• 1 اگست, 2025

کیا صرف مسلمانوں کو السلام علیکم کہنا اور اس کا جواب دینا چاہئے؟

کچھ غیراحمدی مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کو ہی سلام کرنا اور اس کا جواب دینا چاہئے۔ قرآن و سنّت ثابت ہے کہ یہ عقیدہ بالکل خلافِ اسلام ہے۔

سلام کا جواب اتنا ہی
یا اس سے بھی بڑھ کر دینے کا حکم

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡھَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا

(النساء:87)

اور اگرتمہیں کوئی خیرسگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کرو یا وہی لَوٹا دو۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ صرف مسلمان ہمیں سلام کرے تو ہم اس کا جواب سلام سے دیں اور اگر کوئی غیرمسلم سلام کرے تو اسے جواب نہ دیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا
اپنے مشرک باپ کو سلام

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیۡکَ ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا

(مریم:48)

اس نے کہا تجھ پر سلام۔ میں ضرور اپنے ربّ سے تیرے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ یقیناً وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔

اس آیت میں دو باتوں کا ذکر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک باپ کو سلام کہنا اور اس کے لئے استغفار کا وعدہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشرک باپ کے لئے استغفار کرنے سے تو منع کیا لیکن کسی جگہ بھی اسے سلام کہنے سے منع نہیں کیا۔

جاہلوں کو جواب میں سلام کرنے کا حکم

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ھَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا

(الفرقان:64)

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘

لغو باتیں کرنے والوں کو سلام کرتے ہوئے
ان سے اعراض کا حکم

وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ

(القصص:56)

اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے۔

کفار کو سلام کرتے ہوئے ان سے درگزر کا حکم

فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ

(الزخرف:90)

پس تو ان سے درگزر کر اور کہہ: ’’سلام‘‘۔ پس عنقریب وہ جان لیں گے ۔

اس آیت سے ماقبل آیات میں اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کا ذکر کرکے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد اُن سے درگزر کرنے اور سلام کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان واضح آیات کے باوجود غیرمسلموں کا سلام کرنے یا اُن کے سلام کا جواب نہ دینے کا عقیدہ رکھنا قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے۔

نبی اکرم ؐکا مسلمانوں، یہود اور مشرکین
کی مشترکہ مجلس کو سلام

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَهُودِ،… ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم في مجلس فیہ اخلاط من المسلمین و المشرکین)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب کوسلام کیا۔

اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں، بت پرست مشرکوں اور یہود کی مشترکہ مجلس کے تمام افراد کو سلام کرنے میں پہل کی۔ غیراحمدی مسلمان سُنن ابن ماجہ کتاب الادب باب ردُّ السلامِ علی اھلِ ذِمَّۃ اور مسند احمد مسند الشامیین میں عقبہ بن عامر الجہنی سے مروی ایک حدیث جس میں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ کل میں سوار ہوکر یہود کی طرف جاؤں گا۔ تم اُن کو سلام میں پہل نہ کرنا۔ پس اگر وہ تم کو سلام کریں تو تم جواب میں وعلیکم کہہ دینا، سے استنباط کرتے ہیں کہ غیرمسلموں کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہئے۔ اوّل تو یہ استنباط مندرجہ بالا حدیث کے خلاف ہے۔ دوسرا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عام حکم نہیں بلکہ ایک مخصوص واقعہ کا ذکر ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے صحابہؓ کو منع فرمایا کہ تم گفتگو میں پہل نہ کرنا۔ مزیدیہ کہ اس میں صرف یہود کا ذکر ہے تمام غیرمسلموں کا نہیں اور یہود بھی وہ جو مدینہ میں رہتے تھے اور ان کی طرف نبی اکرم ﷺ کسی خاص مقصد کے لئے سوار ہوکر جارہے تھے ورنہ مدینہ کے یہود تو روزانہ مسلمانوں سے ملتے رہتے تھے۔

اہل کتاب کے سلام کے جواب میں
وعلیکم کہنے کا مطلب

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا:‏‏‏‏ وَعَلَيْكُمْ

(بخاری کتاب الاستئذان باب کیف یرد علی اھل الذمۃ السلام)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں وعليكم کہو۔

بعض لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو اس کا جواب صرف وعلیکم سے دیا کرو۔ حالانکہ اس حدیث میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ ’’صرف‘‘ سے کیا جاسکے۔ بلکہ اس میں حرف ’’فا‘‘ کے ساتھ ’’فقولوا وعلیکم‘‘ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’’پس کہا کرو اور تم پر بھی‘‘۔ صحیح بخاری کتاب استِتَابۃِ المرتدین والمعاندین و قتالِھِم میں اس حدیث سے پہلے ذکر ہے کہ ایک یہودی نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا تو اُس نے آپ ﷺ کو ’’السّام علیک‘‘ کہا۔ اس پر آپ ﷺ نے اسے وعلیک کہا۔ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ! ہم اسے قتل نہ کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ جب اہل کتاب تمہیں سلام کیا کریں تو تم وعلیکم کہہ دیا کرو۔مطلب یہ کہ اگر کوئی اہل کتاب شخص مسلمان پر سلامتی بھیج رہا ہوگا تو مسلمان بھی جوابًا ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر یہی کہہ رہا ہے کہ تم پر بھی سلامتی ہو۔ لیکن اگر کوئی شرارت سے السلام علیکم کی بجائے السام علیکم کہے جس کا مطلب ہے کہ تم پر موت آئے تب بھی وعلیکم کہہ کر یہی کہا جائے گا کہ تم پر بھی موت آئے۔

ہر شناسا اور اجنبی کو سلام کرنے کا حکم

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ

(بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام)

ایک آدمی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی۔

اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کو ہر شخص کو سلام کرنا چاہئے چاہے اسے وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ یہ نہیں کہا گیا کہ پہلے اسے پوچھو کہ تم مسلمان ہو یا نہیں اور اگر وہ مسلمان ہو تو اسے سلام کرو ورنہ نہیں۔

قرآن و سنت اور احادیث کے ان حوالہ جات سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بلا تخصیص سب کو سلام کرنا چاہئے بلکہ پہل کرنی چاہئے وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیراحمدی علماء نے خودساختہ اور من گھڑت تشریحات و تعبیرات پر مبنی ایک الگ دین بنا کر اس کا نام اسلام رکھ دیا ہے جس کا قرآن و سنت میں موجود حقیقی اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

(انصر رضا ، واقفِ زندگی۔ نمائندہ الفضل آن لائن کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی