یادِ رفتگان
والد محترم محمد صدیق ولد فضل احمد مرحوم
موٴرخہ 15 جون 2022ء کو ہمارے نہایت شفیق والد محترم محمد صدیق ولد فضل احمد صاحب بقضائے الٰہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
پیارے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ حضور از راہ شفقت بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین کی اجازت عطا فرمائیں جو پیارے آقا نے از حد شفقت فرماتے ہوئے قبول فرمائی۔ لہذا مورخہ 17 جون 2022ء کو بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین عمل میں آئی۔ اس سے قبل بیت المہدی میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بکثرت احباب شریک ہوئے۔
ہمارے والد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت دیندار اور دینی عزت رکھنے والے تھے۔عبادت گزار اور بندگانِ خدا کے خدمت گار تھے۔ ہر قسم کے ہم و غم، فکرو پریشانی میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا اور اسی پر توکل کرنا شیوہ تھا۔ خوشیوں کے مواقع پر بھی آپ کا پہلا اور سب سے بڑا ردعمل یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے تھے۔ آپ کا چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے عام طور پر یہ جملہ ہوتا ’’یا اللّٰہ خیر‘‘
عزت دینی کا نا قابل فراموش واقعہ
دینی اور جماعتی غیرت کا ایک واقعہ نا قابل فراموش ہے وہ یہ کہ بشیر آباد سٹیٹ کی زمینیں قومیالی گئیں تو اس کے کچھ عرصہ بعد ایک قریبی گاؤں کا سب سے بڑا سندھی رئیس جس کا نام جعفر خان تھا جو دنیاوی لحاظ سے علاقہ میں بڑی وجاہت رکھتا تھا وہ بشیرآباد ہائی سکول آیا جہاں میرے والد صاحب ہیڈ ماسٹر تھے۔وہ والد صاحب سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ صرف زمینیں ہی تم لوگوں سے نہیں چھنی بلکہ عنقریب گوٹھ بشیرآباد کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ میرے والد صاحب نے نہایت جوش سے جواب دیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بشیرآباد کس کے نام سے آباد ہے؟خدا کبھی اس کا نام نہیں مٹنے دے گا۔ہاں اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ تمہارا نام و نشان مٹا دے گا۔ اس لئے اپنا یہ تکبر ترک کرو اور احمدیوں پر زیادتیاں کرنی ختم کرو اور خدا سے ڈرو۔ جس عظیم انسان کے نام سے یہ گاؤں آباد ہے وہ خدا کا بہت پیارا ہے اس لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا اپنے پیارے بندے کا نام مٹادے اور تم جیسے دنیا داروں کو اس کے مدمقابل عزت سے نوازے۔ نہ یہ تمہارا کام ہے اور نہ ہی تمہاری طاقت لہذا باز آجاؤ۔
یہ وڈیرہ اپنے علاقہ میں میلہ لگوایا کرتا تھا کچھ عرصہ بعد میلہ کے موقع پر اس کے ذاتی دشمنوں نے جوکہ سندھی تھے موقع پاکر اسے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا یوں اس کا وجود تو مٹ گیا جبکہ بشیرآباد اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم و دائم ہے۔ اور ایک بڑی تعداد میں وہاں احمدی آباد ہیں اور نہایت عزت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔بشیر آباد کے بے شمار لوگ دنیا کے کئی ممالک میں آباد ہیں۔
ایک اور واقعہ
ایک اور واقعہ اس سے ملتا جلتا مجھے یاد آیا کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب کے نتیجہ میں ہمارے علاقے میں ایک بہت بڑا زمیندار اور تگڑا رئیس ایم پی اے بنا۔یہ شخص ذاتی طور پر جماعت کا مخالف تھا۔وہ ایک مرتبہ بشیرآباد آیا۔(سکول میں ایک مددگار کارکن کی آسامی خالی ہوئی جس پر والد صاحب نے ایک احمدی کا تقرر کروا دیا تھا)وہ ایم پی اے والد صاحب سے کہنے لگا آپ نے ایک احمدی پنجابی اور قادیانی کو لگوا دیا ہے اسے فارغ کرواؤ اور میرا یہ بندہ لگواؤ۔( ایک شخص اس کے ہمراہ تھا) ورنہ کل صبح 9 بجے کے بعد میں آپ کو معطل کروا دوں گا۔یہ سن کر والد صاحب نے فورا ًجواب دیا کہ میں نے جس کو لگوایا ہے اسے نہیں نکالوں گا یہ بات مناسب نہیں لگتی۔رہی آپ کی یہ دھمکی تو ہو سکتا ہے کہ کل 9 بجے کے بعد آپ ایم پی اے نہ رہیں۔وہ بڑا تلملایا اور غصہ کے عالم میں اپنا سا مُنہ لے کر چلا گیا۔خدا کی قدرت کہ اگلے دن صبح 9 بجے اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔اس کے بعد وہ شخص کبھی ایم پی اے نہ بن سکا۔ہر انتخاب میں حصہ لیتا رہا اورمسلسل ہارتا رہا۔
توکل علی اللہ
اللہ تعالیٰ پر توکل اور دنیاداری سے بے نیازی کا یہ عالَم تھا کہ جب اسٹیٹس کی زمینیں قومیالی گئیں اور لوگوں کو الاٹمنٹ کی گئی۔ہمارے سکول کے سارے عملہ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کے ارشاد کی روشنی میں گورنمنٹ کی سروس منظور کرلی۔اس دوران اسسٹنٹ کمیشنر ٹنڈو اللہ یار بشیر آباد آیا تاکہ الاٹمنٹ کر سکے۔ اس نے والد صاحب کو حقداروں کی (قانون کے مطابق) نشاندہی کے لیے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ابھی چند یونٹ ہی الاٹ کیے تھے کہ اے سی کہنے لگا ہیڈماسٹر صاحب کیا آپ کو زمین کی ضرورت نہیں ؟ والد صاحب نے جواب دیا کہ میں تو ہاری نہیں ہوں۔ اس نے کہا چھوڑیں اس بات کو آپ ابھی گھر جائیں اور اپنا شناختی کارڈ اور بڑے بیٹے کے ضروری کاغذات لے کر آ ئیں میں آپ کو دو الاٹمنٹس دیتا ہوں کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔مگر والد صاحب کا ایک ہی اصرار تھا کہ میں ہاری نہیں،میرا حق نہیں۔آپ بس اتنا کر دیں کہ ہمیں قبرستان کے لیے جگہ دے دیں اور دوسرا یہ کہ سکول کا گراؤنڈ کسی کو الاٹ نہ کریں۔ یہ بچوں کے کھیلنے کیلئے محفوظ رہنے دیں۔
اپنے کلاس فیلو کو جواب
مجھے یاد ہے کہ آپ کے کالج کےزمانہ کے ایک کلاس فیلو جماعتی دورہ پر بشیرآباد آئے۔خاکسار خود پاس موجود تھا جب کلاس فیلو نے والد صاحب سے کہا صدیق! تم سے کم لائق لوگ کالجوں میں پروفیسر لگے ہوئے ہیں اور تم اس جنگل میں آبیٹھے ہو۔ یہ کونسی عقلمندی کی بات ہے۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ مجھے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے سندھ آنے کی تحریک فرمائی تھی۔اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان کی بات مان کر مجھے گھاٹا نہیں ہوگا۔ میری اولاد اس جنگل سے بھی پڑھ لکھ کر بہت ترقی کرے گی۔ آپ کا یہ یقین بڑی شان سے حقیقت بن چکا ہے جسے ہمارے والد محترم نے بھی ملا حظہ کیا گویا خدا نے آپ کی زندگی میں آپ کے اس یقین کا نتیجہ خود ہی آپ کو بھی دکھایا۔اور آپ کی ساری اولاد کو خدمت دین کی راہ پر چلا کر دنیا میں پھیلا دیا اور بہت سوں کیلئے ایک عظیم الشان مثال بنا دیا۔
امانت داری
