• 7 جولائی, 2025

نظام عدل کے بارے میں اسلامی تعلیمات

نظام عدل کے بارے میں اسلامی تعلیمات
پاکستان میں اداروں کا تصادم اور اس کا پس منظر

گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں المیوں اور بحرانوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اس عرصہ میں اقتصادی بد حالی کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سیاسی تصادم، خانہ جنگی اور قتل و غارت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہر ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں یعنی انتظامیہ جو ملک کا انتظام چلاتی ہے اور مقننہ جو کہ قانون سازی کرتی ہے یعنی قانون ساز اسمبلیاں اور عدلیہ جو کہ مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے۔ایک طویل عرصہ سے یہ آوازیں بلند ہو رہی تھیں کہ ریاست کے یہ ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور اب گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں ریاست کے یہ مختلف ادارے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اور ریاست کے یہ تینوں ستون ایک دوسرے پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ اور برملا ایک دوسرے کے خلاف یہ اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ ہم فلاں ادارے کے اختیارات محدودکر دیں گے۔ اور ایک دوسرے کو نا اہل قرار دینے کی کاوشیں عروج پر ہیں۔ ایک نمایاں صحافی کا تبصرہ تھا کہ آجکل وطن عزیز میں نا اہلیوں کا موسم چل رہا ہے۔ اور اس طرح ریاست کے ستونوں کے درمیان ایک خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔خاص طور پر عدلیہ اور حکومت ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نظر آ تے ہیں۔

یہ افسوسناک صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس وقت پورے ملک میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک وجہ جس پر سب متفق ہیں یہ بیان کی جا رہی ہے کہ 1973ء کا آئین نافذ ہونےکے بعدمختلف ریاستی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر کے ان امور میں دخل اندازی کرتے رہے ہیں جس کا انہیں کوئی اختیار نہیں تھا اور ایک دوسرے کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات نے اس آگ کو اور بھڑکایا۔ جب ریاستی اداروں نے اپنی حدود سے تجاوز کو اپنا معمول بنا لیا تو ان کا باہمی تصادم اس کا ایک قدرتی نتیجہ تھا۔ اس پس منظر میں لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین نے تو ہر ادارے کی حدود متعین کی تھیں۔ پھر یہ سلسلہ کب اور کیسے شروع ہوا؟

اداروں نے اپنی حدود سے تجاوز کب شروع کیا؟

یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ جب 1974 ءمیں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بزعم خود اس موضوع پر کارروائی شروع کی کہ احمدیوں کے مذہب کا کیا نام ہونا چاہیے ؟ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ احمدی مسلمان ہیں کہ نہیں تو پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے وفد نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے یہ انتباہ کر دیا تھا کہ کسی بھی سیاسی اسمبلی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی گروہ کے مذہب کا فیصلہ کرے۔ اس انتباہ سے پہلے جماعت احمدیہ کے محضرنامہ میں یہ سوالات اٹھائے گئے تھے:
’’ہم نہایت ادب سے گذارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ اصولی سوال طے کیا جائے کہ کیا دنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہ اس بات کی مجاز ہے کہ
اوّل: کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو؟
دوم: یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا مذہب کیا ہے؟‘‘

(محضرنامہ صفحہ 3)

ان سوالات کا مختصر جائزہ لینے کے بعد جماعت احمدیہ نے اپنا واضح موقف ان الفاظ میں پیش کیا تھا:
’’کوئی قومی اسمبلی اس لئے بھی ایسے سوالات پر بحث کی مجاز قرار نہیں دی جا سکتی کہ کسی بھی قومی اسمبلی کے ممبران کے بارے میں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مذہبی امور پر فیصلے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں؟۔۔۔۔ پس ایسی اسمبلی کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے وہ کسی فرقہ کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اس کا مذہب کیا ہے؟ یا کسی ایک عقیدہ کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ فلاں عقیدہ کی رو سے فلاں شخص مسلمان رہ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر کسی اسمبلی کی اکثریت کو محض اس بناء پر کسی فرقہ یا جماعت کے مذہب کا فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ ملک کی اکثریت کی نمائندہ ہے تو یہ موقف بھی نہ عقلاً قابل قبول ہے نہ فطرتاً نہ مذہباً-اس قسم کے امور خود جمہوری اصولوں کے مطابق ہی دنیا بھر میں جمہوریت کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیئے جاتے ہیں۔‘‘

(محضرنامہ صفحہ 6)

’’پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غورکرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔اقوام متحدہ کے منشور اور پاکستان کے دستور اساسی کے خلاف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ارشاد نبوی کے بھی سراسر منافی ہے اور بہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائم کردہ یہ مثال دیگر ممالک میں بسنے والے اقلیتی مذاہب اور فرقوں کے لئے شدید مشکلات کا موجب ہو سکتی ہے۔‘‘

(محضرنامہ صفحہ 10)

کتنا واضح انتباہ ہے کہ پارلیمنٹ یعنی ملک کی مقننہ اپنی حدود اور دائرہ کارسے باہر نکل کر ایسے امور کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آ تے۔ اور اگر اس عمل کو روکا نہیں گیا تو یہ طرز عمل ملک کے اندر اور باہر اَن گنت خرابیوں اور فسادات کو جنم دے گا۔ اُس وقت سے اب تک کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ اور یہ عمل یہاں پر رکا نہیں بلکہ ریاست کے باقی ستونوں نے بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں دل کھول کر اپنا حصہ ڈالا۔ انتظامیہ کا فرض تھا کہ ملک میں بنیادی حقوق کی حفاظت کرے لیکن نہ صرف احمدیوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی بلکہ خود ایک فریق بن کر احمدیوں پر ہونے والے مظالم میں اپنا حصہ ڈالا۔ پاکستان کی عدالتوں کا فرض تھا کہ وہ تمام پاکستانیوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں لیکن جیسا کہ آخر میں مثال پیش کی جائےگی، نہ صرف احمدیوں کو انصاف نہیں مہیا کیا گیا بلکہ اپنی حدود سے تجاوز کر کےپاکستان کی کئی عدالتوں نے ایسے فیصلےجاری کئے جن میں احمدیوں سے امتیازی سلوک کو اور زیادہ خوفناک بنانے کے لئے تاکید کی گئی تھی۔اور پھر یہ عمل صرف احمدیوں پر مظالم تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ آئینی ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے اور اپنی حدود سے تجاوز کرتے کرتے ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے۔ اور اب اس تصادم کی وجہ سے ایک بار پھر ملک ایک شدید بحران کی زد میں ہے۔

عدل کے بارے میں قرآنی نصائح

چونکہ موجودہ بحران میں عدلیہ کے بعض فیصلے زیر بحث ہیں اور ان فیصلوں پر تنازع اس بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا اگر قرآن مجید سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ مختلف ممالک میں ان کے حالات کے مطابق عدالتوں کے مختلف نظام موجود ہیں یہاں ان پر کوئی تبصرہ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید میں نظام عدل کی روح کے بارے میں کیا ہدایات پائی جاتی ہیں۔

قرآن مجید یہ تاکید کرتا ہے کہ ہر حال میں فیصلہ عدل و انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ

(النساء: 59)

ترجمہ:یقیناََ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کے سپرد کیاکرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو توانصاف کے ساتھ حکومت کرو۔

ایک تو اس آیت کریمہ میں عدل و انصاف سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہےلیکن اس کے ساتھ اس قبل عہدوں کی امانت کو اہل لوگوں کے سپرد کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کا گہرا تعلق ہے۔ اگر اہلیت اور قابلیت رکھنے والے لوگوں کے سپرد فیصلے کرنے کا کام ہوگا تو ہی انصاف کے ساتھ فیصلے ہو سکیں گے۔

اللہ تعالیٰ صرف انصاف کاہی حکم نہیں دیتابلکہ جہاں عدل کا خون نہ ہوتا ہو وہاں عدل سے بڑھ کر احسان کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی

(النحل: 91)

ترجمہ:یقیناََ اللہ عدل کا اور احسان کا اوراقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح کی عطا کا حکم دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ میں فرماتا ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹﴾

(المائدہ: 9)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے سب سےزیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے سب سے زیادہ با خبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

ہر عدالتی نظام میں مختلف لوگوں کو گواہی کے لئے یا عدالت کی معاونت کے لئے بلایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ بہت احتیاط سے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائیں۔ بسا اوقات ایک جج کے ذاتی خیالات ایسے ہوتے ہیں جو کہ اسے کسی ایک گروہ سے نا انصافی پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ اس آیت میں اسی طرز سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسی طرح بعض مرتبہ گواہی دینے والا یا فیصلہ کرنے والا ایک فریق سے ہمدردی یا تعلق رکھتا ہے اور یہ چیز انصاف سے گواہی دینے یا فیصلہ کرنے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے

وَاِذَا قُلۡتُمۡ فَاعۡدِلُوۡا وَلَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی

(الانعام: 153)

ترجمہ: جب بھی تم کوئی بات کروتو عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہی (کیوں نہ) ہو۔

