اکابر بنا دیا تاکہ وہ اس میں (نبیوں اور ان کے متبعین کے خلاف) سازشیں اور منصوبے بنائیں (لیکن درحقیقت) وہ اپنے نفسوں کے خلاف ہی تدبیریں کرتے ہیں اور وہ سمجھتے نہیں۔

ماضی میں بھی اور آج کے دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے مکفرین و مکذبین کی ارضی قیادت خواہ وہ مذہبی قیادت ہو یا سیاسی قیادت ہمیشہ ایسے ہی افراد پرمشتمل ہوتی ہے۔ وہ راہبروں کے لباس میں راہزن ہوتے ہیں۔ ان کے مکروفریب، ان کی چالبازیاں، ان کی سازشیں، ان کی پالیسیاں ہمیشہ ان کے خلاف پڑتی ہیں۔ اور قوم دن بدن بدسے بدترحال کی طرف لوٹتی چلی جاتی ہے۔

اخبار زمیندار لاہور 14اگست 1915ء میں لکھتا ہے :
’’جب فضائے آسمانی میں کسی قوم کی دھجیاں اُڑ انے کے دن آتے ہیں تو اُس (قوم) کے اعیان و اکابر سے نیکی کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور اس کے صاحب اثر و نفوذ افراد کی بداعمالیوںکو اس کی تباہی کا کام سونپ دیا جاتاہے اور یہ خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ مسلمانانِ ہند کی شامتِ اعمال نے مدتہائے مدید سے جھوٹے پِیروں اور جاہل مولویوں اور ریاکار زاہدوں کی صورت اختیارکررکھی ہے جنہیں نہ خداکا خوف ہے نہ رسولؐ کا پاس، نہ شرع کی شرم نہ عرف کا لحاظ۔یہ ذی اثر و بااقتدار طبقہ جس نے اپنے دام تزویر میں لاکھوں انسانوں کو پھنسارکھا ہے اسلام کے نام پر ایسی ایسی گھناؤنی حرکتوں کا مرتکب ہوتاہے کہ ابلیس لعین کی پیشانی بھی عرقِ انفعال سے تر ہوجاتی ہے‘‘

اسی اخبار نے5 اپریل1929ء کی اشاعت میں لکھا ہے:
’’میرا شمار خودمولویوں کی جماعت میں ہے اس لئے ان کی حقیقت سے خُوب واقف ہوں۔ میں پوری جرأت سے مسلمانوں کو دعوت دیتاہوںکہ وہ ملّاؤں کو ایک منٹ بھر بھی مہلت نہ دیںاور اپنی سیاست اور اپنے دین دونوں دائروں میں سے یک لخت خارج کردیں کیونکہ نہ وہ سیاست سے واقف ہیں نہ ہی مذہب کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔ وہ صرف فریب اور دجل کے ماہر ہیں اور اپنی ذاتی اغراض کے بندے ہیں۔ وہ راہبر نہیں راہزن ہیں‘‘

پس عامۃ المسلمین کے لئے لازم ہے کہ اگر وہ سلامتی کے خواہاں ہیں تو مجرمانہ قیادت کے چنگل سے نکلیں اور اس ہدایت یافتہ آسمانی امامت کے سامنے سر تسلیم خم کریں جسے خداتعالیٰ نے اس زمانہ میں دنیا میں قائم فرمایاہے۔یعنی اس امام مہدی، امام ربانی، امام الزمان مسیح موعودؑ کو قبول کریں جسے خدانے احیاء اسلام کے لئے مبعوث فرمایاہے۔ بصورت دیگر مجرموں پر مشتمل ان کی ارضی قیادت انہیں بہت بُرے انجام تک لے جانے والی ہے۔

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