ساری عمر اپنے جملہ فرائض نہایت درجہ امانت و دیانت کے ساتھ ادا کیے اور امکاناً بھی اگر بد دیانتی کا شبہ پیدا ہوا تو اس عمل سے پرہیز کیا۔ ایک موقع پر سیکریٹری تعلیم حکومت سندھ نے سندھ کے سینئر ہیڈماسٹرز کی فہرست جاری کی تو اس کے مطابق ہمارے والد صاحب سندھ کے سکولز میں سب سےسینئر ہیڈ ماسٹر قرار پائے۔ تب سوال پیدا ہو گیا کہ انہیں سینئر پوسٹ پر ترقی کیوں نہ دی گئی۔ لہذا خود اس وقت کے صوبائی وزیر تعلیم (سید خالد علی جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا)نے فون کیا اور والدصاحب کو دو اضلاع میں سے ایک کا ڈی۔ ای۔ او بننے کی آفر کی۔ والد صاحب نے کہا اس پوسٹ پر تو مالی بدعنوانیاں عام ہو چکی ہیں۔ میرا کیرئیر تو صاف ستھرا ہے لہذا بہتر ہو گا کہ مجھے اس امتحان میں نہ ڈالیں۔ وہ وزیر صاحب بھی یہ جواب سُن کر خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کا ریکارڈ میں نے دیکھا ہے وہ آپ کی دیانتداری کا گواہ ہےاور پھر آپ کا تقرر بطور پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول کر دیا گیا۔ جہاں سے بعد ازاں آپ ریٹائر ہو ئے۔
ابتلاء میں خدا کی طرف رجوع
خدا پر توکل کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک ایسا ابتلاء آیا کہ لگتا تھا کہ ساری فیملی کو ہی ہلاک کر ڈالے گا۔ مگر والد صاحب نے خود بھی مصلّٰی بچھا لیا آپ کی گڑ گڑاہٹ ایسی ہوتی کہ گویا زمین لرز رہی ہے اور ہم سب کو بھی دعا کیلئے کہا۔ بڑے یقین سے کہتے تھے کہ دیکھنا خدا کی تقدیر ان حالات کو بدل دے گی۔ اُن دنوں والد صاحب خدا کے حضور مرغِ بِسمل کی طرح تڑپتے اور پھر چند دنوں بعد خدا کی رحمت کا عظیم الشان نظارہ بھی دیکھا۔ سب مخالفانہ آندھیاں کا فور ہو گئیں اور تمام مخالفانہ حالات موافقت کی صورتحال میں بدل گئے۔
دینی خدمات کا شوق
دینی خدمات کا شوق اللہ کے فضل سے جنون کی حد تک تھا۔ نہ صرف خود ساری عمر جماعتی خدمات بڑے جوش سے ادا کرتے رہے بلکہ اولاد کو بھی اس طرف راغب کیا۔ پانچ میں سے 2 بیٹے مربی سلسلہ ہیں۔ خاکسار محمد لقمان اور محمد عثمان شاہد صاحب مربی ضلع کراچی، ایک بیٹا ڈاکٹر محمد ابراہیم اپنی اہلیہ ڈاکٹر شمائلہ ابراہیم سمیت وقف کر کے غانا میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
آپ کے بڑے بیٹے پروفسیر محمدعمر فاروق صاحب آج کل بہت علیل ہیں۔ وہ بھی لمبے عرصہ تک ضلع حیدرآباد کے سیکر یٹری وقف نو کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتی و تنظیمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد نعمان صاحب برسٹل انگلینڈ میں ریجنل امیر اور ڈائریکٹر ہیومینٹی فرسٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی بڑی بیٹی امۃ الوحید صاحبہ کراچی میں صدرلجنہ حلقہ ماڈل کالونی رہیں۔ انگلینڈ جانے کے بعد سے تا حال وہاں قیام کے دوران مختلف جماعتی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔سب سے چھوٹی بیٹی حمامۃ البشریٰ آج کل بیمار ہیں۔ صحت کی حالت میں انہوں نے بھی بڑے شوق سے جماعتی خدمات کی انجام دہی کی۔
تربیت کا اچھوتا انداز
آپ نے ہماری تربیت بڑے ہی اچھوتے انداز میں کی۔ ہم جب چھوٹے تھے تو جب بھی سب اکٹھے ہو کر آپ کے قریب بیٹھتے تو آپ کوئی نہ کوئی دینی علمی سوال اٹھاتے رہتے اور پھر خود ہی جواب دے دیتے۔ خاکسار جب جامعہ احمدیہ میں تھا اورپھر میدانِ عمل میں آیا تو میرے ساتھ ذاتی طور پر بھی یہی طرز عمل تھا کہ علمی سوالات اٹھاتے اور پھر مناسب رہنمائی کرتے۔ اس بات کا مجھے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔
نمازوں کا پہرہ