احادیث میں بیان فرمودہ عدالتی فیصلوں کی بنیاد

جب ہم اس موضوع پر احادیث سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے فیصلے کن بنیادوں پر ہونے چاہئیں اس سلسلہ میں سب سے زیادہ اس اہم حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے:
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کربھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا ’’جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کروگے؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پاسکو؟’’ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر سنت رسول ﷺ اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاسکو تو کیا کرو گے؟’’ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول ﷺ کو راضی اور خوش کرتی ہے۔‘‘

(سنن ابی داؤدکتاب الاقضیہ بَاب اجْتِهَادِ الرَّأْيِ فِي الْقَضَاءِ)

اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں باقاعدہ قضا کا ایک علیحدہ شعبہ قائم ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قاضی کی ان الفاظ میں راہنمائی فرمائی:
’’حضرت شریحؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں مذکور نہ ہو تو پھر صالحین کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ہو اور نہ اس کے بارے میں صالح لوگوں سے کوئی فیصلہ منقول ہو تو پھر تیری مرضی ہے، چاہے تو آگے بڑھ (کر جواب دے) اور چاہے تو پیچھے ہٹ جا (خاموشی اختیار کر)۔ اور میرے خیال میں خاموشی ہی تیرے لیے بہتر ہے۔ والسلام علیکم‘‘

(سنن النسائي كِتَابُ آدَابِ الْقُضَاةِبَابُ ذِكْرِ مَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يَجْتَنِبَهُ حکم)

یہاں صرف اسلامی قضاء کی راہنمائی نہیں کی گئی بلکہ اس حدیث میں دنیا کی عام عدالتوں کے لئے بھی ایک بہت اہم راہنمائی موجود ہے۔ اور اس راہنمائی کاپاکستان کے موجودہ بحران سے بھی گہرا تعلق ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں تو فیصلے آئین اور قانون کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں اور کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہیں کیے جاتے۔قانون کی دنیا میں بھی کسی آئین سے استدلال کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں اور اس موضوع پر بہت بحثیں بھی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ Textualist طریق کے قائل ہیں جس میں کوئی فیصلہ کرنے والا صرف یہ دیکھتا ہے کہ آئین کی متعلقہ شق میں کیا الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کا کیا مطلب ہے۔کچھ قانون دان Originalism کے قائل ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئین کی شق کو منظور کرتے ہوئے آئین سازی کرنے والوں کا منشا کیا تھا؟ اور اس کی روشنی میں کسی شق کی تشریح کی جاتی ہے۔ اور ایک تیسرا گروہ Living Constitution کا قائل ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ایک جج وقت کے تقاضوں کے مطابق آئین کی کسی شق کی مختلف اور آزادانہ تشریح کر سکتا ہے کیونکہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ کسی شق کے اصل الفاظ پر فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس خیالات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔ ان گزارشات کا مقصد ان نظریات میں سے کسی کو غلط یا صحیح قرار دینا نہیں ہے بلکہ یہ بیان کرنا ہے کہ اس اعتبار سے ماہرین میں یہ مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔

اسلامی قضاء میں قرآن اور سنت کے قوانین کی رو سے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا حدیث سے یہ واضح ہے کہ ایک قاضی اجتہاد تو کر سکتا ہے لیکن اگر کسی معاملہ میں قرآن مجید میں واضح فیصلہ موجود ہے تو پھر وہاں صرف اجتہاد کرنے کی بجائے قرآن مجید کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا۔ اور اس کے بعد اس بارے میں اگر سنت رسول ﷺ سے کوئی واضح فیصلہ ثابت ہے تو پھر اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا۔ اجتہاد کا مرحلہ ان کے بعد آئے گا۔دوسرے الفاظ میں اجتہاد کو اپنی حدود میں رکھا گیا ہے اور اجتہاد کوقرآن و سنت پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ایک قاضی یا جج قانون کی تشریح تو کر سکتا ہے، اس قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا یا جیسا کہ آج کل اصطلاح استعمال ہو رہی ہے اس قانون یا آئین کی کسی شق کو rewrite نہیں کر سکتا۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر کبار صحابہؓ کے بہت سے فیصلوں کی مثالیں موجود تھیں۔ حضرت عمر نے یہ ہدایت کی تھی کہ قاضی ان فیصلوں کی پیروی کرے۔ موجودہ دور میں بھی سابقہ فیصلوں کی نظائر پیش کی جاتی ہیں انہیں قانون کی زبان میں precedent کہا جاتا ہے۔ قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان نظائر کی پیروی سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جب دو اشخاص مختلف اوقات میں ایک جیسے حالات سے دوچار ہوں تو ان سے ایک جیسا سلوک ہو۔

کچھ مزید روایات درج کی جاتی ہیں جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مقرر کردہ قاضی کو فیصلہ کرنے کے طریق کے بارے میں ہدایات جاری فرمائیں۔

حضرت عمر نے کوفہ کے قاضی کو ارشاد فرمایا:
’’دیکھ جو فیصلہ تجھے کتاب اللہ میں واضح نظر آئے اس کے متعلق کسی سے سوال نہ کرو اور جو حکم کتاب اللہ میں واضح نہ ہو اس میں سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرو اور جو حکم سنت رسول اللہ ﷺ سے بھی ظاہر نہ ہو اس میں اپنی رائے کا اجتہاد کرو۔‘‘

فیصلہ کرتے ہوئے مشورہ کی اہمیت

اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اجتہاد کرتے ہوئے ایک قاضی اہل علم سے مشورہ کرے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دمشق کے قاضی سے دریافت فرمایا:
’’تم کیسے فیصلہ کرتے ہو۔ اس نے کہا کتاب اللہ کے ساتھ۔پوچھاجب ایسا کوئی قضیہ تمہارے سامنے پیش ہو جو کتاب اللہ میں نہ ہو تو؟ عرض کیا تب میں سنت رسول اللہﷺ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ پوچھا: جب ایسا کوئی قضیہ پیش آ جائے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ظاہر نہ ہو تب؟ تب میں اپنی رائے میں اجتہاد کرتا ہوں اور اپنے ہم نشینوں سے مشاورت کر لیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس کی تحسین فرمائی کہ تم اچھا کرتے ہو۔‘‘

(ابن جریر)

اسی طرح حضرت علی سے روایت ہے:
’’میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر مجھے ایسا کوئی مسئلہ پیش آ جائے جس میں نہ قرآن کا کوئی حکم سامنے ہو اور نہ سنت رسول کا تب آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ حضور اکرم ؐنے ارشاد فرمایا تم اہل فقہ اور عبادت گذار مومنوں کے درمیان اس کا مشورہ کرو اور کسی خاص رائے پر فیصلہ نافذ نہ کرو۔‘‘

(الاوسط للطبرانی ابو سعید بن القضاۃ)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی یا جج کو اگر مشورہ کرنے کی ضرورت پڑے تو کسی ایک رائے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ مشورہ وسیع البنیاد ہونا چاہیے۔ اسی طرح فیصلہ کرتے وقت سلف صالحین کے فیصلوں کی نظائر بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہیں۔ جس طرح موجودہ دور میں بعض مرتبہ عدالتیں اپنی معاونت کے لئے یعنی ماہرین یعنی Amicus Curiae کو طلب کرتی ہیں۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت امام وقت کی راہنمائی کی درخواست بھی کی جا نی چاہیے۔ حضرت عمر نے ایک قاضی کو تحریر فرمایا:
’’اگر کوئی فیصلہ ایسا آ جائے جس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول ﷺ میں تو جس طرح دوسرے ائمہ ہدایت نے فیصلہ کیا ہو اس طرح فیصلہ کردو۔ اور اگر کوئی ایسا فیصلہ آ جائے جس کا حکم کتاب اللہ میں ہو نہ سنت رسول اللہ ﷺ میں اور نہ ہی پہلے واقعات میں ائمہ ہدایت نے ایسا فیصلہ کیا ہو تب تم صاحب اختیار ہو اگر چاہو تو اس معاملہ میں میری رائے طلب کرو اور میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا مجھ سے مشورہ کرنا تمہارے لئے بہتر ہو گا۔‘‘

اور ایک اور روایت میں ہے کہ اگر صحیح فیصلہ سمجھنے میں دشواری ہو تو قاضی فیصلے کو موخر بھی کر سکتا ہے۔

(کنزالعمال جلد پنجم ناشر دارالاشاعت ستمبر 2009 صفحہ395تا 400)

پاکستان میں آئین کی تشریح پربحث

جیسا کہ پہلے بھی عرض کی گئی تھی کہ پاکستان میں آج کل چلنے والی بحث میں بہت سی آراء سننے کو اور پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ اس مضمون کا مقصد کسی رائے سے اتفاق یا اختلاف کرنا نہیں ہے۔ صرف چند حقائق پیش کئے جائیں گے۔ لیکن پاکستان میں عدلیہ کے بعض فیصلوں کے متعلق کم از کم کئی ماہرین یہ رائے دے رہے ہیں کہ ان فیصلوں میں آئین کی زیر بحث شق کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ ایک طرح سے اسے نئے سرے سے تحریر کر کے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بلکہ خود سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان نے بعض فیصلوں سے اختلاف کرتے ہوئے ا نہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر صدر پاکستان کی طرف سے بھجوائے گئے ایک ریفرنس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 17 مئی 2022ء کو ایک فیصلہ جاری کیا۔ دو ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا:

….in our view, would amount to re-writing or reading into the Constitution and will also affect the other provisions of the Constitution, which has not even been asked by the President through this Reference. Therefore, it is not our mandate.

