سو سال قبل کا الفضل
ایک نئے سلسلہ کا آغاز
قارئینِ کرام!سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے روزنامہ الفضل کے اجراء کو سو سال ہونے پر فرمایا تھا کہ ’’الفضل تاریخِ احمدیت کا بنیادی ماخذ ہے۔اب تو بہت سے ممالک سے جماعت کے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں لیکن ماضی میں الفضل ہی تھا جس نے جماعتی ریکارڈ اور تاریخ جمع کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔‘‘
(صدسالہ سووینئرکے لیے خصوصی پیغام، روزنامہ الفضل صدسالہ جوبلی نمبر2013ء)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا ارشاد کے مطابق جہاں الفضل سلسلہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے فریضہ کو انجام دینے کی توفیق پا رہا ہے وہیں دنیا کے جملہ اخبارات سے اس کی یوں بھی انفرادیت ہے کہ یہ وہ واحد اخبار ہے جو کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں لگایا وہ پودا ہے جس کی آبیاری آپ کے بعد منصبِ خلافت پر متمکن ہونے والے خلفائے کرام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی۔ اس پودے میں کھلے پھول آج بھی اور آئندہ بھی ہمیشہ تروتازہ رہیں گے اورسداان کی خوشبو مہکاتی رہے گی۔
چنانچہ تاریخِ سلسلہ سے متعارف کروانے اور ماضی کے ان گل ہائے الفضل سے قارئین کو معطر کرنے کے لیے آج سے ایک نئےسلسلہ کا آغاز کیا جارہا ہے جو ’’سوسال قبل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا کرے گا۔اس عنوان کے تحت قارئین کو سو سال قبل کے الفضل کا مختصراً تعارف کروایا جائے گا۔ آج اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔مختصر سے تعارف کے بعد آخر پر link دیا گیا ہے تا اگر کوئی قاری پوری اخبار کا مطالعہ کرنا چاہے تو کرسکے۔ 1922ء میں ان دنوں الفضل سوموار اور جمعرات کو شائع ہوتا تھا۔
28؍اگست 1922ء یومِ دوشنبہ
مطابق 4 محرم الحرام 1341 ہجری
صفحہ اول پر مدینۃ المسیح (قادیان) کی خبروں میں اول الذکر حضرت مصلح موعودؓ کی مصروفیات سے متعلق خبر یہ شائع ہوئی کہ ’’حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بخیریت ہیں 23 تاریخ سے حضور نے دو وقت درس دینا شروع فرما دیا ہے۔ یعنی صبح ساڑھے سات سے ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر عصر کے بعد مغرب تک۔24 اگست ساتواں پارہ ختم ہوا اور آٹھواں شروع ہو گیا ہے۔ بیرونی احباب کو جوں جوں موقع مل رہا ہے شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔‘‘
صفحہ اول و دوم پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی شکاگو سے مرسلہ، امریکہ میں تبلیغ سے متعلق رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں آپ نے تبلیغی مساعی میں تین لیکچرز کا ذکر کیا ہے نیز چھ، نو مسلم افراد کے مع اسماء قبولیتِ اسلام کا ذکر کیا ہے۔
صفحہ 3 تا 6 پر ’’چند اعتراضات کے جواب فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ‘‘ کے عنوان سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وہ ارشادات شائع ہوئے ہیں جو آپ نے ایک خط کے جواب میں حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے (مولانا عبدالرحیم درد) کو جواباً تحریر فرمائے۔ یہ جواب درج ذیل سوالات کے جوابات پر مشتمل تھے۔
1: ہمارے سرورِ کائناتﷺ پر حضرت عیسیٰؑ کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔کیا حضرت عیسیٰؑ مجسم خدا تھے؟
2: قرآنِ پاک پر زبردست حملے کیوں کیے جاتے ہیں۔ کیا قرآنِ شریف میں سب جھوٹی اور لغو حکایات ہیں جن کا کہیں بھی کسی پرانی تاریخ یا مذہبی کتاب میں ذکر نہیں۔ کیا قرآنِ کریم خدا کا کلام نہیں ہے؟
3: توریت میں حضرت اسماعیلؑ کی نسبت قربانی کا ذکر نہیں ہے بلکہ حضرت اسحاقؑ کا ہے۔اور قرآن میں حضرت اسماعیلؑ کا یہ اختلاف کیوں ہے۔کس کو غلط ثابت کریں جبکہ توریت ایک قدیمی کتاب ہے؟
4: سرورِ کائناتﷺ نے فرمایا ہے کہ میری خاطر سب کچھ پیدا ہوا ہے۔مگر ہم انجیل میں بھی یہی دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے بھی یہی کہا ہے کہ میں ازل سے ہوں اور ابدالآباد تک رہوں گا اور میری خاطر سب کچھ بھی ہوا ہے۔
5: کیا آپ کے پاس شق القمر سے متعلق کوئی تاریخی ثبوت ہے؟
6: سرورِ کائنات ﷺ نے فرمایا ہے کہ توریت موسیٰؑ کو، زبور داؤدؑ کو اور انجیل عیسیٰؑ کو ملی۔ مگر ہم اس کے خلاف دیکھتے ہیں کہ انجیل حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر جانے کے بعد ان کے شاگردوں نے لکھی ہے۔کیا یہ وہی انجیل ہے اگر وہ نہیں ہے تو اصل کہاں ہے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ یہ جھوٹی انجیل ہو جبکہ بہت سی باتیں کلامِ پاک سے ملتی ہیں۔آخر یہ راز کیا ہے۔کیا رسولِ مقبولﷺ کو غلطی ہوئی؟
7: معراج شریف کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے اور حور و غلماں کہاں تک سچ ہیں؟
8: کتاب sources of Islam جو عیسائیوں نے بنائی ہے۔کیا اس کی تردید آپ کر سکتے ہیں؟
صفحہ نمبر 6 پر خواجہ حسن نظامی صاحب کی قادیان دارالامان سے متعلق ہرزہ سرائی کا ذکر ہے اور اس پر مختصر تبصرہ کیا گیا ہے۔
صفحہ نمبر 7 و 8 پر 18 اگست 1922ء کے خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا خلاصہ تحریر ہے۔
صفحہ نمبر 11 و 12 پر ہندوستان و غیر ممالک کی خبروں کا ذکر ہے۔
مذکورہ اخبار کے مفصل ملاحظہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔
https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19220828.pdf
(م م محمود)