ہمیشہ آپ کو یہ فکر رہتی کہ نماز ضائع نہ ہو۔ خود ساری عمر اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا۔ بیت الذکر میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنا آپ کا طرّہ امتیاز تھا۔ طویل عرصہ تک بشیر آباد جماعت میں نمازوں کی امامت بھی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اولاد کی نمازوں پر بھی پہرہ دیا۔ ہر کسی سے بار بار پوچھا کرتے تھے کہ تم نے نماز ادا کر لی ہے؟
سلسلہ کے بزرگوں کا احترام
ہم نے ہمیشہ بچپن سے تا حال یہ بات نوٹ کی کہ ہمارے والد محترم سلسلہ کے بزرگوں کا ازحد احترام کرتے اور ان بزرگوں کے لئے آپ کے دل میں محبت کے عجیب و غریب جذبات موجزن تھے۔ خاندان مسیح موعودؑ کے بزرگوں کا تو کیا ہی کہنا ان کے علاوہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب، مولانا جلال الدین شمس وغیرہ کا نام لیتے تو اکثر فرط محبت میں آبدیدہ ہو جاتے۔ اپنے اساتذہ کرام کا ذکر بھی ایسی محبت سے کیا کرتے کہ رشک آتا۔ میرا اندازہ ہے کہ اپنے اساتذہ کرام میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبت محترم حضرت صوفی بشارت الرحمان مرحوم سے تھی۔ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب مرحوم پر ابتلا آیا تو ہمارے والد محترم ان کے لئے تڑپ تڑپ کر دعا کرتے کہ شاید سگی اولاد بھی ایسا نہ کر سکتی ہو۔ حضرت صوفی صاحب نے بھی اس محبت کا حق ادا کیا۔ ہم دونوں مربی بھائی بھی ان کے شاگرد ہیں۔ ہمیں کہا کرتے کہ تم میرے پوتے ہو پھر اس کو حق جان کر یہ تعلق خوب نبھایا۔کبھی سزا دے کر اور کبھی محبت کے ساتھ سینے سے لگا کر۔(اللہ تعالیٰ حضرت صوفی صاحب کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائےاور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا کرے)
صحابہ سے تعلق
ہمارے والد مرحوم کو صحابہ حضرت مسیح موعودؑسے بے حد انس اور محبت تھی۔ آپ کے دادا حضرت میاں محمد دینؓ اور نانا حضرت میاں پیر محمدؓ صاحب پیر کوٹی (والد مولانا سلطان احمد پیر کوٹی مرحوم) صحابہ تھے۔ جس عقیدت اور محبت سے ان بزرگوں کا نام لیتے وہ قابل رشک تھا۔ تمام صحابہ کا ذکر جب بھی کرتے اشکبار آنکھوں سے کرتے ان کے ایمان افروز واقعات ہمیں سنایا کرتے تھے۔ حضرت مولانا راجیکیؓ صاحب، حضرت مولانا قدرت اللہ سنوریؓ صاحب، حضرت صوفی غلام ؓمحمد صاحب اور حضرت بابو فقیر علی ؓصاحب کا تذکرہ بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔ حضرت مولوی محمد دینؓ صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ، سابق ناظر تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے آپ پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ بہت محبت تھی بے انتہا پیار تھا۔ کیوں نہ ہوتا کہ وہ وجود ہی اپنی ذات میں کمال تھا۔
جماعتی بزرگوں سے عقیدت و محبت کا انداز
والد صاحب کی آخری بیماری کے ایام میں ایک دن میں اور والد صاحب فضل عمر ہسپتال کی ایمرجنسی کے سامنے کھڑے تھے۔والد صاحب ویل چیئر پر تھے۔دور سے مکرم و محترم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب ہمیں دیکھ کر وہاں تشریف لے آئےاور والدصاحب سے بڑی محبت سے ملے۔(اللہ انہیں جزاء دے۔میں نے ہمیشہ انہیں اپنے بھائی کی طرح ہی دیکھا ہےاور انہیں اپنی دعاؤں کا حصہ رکھا ہے)۔جب وہ مل کر چلے گئے تو والد صاحب مجھے کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ ڈاکٹر سلطان مبشر سے مجھے بہت محبت ہے۔میں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ ایک تو یہ بات ہے کہ میں جب بھی ان کے پاس چیک اپ کے لئے آتا ہوں تو بڑی عقیدت اور محبت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اصل وجہ محبت کی یہ نہیں اصل وجہ یہ ہے کہ یہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے بیٹے ہیں جنہوں نے واقف زندگی ہونے کا عہد کمال طور پر نبھایا ہے۔پھر رونے لگے میں نے کہا کیا بات ہے کہنے لگےسلطان کی اہلیہ فوت ہو گئی ہیں وہ بڑی مشکل میں ہیں۔اللہ ان پر فضل فرمائے۔بڑی دیر تک انہیں دعائیں دیتے رہے۔