ترجمہ:ہمارے خیال میں یہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگا۔ اور اس کا اثر آئین کی ان شقوں پر بھی پڑے گا جن کے متعلق صدارتی ریفرنس میں استفسار نہیں کیا گیا۔ اس طرح یہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔

احادیث میں قاضی کو جانبداری سے بچنے کی ہدایت

دنیا میں بھی ایک شکایت عام سننے میں آتی ہے کہ کسی مقدمہ میں جج نے جانبداری سے کام لیا بلکہ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ فیصلہ سے قبل بھی کسی منصف کا ایک فریق سے سلوک اچھا تھا اور دوسرے فریق سے خراب سلوک کیا جا رہا تھا یا یہ کہ ایک فریق کا موقف تو پوری طرح سنا گیا لیکن دوسرے فریق کا موقف صحیح طرح نہیں سنا گیا۔ اس بارے میں بھی اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک منصف کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔اس مقصد کے لئے سب سے ضروری ہدایت یہ ہے کہ دونوں فریقوں کا موقف برابر سنا جائے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایت فرمائی:
’’حضرت علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس دو آدمی فیصلہ کے لیے آئیں تو تم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو۔ عنقریب تم جان لو گے کہ تم کیسے فیصلہ کرو‘‘۔ حضرت علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں برابر فیصلے کرتا رہا۔‘‘

(سنن ترمذی۔ كتاب الاحكام عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم۔ باب مَا جَاءَ فِي الْقَاضِي لاَ يَقْضِي بَيْنَ الْخَصْمَيْنِ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَهُمَا)

دونوں فریقوں کے بارے میں برابر کا سلوک کرنے کی اتنی تاکید ہے کہ یہاں تک ہدایت دی گئی ہے کہ کسی فریق کی مہمان نوازی نہ کرے جب تک دوسرے فریق کی بھی مہمان نوازی نہ کر لے۔ دونوں کی طرف اشارہ کرنے میں بھی احتیاط کرے۔ اور کسی ایک فریق سے بلند آواز سے بھی نہ بات کرے جب تک کہ دوسرے فریق سے بھی بلند آواز سے نہ بات کر لے۔ اور دونوں کی طرف جس انداز سے دیکھ رہا اس میں بھی برابر کا سلوک کرے۔اور یہ کہ قاضی کسی ایک فریق کو اپنے قریب کر کے اس کی بات بھی نہ سنے جب تک کہ دوسرا فریق بھی ساتھ نہ ہو۔

(کنزالعمال جلد ششم ناشر دارالاشاعت ستمبر2009ء صفحہ473-474)

پاکستان کی عدالتوں پر جانبداری کے الزامات

یہ تو ان احتیاطوں کا بیان ہے جو کہ ایک قاضی یا جج پر کرنا لازمی ہیں تا کہ کسی فریق کے ذہن میں یہ وسوسہ نہ پیدا ہو کہ فیصلہ کرنے والے کا جھکاؤ دوسرے فریق کی طرف ہے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ایسے اہم مقدمات میں جن کا ملک کی تاریخ پر بہت اثر پڑا کم از کم ایک فریق کو شروع ہی سے یہ شکوہ تھا کہ اس کے ساتھ ججوں کا رویہ غیر مناسب اور معاندانہ تھا۔وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر اقدام قتل کے مقدمے کےدوران اور بعد میں یہ شکایت بار بار کی گئی کہ ان سے ہائی کورٹ کے ججوں کا رویہ جارحانہ تھا۔ ذولفقار علی بھٹو صاحب نے جیل سے جو کتاب If I am Assassinated (اگر مجھے قتل کیا گیا) لکھی اس میں انہوں نے بار بار ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق صاحب کے رویہ کی شکایت کی۔ جیسا کہ انہوں نے لکھا:

the conduct and attitude of the Chief Justice of the Lahore High Court has been a sordid saga. Since the salient excesses and abuses of his position as the Chief Justice of the Lahore High Court form a part of my Memorandum of Appeal in the Supreme Court, I am not going to burden this narration with the story of his unique performance. Not being content with his judgment to hang me by the neck until I die, which words he uttered with such relish, he saw to it that I was transferred to death cell, a humiliation worse than death itself.

(If I am Assassinated , published by Sani H. Panhwar p 60)

ترجمہ: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا طرز عمل اور رویہ ایک بد تہذیبی کی داستان ہے۔ یہ سپریم کورٹ میں میری اپیل کے میمورنڈم کا ایک حصہ ہے اس لئے میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا۔ انہوں نے اس فیصلہ پر بس نہیں کی کہ مجھے موت تک پھانسی پر لٹکایا جائے اور اس فیصلہ کے الفاظ کو انہوں نے ایک خاص لطف سے ادا کیا بلکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بھی بنایا کہ مجھے موت کی کال کوٹھری میں منتقل کردیا جائے۔ یہ چیز موت سے بھی بد تر تھی۔

اسی کتاب کے صفحہ 65 اور 199پر وہ لکھتے ہیں کہ میں چیف جسٹس کی طنزیہ مسکراہٹوں، بد تمیزی، توہین آمیز رویہ اور گھرکیوں کا نشانہ تھا۔ اور مجھ پر بلند آواز میں چلاّیا جاتا تھا۔ اور دوسرے ملزمان کو جو اعتراف جرم کر چکے تھے مشفقانہ مسکراہٹوں اور پدرانہ شفقت سے نواز جاتا تھا۔

کسی سیاسی بحث میں الجھے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلہ نے ملک کو بری طرح تقسیم کیا۔ اور سارے تنازعہ کا نقطہ آغاز یہ تھا کہ ایک فریق کو یہ شکوہ تھا کہ کارروائی کے دوران اس سے امتیازی اور ناروا سلوک روا رکھا گیا تھا۔اس سے ان احادیث میں بیان فرمودہ ہدایات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کیا قاضی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان کے موجودہ بحران میں تقریباً تمام فریقوں کی طرف سے یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ انہیں مختلف مقدمات میں مختلف ججوں یا الیکشن کمیشن کے عہدیداروں پر اعتماد نہیں ہے۔ اور وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں انہیں تبدیل کیا جائے یا ان کی بجائے ان مقدمات کی سماعت کے لئے دوسرے ججوں کو مقرر کیا جائے یا جو بینچ ان مقدمات کی سماعت کر رہا ہے کہ اس میں دوسرے ججوں کو مقرر کیا جائے۔یہ صورت حال ایک ایسا بحران بن چکی ہے جو دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے۔

اس پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مقدمہ کا ایک فریق یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ کوئی خاص جج اس مقدمہ کی سماعت کرے یا یہ کہ ایک فریق یہ مطالبہ کرے کہ فلاں جج اس مقدمہ کے بینچ میں شامل نہ ہو۔ اس بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی سائٹ پر یہ اصولی ہدایت آویزاں ہے کہ

Judge can never be of the choice of the litigant.

یعنی مدعی کبھی بھی اپنی مرضی کے جج کا انتخاب نہیں کر سکتا۔

عمومی طور پر دنیا میں اگر کسی مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کا یا اس کے اہل خانہ کا اس مقدمہ کے فیصلہ سے کوئی مالی مفاد وابستہ ہو، یا کسی فریق سے اس کی جانبداری معلوم ہو، یا وہ متنازعہ معاملہ کے شواہد کے بارے میں ذاتی علم رکھتا ہو، یا اس معاملہ میں جج پہلے وکیل رہ چکا ہو، یا جج کا کوئی رشتہ دار اس مقدمہ میں فریق یا وکیل ہو تو یہ جج اس مقدمہ کی سماعت سے معذرت کر سکتا ہے۔

بنو قریظہ نے اپنے لئے منصف کا انتخاب خود کیا تھا؟

جہاں تک احادیث اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کی روایات کا تعلق ہے تو ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ کسی فریق کے مطالبہ پر قاضی تبدیل کر دیا گیا ہو کیونکہ اس فریق کا کہنا تھا کہ اسے قاضی پر اعتماد نہیں ہے۔لیکن ایک اہم واقعہ ایسا ہے جس کے بارے میں کئی روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک فریق نے اپنی پسند کا منصف مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ اور یہ بھی اکثر روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ہمدردوں اور حلیفوں نے بھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں درخواست کی کہ ان سے نرم سلوک کیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے سردار کو ہی اس فیصلہ کے لئے مقرر کر دیتا ہوں۔ یہ واقعہ بنو قریظہ کی سنگین غداری کا واقعہ تھا۔ مدینہ کے دیگر یہود کی طرح اس قبیلہ کا مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور اس معاہدہ کی رو سے ان کا فرض تھا جب مدینہ پر حملہ ہو تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ لیکن جب غزوہ احزاب کے موقع پر مدینہ پر حملہ ہوا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ مدینہ کا دفاع کرتے، معاہدہ توڑ کر دشمنوں کے ساتھ مل کر ساز باز شروع کر دی اور ان کے ساتھ مل کر مدینہ میں قتل و غارت کرنے کی سازش کرنے لگے اور مسلمانوں کو صاف جواب دے دیا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔

جب جنگ احزاب کا اختتام ہوا تو مسلمانوں نےان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ انہوں نے پھر بھی مفاہمت اور معذرت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے گالی گلوچ کا سلسلہ شروع کر دیا۔لیکن جب ان کا زور ٹوٹنا شروع ہوا تو انہوں نے مفاہمت کی کوشش شروع کی۔ میثاق مدینہ کی رو سے اس شہر کا ہر آخری فیصلہ کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ مگر طبری کی روایت ہے کہ انہیں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں کوئی سخت فیصلہ فرمائیں گے اس لیے انہوں نے کہا کہ
’’ہم اس شرط پر ہتھیار رکھ دیتے ہیں کہ سعد بن معاذ ہمارے بارے میں جو چاہیں فیصلہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ان کے ہی حکم پر ہی سہی۔ انہوں نے ہتھیار رکھ دیئے۔‘‘

(تاریخ طبری جلد دوئم، مترجم سید محمد ابراہیم، ناشر دارالاشاعت 2003ء صفحہ262)

صحیح بخاری میں اس بارے میں یہ روایت ہے:
حضرت ابو خدریؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد بن معاذؓ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال کر قلعے سے اتر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا، حضرت سعدؓ وہیں قریب ہی ایک مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے تھے، وہ گدھے پر (سوار ہوکر) تشریف لائے۔ جب قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے سردار کے استقبال کے لیے اٹھو‘‘ چنانچہ وہ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ آپ نے ان سے فرمایا: ’’ان لوگوں (یہود بنی قریظہ) نے آپ کی ثالثی پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔‘‘ حضرت سعد بن معاذؓ نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں جو جنگجو ہیں انھیں قتل کر دیا جائے اور ان کی ذریت کو اسیر کر لیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر بَابُ إِذَا نَزَلَ العَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ)

ایسی ہی احادیث صحیح بخاری کتاب المغازی اور صحیح مسلم کتاب الجہاد میں بھی درج ہیں کہ بنو قریظہ نے اس شرط پر ہتھیار رکھے تھے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کا فیصلہ کریں گے۔

بنو قریظہ مدینہ کے بنی اوس کے حلیف تھے۔ اس سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قینقاع کو جو کہ قبیلہ خزرج کے حلیف تھے معاف کیا تھا اور ان کی غداری کے باوجود ان کی جان بخشی کی تھی۔ بہت سی روایات کے مطابق اس موقع پر بنی اوس نے رسول اللہ ﷺ نے یہ درخواست کی کہ بنو قریضہ ہمارے موالی ہیں۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہارا آدمی ہے ان کا فیصلہ کرے۔ اس پر انہوں نے رضامندی کا اظہار کیا اور ان کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اس فیصلہ کے لئے مقرر کر دیا گیا لیکن یہ بنو قریظہ اور ان کے حلیفوں کی شدید غلطی تھی۔ دنیا کا کوئی شخص رسول اللہ ﷺ جتنی نرمی اور شفقت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے پہلے بنو قریظہ سے عہد لیا کہ وہ ان کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے عہد لیا کہ وہ ان کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے۔ اور پھر بنو قریظہ کے جنگ کرنے کے قابل افراد کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنا دیا۔

میثاق مدینہ کی رو سے فیصلہ کرنے کا حق رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا لیکن طبری کی روایت کے مطابق بنو قریظہ نے اپنی مرضی کا منصف مقرر کرنے پر اصرار کیا اور ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔یہ ایک مثال ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدعا علیہ نے اپنی مرضی کا منصف مقرر کرایا۔ لیکن یہ جنگ اور محاصرہ ختم کرانے کے لئے ایک استثناء تھا۔ اسے معمول کا عمل نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اداروں کا حدود سے تجاوز اور جماعت احمدیہ

جیسا کہ اس مضمون کے آغاز پر یہ ذکر کیا گیا تھا کہ آج کل پاکستان میں ریاست کے تینوں ستونوں کے درمیان صرف تناؤ ہی نہیں بلکہ ایک برملا تصادم کی صورت حال پائی جاتی ہے۔ اور یہ اظہار کیا جا رہا ہے کہ ریاست کا فلاں ستون اپنی حدود سے تجاوز کرکے ہمارے دائرہ کار میں دخل دے رہا ہے۔1973ء کے آئین میں ہر ادارے کی جو حدود متعین کی گئیں تھیں وہ اس وقت سے لے کر اب تک بری طرح پامال کی گئی ہیں۔اس مضمون کے آغاز میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بزعم خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی کارروائی شروع کی اور انجام کار اس غرض کے لئے دوسری آئینی ترمیم منظور کی گئی۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ آغاز میں ہی جماعت احمدیہ نے انتباہ کیا تھا کہ اگر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس سے ان گنت فسادات اور خرابیاں جنم لیں گی۔افسوس کہ یہ نصیحت نظر انداز کی گئی۔ جب 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف یہ کارروائی اپنے اختتام پر پہنچ رہی تھی تو یہ منحوس سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اور خود قومی اسمبلی کے ممبران آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسے اعلانات کر رہے تھے جن کی دنیا کے کسی آئین اور قانون میں اجازت ہونا تو درکنار، انسانی ضمیر ہی ایسی بربریت کو رد کر دیتا ہے۔