ایک مرتبہ مجھے کہنے لگے کہ میں تمہیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا کہ فرمائیں تو کہنے لگے کہ تمہارا ایک استاد بڑا ہی درویش ہے۔اس استاد کی بہت عزت کرنا۔ اس کے لیے ہمیشہ دعا کرنا۔ میں نے کہا میرے سارے ہی اساتذہ اللہ کے فضل سے بہت درویش اور قابل احترام ہیں۔ تو کہنے لگے مجھے جن کا پتہ ہے میں تو ان کی ہی بات کروں گا۔پھر استاذی المحترم مولانا مبشر کاہلوں صاحب کا نام لیا اور بڑی دیر تک ان کی تعریف کرتے رہے۔
آپ کے شاگرد
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے والد صاحب مرحوم کے بے شمار شاگرد اکناف عالم میں آباد کسی نہ کسی رنگ میں جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرز ہیں، انجینئرز ہیں، اساتذہ ہیں، الغرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک اور وابستہ ہیں۔ ان میں سے بے شمار کے تعزیتی فون اور پیغامات موصول ہوئے۔ محبت سے لبریز ان کے جذبات ہمیں ہر لمحہ و ہر آن خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان سب کی طرف سے عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے لیے ایک طرح سے زندگی بخش ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو شاد آباد رکھے۔نیک اور بامراد زندگیاں نصیب کرے۔اور ان کی اولاد در اولاد کو اپنے فضلوں کے وارث بناتا چلا جائے۔
ورق تمام ہوا
ہمارے والد مرحوم کی زندگی علم و عمل سے عبارت تھی ان کے حالات زندگی کے تذکرے عظیم المقام بھی ہیں اور سوھان روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ یادوں کا یہ بہتا دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا مگر اوراق محدود ہیں۔ لہذا حالات و واقعات کا یہ سلسلہ یہیں ختم کرتا ہوں۔
والد مرحوم کے لیے چند اشعار
خاکسار نے والد مرحوم کی یاد میں یہ چند اشعار قلمبند کئے تھے جن پر اس سلسلہ کو ختم کرتا ہوں
ہمارے سر پہ گھنا سا وہ ایک سایہ تھا
ہمارا باپ تھا شفقت کا اک کنایہ تھا
وہ پیار کرتا تھا، جاں سے عزیز رکھتا تھا
وہ اپنی باتوں سے محفل لذیذ رکھتا تھا
وہ اپنا رعب بھی کچھ کچھ جمائے رکھتا تھا
وہ راہ راست پہ ہم کو چلائے رکھتا تھا
ہمارے کرب سے آگاہ ہمیشہ رہتا تھا
ہمارے درد میں خوش خواہ ہمیشہ رہتا تھا
وہ عادتاً بھی ہر اک درد سہتا رہتا تھا
پرایا تیر بھی سینے پہ سہتا رہتا تھا
ہمیشہ عجز و تذلل ہی اس کا شیوہ تھا
کسی کے کام وہ آئے یہ اس کا میوہ تھا
عجیب وسعت قلبی تھی نیک خواہی تھی
ہرایک چیز عطا کی جو ہم نے چاہی تھی
بڑا ہی عالم و عامل وجود اس کا تھا
بڑا ہی دلبر و داتا وجود اس کا تھا
عجب گہر تھا بڑا شاندار بندہ تھا
بڑا ہی منصف و ایماندار بندہ تھا
خدا کی بخشش و رحمت کا اس پہ سایہ ہو
کمال پیار کا برکت کا اُس پہ سایہ ہو
دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے والد مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آپ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کی معیت نصیب فرمائے۔ آمین
(محمد لقمان)