5 ستمبر کی کارروائی میں ایک ممبر ملک سلیمان صاحب نے قومی اسمبلی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ احمدیوں کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں۔ اور 3 ستمبر کی کارروائی میں ایک اور ممبر جمال محمد کوریجہ صاحب نے گالیاں دینے کے بعد کہا تھا کہ احمدیوںکو پاکستان سے نکال دینا چاہیے۔

اور 6 ستمبر کی کارروائی کے دوران ایک اور ممبر نعمت اللہ شنواری صاحب نے کہا تھا کہ ہم قبائلی علاقہ کے لوگوں کو اجازت دی جائے کہ وہ احمدیوں کے خلاف جہاد شروع کر دیں۔ اس طرح خود اسمبلی کے ممبران نے آئین پاکستان کو پامال کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ احمدیوں کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں۔ یہ مطالبات اپنی حدود سے تجاوز نہیں تھے تو اور کیا تھے؟

اور جہاں تک پاکستان کی عدلیہ کا تعلق ہے تو احمدیوں کو انصاف مہیا کرنا تو درکنار، کئی مرتبہ خود عدالتوں نے ایسے فیصلے سنائے جن میں اپنے دائرہ کار اور حدود سے ہر طرح تجاوز کرتے ہوئے دوسری ریاستی اداروں کو اکسایا کہ وہ احمدیوں کی معمول کی زندگی بھی اجیرن کر دیں۔ صرف ایک فیصلہ کی مثال پیش کی جاتی ہے۔

2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے تحریر کیا تھا۔ اس میں مقننہ کو ہدایت دی گئی کہ قوانین کو مزید سخت بنائے تاکہ کوئی اقلیت اسلامی اصطلاحات کو استعمال نہ کر سکے۔اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ احمدی اپنے ناموں اور وضع قطع کے اعتبار مسلمانوں سے علیحدہ نظر نہیں آتے۔ گویا احمدی لباس ویسا پہنیں جیسا عدالت تجویز کرے اور اگر نام بھی رکھیں تو وہ بھی کسی عدالت کا تجویز کردہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس عدالتی فیصلہ میں اس بات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا کہ احمدیوں کے نام مسلمانوں کی طرح کیوں ہوتے ہیں۔ اور احمدیوں کے لئے ’’احمد‘‘ کا نام تو بالکل نا مناسب ہے، ان کے نام کے ساتھ مرزائی یا غلام مرزا کے الفاظ شامل کر دینے چاہئیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ عجیب تجویز پیش کی کہ حکومت کو چاہئیں کے ملک میں احمدیوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے سائنسی طریقے استعمال کرے۔

(Allah Wassaya vs Federation of Pakistan 2018)

یہ چند جھلکیاں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح پاکستان میں ریاست کے ہرستون کی طرح عدلیہ نے بھی نہ صرف اپنی حدود سے تجاوز کیا بلکہ آئین اور عقل کی حدود سے بھی باہر نکل کر احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اپنا کردار ادا کیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ اتنی دہائیوں سے جب احمدیوں پر یہ مظالم ہو رہے تھے تو بہت کم لوگوں نے ان ریاستی اداروں کو یہ یاد کرایا کہ انہیں ان اقدامات کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور اب پاکستان کو اس المیے کا سامنا ہے کہ یہی آئینی ادارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ اور اس تصادم کی وجہ سے پاکستان اپنی تاریخ کے ایک خوفناک بحران سے گزر رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ کئی سالوں سے یہ صورت حال ہے کہ ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران شروع ہوجاتا ہے۔ اب پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سلسلہ کس طرح شروع ہوا اور کس طرح اسے پروان چڑھایا گیا؟ وہ کون سی غلطیاں تھیں جن کے نتیجہ میں آج پاکستان کو دنیا بھر میں ایک تماشہ بنا دیا گیا ہے۔

فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا
کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے
کیوں خون ہوا ارمانوں کا
طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی
مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا

(ابو نائل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